New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 02:07 PM

Urdu Section ( 16 Sept 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

God and Pakistan's Parallel Governments خدا اور قیصر کی متوازی حکومتیں

  

محمد اسلم کہستانی شہید

( پاکستان میں بد نظمی کے سب سے بڑے مسئلے پر یہ مضمون 1963 ء روز نامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔ جو محترم محمد اسلم کہستانی شہید نے تحریر فرمایا تھا محترم نے 11 ستمبر 1965 ء کو پاک بھارت جنگ میں واھگہ بارڈر لاہور پر جام شہادت نوش فرمایا ۔ مگر 50 سال گزر جانے کے باوجود پاکستان کے حالت جوں کے توں ، بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔)

ایک روزہ اور رکھا دیا جائے ، اگر انہوں نے کہہ دیا کہ کل عید ہے، تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ کل روزہ رکھ لے ، اور اگر ان کا فیصلہ ہے کہ کل روزہ رکھنا ہے تو کسی کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ عید کرلے۔ ان کے اس فیصلے کےخلاف نہ صدر مملکت دم مارسکیں گے ۔ نہ کمانڈر انچیف ، نہ کوئی جج اس کے خلاف جاسکے گا، نہ چیف جسٹس ، سب کو اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہوگا۔ ان میں سے کوئی اس فیصلے سے پہلے اس معاملہ میں دخل دے سکتا ہے، فیصلہ صادر ہونے کے بعد اس کے خلاف اپیل ہوسکتی ہے۔ پوری کی پوری قوم پر ان کی حکومت ہے حالانکہ فیصلہ کرنے والوں کو قوم خوب جانتی ہے۔ حتیٰ کے جس وقت لوگ ان کے فیصلہ کا انتظار کررہے تھے ۔ اس وقت بھی ان کے متعلق آپس میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں کررہے تھے ۔ لیکن ان کے باوجود فیصلہ ان ہی کا ماننا تھا، نہ کسی اور کا ۔ غور کیجئے کہ ان حضرات کی حکومت کتنے بڑے اقتدار و اختیار کی حکومت ہے۔

فیصلہ دینے کے بعد ان میں سے ایک صاحب اپنی گاڑی پر روانہ ہوئے ۔ چوراہے پر پہنچے تھے کہ ٹریفک کے سپاہی نے سیٹی بجا کر روک لیا او رکہا کہ گاڑی کی بتیاں کیوں نہیں جلائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک بتّی تو جل رہی ہے ، دونوں کی کیا ضرورت ہے، سپاہی نے ڈانٹ کر کہا کہ بتیوں کا حکم چیف کمشنر صاحب کا دیا ہوا ہے اس میں آپ کو مجال گفتگو نہیں ۔ انہوں نے کچھ کہنا چاہا تو اس نے پرچہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا ۔

کل عید ہوگی یا نہیں، اس کا فیصلہ مسجد کے ملاّ کریں گے، گاڑی کی بتیاں کس طرح چلائی جائیں گی ۔ اس کا فیصلہ گورنمنٹ کرے گی۔ ایک ہی مملکت میں ، ایک ہی شہر میں دو متوازی حکومتیں ۔

پولو گراؤنڈ (کراچی) عید کی نماز اجتماع ہے، لاکھوں کا مجمع ہے ، صدر صاحب تشریف فرما ہیں، وزیر اعظم صاحب بھی دوزانو بیٹھے ہیں، کابینہ کے وزراء چیف کمشنر ، مجلس آئین ساز کے اراکین سب موجود ہیں او رکسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ وقت گزرتا گیا ، ہر ایک آنکھیں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہا ہے ، لیکن زبان سے کچھ نہیں کہتا ۔ بالآخر ایک لمبی قبا میں ملبوس مولوی صاحب تشریف لاتے ہیں ، وہ آکر مصلے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور سب لوگ صف بستہ ان کے پیچھے خاموشی سے ایستادہ ہوجاتےہیں ۔ وہ جھکتے ہیں تو سب جھکتے ہیں ، وہ اٹھتے ہیں تو سب اٹھتے ہیں، اس کے بعد وہ ممبر پر تشریف لے جاتےہیں اور جو جی میں آتا ہے کہتے چلے جاتے ہیں ، یہ سنتے ہیں اور جی ہی جی میں ہنستے ہیں ، کیونکہ ان کی باتوں میں اکثر ایسی بھی ہیں جن پر ہر صاحب عقل و ہوش کو ہنسی آجائے۔لیکن کسی کو اعلانیہ ہنسنے کی جرات نہیں ۔ جب تک امام صاحب کا جی چاہا ، انہوں نے انہیں باندھ کر بٹھائے رکھا، کسی میں اتنا کہنے کی ہمت نہیں کہ وقت زیادہ ہورہاہے، ہمت اور جرات کیسے ہو؟ یہاں تو ان کی حکومت ہے،یہاں ان ہی کے فیصلے چلیں گے۔ بہر حال انہوں نے خطبہ ختم کیا، دعا مانگی ، محفل برخاست ہوئی ،بھیڑ بہت زیادہ تھی ، یہ ایک طرف سے تیزی سے نکلنے گلے، تو سپاہی نے ڈانٹ دیا کہ دیکھتے نہیں یہ راستہ صدر مملکت کے لئے مخصوص ہے، ادھر ہٹ کر چلو، یعنی تمہاری حکومت کا دائرہ اور تھا ، اب تم کسی اور کی مملکت میں پہنچ گئے ہو۔

