مفتی یاسر ندیم الواجدی
25 جولائی، 2016
مندرجہ ذیل سطور میں جس موضوع پر قلم اٹھانے کی جرأت کر رہا ہوں وہ امت کے لیے بہت حساس ہے، اس موضوع پر لکھنے سے پہلے بارہا یہ ذہن میں آیا کہ میں کیا اور میری حیثیت کیا ؟ ‘‘ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ’’۔ یہ بھی سوچا کہ ہدف ملامت بننے میں کون سا لطف ہے جو بار بار اس کی کوشش کی جائے، مگر پھر ذہن اس موضوع کے لیے آمادہ ہوا، یہ سوچ کر کہ میری بات اگر چہ مؤثر نہ ہو مگر چند لوگ بھی اس سمت میں اگر مثبت گفتگو کا آغاز کردیں تو میری کوشش کامیاب ہے۔
انتشار و افتراق کے اس دور میں ملی اتحاد کی صدا ہر صاحب بصیرت اپنے دل میں محسوس کررہا ہے۔ کچھ ایسے عناصر بھی ہماری صفوں میں موجود ہیں جن کے نزدیک ان کے مکتب فکر کی بالادستی امت مسلمہ کے اتحاد سے زیادہ ضروری ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جنت کے ٹکٹ پر بھی سیل لگا رکھی ہے آپ ٹکٹ کھڑکی پر آویزاں ان کے اکابر کا نام لے لیجئے اور جنت کے تعلق سے مطمئن ہوجائیے۔ افسوس اس بات کا ہے ان ٹکٹ کھڑکیوں پر اکثر لمبی لمبی لائن بھی دیکھتا ہوں ۔ البتہ ایسے مخلصین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جو ملی اتحاد کا خواب دیکھتے ہیں مگر اس کی تعبیر انہیں نا ممکن نظر آتی ہے اور اس کی وجہ طریقہ کار میں بے اعتدالی ہے۔ مسلکی اتحاد کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ ہر مسلک خیر سگالی کے طور پر اپنے کچھ ایسے نظریات ترک کر دے جن پر شدید اختلاف ہو۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ نا قابل عمل کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہوسکتا ، اگر کوئی مسلک اس چیز کے لیے تیار بھی ہوجائے تو وہ مسلک کہلانے کا مستحق نہیں ہے۔اتحاد کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لوگ ہر مسلک کی اچھی چیز لے لیں اور خراب چیز چھوڑ دیں ۔ اس چیز کو طے کرنے کے لیے ہمارے پاس ہمارے نفس کے علاوہ کوئی دوسرا الہ نہیں ہے اور نفس پرستی شیطانی کام ہے۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جس کو بعض علما نے یوں تعبیر کیا ہے کہ ‘‘اپنی بات چھوڑ و نہیں دوسرے کی بات کو چھیڑو نہیں ’’۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ آپ عوامی حلقوں میں رفع یدین کو ضروری ثابت کیے بغیر پوری زندگی رفع یدین کرتے رہیں، یا آمین بالجہر کو مگروہ ثابت کیے بغیر ہمیشہ پشت آواز میں آمین کہتے رہیں؟کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ رمضان میں آٹھ اور بیس رکعات کو ایمان کا معیار بنائے بغیر کم پڑھنے والوں کو زیادہ پڑھنے کی ترغیب دیں اور زیادہ پڑھنے والے کم پڑھنے والوں پر ملامت نہ کریں؟ کیوں دیوبندی و بریلوی باہم دست و گریباں ہیں؟ کیوں اللہ کی مسجد دیوبندیوں کی مسجد یا بریلویوں کی مسجد بن کر رہ گئی؟ آخر کیوں غیر بریلوی کو بریلویوں کے علاقے میں واقع مسجد میں جاتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں نماز پڑھوں گا تو صحیح سالم واپس آؤں گا یا نہیں ؟