New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 02:45 PM

Urdu Section ( 30 Oct 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Religious Conflict, Attack on Muslims and Democracy مذہبی تصادم، مسلمانوں پر حملہ ، جمہوریت کا خون

محمد عمران

31 اکتوبر، 2012

اپنے دامن میں صدیوں سے سیکولر روایتوں کے ستارے ٹانک کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا خوب صورت اور جاذب لباس زیب تن کرنے والا ہندوستان ، اب اسی لباس کے بوسیدہ ہونے کا رونا رونے پر مجبور ہورہا ہے ۔ سوال یہ نہیں کہ یہ لباس بوسیدگی کی عمر کو پہنچ گیا ہے، بلکہ یہ تو ایسی خوب صورتی کا جامہ ہے جس کے حسن میں وقت کے ساتھ اضافہ ہی ہوتا ہے ۔ سابقہ روایتیں اس کی کامل عکاسی کرتی ہیں۔صوفیوں اور سنتوں کے اس ملک میں تفریق کی کسی گنجائش کو کبھی جگہ نہیں ملی ۔ اکبر اور اشوک کی حکومتیں اس کی نشاندہی کرتی ہیں۔ تاریخ کی کتابوں کے علاوہ عام لوگوں کی زبانیں بھی ان حقائق کو بیان کرتی ہیں۔ کسی مذہب کے ذریعے کسی مذہب کو برا کہنے کی روایت نہیں ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب اپنیشد میں بھی ہر دھرم کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ہندوستان نے آزادی کے بعد بھی آئین کے ذریعے ان روایتوں کو آگے بڑھایا ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک سیکولر ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔ کثیر مذاہب کے ماننے والے اپنی اپنی عبادتوں کے لئے اپنے اپنے طریقے اپناتے ہیں اور ملک کی ترقی کے لئے قومی یکجہتی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ، ہندوستان اسی خصوصیت کی وجہ سے اپنا بلند مقام رکھتا ہے۔ لیکن یہ بھی بہت بڑا سچ ہے کہ اب اس یکجہتی کو منصوبہ بند سازشوں کے تحت پارہ پارہ کرنے کی کوششیں کی جانے لگی ہیں۔مذہب کے نام پر تصادم کو انجام دینے والے شر پسند عناصر کو مختلف ذرائع سےتقویت ملنے لگی ہے ۔ اور ان فرقہ پرستوں نے براہ راست ملک کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ اس طرح فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا لبادہ فرقہ پرستی کا داغ لگنے کی وجہ سے بوسید گی کی حد کو پار کرنے لگا ہے۔ ملک کے یہ حالات واقعی ہر درد مند کے لئے تشویشناک ہیں۔

موجودہ حالات میں بھی ‘مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا’ ہر دل کی آواز ہے۔ لیکن چونکہ دشمنی اور بغض و عداوت کی سیاست کرنے والے شر پسندوں کی آنکھیں کبھی حق و انصاف کو دیکھنے کا مزاج نہیں رکھتیں اور ان کے بے رحم دل اس کو کبھی قبول بھی نہیں کرتے اسی لئے ایسے لوگ بار بار مذہبی جنون کے نام پر تصادم کی فضا تیار کرتے ہیں اور سیکولر روایت کی دھجیاں اڑاتے ہیں ۔ وطن پرستی کا جھوٹا  دم بھرنے والے ملک دشمن اور اپنے مذہب سے بھی بیزار یہ لوگ معصوم لوگوں  کو جانی و مالی نقصان پہنچاتے ہیں اور انہی کے گلے میں ملک دشمنی کا طوق ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ آزادی کے بعد جو چالیس ہزار سے بھی زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر کا ظہور ملک کی سب سے بڑی اکثریت یعنی ہندوؤں اور وطن عزیز کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے تصادم کی شکل میں ہوا ہے۔اور ہر بارمسلمانوں کے وجود کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے ۔ جو سراسر ظلم اور نا انصافی کا مظہر ہے۔ اکثر و بیشتر بلا تفریق مذہب و ملت بڑے بڑے اسکالرس اس کی نشاندہی کرتے رہتے ہیں اور حکومتوں کو بھی متنبہ کرتے رہتے ہیں کہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جانا ملک کےمفاد کے عین منافی ہے۔ اس لئے اس ضمن میں خاص پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن ان کے یہ اشارے عملی سانچے میں ڈھلنے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ اس کی وجہ لاعلمی یا شعور کی کمی نہیں ہے۔ کیونکہ اب یہ بات جگ ظاہر ہوچکی ہے اور چھوٹے یا بڑے ہر سطح کے ادارے ا س حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلمانوں کے حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان کے ساتھ دو دو ہاتھ کئے جائیں بلکہ ان کے لئے تو بہتر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کی ترقی کے امکانات بھی روشن ہوسکیں۔ لیکن اس کے باوجود بھی ان کے ساتھ ناروا سلوک کئے جاتے ہیں ۔ جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی منظّم سازش کی جارہی  ہے ۔