ایک ہی میدان میں پانچ منٹ کے اندر اندر حکومتیں بدل گئیں ، جناب وزیر اعظم کےصاحبزادے کی شادی ہے ، صدر صاحب تشریف فرما ہیں ، وزراء سلطنت ، عمائد مملکت ، اراکین مجلس آئین ساز ،بڑی بڑی عدالتوں کے جج سب زیب محفل ہیں۔ دولہا مجلس میں ہے اور دلہن اندر کمرہ میں، سب کسی کا انتظار میں رہ رہ کر دروازے کی طرف دیکھ رہے ہیں، دیر ہوئی جارہی ہے،چہ میگوئیاں سب کرتے ہیں لیکن سب بےبسی میں ہیں، کافی انتظار کے بعدمولوی صاحب تشریف لاتےہیں ۔ سب تعظیم سے اپنی اپنی جگہ بیٹھ جاتےہیں، وہ (دولہا کے باپ) وزیر اعظم صاحب کو حکم دیتے ہیں آپ اندر جائیں اور وہاں کہیئے ، یوں کیجئے ، فلاں فلاں کو ساتھ لے جائیے ، صدر صاحب آپ ادھر تشریف لائیے، چیف جسٹس صاحب میں جو کچھ کہوں آپ اس کے گہواہ رہئے ۔ وہ سب تعمیل ارشاد کرتے ہیں ۔ اس کےبعدوہ کچھ الفاظ کہتےہیں ، دولہا ان الفاظ کو دہراتا ہے ،ساری محفل ساکت بیٹھی ہے،پھر وہ دعا کےلئے ہاتھ اٹھاتے ہیں ،جتنا وقت جی چاہے دعا میں لگا دیتے ہیں ،کسی کی مجال نہیں کہ وہ سبقت لے کر اپنی دعا پہلے ختم کرلے۔اس کے بعد وزیر اعظم صاحب کو مبارکباد دیتے ہیں کہ ان کے صاحبزادے کا نکاح احکام شریعت کے مطابق بہ حسن و خوبی تکمیل پا گیا ۔انہوں نے جو کچھ کیا اس میں کسی کا دخل دینے کی اجازت نہ تھی، کچھ عرصہ کے بعد اس نکاح کے متعلق ایک تنازعہ پیدا ہوتا ہے ، لیکن اس کےلئے کوئی مولوی کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ معاملہ عدالت تک پہنچتا ہے۔ جسے حکومت نےمقرر کر رکھا ہے۔ معاملہ ایسا ہے جس کے لئے پہلے سے واضح قوانین موجود ہیں ،لہٰذا ایک نیا قانون بنانے کےلئے اس مجلس قانون ساز کے سامنے پیش کیا جاتاہے ۔ ادھر یہ ہوتا ہے اور ادھر سے مولوی صاحبان کی طرف سے آواز آتی ہے کہ نکاح و طلاق کے بارےمیں قانون بنانے والے تم کون ہوتے ہو؟ تمہیں یاد نہیں کہ یہ نکاح خود ہمارا پڑھایا ہوا ہے ۔ جب تم سب موجود تھے اور مولوی صاحب کا انتظار کررہے تھے ۔ جب تمہیں نکاح پڑھانے کا حق نہیں تھا تو اب نکاح کے متعلق قانون بنانے کا حق کیسے حاصل ہوگیا، یہ ہمارے خدو و اختیارات کے معاملات ہیں جن میں تم دخل انداز نہیں ہوسکتے ۔