ایک سلفی کی نماز اور ایک شافعی کی نماز میں مجھے کوئی فرق تو بتائے، اگر یہ سینے پر ہاتھ رکھتا ہے تو وہ بھی تو رکھتا ہے ، پہلے کی نماز میں اگر رفع یدین ہے تو دوسرے کی نماز میں بھی ہے۔لہٰذا ایک دوست اور دوسرا دشمن کیسے ہوگیا؟ ہاں البتہ ایک کے ذہن میں ہے کہ امام شافعی کی تقلید کررہاہوں ۔ اب اگر آپ غیر متعصب سلفی سے پوچھیں کہ کیا عام آدمی کے لیے تقلید جائز ہے تو اس کا جواب اثبات میں ہوگا، اور اگر کسی غیر متعصب دیوبندی عالم سے پوچھیں کہ کیا محقق کے لیے بھی تقلید ضروری ہے تو جواب نفی میں ہوگا۔
اگر یہ بات ہے تو پھر آپ اگر تقلید کو درست سمجھتے ہیں تو سمجھئے مگر عدم تقلید کو دعوائے نبوت کی پہلی سیڑھی تو قرار نہ دیجئے ۔ آپ تقلید سے اتفاق نہیں رکھتے نہ رکھئے ، مگر مقلد کو مشرک تو نہ کہئے ، اسی طرز عمل کو تصلب کہا جاتا ہے۔ مگر جب مذکورہ بالا امور پر ہی آپ کے نزدیک نجات موقوف ہو تو آپ متعصب ہیں ۔ اگر آپ اپنے مسلک پر عمل کرتے ہیں تو یہ تصلب ہے لیکن اگر دین کے بجائے آپ مسلک کی تبلیغ کرتے ہیں تو یہ تعصب ہے۔ البتہ یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ جو فرقے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں پیدا ہوگئے تھے اور حضرات صحابہ نے ان کی برملا تردید کی، یا بعد میں پیدا ہوئے اور پوری امت ان کے کفر پر متفق ہے تو ان سے اتحاد ممکن نہیں ہے۔ جو فرقے بعد کی پیداوار ہیں تو ائمہ فقہ و حدیث نے ان سے ملی اتحاد ہی نہیں علمی افادہ و استفادہ بھی باقی رکھا ۔ امام بخاری نے مرجیہ سے بھی روایت کی او رمعتزلہ سے بھی ۔ ہم جب بخاری کی سند پڑھتے ہیں تو رضی اللہ عنہ و عنہم کہہ کر ان کے لیے بھی دعا مانگتے ہیں ۔ یہ احترام اگر بارہ صدی پرانی شخصیات کے لیے ممکن ہے تو دوصدی پرانی شخصیات کے لیے کیوں ممکن نہیں ؟اکابر دیوبند کے ترجمان حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ نے ہمیں ان اختلافات کو ختم کرنے کا ایک منہج دیا ہے۔
مسئلہ حیات النبی پر اپنی مختصر تحریر میں آپ نے پاکستان جاکر حیاتی اور مماتی گروہوں میں نزاع ختم کرایا ، آپ خود لکھتے ہیں کہ فریقین کی جانب سے مخلصانہ ماحول میں گفتگو ہوئی اور آخر میں ایک تجویز پراتفاق ہوگیا۔ کیا ایسا مخلصانہ ماحول دوبارہ نہیں بنایا جاسکتا ؟ میں ہر گز نہیں کہتا کہ اپنے مسلک کی وضاحت نہ کیجئے ، عوام کو بدعات و منکرات سے آگاہ کیجئے مگر دوسروں کے بڑوں کی گمراہی بیان کرکے نہیں ، اپنے اسلاف کےمحاسن او ران کی علمی خدمات بیان کرکے۔ ہم حضرت تھانوی کے نام لیوا کیسے ہوسکتے ہیں اگر ان کا طریقہ کار ہم نہ اختیار کرسکے۔ انہوں نے اپنےموقف کی وضاحت کے لئے کتابیں بھی لکھیں اور تقریریں بھی کیں مگر جب فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خاں صاحب کا انتقال ہوا تو ان کے لیے اپنی خانقاہ میں دعائے مغفرت کا اہتمام بھی کیا۔ علمائے دیوبند کے سرحیل حضرت نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے اہل حدیث عالم مولانا حکیم عبدالسلام صاحب نے دیہات میں اقامت جمعہ کے تعلق سے اختلاف کیا تو حضرت نے ان کو خط لکھا، خط کا آغاز ہی دیکھ لیجئے: ‘‘مجمع البحرین شریعت و طریقت ، مخدوم و مطاع خاص و عام ، مخدومنا و مولانا سید عبدالسلام صاحب’’ ۔ اس احترام کے ساتھ اگر گفتگو ہو تو اختلاف کبھی مخالفت کی شکل اختیار نہیں کرسکتا ۔
