New Age Islam
Sat Mar 22 2025, 01:34 AM

Urdu Section ( 21 May 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Commandments of Sharia and International Law on Jihad and Killings جہاد و قتال کے شرعی احکام اور بین الاقوامی قانون

 

محمد مشتاق احمد

( محمد مشتاق احمد کی تصنیف ‘‘ جہاد ، مزاحمت اور بغاوت : اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ’’ کے پیش لفظ کےطور پر لکھا گیا )

نحمدہ تبارک و تعالیٰ و نصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم و علیٰ آلہ و اصحابہ و اتباعہ اجمعین ۔

جہاد آج کے دور میں نہ صرف  مغرب او رمسلمانوں کے درمیان بلکہ گلو بلائزیشن کی طرف تیزی سےبڑھتے ہوئے عالمی ماحول کے حوالے سے بھی غالباً سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع ہے جس پر مختلف حلقوں میں مختلف سطحوں پر بحث و مباحثہ کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بحث اگرچہ نئی نہیں ہے اور صدیوں سے اس کے متنوع پہلو وں پر مثبت اور منفی طور پر گفتگو ہو رہی ہے ، لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سے اقوام عالم نے مل کر اقوام متحدہ کے نام سے ایک بین الاقوامی فورم تشکیل دیا ہے اور سوسائٹی کے متعدد دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ جنگ و قتال کے معاملات کوبھی ایک بین الاقوامی نظام کے دائرے میں لانےکی طرف پیش رفت کی ہے، تب سے دنیا میں اسلام کے غلبہ اسلامی  ممالک میں شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین کے نفاذ ، غیر مسلم ممالک و اقوام کے ساتھ  مسلمانوں کے تعلقات اور جہاد اسلامی کے اہداف اور حدود کار کے بارے میں بحث و مباحثہ نے بھی شدت اختیار کرلی ہے اور اس کے دائرے میں مزدی تنوع اور وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے ۔

ایک طرف ایک منظّم عالمی نظام ہے جسے دنیا کے اکثر ممالک کی حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے اور اس بین الاقوامی چھتری کےنیچے بین الاقوامی قوانین، عالمی معاہدات اور معاملات کا ایک مربوط سسٹم موجود و متحرک ہے جسے مسلم دنیا کی کم و بیش سب حکومتیں تسلیم کرتی ہیں، جب کہ دوسری طرف عالم اسلام کے وہ دینی ، فکری اور علمی حلقےہیں جو دنیا پر اسلام کے غلبہ اور مسلم معاشرہ میں اسلامی شریعت کے نفاذ و ترویج کے لیے کوشاں ہیں اور پورے خلوص کے ساتھ اس کے لیے ہر نوع کی قربانی پیش کرتے چلے جارہے ہیں ۔ انہیں  اس سے کوئی غرض نہیں کہ آج کی عالمی صورت حال کیا ہے؟زمینی حقائق کا منظر کیا ہے؟ ان کی جنگ کس کس سے ہے؟ اور اس بین الاقوامی نیٹ ورک کو چیلنج کرتےہوئے کسی حد تک اس کے دائرے میں رہتے  ہوئے ان کے پاس اپنے اہداف و مقاصد حاصل کرنے کے عملی امکانات کیا ہیں ؟ ان سب سوالات سے بے نیاز ہوکر وہ اپنی ایمانی قوت اور میسر وسائل کے سہارے اسلام کی بالادستی اور نظام شریعت کے نفاذ کے لیے مسلسل سر گرم عمل ہیں ۔

آج کے زمینی حقائق اور معروضی سوالات میں ایک بہت بڑا بلکہ شاید سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ دنیا میں کسی بھی جگہ جہاد کی بات ہو یا نفاذ شریعت کا تقاضا ہو، مسلمانوں کے خلاف سب سے اہم حوالہ بین الاقوامی قوانین ، انسانی حقوق اور گلوبلائزیشن کے تقاضوں کا پیش کیا جاتا ہے اور ان کے خلاف سب سے بڑی چارج شیٹ یہی ہے کہ وہ ان تینوں کی خلاف ورزی کررہے ہیں، بین الاقوامی نظام و معاہدات میں شریک ہونے کے باوجود علمی طور پر ان کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اس سے انحراف کے راستے تلاش کرتے رہتے ہیں ۔

ان حالات میں اس بات کی ایک عرصہ سے شدت کے ساتھ ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مروجہ بین الاقوامی نظام و قوانین  کا تفصیل کے ساتھ  مطالعہ کیا جائے، اسلامی احکام و قوانین کے ساتھ ان کا تقابلی جائزہ لیا جائے ، جہاں جہاں  دونوں کا اتفاق ہے،ان جگہوں کی نشان دہی کی جائے ، جن امور پر ٹکراؤاور تضاد ہے، ان کابھی تعین کیا جائے، پھر ٹھنڈے دل و دماغ کےساتھ شرعی اصولوں کی روشنی  میں انہیں  قبول یا رد کرنے اور ان سے نمٹنے کی حکمت عملی تجویز کی جائے اور یہ بحث جذباتیت  یا عمل اور رد عمل کی نفسیات سے ہٹ کر خالصتاً علمی اور فقہی  بنیادوں پر ہو ۔