غور کیجئے ، کیا پاکستان کی آئین سازی کی سولہ سالہ تاریخ اسی کشمکش حدود و اختیار ات کی داستان الم انگیز نہیں؟ کیا یہاں سولہ سال سے یہی نہیں ہورہا کہ قوم کے نمائندے ایک آئین بناتے ہیں اور خدا کے نمائندے یہ کہہ کر اسے ٹھکرادیتے ہیں کہ تمہیں اس آئین سازی کا حق ہی حاصل نہیں ۔یہ مملکت اسلامی ہے یہاں شریعت کا نظام نافذ ہوگا اور نظام شریعت کےمطابق آئین و قوانین سازی کے حق دار ہم ہیں تم نہیں ہو ۔ قوم کے نمائندے کہتےہیں کہ نہیں ، ہمیں اس کا حق حاصل ہے اور ساتھ ہی عید کے چاند، نماز اور خطبہ اور بچوں کےنکاح کےلئے فیصلہ خدا کے نمائندوں سے طلب کرتے ہیں ۔ بات بالکل صاف ہے ، اگر رویت ہلال، خطبہ عید اور نکاح خوانی میں فیصلہ کا حق مولوی کو حاصل ہے تو یقیناً قانون سازی کا حق بھی اسی کو حاصل ہونا چاہئے ۔ اور اگر قانون سازی کا حق اسے حاصل نہیں تو پھر ان امور میں فیصلوں کےلئے اس کی طرف کیوں رجوع کیا جاتاہے۔ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ معاملات ‘‘شریعت’’ سےمتعلق ہیں اس لئے ان کے لئے ارباب شریعت ہی کی طرف رجوع کرناچاہئے۔

یہ وہ اصلی نکتہ جس کی وضاحت کےلئے اس قدر تمہید اٹھائی، سوال یہ ہے کہ اسلام میں امور شریعت او رامور دنیا دو الگ الگ شعبوں سے متعلق ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو پھر ایک دفعہ بیٹھ کر اس کا فیصلہ کر لینا چاہئے ۔ اور دونوں دوائر کی الگ الگ فہرستیں مرتب کر کے خدا کو خدا کی مملکت اور قیصر کو قیصر کی حکومت دےدینی چاہئے ۔ اگر رویت ہلال کا فیصلہ مسجد میں ہو، اور عید کی تعطیل کا فیصلہ وزارت امور داخلہ میں، نکاح مولوی صاحب پڑھائیں اور قوانین اسمبلی میں ، یاد رکھئے کہ ایک مملکت میں بیک وقت دو بادشاہ کبھی نہیں سما سکتے ۔ جہاں ایسا ہوگا وہاں انار کی پھیل جائے گی۔ ماسکو میں قیصر ہی قیصر ہے، وہ خدا کو اپنے ہاں آنے ہی نہیں دیتے ، لیکن ( پوپ کی مملکت میں ) خدا ہی خدا ہے وہ قیصر کو اس مملکت میں قدم نہیں رکھنے دیتے ۔ انگلستان میں خدا کو گرجے کی چار دیواری میں قید کردیا گیا ہے اور اس سے باہر قیصر کی مملکت ہے، یہ دونوں ایک دوسرے کی مملکت آجا نہیں سکتے ۔ مگر ہم ہیں کہ زندگی کے ہر شعبہ میں ‘‘ خدا اور قیصر’’ کی متوازی حکومتیں جاری کر رکھی ہیں ۔ نتیجہ اس کاظاہر ہے یعنی ( قرآن کے الفاظ میں) پستیوں اور بلندیوں میں ہر جگہ فساد ہی فساد کوئی چیز اپنی اصل اور ٹھیک مقام پر نہیں اور تماشہ یہ ہے کہ ہر ممبر اور ہر اسٹیج سے یہ آواز بھی برابر بلند ہوتی رہتی ہے کہ اسلام میں مذہب اور سیاست دین و دنیا الگ الگ نہیں ۔ ایسی خالص ‘‘ منافقت’’ دنیا میں شائد ہی کہیں او رکسی کے حصے میں آئی ہو جب تک یہ دوغلی او رمنافقت ختم نہیں کی جائے گی ہماراایک قدم بھی تعمیر ی منزل کی طرف نہ اٹھ سکے گا ۔ قرآن کی رو سے دین اور دنیا دو الگ الگ شعبے نہیں مملکت کا نظم و نسق ہدایت خداوندی کی روشنی میں تمام امت کی مشترک ذمہ داری ہے۔ اس میں نہ کوئی خدا کا نمائندہ ہے نہ قیصر کا ہے۔نظم و نسق مملکت کے اس قرآنی تصور کی بجائے ہمارے ہاں قیصر ( سلاطین) پیدا ہوگئے، تو ان کے ساتھ ہی خدائی نمائندے ۔ ارباب شریعت بھی معرض وجود میں آگئے ،لہٰذا اگر آپ نے قیصر یت کے بت کر مٹانا ہے تو اس کے لئے مذہبی پیشوائیت کو ختم کرنا بھی نہایت ضروری ہے ۔ جب تک ہمارے ہاں قیصر یت اور پیشوائیت کا ذرا سا عنصر بھی باقی ہے،مملکت کانظم و نسق قرآنی ہدایت کےمطابق ملت کی سپرد کبھی نہیں ہوسکتا ۔