بریلوی مکتبہ سے وابستہ افراد کو میں مولانا مفتی برہان الحق جبل پوری کا نام یاد دلانا چاہتا ہوں 1972ء میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے پہلے اجلاس میں انہوں نے بورڈ کے پہلے صدر قاری طیب صاحب سے ان کا پروگرام دریافت کیا، جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت کا ارادہ عمرہ کا ہے تو انہوں نے روضہ رسول پر سلام کہنے کی بھی درخواست کی ، اگر واقعی مفتی برہان الحق کی نظر میں قاری طیب صاحب گستاخ رسول تھے تو یہ کیسا سلام ہے جو رسول کو گستاخ رسول کے ذریعے بھیجا جا رہا ہے ؟ آپ حضرات کا طرہ امتیاز تو عشق نبوی ہے، کیا کبھی سوچا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا معاملہ فرماتے تھے ، حضور کی مسجد کے دروازے تو حضور کے جانی دشمنوں کےلئے بھی کھلے ہوئے تھے ، آپ اپنی مسجدوں کے دروازے ان لوگوں پر کیوں بند کرتے ہیں جن کا کلمہ وہی جو آپ کا ہے؟ اہل حدیث حضرات بھی سنیں: نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ نے اپنے مدرسے میں تدریس کے لیے جس شخصیت سے درخواست کی وہ کوئی او رنہیں حنفی عالم حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ کیا آج کے کچھ اہل حدیث حضرات نواب صاحب سے زیادہ فاضل ہوگئے کہ حنفی انہیں بدعتی بلکہ مشرک نظر آتا ہے؟ اگر کسی حنفی کا عشق حدیث دیکھنا ہو تو آئیے کسی مدرسے کے آخری کلاس میں چند گھنٹے گزارئیے اور خود دیکھئے کہ صحیح بخاری کا کیا مقام ہے؟
اگر امام کا لقب ابو حنیفہ کے لیے استعمال ہوتا ہے تو بخاری کے لیے بھی استعمال ہوتاہے۔ آپ اگر امت میں اتحاد دیکھنا چاہتے ہیں تو نفرت پھیلانے والے علما ء سے بچئے خواہ وہ سلفی ہوں، دیوبندی ہوں یا پھر بریلوی ۔ ایسے تمام علماء جنہوں نے امت کو تقسیم در تقسیم کر کے جنت کے ٹکٹ کو چند لاکھ لوگوں کے لیے مخصوص کردیا آپ کی توجہ کے مستحق نہیں ہیں ۔ایسے تمام مناظرین سے کہہ دیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت کی کثرت دیکھ کر خوش ہوں گے اور تمہاری کوشش ہے کہ جنتی کم سے کم رہ جائیں ۔ ایسے لوگوں کی تقریروں اور کتابوں کو نظر انداز کیجئے، ان کے فیس بک پیچز سے اپنے آپ کو نکالئے ، ان کی تقریروں کو شیئر کرنے کے بجائے اپنے ایمان کی فکر کیجئے ، ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھئے اور اللہ کی مسجدوں پر مسلکوں کے بینر آویزاں نہ کیجئے ، اگر مخاطب کاطریقہ غلط لگتا ہے تو طریقے پر نکیر کیجئے مخالف پر نہیں ، یا دل سے برا سمجھ لیجئے یہ بھی تو ایمان کا ایک درجہ ہے اگرچہ ادنیٰ ہی صحیح ، اللہ اور اس کے رسول نے ایمان کے درجات میں بلندی کے لیے او ربھی تو راستے بتائے ہیں، کیا آپ ان تمام راستوں پر چل چکے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے یہ بہت کڑوا گھونٹ ہے مگر بیمار قوم کے علاج کے لیے، امت کے وسیع تر مفاد کے لیے او رہم سب کےمشترکہ دشمن کو جواب دینے کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔
25 جولائی، 2016 بشکریہ: روز نامہ صحافت، نئی دہلی
URL: