مفتی تنظیم عالم قاسمی
5 جولائی، 2013
قرآن ایک نور ہے ۔ نور کا کام ہے خود چمکنا اور دوسروں کو چمکانا ۔ جہاں تاریکی ہوتی ہے وہاں اگر روشنی جلادی جائے تو تاریکی ختم ہوجاتی ہے اور گردو پیش میں اجالا ہو جاتا ہے ، ٹھیک اسی طرح جب دل سے کوئی قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اور اس کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالتا ہے تو خود اس کا دل روشن ہوتاہے اور اس کی ذات ایک چراغ کے مانند بن جاتی ہے اس سے ہزاروں لوگ روشنی حاصل کرتے ہیں اور اس کے کردار و عمل کو دیکھ کر راہ ہدایت پاتے ہیں۔ سورۂ ابراہیم کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
‘‘ ا ل ر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سےنکال کر روشنی میں لاؤ ، ان کے رب کی توفیق سے ، اُس خدا کے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔’’
اس مفہوم پر مشتمل متعدد آیات قرآن میں موجود ہیں جن میں سارے بندوں کوپیغام دیا گیا ہےکہ قرآن کی شکل میں جو کتاب آسمان سےنازل کی گئی ہے وہ تمام طرح کےشک و شبہ سےبالا و برتر ہے۔ اس میں ہدایت کی طاقت موجود ہے، عرب ہوں یا عجم ، کالے ہوں یا گورے ،مزدور ہوں یا سرمایہ دار ، بادشاہ ہوں یا رعایا جو بھی اس سےروشنی حاصل کرنا چاہے اس کو روشنی ملے گی اور اس کو جہالت و اوبام کی گھٹا ٹوپ تاریکی سے نکال کر معرفت و بصیرت اور ایمان اور ایقان کی راہ پر گامزن کرے گی۔ آیت میں ‘‘ ظلمات’’ جمع کا صیغہ اور ‘‘ نور’’ لفظ واحد لا یا گیا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہر طرح کی تاریکی سے روشنی فراہم کرنے والی کتاب ہےخواہ وہ کفر و شرک کی تاریکی ہو یا بدعات و خرافات کی ، رسم و رواج کی تاریکی ہو یا لاخدائیت اور فلسفے کی، یہ تمام مختلف تاریکیاں ہیں اور روشنی صرف ایک ہےاور وہ ہے اللہ کے دین کی روشنی۔ اس کواختیار کرنے کے بعد پھرکسی اور روشنی کی ضرورت محسوس نہ ہوگی۔ یہ وہ کیمیاء ہے جو انسان کو اللہ سے جوڑ تا ہے اور اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔ اللہ سے وابستہ ہوجانے اور اس کے رضا کےحصول کے بعد دنیا اور اہل دنیا کے سہارے کی ضرورت نہیں ۔ یہ قرآن مجید قبر میں بھی نور بنے گا اور میدان محشر میں بھی، جس شخص کو جتنا قرآن یاد ہوگا اسی اعتبار سے اس کا مقام بلند ہوگا۔ حفاظ قرآن سے کہا جائے گا کہ ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھتا جا اور جنت کی منزلیں طے کرتا جا ، اب دنیا میں جس نے جتنا قرآن یاد کیا ہوگا وہ خوش نصیب اسی قدر جنت کی منزلیں طے کرتا جائے گا اور جو شخص پورے قرآن کا حافظ ہوگا اس کو خاص طور پر یہ اعزاز حاصل ہوگا کہ اس کے والدین کو سونے کا تاج پہنا یا جائے گا جس کی چمک سورج سے بھی زیادہ ہوگی اور انہیں دس گنہگاروں کی شفاعت کا حق دیا جائے گا ۔ اس سےمعلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید دنیا میں بھی نور اورروشنی ہے اور آخرت میں بھی ۔ جو چاہتا ہے کہ دل منور ہو اور اس کی رو شنی میں اچھے برے کی تمیز کر سکے اور اللہ کی قدرت کو پہچان سکے اسے اس کتاب کواپنے سینے سےلگانا چاہیے اور اس کی تلاوت تدبر اور غور و فکر کو اپنا معمول بنا لینا چاہیے۔
قرآن کے نزول کا مقصد اس پر عمل کرنا، اس کے احکام اور اس کے دیئے گئے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنا اور اپنے نظام زندگی کو اس کے مطابق کرنا ہے۔ یہ ہر اہل ایمان سے مطلوب اور مقصود ہے اور یہی مدار نجات ہے ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن مجید کا پڑھنا ، سننا اور اس کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس کی آیات میں شفا بھی ہے مگر یہ مقصود خداوندی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مہتم بالشان کتاب امت مسلمہ کو دی ہے تاکہ رہتی دنیا تک لوگ اس سے رہنمائی حاصل کریں اور اس کے ذریعے انہیں روحانی شفا حاصل ہو، مختلف آلودگیوں میں ان کے دل لت پت ہوں تو اس سے وہ انہیں پاک صاف کرسکیں۔ ہر مذہب کا ایک اصول اور دستور ہوتا ہے جس کی ر وشنی میں اس کے پیرو کار اپنی زندگی گزارتے ہیں اور اس پر چل کر اپنی نجات ڈھونڈتے ہیں خواہ انہیں حقیقت میں نجات ملے یا نہ ملے ۔ اللہ تعالیٰ نے مذہب اسلام کے لیے مسلمانوں کو یہ دستور زندگی عطا کیا ہے جس میں یقینی نجات ہے اور اسی میں رضائے الٰہی پوشیدہ ہے ۔ جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کو انعام جنت ملے گی اور جو لوگ اس کو چھوڑ کر کسی دوسرے اصول کو اپنائیں گے ان کے لئے آتش جہنم ہے۔ قرآن کریم نے اس مفہوم کو متعدد مقامات پر بیان کیاہے۔