لیکن پیشوائیت کامسئلہ ذرا ٹیڑھا سا ہے، اس کے حل کےلئے غور و فکر اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ مذہبی پیشوائیت (مولوی) کوئی ایسا ہنر نہیں جانتے جس سے وہ اپنی روٹی آپ کما کر کھاسکیں ۔ تقسیم سے پہلے پاکستانی علاقہ کی تمام مساجد آباد تھیں اور مذہبی مدرسوں کی آسامیاں پرُ تھیں ۔ یہاں سے غیر مسلم ہندوستان کی طرف گئے ۔ وہ اور سب کچھ تو چھوڑ گئے لیکن مسجدیں اور مذہبی مکتب تو چھوڑ کر نہیں گئے ۔ ادھر ہندوستان سے جس قدر مولوی صاحبان ادھر آئے وہ اپنے ساتھ مسجد یں اور مکتب لے کر نہیں آئے ۔ اب سوچئے کہ جس ملک میں اس قسم کے بیکار لوگوں کا اتنا جم غفیر ہوجائے اور ان کے لئے سینگ سمانے کے کوئی جگہ نہ ہو، وہ اپنی خدائی نمائندگی کےدعوے چھوڑ دیں تو روٹی کہاں سے کھائیں ۔ یہ ہے پاکستان کا اصلی مسئلہ ۔ جمیعت العلماء ہو یا مجلس احرار جماعت اسلامی ہو یا نظام اسلام پارٹی سوال سب کے ہاں معاش کا ہے۔ لہٰذا جب تک قوم ان کے معاش کا بند و بست نہیں کرے گی یہ قوم کا پیچھا نہیں چھوڑ یں گے ۔ جان کی حفاظت حیوانی خصلت کا تقاضہ ہوتا ہے ۔ لہٰذا تقاضے کی تسکین کا انتظام کرنا ضروری ہے۔ بنابریں کرنے کا کام یہ ہے کہ

(1) اس کا علان کردیا جائے کہ اس مملکت میں الگ مذہبی پیشوائیت کےوجود کی گنجائش نہیں ۔

(2) موجودہ مولوی صاحبان کی معاش کا انتظام حکومت کی طرف سے کیا جائے

(3) آئندہ کےلئے الگ مذہبی مدارس کو قانوناً بند کردیا جائے۔

(4) دین کی تعلیم ان ہی مدرسوں او رکالجوں میں دی جائے جو محض دنیاوی تعلیم کےلئے جاری ہے۔

(5) مملکت کا آئین نمائندگان ملت کے باہمی مشورے سےاس طرح مرتب کرلیا جائے کہ اس میں کوئی چیز قرآن کی مقررہ حدود سے نہ ٹکرائے۔

اگر پاکستان نے یہ سب کچھ کرلیا تو یہ نہ صرف زندہ رہ سکے گا بلکہ پائندہ سے پائندہ ہوتا چلا جائے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا اورموجودہ دو عملی اس طرح سے رہی تو ہمارا قدم تباہی کی طرف بڑھتا چلا جائے گا ۔ فطرت کا اٹل قانون ہے کہ روکے رک نہیں سکتا ۔ اگر ملک میں ایسا کوئی طبقہ موجود ہے، جسے اپنی حفاظت اور اپنی آنے والی نسلوں کی سلامتی پاکستان کی بقا اور شریعت انسانی سے بہرہ یاب ہونے کا کچھ بھی احساس ہے تو اسے سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے ۔ اور زندگی او رموت کے اس اہم سوال کا فیصلہ کرکے اٹھنا چاہیے ۔

مارچ 2016 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/god-pakistan-parallel-governments-/d/108579

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..