میں خود اس مضمون کا قدیمی طالب علم ہوں، اس کے کسی بھی پہلو یا  جو چیز مجھے اردو یا عربی میں میسر آتی ہے، اس کامطالعہ کرتا ہوں ، جہاں موقع ملے تحریر ی یا تقریری طور پر اس پر اظہار خیال بھی کرتا ہوں اور اب تک سینکڑوں مضامین اس حوالے سے سپرد قلم کرچکا ہوں، لیکن میری کچھ  کمزوریاں  ہیں جو ہر وقت میرے سامنے رہتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ میں انگریزی سے نا بلد ہوں جو بین الاقوامی قوانین کے اصل مآخذ تک رسائی کے لیے ضروری ہے، میرا ذہن صرف اصولوں کے استنباط و تعین او رکسی حد تک ان کی تطبیق کے دائروں تک محدود رہتا ہے جب کہ جزئیات و تفصیلات تک رسائی اس کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی ہے، اور مطالعہ کا وہ تسلسل ،تنوع اور وسعت مصروفیت اور مزاج دونوں حوالوں سے میرے بس کی بات نہیں جو اس کام کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ اس لیے ایک مدت سے یہ خواہش رہی ہے اور اس کے لیے دعا گو رہا رہوں کہ کوئی ایسا صاحب علم سامنے آئے جو اسلامی شریعت اور مروجہ بین الاقوامی و قوانین پریکساں دسترس رکھتا ہو، مغز کھپائی کرنےوالا ہو، مطالعہ و تحقیق کے ذوق سے پوری طرح بہرہ ور ہو اور محنت و مشقت کے تقاضے بھی پورے کرسکے ۔

محترم پروفیسر مشتاق احمد صاحب کے مضامین جب سے ‘‘الشریعہ’’ میں شائع ہونا شروع ہوئے ہیں، میری نظریں ان پر لگی ہوئی ہیں اور میں اس موقع کی تلاش میں تھا کہ ان سے اس مقصد کے لیے گزارش کرسکوں کہ میرے وجدان کےمطابق شاید قدرت نے اس کام کے لیے ان کا انتخاب کرلیا ہے، اس لیے وہ تنہا یا دوستوں کی ٹیم صورت میں اس کام کابیڑااٹھائیں اور امت مسلمہ  کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کےساتھ ساتھ ہم فقیروں کادل بھی خوش کردیں ۔

‘ الشریعہ ’ میں شائع ہونے والے ان کے مضامین تو نظر سے گزرتے رہے ہیں ، لیکن گزشتہ روز عزیز م حافظ  محمد عمار خان ناصر سلمہ نے محترم  پروفیسر مشتاق  احمد کی زیر نظر کتاب کے مسودہ کے بارے میں بتایا اور میں نے اس کے مقدمہ کے ساتھ ساتھ مضامین کی فہرست پر ایک نظر ڈالی تو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً عرض کررہا ہوں کہ دل خوشی  سے باغ باغ ہوگیا اور زبان ‘ذلک ما کنا نبغ’ کا ورد کرنے لگی ۔

میں بحمد اللہ تعالیٰ غلبہ اسلام اور نفاذ شریعت کے شعوری کارکنوں میں سے ہوں مگر دیکھ رہا ہوں کہ اس مقدس مشن کے کارکنوں کی جد وجہد اور تگ و تاز کے دوران موجودہ بین الاقوامی  نظام و قوانین کے بنائے ہوئے بریکروں سے قدم قدم پر واسطہ  پڑتا ہے بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پہلے سے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اچانک بریکر سامنے آنے پر گاڑی اس زور سے اچھلتی ہے کہ انجن کے ساتھ ساتھ سواریوں کا انجر پنجر بھی ہل کر رہ جاتا ہے ۔ محترم پروفیسر مشتاق احمد صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میری ایک دیرینہ خواہش اور امت مسلمہ کی ایک انتہائی  اہم ضرورت کی تکمیل کی طرف قدم بڑھایا ہے اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں اس کاوش پر جزائے خیر سے نوازتے ہوئے اسے دینی جد وجہد کے راہ نماؤں او رکارکنوں کے لیے راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں اور قبولیت و ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں ۔ آمین یارب العالمین ۔

بشکریہ : الشّریعہ

URL: https://newageislam.com/urdu-section/commandments-sharia-international-law-jihad/d/103072

 

Loading..

Loading..