New Age Islam
Wed Mar 29 2023, 03:50 AM

Urdu Section ( 30 Oct 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Quran and Quranic Studies: Names of the Verses of the Quran and Some of Their Rulings قرآن اور علوم القرآن: آیات قرآنی کے نام اور ان کے بعض احکام

 

محمد نعمان فاروقی

28 اکتوبر 2016

قرآن مجید کی سورتوں کے ناموں کو اکثر لوگ جانتےہیں مگر کچھ ایسی آیات بھی ہیں جن کے مفسرین نے نام رکھے ہیں اور وہ تفسیر کرتے ہوئے ان کے باقاعدہ نام لیتےہیں ۔ اور آیات کے نام رکھے بھی جاسکتے ہیں جیسا کہ بعض آیات کے نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سےبھی ثابت ہیں ۔ عربی تفاسیر کے مطالعے کے دوران ان آیات کا نام لیا جاتاہے مگر ان کا علم نہ ہونے کی وجہ سےفہم میں خلا رہ جاتا ہے۔ اسی ضرورت کے تحت وہ آیات پیش کی جاتی ہیں جن کے نام مفسرین کے ہاں متداول ہیں اور ساتھ ہی ان آیات کے سبب نزول، مختصر احکام اور نکات درج کئے جاتےہیں ۔ یہاں ان آیات کی ترتیب وہی ہے جو کلام پاک میں ہے:

ابتدائی طور پر ایسی 13 آیات سامنے آئی ہیں، جو یہ ہیں :

(1) آیۃ الخلع (2) آیۃ الطلاق (3) آیۃ الکرسی (4) آیۃ الربیٰ (5) آیۃ المداینہ (6) آیات المیراث (7) آیۃ الکلالۃ / آیۃ الصیف (8) آیۃ السیف ( 9) آیۃ القتال (10) السبع المثانی (11) آیۃ التطہیر (12) آیۃ التخییر اور (13) آیۃ الحجاب ۔

(1) آیۃ الخلع : سورۂ بقرہ کی آیات نمبر 229 ( ترجمہ) ‘‘ دونوں پر اس بات میں گناہ نہیں ہے کہ عورت (علاحدگی کے) بدلے میں ( حق مہرواپس) دے دے’’ آیت خلع کہلاتی ہے۔

خلع کیا ہے ؟ زوجین میں نباہ نہ ہوسکے اور خاوند عورت کو علاحدہ کرنا چاہے تو یہ عمل طلاق کہلاتاہے اور بیوی علاحدہ ہونا چاہے تو وہ عدالت کے ذریعے اپنا حق استعمال کرکے خاو ند سے علاحدہ ہوسکتی ہے۔ عورت کے اس حق کو شریعت میں ‘خلع’ کا نام دیا جاتا ہے ۔ خلع دراصل عورت کے پاس اپنے ناپسندیدہ یا حق نہ دینے والے خاوند سے علاحدہ ہونے کا ایک شرعی جواز ہے جسے ضرورت پڑنے پر استعمال کرسکتی ہے۔

(2) آیۃ الطّلاق :سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 232 (ترجمہ) ‘‘ اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر وہ عدت مکمل کرلیں تو تم انہیں نہ روکو ’’۔ آیۃ الطلاق کہلاتی ہے۔

اس آیت کے مفسرین کے ہاں آیۃ الطلاق ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 232 جس میں ماؤں کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کا ذکر ہے اس کےمتعلق اکثر مفسرین نے یہ بات لکھی ہے کہ آیت 233 میں وَالْوَالِدَاتُ سے بچوں کی وہ مائیں مراد ہیں جنہیں طلاق مل چکی ہو اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ‘آیۃ الطلاق’ کے بعد اس کا ذکر فرمایا ہے۔

آیت نمبر 232 کو یہ آیۃ الطلاق شاید اس لئے بھی کہا جاتاہے کہ یہ حتمی طلاق پر دلالت کرتی ہے، جب کہ ‘ الطلاق مزتان’ والی آیت (229) میں رجعی طلاق کا تذکرہ ہے۔

