محمد انجم
30 مئی ، 2016
نئی دہلی ، غالب انسٹی ٹیوٹ میں سابق صدر جمہوریہ ہند اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے بانی فخر الدین علی احمد کی یاد میں میموریل لکچر کا انعقاد کیا گیا۔ تصوف اور سماج پر اس کے اثرات کےموضوع پر اپنا توسیعی کا انعقاد دیتے ہوئے پنجابی یونیورسٹی ، پٹیالہ کےوائس چانسلر ڈاکٹر جسپال سنگھ نے کہا کہ تصوف کی مزید تفہیم کے لیے میں نے اس موضوع پر تقریر کے لیے خود کو تیار کیا ہے۔ مذاہب اور روحانیت کی دنیا میں تصوف کا جو اپنا منفرد و ممتاز مقام ہے اس سے سرموانحراف کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔ ہر مذہب میں کسی نہ کسی صورت میں صوفی ازم موجود ہے۔ دراصل خدا سے مربوط ہونے اور اس کے عرفان کو یقینی بنانے کے لیے عشق و محبت کی راہ پر چلنے کا نام ہی صو فی ازم ہے۔ محبت او رمٹھاس کی راہ تصوف اور صوفیوں کی راہ ہے ۔ نظریہ وحدۃ الوجود تصوف کی بنیاد ہے۔ تصوف مخصوص طرز حیات کانام ہے ۔ تصوف و حدت میں کثرت کا ترجمان اور طالب وکیل ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ تکثیریت خدا کی دین ہے کہ اس نے اپنی اس دنیا کے لیے مختلف و منفرد مذاہب کو پیدا کیا۔ مختلف رنگ و نسل کے افراد کی تخلیق کی اور تکثیریت کے جو لوگ مخالف و معاند ہیں وہ دراصل خدا کے مخالف ہیں، اس کے فیصلوں کے مخالف ہیں ۔تصوف کی راہ میں رسم و رسوم تعلیم سے اعلی و افضل اخلاقیات کی عملی تعلیم ہے۔
سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے فرمایا کہ انسان کو دریا کی سی سخاوت،سورج کی سی شفقت اور زمین کی سی تواضع اختیار کرنی چاہیے۔ خواجہ ہند کے یہ اقوال بالخصوص اس زمانے کے لیےبہت ہی اہم ہیں ۔ غیر وں کی غیریت کو اہمیت دینا تصوف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیوں کے یہاں مکالمےکی بڑی اہمیت ہے وہ خود کو ہی اعلیٰ وارفع گمان نہیں کرتے دوسروں کی شناخت ، ان کی اہمیت اور ان کی شخصیت کے تحفظ اور قدردانی کو اپنا فرض منصبی قرار دیتے ہیں ۔اس لیے یہ کہا جاسکتاہےکہ اس جدید تر دنیا میں جاری و ساری اختلافات و تصادم تصوف کے نظریہ کو اختیار کر کے ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور جب ہم ان عادتوں کو اختیار کر لیتے ہیں تو صوفی کہلاتےہیں ۔ تصوف کو اختیار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی کوئی بھی صوفی ہوسکتا ہے ۔ صوفیوں کے سجدے نمائشی نہیں ہوتے ان کے سروں کے ساتھ دل بھی بارگاہ خدابندی میں جھک جاتے ہیں ۔ وفاداری کے بغیر سجدہ کبھی سچا نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر جسپال سنگھ نےاس موقع پر پنجاب اور، سکھوں اور تصوف کی مستحکم باہمی روایت کو بھی بیان کیا ۔ اس موقع پر اپنی صدارتی گفتگو میں سابق صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد کے صاحبزادے اور غالب انسٹی ٹیوٹ کے چپئر مین ڈاکٹر پرویز علی احمد نے بابا فرید سے اپنے نانی ہالی شجرے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ موجود زمانے میں اگر کوئی چیز سب سے زیادہ مناسب ہے اور وہ ہمارے مسائل کا حل تلاش کرسکتی ہے تو وہ تصوف ہے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کے سکریٹری پروفیسر صدیق الرحمان قدوائی نے اپنی تعارفی کلمات میں کہا کہ ڈاکٹر جسپال سنگھ ہمارے لئے نئے نہیں ہیں ۔ اکیڈمک سطح کےاعلیٰ عہدو ں کے ساتھ ہی ساتھ یہ ڈپلومیت بھی رہ چکے ہیں ۔
بھارت کی جانب سے دو ممالک میں سفیر بھی رہے ہیں ۔ ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی نیت سےانہیں غالب انسٹی ٹیوٹ کے اس اہم فخرالدین علی احمد میموریل لکچر کے لیے مدعو کیا گیا ہے ۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈاکٹر سید رضا حید ر نے جلسہ کے افتتاح میں کہا کہ ہندوستانی صوفیہ کی خدمات او ر مذاہب کے تئیں ان کے جذبات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔خانقاہیں ایسے مراکز ہیں جہاں ذرّہ برابر بھی امتیاز نہیں پایا جاتا ہے۔ وہاں سے مذہب و ملت کی تفریق کے بغیرتمام مذاہب کے پیروکار کسب فیض کرتےہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ خانقاہوں کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلّم رہی ہے ۔ انہوں نے میموریل لکچر کے لیے منتخب موضوع پر گفتگو کرتے ہوئےیہ بھی کہا کہ آج جس شخصیت کو لکچر کے لیے مدعو کیا گیا ہے وہ تصوف سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں اور تصوف کے حوالے سے ان کے متعدد اہم کام سامنے آچکے ہیں ۔ ڈاکٹر جسپال سنگھ کا تعلق پنجاب سے ہے اور پنجاب ہندوستان میں صوفیوں کا سب سے بڑا اور اہم مرکز رہا ہے ۔ ڈاکٹر جسپال سنگھ کو غالب انسٹی ٹیوٹ کے چئیر مین او راس پروگرام کے صدر ڈاکٹر پرویز علی احمد نے اس خاص موقع پر غالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع ہونے والی کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا ۔ اس پروگرام میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے جسٹس بدردریز علی احمد بھی موجود تھے ۔ ان کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر شاہد مہدی ، اے رحمان ، پروفیسر شریف حسین قاسمی ، متین امروہوی ، پنجابی یونیورسٹی کے بابا فرید صوفی اسٹڈیز کے ڈائرکٹر پروفیسر ناشر نقوی ، پاکستان ہائی کمشنر کے نمائندہ طارق کریم ، ڈاکٹر جمیل اختر، ڈاکٹر ابوبکر عباد، مولانا نبیل اختر، ڈاکٹر اشفاق عارفی، ڈاکٹر شعیب رضا خاں او رغالب انسٹی ٹیوٹ کے تمام اراکین کے علاوہ بڑی تعداد میں مختلف علوم و فنون کے افراد موجود تھے ۔
30 مئی، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/ideology-wahadat-ul-wujood-basis/d/107462