محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
2 اپریل، 2013
مولائے رحیم نے تمام نبی نوحِ انسان کو لباس پہننے کا حکم فرمایا اور لباس پہننے کیلئے کچھ بنیادی اصول بتائے لہٰذا لباس کے تعلق سے ان اُصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے پارہ 8 رکوع 9 شروع سورہ اعراف 1 آیت نمبر 26 میں ہے یبنی آدم الخ ترجمہ اے آدم کی اولاد بے شک ہم نے تمہاری طرف لباس اُتار ا تاکہ تم سب شرم گاہوں کو چھپاؤاور لباس سے آرائش زیب زینت حامل کرو اور پر ہیز گاروں کا لباس بہتر ہے تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ انسانی شعور نےہوش میں آتے ہی سب سے پہلے شرم و حیا کے فطری تقاضے کی تکمیل اور عرُیانی (ننگے پنی) کے احساس سے پریشان ہوکر جنگلیوں نےپتّوں سےاپنے شرمگاہوں کو چھپایا اور آج ترقی یافتہ کہے جانے والے دور میں بھی ستر پوشی کی ضرورت پوری کرنے والی مختلف چیزوں کو شعور انسانی نے ‘‘لبا س’’ کا نام دیا یہی لباس انسانی زندگی کی اہم ضرورت کیونکہ لباس کی بنیادی غرضی جسم کی پردہ پوشی زیب و زینت کے ساتھ ساتھ موسمی آثرات (سردی گرمی) وغیرہ سے محفوظ رکھنا اور انسانی کھال و جسم کو ماحول کے تاب وکاری کے اثرات و بیماری کے جراثیم کو دور رکھنا بھی ہے۔
امام فخر الدین راضی رحمۃ اللہ علیہ عمدہ لباس کے علاوہ زیب و زینت کی تمام اشیاء کو اس آیت میں داخل فرمایا ہے خواہ انکا تعلق لباس کی نفاستِ جسم کی نضافت گھر کی صفائی و آرائش سے ہو بشرطِ شریعت نے اُنہیں حرام نہ کیا ہو اور فضول خرچی نہ ہو سورہ اعراف کی آیت نمبر 19 سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان کے بہکاوے کا شکار ہونے پر حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت اور حضرت حوّا کو اپنی عُریانی کا احساس ہو اور وہ درختوں کے پتّوں سے اپنے ستر کو چھپانے لگے عیسائیوں کی مقدّس کتاب بائبل کے عہد نامہ قدیم کے پہلے عنوان پیدائش کے باب ی ‘‘ب 3’’ آدم اور ان کی خاتون کو ہونے والی احساس عُریانی اور درخت کے پتّوں کے لباس کاذکر واقعہ ملتا ہے۔
لباس کے بارے میں قرآن میں متعدد جگہ تفصیل کے ساتھ دکر ملتا ہے لباس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ستر کے حصوں کو چھپالے جو لباس اس مقصد کو پورا نہ کرے سرے سے وہ لباس ہی نہیں کیونکہ وہ لباس ترپنا بنیادی مقصد پورا نہیں کررہا ہے جس کے لئے وہ سلایا بنایا کیا ہے بے شک یہی لباس انسانی اور باقی تمام جانوروں میں فرق ظاہر کرنے کا پہلا اور آخر ذریعہ بھی ہے یہی وجہ ہے غیر مذہب جنگلی انسانوں نے جو غاروں جنگلوں میں رہا کرتے تھے وہ کپڑا میسر نہ ہونے کے باوجود اپنے ستر کو ڈھاپنے کی کوشش میں مصروف رہتے تھے وہ بھی کپڑا نہ ملنے کے باجود پتّوں سے اپنے ستر چھپائے رہتے تھے ۔
آج کل کا ننگا پہناوا موجودہ دور کے فیشن نے لباس کے اصل مقصد کو مجروح کردیا ہے آج کل مردو ں عورتوں میں اپنے لباس رائج ہیں جس میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ جسم کا کون سا حصہ کھل رہا ہے اور کون سا ڈھکا ہوا ہے حالانکہ اسلام میں ستر کا حکم یہ ہے کہ مرد کے سامنے مر د کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں اور عورت کے سامنے عورت کیلئے ستر کھولنا جائز نہیں مثلاً اگر کسی عورت نے ایسا لباس پہن لیا جس میں سینہ کھلا ہوا ہے بازو کھلے ہوئے ہیں تو اس عورت کو اس حالت میں دوسری عورتوں کے سامنے آنا بھی جائز نہیں چہ جائیکہ اس حالت میں مردوں کو سامنے آئے اس لئے کہ یہ اعضاء اس کے ستر کے حصے میں آج کل شادی وغیرہ کی تقریبات میں دیکھئے کیا حال ہورہا ہے بے حیائی کے ساتھ ایسے لباس پہن کر مردوں کے سامنے عورتوں بچیاں گھومتی پھرتی ہیں اگر کوئی کہے تو کہا جاتا ہے سوچ بدلئے مذہب اسلام اس کی نفی کرتا ہے او رکہتا ہے کپڑے بدلئے سوچ بدل جائیگی بقول شاعر ۔