قرآن حق ہے ۔ اس کے کسی حرف میں بھی کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ آسمانی کتاب ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے مقرب فرشتہ حضرت جبریل علیہ السلام کے ذریعے سب سے افضل پیغمبر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا اور اس کی حفاظت کرتے رہے اور قیامت تک اس کی اسی طرح حفاظت کی جاتی رہے گی ۔ اس کا ایک حرف بلکہ ایک نقطہ بھی ضائع نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح اس کےالفاظ کی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے اسی طرح اس کے معنی ومفہوم اس کے مطالب و تشریح کی بھی حفاظت کا وعدہ کیا گیا ہے تاکہ عمل کرنے والے منشائے الہٰی کو پاسکیں ۔ چنانچہ بد نیت افراد آج تک اس کے صحیح مفہوم اور تشریح کو نہ بدل سکے اور نہ قیامت تک بدلا جاسکتا ہے:
‘‘ باطل نہ سامنے سے اس پر آسکتا ہے نہ پیچھے سے ، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے’’۔ ( سورہ حم سجدہ آیت 42)
اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے لیا ہے اس لئے کیا مجال ہے کہ اس میں کوئی تغیر پیدا ہو جائے ۔ اس کتاب نے جو حقائق بیان کئے ہیں زمانہ خواہ کتنا ہی ترقی یافتہ ہو جائے ان کو چیلنج نہیں کرسکتا اور اسکی پیش کردہ حقیقت و صداقت کو کسی بھی طرح غلط ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔
قرآن جب مکمل ہوگیا اور دین اسلام کی تشریح پوری طرح کرد ی گئی تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا مقصد تکمیل تک پہنچ گیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کا احساس ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ٔ کرام سے خطبہ حجۃ الوداع میں سوال کیا کہ کیا میں نے خدا کے پیغام کو تم تک پہنچا دیا، سب نے بیک زبان ہوکر اثبات میں جو اب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جولوگ یہاں موجود ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پیغام کو دوسروں تک پہنچا دیں...... گویا اس امت کےکندھے پر ایک بہت بڑا فریضہ ڈالا گیا اور وہ ہے کار نبوت کو آگے تک بڑھانا ، اس طرح دعوت و تبلیغ اس امت کے ہر فرد کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ اس کے لیے کسی جامعہ اور یونیورسٹی سے فراغت کی ضرورت نہیں بلکہ جس کو جتنا علم ہے اپنے علم اور جانکاری کےمطابق دوسروں کو دین سےآگاہ کرنا، غیر مسلموں کو مذہب اسلام کو باتوں سے واقف کرانا اور منشا ئے خدا وندی کے مطابق نظام کو جاری کرنے کی کوشش کرنا ہرشخص کا فریضہ ہے۔ گویا دو طرح کی ذمہ داریاں ہیں : ایک اصلاح اور دوسرے تبلیغ ۔ اصلاح کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ وہ لوگ جو کلمۂ پڑھ کر بھی خدا سے دورہیں ان کو خدا کےقریب لانا، برائیوں اور بے حیائیوں سے ان کے ایمان کو بچانا، یہ اصلاح کہلاتا ہے اور غیر مسلم افراد جو اسلام کی خصوصیات اور اس کے متعلق ضروری باتوں سےبھی ناواقف ہیں، وحدانیت اور رسالت کو نہیں جانتے ہیں ان کو اسلام کے پیغام اور تقاضوں سے باخبر کرنا تبلیغ کہلاتا ہے ۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ اپنی علمی اور مادی صلاحیت کے مطابق دونوں طرح کے فرائض ادا کرتا رہے ورنہ اس ذمہ داری کے بارے میں بھی سوال ہوگا اور اللہ کی گرفت سے نجات نہیں مل سکے گی۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے دینی مدارس کا وجود سب سے بہتر اور سب سے زیادہ مؤثر ہے ۔ یہاں سے ہزاروں افراد نکل رہے ہیں جو کار نبوت کو پڑھتے او رسمجھتے ہیں اور پھر وہ دوسروں تک پہنچ کر عصری اسلوب میں اسلام کے احکام کو پہنچاتے اور اس کی تشریح کرتے ہیں۔ بدلتےہوئے حالات میں جدید مسائل کا حل ان کا اہم فریضہ ہے جسے بحسن و خوبی وہ انجام دےرہے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ آج دین اپنی شناخت کے ساتھ جو باقی ہے اور ہر طرف دینی شعور و آگہی پائی جاتی ہے تو ان ہی دینی مدارس کی برکت اور علماء کی خدمت کے سبب ہے۔مسلمانوں کو ایسے علماء کی ضرورت ہے جو ان کو قرآن و سنت کی روشنی میں صحیح مسئلہ بتاسکیں اور ان کی صحیح رہبری اور رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکیں اس لئے مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی طور پر ان مدارس کا بھر پور تعاون کریں اور ان کی جڑوں کو مضبوط کریں تاکہ یہاں کام کرنے والے ہر طرح کے مسائل سے نجات پا کر بے فکری سے دین کی خدمت انجام دے سکیں۔
5 جولائی، 2013 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/teachings-quran-responsibility-muslim-community/d/12798