اتر پردیش میں پچھلے دنوں جو فسادات ہوئے ہیں ان میں بھی اسی طرح کے اشارے ملے ہیں ۔ بے قصور مسلمانوں کے پنڈال کو آگ کی نذر کر دینا اور اس کا الزام مسلمانوں کے ہی سر پر رکھ کر افواہوں کا بازار گرم کرنا اور پر سکون ماحول میں شر پسندی کا زہر گھول کر اشتعال انگیزی کو فروغ دینا اور پھر مسلمانوں کے گھروں او ردکانوں کو خاکستر کرنا او رتہوار کے موقع پر بھی خوف زدہ رہنے پر مجبور رکھنا وغیرہ جیسے واقعات اتفاقیہ نہیں ہوسکتے ۔ تھوڑا بھی غور کریں تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ سب وارداتیں کچھ کہتی نہیں ہیں؟ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ان کے منہ میں بھی زبان ہے تو ان کےکہے کو سنے گا کون ؟کوئی ایسا سننے والا چاہئے جو انہیں ان کا حق دلا سکے۔ اس سلسلے میں اس امید کے ساتھ حکومتوں پر نظر جاتی ہے کہ وہ خاطر خواہ قدم اٹھائیں گی۔ لیکن اس تعلق سے ان کا بھی روایتی اعلان ہوتا ہے کہ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا او رمتاثرین کو معقول معاوضہ دیا جائے گا۔ لیکن مجرموں کے نام پر متاثر ین کی گرفتاری کیوں عمل میں آتی ہے؟ کیا اس بابت حکومت کے پاس سوچنے کا کچھ موقع ہوتا ہے؟معاوضہ کے نام پر اعلان شدہ رقم کا م کتنا حصہ ان تک پہنچ پاتا ہے ؟اس کی جانکاری عوام کو تو .ہوتی ہے، حکومتیں بھی اس سے بے خبر نہیں ہوتیں ۔ تو کیا اس کے لئے مناسب اقدام کی ضرورت نہیں  ہے کہ  انہیں معقول رقم بر وقت مل سکے؟ بر وقت کا لفظ استعمال کرنے کی ضرورت یوں پیش آئی کہ اس حقیر رقم کو بھی حاصل کرنے کے لئے متاثرین کوکافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے ۔ تب کہیں جاکر ان کا حصول ممکن ہوپاتا ہے ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ ان کے لئے یہ معاوضہ ان کے بیش بہا نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ کیا کسی کی جان کا معاوضہ چند سکے ہوسکتے ہیں؟ معیشت کی تباہی کی بھر پائی معاوضے کی اس رقم سے ہوسکتی ہے کیا ؟ کیا خوف و ہراس کا بھی کوئی معاوضہ متعین کیا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب نفی میں دینے سے بھی قبل اس حقیقت سے روشناس ہونے کی ضرورت ہے کہ ملک میں ایسے حالات ہی کیوں پیدا ہوں کہ حکومتوں کو اس پہلو سے سوچنے کی  ضرورت پیش آئے ۔ اگر بر وقت حقیقت پسندانہ فیصلے لئے جائیں تو فرقہ واریت کا گھناؤنا فعل کبھی بھی انجام کو نہیں پہنچ سکتا ۔یہ انکشاف ہوچکا ہے کہ انتظامیہ کی لاپرواہی ہی ایسے افعال کی وجہ بنتی ہے ۔ کوسی کلاں میں بھی اکثریتی فرقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ شر پسندعناصر اقلیتوں کو زد وکوب کرتے رہے اور انتظامیہ تا دیر تماشائی بنی رہی ۔ ایستھان میں بھی مسلمانوں کو  بے وجہ کھلے مہار نشانہ بنایا گیا ۔ بریلی کا واقعہ بھی دل دہلانے والا ثابت ہوا ۔ عین نماز کے وقت فسادات کی فضا ہموار کرنا اور انتظامیہ کے پاس اس پر قابو پانے کا موقع ہونے کے باوجود قابو نہ کرنا اور مسلمانوں پر ہورہے مظالم کو دیکھتے رہنا کس متعصّبانہ ذہنیت کی عکاسی ہیں، اس کی وضاحت کی ضرورت تو بہت ہے لیکن یہ وضاحت بھی بالآخر اپنی ذات کو ہی تکلیف پہنچا کر خاموش ہوجائے گی۔ گجرات کے مسلم کش فسادات پر کیاکچھ نہیں کہا جا چکا ہے ؟ لیکن انجام کے اعتبار سے اس کا خاطر خواہ فائدہ ابھی تک کتنا ہوسکا ہے ۔ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں ہے ۔