بہر حال آیۃ الطلاق کا مدعا یہ ہے کہ اگر ایک یا دو طلاقیں دینے کے بعد عورت کی طلاق عدت گزر جائے تو یہ جوڑا نئے نکاح او رحق مہر کےساتھ دوبارہ جڑ سکتا ہے۔ اور اس آیت میں ‘‘ تو تم انہیں نہ روکو’’۔کے الفاظ مفسرین او رفقہاکے ہاں محل اختلاف بنے ہوئے ہیں کہ یہاں مخاطب کون ہے۔ عورت ، لڑکی کے ورثاء یا خاوند، بعض مفسرین نے دونوں مراد لئے ہیں او رمفہوم یہ مراد لیا ہے کہ عورت سابقہ خاوند سے نکاح جدید کرنا چاہے یا کسی اور مرد سےنکاح کرنا چاہے تو نہ اولیاء روکیں اورنہ ہی سابقہ خاو ند ۔ ( المنتخب للجنۃ جامعۃ الازہر، زیر آیت 232)اور بعض نے خاوند مراد لئے ہیں ۔ اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ جاہلیت میں طلاق دینے اور عدت گزر جانے کے بعد بھی سابقہ خاوند سابقہ بیویوں کو روک رکھتے تھے کہ وہ اپنے پسندیدہ مرد سے نکاح نہ کر پائیں مگر بد یہی طور پر جو مفہوم سمجھ آتا ہے وہ یہی ہے کہ لڑکی کے اولیاء کو روکا جارہاہے کہ وہ سابقہ خاوند سےسمجھوتے پر عورتوں کو نہ روکیں۔

(3) آیۃ الکرسی : قرآن مجید کی اس آیت ( سورۃ البقرۃ : 255) میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے ، اس لئے اس آیت کو ‘آیۃ الکرسی’ کہتے ہیں ۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی کرسی کا تعلق ہے تو اس کی وضاحت حدیث مبارکہ میں ایسے آئی ہے: ‘‘ سات آسمان اللہ کی کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے وسیع و عریض زمین میں ایک رنگ ( انگوٹھی، چھلا) پڑا ہو اور عرش کی فضیلت (بڑھائی) کرسی پر ایسے ہے جیسے وسیع و عریض زمین کو اس رنگ پر ہے ۔’’ ( السلسلۃ الصحیحۃ ازشیخ محمد ناصرالدین البانی :109)

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ‘‘کرسی کے بارے میں اس کے سوا کوئی بھی حدیث صحیح نہیں ہے اورتمام مخلوقات میں سے عرش الہٰی کے بعد سب سے بڑی مخلوق یہی کرسی ہے۔’’

حدیث میں یہ بھی آیا ہے کہ ‘‘کرسی اللہ تعالیٰ کے مبارک قدموں کے رکھنے کی جگہ ہے۔’’ ( السلسلۃ الصحیحۃ ) مگر یہ حدیث مرفوعاً ثابت نہیں ، البتہ سید نا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے یہ حقیقت ثابت ہے لہٰذا یہ حکماً مرفوع ہی کے حکم میں ہے۔

اس کا یہ نام حدیث سے ثابت ہے ۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا :قرآن مجید کی سب سے عظمت والی آیت کون سی ہے؟ ابی رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتےہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سوال کیا تو سید نا اُبی رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے : آیۃ الکرسی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘اللہ کی قسم ! ابو منذر ! تمہیں علم مبارک ہو۔’’ (صحیح مسلم: 1921)

آیۃ الکرسی کی فضیلت میں آپ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا : ‘‘جو فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھتا ہے ، اس کے اور جنت کے درمیان بس موت ہی حائل ہے’’ ( السلسلۃ الصحیحۃ )

آیۃ الکرسی کو حفاظت کے طور پر بھی پڑھنے کی ترغیب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( صحیح بخاری) رات کے علاوہ صبح کے وقت پڑھنے کا بھی حکم ہے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :‘‘ اسےہر صبح اور ہر شام پڑھا کرو۔’’

(4) آیات الربا : سود کی آیات ( سورۃ البقرۃ آیت 275؍تا 281) سورۂ بقرہ مدنی دور کے آغاز میں نازل ہوئی تھی ، اس لئے اس میں یہود کا تفصیلی ذکر ہے اور انہوں نے جو سودی کا روبار او رلین دین روا رکھے تھے، مسلم معاشرے کو اس سےبچانا مقصود تھا ۔ حقیقی مسلم معاشرہ وہی ہوسکتاہے جو سود کی تمام صورتوں اور دیگر محارم سے پاک ہو ۔ سود سے متعلقہ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ سود ظلم ہے ۔ اس کا مرتکب روزِ قیامت بد حواس حالت میں اٹھے گا ۔ سود سےبظاہر مال بڑھتا ہے مگر اس میں برکت نہیں ہوتی ۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ صدقات کو بڑھاتاہے ۔ سود کا جولین دین ہو چکا سو ہو چکا، اس سے توبہ کر کے آئندہ نہ کرنے کا عزم کیا جائے ۔ اور اگر اب بھی کوئی نہ رکے تو پھر، اس میں ملوث شخص اسے، اللہ تعالیٰ او راس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےاعلان جنگ ہی سمجھے ۔

