محمد ندیم
یہ کوئی پہلی مسجد نہیں ، پہلا اسلامک سینٹر نہیں کہ جہا ں فساد برپا ہو، پاکستان اور انڈیا سے باہر موجود تمام اسلامک سینٹر (Power Hungry) لوگوں کی زد میں ہیں اور کیوں نہ ہوں، عبادت گاہیں ایک بہت بڑی انڈسٹری بن چکی ہیں ، ایسا شخص جسے کوئی 8 ڈالر گھنٹہ پر بھی ملازم نہ رکھے ، بورڈ آف ڈائریکٹر میں بیٹھ کر لاکھوں ڈالر کی تقسیم بہ جنبش قلم کرسکتا ہے ۔ مسجد کی تعمیر کے لیے دیا گیا چندہ چاہے تو مسجد کی تعمیر میں لگادے یا اگر کسی اپنے کو نواز نا ہوتو کسی گورنمنٹ فنڈ ڈ ہسپتال کو لاکھوں ڈالر دے دے۔
کیا یہ امانت میں خیانت نہیں کہلائے گی، جس مد میں پیسہ لیا جائے، اصولی طور پر اسی پر خرچ کیا جانا چاہئے ۔ مگر اللہ ہدایت دے۔دین کے ان ٹھیکیداروں کو کہ جو مسجد کے چندے سے اپنے سوشل نیٹ ورک کو مضبوط کرتے ہیں اور کمیونٹی کے اخبارات ہوں یا حکام اعلیٰ ، انہیں نواز نے کے بدلے اپنے لیے حمایت حاصل کرتے ہیں ۔ خود کو اس قدر مضبوط کرلیتے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنا مشکل بلکہ نا ممکن ہوجائے ۔ شہر کے مہنگے وکیل کا پورا پینل ساتھ رکھتے ہیں کہ قانون کی زد میں آنے سے بچا جا سکے اور یہ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کمیونٹی کا استعمال کرتے ہیں۔ نہ جانے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ دنیاوی طاقتیں مٹی کی مانند ہیں ۔ جب روحانیت کا پرچم بلند ہوتا ہے تو بڑے بڑے سورما ڈھیر ہوجاتے ہیں ، کئی لیڈران کر سی پر ہاتھ مار کر اس کی مضبوطی کو دکھاتے رہے لیکن آج ذلت و رسوائی سے منوں مٹی تلے دفن ہوچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تکبر کو پسند نہیں کرتا۔ وہ طاقت دے کر بھی آزماتا ہے اور طاقت لے کر بھی ۔ لیکن ہم دولت کےنشہ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم کہاں صحیح ہیں اور کہاں غلط اور ایک روز قدرت کی پکڑ کاشکار ہوجاتے ہیں یہ تمام اسلامک سنٹرز کا حال ہے کہ جہاں مسلمان دوزخ کے خوف سے خوب پیشہ ڈبو ں میں ڈالتے ہیں اور یہ مُلا اور یہ بورڈ کے ارکان مسلمانوں کو ڈرا ڈرا کر اُن سے رقم بٹورتے رہتے ہیں ۔
اسلامک اسکولوں میں غریب کابچہ پڑھنے کاصرف خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔زکوٰۃ خیرات کا کوئی حساب نہیں ۔ چند ے کا کیش لے کر اپنے چیک تک دے دیئے جاتے ہیں تاکہ مسجد میں دیئے گئے ڈونیشن چندہ کاٹیکس بریک لیا جاسکے۔ نہ جانے یہ سورما یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ وہ لوگوں کی آنکھوں میں جس قدر چاہیں دھول جھونک دیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ اُن کے ہر عمل سے واقف ہے اور ایسے لوگ کسی موذی مرض میں مبتلا ہوکر ہی مرتے ہیں ۔یا اُن کےبچے کسی حادثہ کاشکا ہو جاتے ہیں لیکن کی عقلوں پر پردہ پڑا رہتا ہے ۔ امریکہ کے ایک شہر کے اسلامک سینٹر میں بھی چندہ کی بڑے پیمانے پر خرد برد کی گئی اور جس مسجد کاچندہ تھا اسے تعمیر کرنے کے بجائے ایک دوسرے شہر میں ایک چرچ خرید لیا گیا اور ا س پر بڑا بڑاتحریر کردیا گیا ‘‘ Cross to Cresent’’ معروف ترین شاہراہ کے کنارے واقعہ اس چرچ کے سامنے سے جو کرسچن گزرا ۔ اس نے مسلمانو ں کو گالیاں دیں اور یہ معاملہ اس قدر بڑھا کہ اس شہر میں چرچ کی فروخت پر پابندی لگادی گئی ۔