فرقہ وارانہ فسادات کا ذمہ دار فرقہ پرست سیاسی جماعت اور اس کی حکومتیں ہیں اس میں کوئی تر دو نہیں ، لیکن سیکولر اور مسلمانوں کی ہمدرد کہی جانے والی سیاسی جماعتیں اور ان کی حکومتیں بھی اس ضمن میں کچھ کم ثابت نہیں ہوئی ہیں۔ اتر پردیش میں سماج وادی پارٹی کی حکومت ہے، اور وہ حکو مت میں آئی  ہے  مسلمانوں کے ووٹ کی طاقت کی وجہ سے حکومت میں آنے کے بعد اس نے مسلمانوں کی ترقی کے وعدے بھی کئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا تحفظ جو ترقی کے کاموں سے زیادہ اہم ہے، اس سلسلے میں اس کی طرف سے کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوپائی ہے۔ جس کی وجہ سے یکے بعد دیگر ے قلیل مدت کی حکومت میں کثیر تعداد میں مذہبی تصادم کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور مسلمان ا س کا شکار ہوتے رہے ہیں ۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ کانگریس پارٹی کی امیج بھی سیکولر جماعت کی رہی ہے ، لیکن اس کی حکومتیں بھی فسادات کے بعد اور کبھی بہت ہی بعد میں حرکت میں آتی ہیں۔ جہاں کہیں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں ہر جگہ انتظامیہ کی لا پروائی ہی اس کے لئے مورد الزام قرار پاتی ہے ۔ اس ضمن میں یہ امر قابل غور ہے کہ مسلمانوں کے تئیں فسادات کے تعلق سے کی جانے والی کار کردگی میں جو یکسانیت پائی جاتی ہے وہ کسی خاص سازش کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ جس کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے۔

مذکورہ بالا ماحول میں پیدا کردہ حالات مسلمانوں کو ہمہ وقت کشمکش ، شش و پنج اور تذ بذب جیسی کیفیتوں سے گذرنے کو مجبور کرتے ہیں۔اپنا نصب العین مرتب کرنا ان کے لئے سہل نہیں ہو پاتا ، کیونکہ اس کے لئے سکون اور یکسوئی کی  ضرورت پڑتی ہے اور مسلمان اپنی جمہوری ذمہ داریوں کی کامل ادائیگی کے باوجود بھی کافی  حد تک اس حق سے محروم رہتے ہیں ۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ سیکولر ملک میں مذہبی تصادم کا وقوع اور ایک خاص مذہب اور اس کے ماننے والوں پر ایک طرفہ حملہ ملک کی قدیمی روایت کے بر خلاف اور آئینی غیرت کو للکار نے والا ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت ایک مثالی جمہوریت ہے ، جو مساوی مواقع فراہم کرتی  ہے۔اس لئے یہ بات پورے یقین و اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ جب کبھی بھی تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں پر حملہ ہوتا ہے خون تو یقیناً ہندوستان کی جمہوریت کا ہی بہتا ہے ۔ جو لوگ ایسے برے افعال کو اپنا مقصد بناتے ہیں وہ در اصل محسوس یا غیر محسوس طور پر وطن سے غداری کرتے ہیں ۔اس پس منظر میں مورتی چوری کرنے والے اور دنگا بھڑکانے والے عناصر کے خلاف عبرت ناک کارروائی کی سخت ضرورت ہے۔ انتظامیہ اور حکومتوں کو اس جانب خصوصیت سے توجہ دینا چاہئے ۔

31 اکتوبر، 2012   بشکریہ : جدید میل ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/religious-conflict,-attack-muslims-democracy/d/9149

Loading..

Loading..