مجھی سے سب کہتے ہیں رکھ نیچی نظر اپنی
کوئی ان سے نہی کہتا نہ نکلے یوں عیاں ہوکر
آج کل یہ جملے بہت کثرت سے سننے میں آتا ہے کہ صاحب اس ظاہری لباس میں کیا رکھا ہے دل صاف ہونا چاہیئے مذہب سے دور اسلام بیزر ذہنیت لوگ اس طرح کی باتیں کررہے ہیں او رپھیلا رہے ہیں، نام نہاد نئی تہذیب کے دلدادہ لوگوں کا عجیب فلسفہ ہے کہ اگر عورت اپنے گھروں میں اپنے اپنے لئے شوہر کے لئے اپنے بچوں کے لئے کھانا تیار کرے تو یہ دقیانوسی اولڈ ماڈل ہے اور اگر وہی عورت ہوائی جہاز میں ایر ہوسٹس بن کر انسانوں کی ہوش ناک نگاہوں کا نشانہ بنے اور لوگوں کی (خدمت) غلامی کرے تو اس کا نام آزادی ہے اگر عورت گھر میں رہ کر اپنے ماں باپ بھائی بہن کیلئے خانہ داری کا نظم کرے تو قیہ اورذلت ہے دوکانوں پر سیلز گرل بن کر اپنی نازو ادا و مسکراہٹوں سے گاہکوں کی توجہ اپنی طرف کرے یا دفتر میں بوس کی ناز برداری کرے تو یہ آزادی اور اعزاز ہے نموذ باشہ اللہ انسانوں کو عریانیت (ننگا پن) کے سر سے محفوظ رکھنے کے لئے تمام بنی نوح انسانی کا لفظ آدم نہ کہ کر آگاہ فرمایا کوئی مذہب کی قید نہیں پارہ 8 سورہ اعراف میں فرمارہا ہے ت۔ تر جمہ اے آدم کی اولاد خبردار تجھے شیطانی فتنے میں نہ ڈالدے جیسا تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلو ایا اور اُتر و ادیا اُن سے ان کا لباس تا کہ نظر پڑے انہیں شرم کی چیزیں شیطان آج بھی تمام دیگر خرابیوں کے ساتھ ساتھ عُریانیت پھیلانے میں شب و روز مصروف ہے تاکہ انسان جس لباس کو اپنی بنیادی اور اہم ترین ضرورت سمجھتا ہے اس سے اس کو آزاد کر کے پھر سے جانوروں درندوں کی لباس کردیا جائے اللہ انسانوں پر بے پناہ مہربان ہے بے حیائی سے دور رکھنے کیلئے قرآن مجید میں کئی جگہ بار بار اس قسم کے احکام جاری کئے جن میں شرم حیاء کا دامن تھامنے کی تعلیم دی گئی سورہ انعام، سورہ احزاب، سورہ اشورہ، سورہ نومہ ، سورہ العنکبوت ، سورہ اطلاق ، سورہ بنی اسرائیل ،بطور خاص اس حوالے سے قابل ذکر ہیں ہر و ہ قول یا عمل سے بے حیائی یا بے شرمی کو فروغ ہو غلط ہے عریانی بے شرمی دیکھنے والوں کے حیوانی جذبات سیکس کو اُبھار دیتے ہیں اور انسان مذہبی تمذنی اخلاقی قدروں سے دور ہوجاتا ہے حجۃ السلام حضرت امام غزالی فرماتے ہیں شہوت تمام انسانی شہوات پر غالب ہے اور ہیجان کے وقت سب سے زیادہ عقال کی نا فرمانی ہے اس کے نتائج ایسے بھیانک ہیں جن سے شرم آتی ہے اور اظہار سے خوف لگتا ہے عریانی بے حیائی سے پیدہ شدہ جنسی اشتعال انسان کو زنا باالجبر، جنسی بے راہ روی، ناجائز تعلق اور ہم جنسی پرستی جیسے سنگین اور گھناؤنے جرائم پرمجبور کرتا ہے قرآن سورہ اعراف میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ۔ ترجمہ : کہ دو میرے پروردگار نے تو بے حیائی کی باتوں کو خواہ وہ ظاہر ی ہوں یا پوشیدہ منع فرمایا ہے اس سلسلے میں سورہ احزاب کی تلاوت او رمطالعہ بہت ضروری ہے جو مسلمان مرد اور عورت کی عزت و احترام تحفظ اور پاکیز گی کو مستقل طور پر حفاظت میں رہے پردے کی پاکیزگی کو اپنا نے بے حیائی سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے، اسلامی تعلیمات کا مطالعہ اور اس کا ابلاغ او عمل انشا اللہ ہمارے ماحول کو اور معاشرے کو بے حیائی عریانی کی لعنت سے پاک رکھے گا اور بے پناہ فائدے کا سبب بنے گا، انشاء اللہ ۔
2 اپریل، 2013 بشکریہ : روز نامہ صحافت ، ممبئی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/concept-dress-modesty-islam-/d/11106