(5) آیۃ المداینہ: سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 282؍ آیۃ المُداینہ کہلاتی ہے ، یعنی آپس میں لین دین کی آیت۔ یہ قرآن مجید کی طویل ترین آیت ہے اور سود کی آیات سےمتصل اس کا ذکر ہے ۔ یعنی مسلم معاشرے کو سود کی جملہ صورتوں سےبچ کر قرض کی صورتوں کو اختیار کرناچاہیے ۔ اور قرض کے لین دین کو لکھ لینا چاہئے اور اس پر گواہ بھی بنانے چاہیئں ۔ جنہیں لکھنا آتا ہے ، وہ انکار نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کی کمی بیشی کریں ۔ چھوٹی یا بڑی رقم کا تبادلہ کرتے ہوئے لکھ لیا جائے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک وعید بیان فرمائی ہے کہ ‘‘جس شخص کا کسی کے ذمے مال ہو مگر وہ اس پر گواہ نہ بنائے ، اس کی دعا قبول نہیں ہوتی ’’۔ (السلسلۃ الصحیحۃ ) ہاں اگرآمنے سامنے لین دین ہورہا ہے جیسے دکانوں پر ایک دوسرے سے وقتی لین دین ہوتاہے تو اس کا اگر نہ بھی لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ہوگا۔

لیکن قرض کے معاملات کو اس لئے لکھنے اور گواہ بنانے کا حکم ہے کہ انسان بھول سکتا ہے اور بھولنے سے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں اور آپس میں دوریاں اور پھر جھگڑے پیدا ہوتےہیں ۔ جب کہ ہمارا دین ہمیں اخوت و محبت کا درس دیتا ہے۔

(6) آیات المیراث: سورۂ نساء کی آیات نمبر 11؍12 آیات میراث کہلاتی ہیں ۔ میراث کا لفظ وراثت سے ہے ۔ یعنی وہ آیات جن میں وراثت سے ہے۔ یعنی وہ آیات جن میں وراثت کے احکام بیان ہوئے ہیں ۔ یہ قرآن مجید کی 2؍ آیات ہیں، یعنی 11؍ اور 12 ؍اور ایک آیۃ الکلالہ ، جو آگے آرہی ہے، ان تین آیات میں احکام وراثت کو سمودیا گیا ہے ۔ احکام وراثت کا خلاصہ یہ ہے : جب کوئی بھی شخص اس دنیا سے رخصت ہوتاہے اس کا چھوڑا ہوا مال و جائیداد و راثت کہلاتی ہے۔ ایک دن کا بچہ ہی کیوں نہ ہو، اس کی بھی وراثت ہوتی ہے۔وراثت ملنے میں بنیادی شرط یہ ہے کہ وراثت کے مستحق لوگ اس وقت زندہ ہوں جب وہ شخص فوت ہو جس کے وہ وراثت بن رہے ہوں ۔ بننے والے وارث اگر پہلے ہی فوت ہوجائیں تو وہ وارث نہیں ہوں گے او رنہ ان کی اولاد ۔ وراثت کا تعلق تین وجوہات کی بنا ہوتاہے : (1) نسب (2) ازدواجی تعلق اور (3) وَلاء۔

نسب اور میاں بیوی کی رشتہ داری تو واضح ہے مگر وَلاَ ء غلامی کی نسبت تھی جو اپنے مالک کی طرف ہوتی تھی، یعنی غلام فوت ہوا ہے تو اس کا مال اس کے مالک کو ملے گا ۔ اسے نسب وَلاَ کہتےہیں ۔

