New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 01:05 PM

Urdu Section ( 1 Dec 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sorry State of Affairs in Madrasas of Uttar Pradesh (a state in northern India) اترپردیش کے مدارس اسلامیہ کا برا حال

 

مولانا محمد عبیداللہ خان مصباحی، نیو ایج اسلام

مدارس، مساجد، مکاتب اور خانقاہیں یہ وہ مقامات ہیں جہاں قال اللہ و قال الرسول (عزّوجلّ و صلیّ اللہ علیہ وسلم) کی صدائیں گونجتی ہیں، انہی مقامات سے قرآن و حدیث کی نوری کرنیں پھوٹتی ہیں اور اپنے قریب آنے والوں کو روشن کردیتی ہیں۔غرضیکہ مذکورہ مقامات ہی علم دین سیکھنے اور سکھانے کے اصلی مقامات کہلاتے ہیں۔ ان میں بھی مدارس کے قیام کا مقصد محض علوم دینیہ کو عام کرنا اور تشنگان علوم نبویہ کو سیراب کرنا ہوتا ہے۔ نیز قائم کرنے والوں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے تاکہ اس کے طفیل دنیا و عقبیٰ کی کامیابی پائی جا سکے ۔ جبھی تو مدارس اسلامیہ کی خدمت کرنے والے حضرات نجات اخروی کے پیش نظر ان مدارس کو دنیا کی بری نظر سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ یہ مدارس اگر دنیا کی بری نظر اور اس کے حرص و ہوس کا شکار ہوگئے تو قرآن و حدیث کی تعلیمات عام نہ ہو سکے گی، اچھے علما اور صالحین سے دنیا محروم ہوجائے گی۔ اس لئے انتظامیہ و اراکین آخرت کی فلاح کی خاطر نبی کی تعلیمات کی حفاظت و صیانت کیلئے اپنے خون جگر کا تحفہ پیش کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

قارئین کرام ! مدارس کے قیام کا مذکورہ مقصد اور جذبہ ہی حصول ثواب کا ذریعہ اور نیک نامی کا باعث ہے۔ اس کے بر عکس اگر کسی کا مقصد مدارس کے قیام سے دنیا طلبی ہو تو ایسے شخص کے مقام و مرتبے کے حوالے سے زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ، بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اسے دنیا و عقبیٰ میں لعنت و ملامت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ایسے ہی کچھ حضرات اترپردیش کی سر زمین پر مدارس اسلامیہ کی آڑ میں دنیا طلبی کا خواب اپنے ذہن و دماغ میں سجا کر رشوت خوری کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، مدارس میں علمائے کرام کی سرکاری تقرری کے نام پر لاکھوں اور مجموعی طور پر کروڑوں کی رقم رشوت میں لی اور دی جا رہی ہے۔ لینے والے ادارے کے پڑھے لکھے ٹرسٹیان جن میں بعض علما بھی ہوتے ہیں اور دینے والے علما کرام اور مفتیان عظام ہوتے ہیں۔ جن میں بعض فقہی سیمیناروں کے شرکاء بھی ہوتے ہیں جو اختلافی اور فروعی مسائل پر اپنی فقاہت کے جوہر دکھاتے ہوئے نظرآتے ہیں مگر انہیں رشوت دینے اور لینے جیسے حرام و نا جائز کام نظر نہیں آتے ، کبھی اس موضوع پر قلم اٹھانے اور کچھ بیان کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے ۔ بلکہ جیسے ہی تقرری کی بات چلی، بس رشوت کی رقم جمع کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور متعینہ رقم کا بعض حصہ تقرری سے دو چار سال قبل ہی اجباری طور پر اراکین ادارہ اور مینیجر کی ایماء پر جمع کردیتے ہیں اور بعض حصہ تقرری کے وقت یا بعد میں ادا کرنے کی بات طے قرار پاتی ہے۔ قارئین کرام ! یہاں یہ جانتے چلیں کہ کئی معاملات ایسے بھی سامنے آئے ہیں کہ تقرری کا معاملہ کسی اور سے طے ہوا اور متعینہ رشوت کا بعض حصہ اس سے وصول بھی کر لیا گیا اور وقت تقرری نوکری کسی اور کو ملی ۔ ایسے میں بہوتوں کا گھر اجڑ تے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے۔
ناظرین ! اب ذرا رشوت کی رقم کا مصرف اور مدارس کا استحصال ملاحظہ فرما ئیے !تو اس سلسلے میں مشاھدات ہمیں یہی بتاتے ہیں کہ رشوت کی رقم لینے کے بعد انتظامیہ و اراکین اپنی بلڈنگ کی تعمیر ، اس کی آرائش و زیبائش، اپنے بچے بچیوں کی شادی اور اپنے لئے ذاتی پلاٹ اور زمین وغیرہ کی خریداری میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ انہیں ادرہ کے طلبہ ، اساتذہ اور تعلیمی معیار کا خیال تک نہیں آتا ۔ خود راقم الحروف نے ایسے کتنے مدارس دیکھے ہیں جہاں گرانٹ ملنے سے قبل حفظ و قرات کے ساتھ اعدادیہ سے فضیلت تک محنتی اساتذہ کی نگرانی میں معیاری تعلیم ہوتی تھی اور طلبہ کی کثرت بھی ہو اکرتی تھی ۔ آج انہیں مدارس میں ناظرہ اور پرائمری کی تعلیم بھی صحیح طور پر نہیں ہو پا رہی ہے۔ اساتذہ اپنی صرف کی ہوئی رقم کی وصولی میں مشغول ہیں تو انتظامیہ وصولی کی ہوئی رقم انوسٹ ( Invest) کرنے میں سرگرداں ہیں۔ نیز یہ کہ جن اساتذہ کی تقرری کی جاتی ہے ان میں اکثر ایسے ہوتے ہیں جن کا درس و تدریس سے دور دور تک کوئی علاقہ نہیں ہوتا، صرف ان کے پاس لکھنؤبورڈ کی سند ہوتی ہے اور اراکین کے گلے میں ڈالنے کے لئے پیسوں کا ہار ہوتا ہے ۔ اور یہی چیزیں تقرری کے لئے اراکین کو درکار ہوتی ہیں، بس ان کی تقرری کرلی جاتی ہے۔ ایسے میں مدارس اسلامیہ کا برا حال ہونا لازمی بات ہے، جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ شعبۂ حفظ و قراء ت اور درس نظامیہ کے لئے قابل با صلاحیت اساتذہ ان کے انٹرویو اور سند فراغت کی تحقیق کے بعد حسنِ عمل کا یقین دلانے پر رکھے جاتے تاکے علم کے ساتھ نور علم بھی دیتے۔