لیکن ان مُلاؤں کا آج وجود تک نہیں، یہ ہیں ہم مسلمان اور یہ ہیں ہمارے عمل۔ ہمارے نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے سارے فیصلہ مسجد میں بیٹھ کر گئے، یہود یوں اور عیسائیوں نے بھی محبت کی ۔ مسلمانوں کو متحد کیا ۔ اپنے ہاتھوں سے مسجد نبوی کی تعمیر کی ۔ اور اس بات کی پیشن گوئی کی کہ میری اُمت مال کمانے کے چکر میں بھٹک جائے گی اور وہی پیشن گوئی ہمارے سامنے ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کیسے غلط ہوسکتی ہے۔ آج یہ نام نہاد مسلمان ، مسلمانوں کے خون پسینہ کی کمائی سے دیئے گئے چندے کو کس قدر بے دردی سے اُڑارہے ہیں ۔ ہر غیر اخلاقی عمل میں ملوث یہ فرعون ذرا ذرا اسی بات پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر پولیس بلوا لیتے ہیں ۔ انہیں ڈرا دھمکا کر رکھتے ہیں ۔ کوئی نمازی ان سے کوئی سخت سوال کر بیٹھے تو یہ مسجد میں اس کا داخلہ بند کر وا دیتے ہیں اور وہ نمازیں پڑھنے سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ اکثراسلامک سینٹرز میں غریبوں کی میتیں کئی کئی روز دفن نہیں ہوتیں کہ ان کے پاس تدفین کے اخراجات نہیں ہوتے اور ایسے موقعوں پر رقم کی فراہمی کو اس قدر مشکل بنا دیا جاتا ہے کہ انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، یہ تمام ہوشیاراور چالاک لوگ کاغذوں کا پیٹ پورا بھرتے ہیں کیونکہ انہیں قانون سے مکمل آگاہی ہوتی ہے ۔ حکومت کے آڈیٹرز سے تعلقات ہوتے ہیں اور یوں یہ اپنے عمل کو صاف و شفاف رکھتے ہیں اور ان کی پکڑ کرنامشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہوتا ہے ۔
مسجدوں کو گروپنگ نے عبادتوں کالطف تک ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ماہ رمضان میں بھی تراویح کی نماز کے دوران ہونے والے وقفہ میں چیخ چیخ کر چندہ مانگتے رہتے ہیں اورچندہ کم ہوجانے کے خوف میں ہمیشہ مبتلا رہتے ہیں۔ کیونکہ یہی مسجد کا چندہ ان کے پیٹ کا جہنم بھرتاہے، ان کی اولادیں بھی مسجد کے چندے پر پل کر جوان ہوتی ہیں،اے کاش کہ مسجد میں بیٹھے یہ دولت کےمتوالے اپنے لیے زکوٰۃ اور خیرات جائز قرار دے دیتے تو بھی عذاب خداوندی سے شاید بچ جاتے لیکن جس طرح یہ منافقت کے ذریعہ خود کو پاک دامن ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔انشاء اللہ ان کاانجام بہت قریب ہے اور یہ انجام ہم اور آپ سب مل کر بہت جلد دیکھیں گے کیونکہ اللہ کے پاس دیر ہے اندھیر نہیں اور جب ظلم اپنے انتہا کو پہنچ جائے اور فرعونیت اپنی حدوں سے تجاوز کر جائےتو پھر اللہ کا فیصلہ سامنے آتا ہے اور پھر نہ ہی دولت کے انبار، اور نہ ہی وکیلوں کی ٹیم مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے اور ہم نے ایک اللہ، ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک قرآن کو ماننے کے باوجود متحد ہوکر رہنا بھلا دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات سے انحراف کیا ہے تو سزا بھی یقینی ہے ۔
متحد ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن
منتشر ہو تو مرد، شور مچاتے کیوں ہو
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pharaohs-islamic-centers-/d/14327