وراثت لینے والے بھی تین قسم کے لوگ ہوتےہیں : (1) اصحابُ الفروض : وراثت کے وہ حق دار جن کے حصے شریعت میں مقرر ہیں جیسے خاوند ، بیوی ۔( 2) عصبہ : وہ وارثان جو اصحاب الفروض سے بچ جانے والا مال یا جائیداد عصبہ ہونے کی حیثیت سےلیتے ہیں جیسے بیٹا ۔ (3) اولوالار حام: پہلی دونوں صورتوں میں سے کوئی نہ ہو تو پھر دیگر رشتہ داروں کی باری آتی ہے اور وہ اولوالار حام کہلاتے ہیں ۔ اسی طرح وراثت تقسیم کرنے کی بھی ایک ترتیب مقرر ہے : (1) سب سے پہلے وراثت میں سےکفن دفن کا انتظام کیا جائے، اس صورت میں جب کسی اور طرف سے یہ انتظام نہ ہوسکے ۔ (2) فوت شدہ کا مکمل قرض اُتارا جائے گا ۔(3) اگر میت نے ایک تہائی یا اس سےکم کی وصیت کی ہو تو اس کی وصیت کے مطابق مال تقسیم ہوگا ۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت قبول نہ ہوگی ۔ (4) اب ا س کی وراثت ورثاء میں تقسیم ہوگی ۔

آیۃ المیراث کا سبب نزول یوں ہے کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرنے لگیں : ‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں ۔ ان کے والد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ اُحد میں شریک تھے اور وہ شہید ہوگئے تھے ۔ ان دونوں کے چچا نے ان کےمال پر قبضہ کرلیاہے اور ان دونوں کے لئے کچھ نہیں چھوڑا او ران دونوں کا نکاح نہیں ہوسکے گا جب تک ان کے پاس مال نہ ہو ۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘ اللہ اس کےبارے میں فیصلہ فرمائے گا ’’۔ تو پھر آیۃ المیراث نازل ہوئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے بھائی کو بلوایا اور ان سے کہا : ‘‘سعد رضی اللہ عنہ کےبیٹیوں کو دو تہائی اور ان کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو او رباقی تم لے لو ’’۔ گویا آیۃ المیراث 3؍ ہجری میں غزوہ احد کے بعد نازل ہوئی ۔

(7) آیۃ اکلالہ ؍ آیۃ الصیف : سورۂ نسا ء کی آخری آیت ( نمبر 176) یعنی آیۃ الکلالہ کو آیۃ الصیف بھی کہتے ہیں ۔ ‘الصیف ’ گرمیوں کےموسم کو کہتے ہیں ۔ یہ آیت گرمیوں کے موسم میں اتری تھی ، اس وجہ سے اس کا نام ہی آیۃ الصیف پر گیا ۔ سید نا براء رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ سب سے آخر میں نازل ہونے والی آیت یہی ہے ۔ ( صحیح بخاری :4654)

‘ کلالہ’ کی تفسیر میں ائمہ و علماء کے مختلف اقوال ہیں ۔ اکثر ائمہ نے یہی بتایا ہے کہ ایسا فوت شدہ شخص جس کی نہ اولاد ہو او رنہ والد، وہ کلالہ کہلائے گا۔ اس آیت کا نام ‘ آیۃ الصیف ’ زبان نبوت سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کسی اور مسئلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےاتنے سوال نہیں کئے جتنے میں نےکلالہ کے بارے میں کئے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی مبارک میرے سینے پر رکھتے ہوئے فرمایا :

‘‘تمہیں آیۃ الصیف ہی کافی ہے جو سورۂ نسا کےآخر میں ہے ’’۔ (مسند احمد بن حنبل)

آیۃ الصیف کے نزول کے بارے میں بھی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ ‘‘ میں بیماری او ربے ہوشی کے عالم میں تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے ، آپ نے وضو کیا او رمجھ پر پانی بہایا تو مجھے ہوش آیا ۔ میں نے عرض کی کہ میں حالت کلالہ میں ہوں تو میری وراثت کیسے تقسیم ہوگی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے آیۃ الفرائض ( آیۃ الصیف) اُتار دی ’’۔ (مسند احمد)

اس حدیث میں اگرچہ نام ‘‘آیۃ الفرائض ’ کا لیا گیا ہے مگر مسئلے کا سیاق یعنی کلالہ کی حالت بتارہی ہے کہ اس سے مراد یہی آیت کلالہ ہے۔ جیسا کہ امام ابن کثیر رضی اللہ عنہ نے کہا ہے : ‘‘ظاہر بات یہی ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سورۂ نسا ء کی آخری آیت کے سبب نزول کے بارے میں ہے ۔’’ ( تفسیر ابن کثیر ، زیر آیت سورۃ النسا ء) (جاری)

28 اکتوبر، 2016  بشکریہ انقلاب، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/quran-quranic-studies-names-verses/d/108961

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..