اب سوال ان علمائے کرام اور منتظمین حضرات سے ہے جو تقرری سے قبل ہی (جو کہ ابھی مجہول ہے) متعینہ رقم کا بعض حصہ لیتے اور دیتے ہیں۔ تو کیا علما کا ادا کرنا اور منتظمین حضرات کا وصول کرنا عند الشرع جائز ہے؟ اگر ہاں! تو شرعی دلیل کی وضاحت ضروری ہے اور اگر نہیں! تو دیا اور لیا کیوں؟ ساتھ ہی ایسے علما کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز ہے؟ آیا ایسے علما قابل امامت رہے یا نہیں؟ ساتھ ہی ایسے مدارس میں چندہ دینا کیسا ہے؟
مذکورہ بالا سوالات کا ان حضرات کے پاس چند تاویلات کے سوااثبات میں کوئی شرعی جواب نہیں ۔ لہٰذا انہیں عاقبت کا خیال کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان میں غور کرنا چاہئے کہ’’ الراشی والمرتشی کلاھما فی النار‘‘ کہ ’’ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں‘‘ اور اپنے اس فعل شنیع سے توبہ کے ساتھ آئندہ رشوت جیسے حرام فعل میں ملوث نہ ہونے کا عزم محکم کرنا چاہئے۔
یا د رہے شرعی نقطۂ نظر سے مدارس، اسکولز، کالجز یا دنیا کے کسی بھی محکمہ میں ملازمت پانے کے لئے کسی کو کچھ رقم وغیرہ دینا رشوت ہے۔ رشوت بلا شرعی مجبوری کے دینا اور لینا بہر حال حرام ہے۔ امام احمد رضا فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں: ‘‘رشوت لینا مطلقاً حرام ہے۔ کسی حالت میں جائز نہیں۔ جو پرایا حق دبانے کے لئے دیا جائے رشوت ہے۔ یوں ہی جو اپنا کام بنانے کے لئے حاکم کو دیا جائے رشوت ہے۔ لیکن اپنے اوپر سے دفع ظلم کے لئے جو کچھ دیا جائے دینے والے کے حق میں رشوت نہیں۔ یہ دے سکتا ہے۔ لینے والے کے حق میں وہ بھی رشوت ہے۔ اور اسے لینا حرام’’ (فتاویٰ رضویہ جلد نہم ، ص: ۳۰۰؍ مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی) اگر کسی نے فتاویٰ رضویہ کی مذکورہ عبارت کے اس حصے کو اپنے عمل کے جواز کے لئے دلیل بنایا ہو کہ ‘‘دفع ظلم کے لئے جو کچھ دیا جائے دینے والے کے حق میں رشوت نہیں’’ تو یہ بھی ہرگز نہیں ہو سکتا، کیوں کہ دفع ظلم کیلئے دینا اس وقت ثابت ہوگا جب ظلم ثابت ہو جائے اور ہندوستانی گورنمنٹ کی جانب سے ہم پر کوئی ظلم ہے ہی نہیں۔ لہٰذا یہ راستہ بھی مسدود ہوا۔

اب رہی بات یہ کہ کچھ رقم کا مطالبہ کاغذاتی کاروائی کی تکمیل کیلئے حکام اور افسران کی جانب سے ہوتا ہے (جسے وہ خرچ کا نام دیتے ہیں) کہ بغیر لئے ہوئے نہ وہ دستخط کریں گے اورنہ ہی تنخواہ جاری کریں گے۔ پس یہ ان حکام کا ظلم ہوا اب فقہا کی تصریحات کے مطابق دفع ظلم کے لئے صرف خرچ ہی بھر دے سکتے ہیں ۔ مگر لینے والے کے حق میں اب بھی وہ رشوت ہی ہے۔
بڑے افسوس کی بات ہے کہ تقریباً پانچ ، چھ سال قبل ہی سے اعلانیہ طور پر لین دین کا بازار گرم ہے( یہاں یہ واضح ہو کہ اعلانیہ طور پر فعل حرام کا مرتکب فاسق معلن ، ناقابل امامت ہوتا ہے ۔اس کی اقتداء میں پڑھی ہوئی تمام نمازیں مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہیں جیسا کہ در مختار اور دیگر فقہ کی کتابوں سے ظاہر ہے) جس کے برے اور المناک نتائج تعلیمی فقدان کی شکل میں آنے شروع ہو گئے ہیں۔ کتنے ادارے ایسے ہیں جو پندرہ افراد پر مشتمل اسٹاف کے ہوتے ہوئے بھی رات کے وقت ویران نظر آتے ہیں انتظامیہ کا پتہ نہیں، طلبہ ندارد اور اساتذہ اپنے گھروں کی زینت بنے رہتے ہیں۔
لیکن ابھی تک رشوت جیسی لعنت کے خلاف کوئی ایسی تحریک نہیں اٹھی جس سے ان رشوت دینے اور لینے والوں کے دینی احساسات کو بیدار کیا جا سکے کہ ان کی طبیعتوں میں خود بخود اس فعل شنیع سے نفرت و کراہت پیدا ہو جائے ۔ کچھ آوازیں ضرور بلند ہوتی ہیں مگر کچھ نا اہل حضرات کی دنیا طلبی اور قوم مسلم میں دینی حس کی کمی کی بناء پر دب کر رہ جاتی ہیں۔
اس لئے دینی حمیت کے پیش نظر قوم کے بڑے بزرگوں ، دینی رہنماؤں اور بالخصوص ان با اثر علمائے کرام سے جن کی ہر ادا قوم کے لئے قابل تقلید مانی جاتی ہے۔ گذارش کی جاتی ہے کہ مدارس میں رشوت خوری کے بڑھتے ہوئے اثرات کے سد باب کے لئے مؤثر لائحہ عمل تیار کریں، اگر ہو سکے تو قوم سے ان کے سماجی بائیکاٹ کی اپیل کریں، ان کی اقتداء سے مکمل احتراز اور ان کے پیچھے پڑھی ہوئی نمازوں کے اعادہ کا فتویٰ صادر فرمائیں نیز ان رشوت خوروں کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کریں۔ تاکہ مدارس اسلامیہ دنیا کی بری نظر کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔

مولانا محمد عبیداللہ خان مصباحی جامعہ حنفیہ سنیہ، مالیگاؤں، ناسک، مہاراشٹر میں سرگرم عمل ہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/sorry-state-affairs-madrasas-uttar/d/100261

 

Loading..

Loading..