New Age Islam
Sat Mar 25 2023, 01:32 PM

Urdu Section ( 30 May 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Islam And The Rights Of The Disabled معذوروں کے حقوق تعلیمات اسلام کی روشنی میں

 

مفتی مکرم محی الدین قاسمی

17 مئی، 2013

انسانی معاشرےکا وہ حصہ جسےمادہ پرستی کے اس دور میں نظر انداز کردیا گیا ہے معذور کے عنوان سے جاناجا تا ہے ، سماج کے اس طبقہ  میں وہ افراد شامل  سمجھے جاتے ہیں، جو رفتار زمانہ اور زندگی  کی دوڑ میں اپنی  طبعی دائمی اور پیدائشی  مجبوریوں کی بناء پر پیچھے رہ گئے ہوں، بینائی شنوائی  سے محروم، بے دست و پا دماغی طور پر مفلوج ،دائمی روگ میں مبتلا  افراد عام طور پر اس میں داخل مانے جاتے ہیں ۔

یوں تو دنیا بھر میں ان کے تعلق  سے ہمدردی کی لہر چل  پڑی ہے ، ایک عالمی ادارہ  باقاعدہ طور پر ان کا نگراں  سمجھا جاتا ہے، تا ہم یہ حقیقت  ہے کہ سماج کا یہ طبقہ جس قدر ہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، فی  الحال عملی طور پر محرومی کے شکوہ سے دوچار ہے، ان حضرات کا قضیہ وقتی عبوری اقدامات سے حل نہیں  ہوجاتا ، ان کے مستقل  حل کے لئے مضبو ط حکمت عملی اور بڑے دیر پا اقدامات نا گزیر  ہیں، ویسے تو معذوروں کے تعلق  سے جذبۂ تر حم انسانی فطرت  کا تقاضا او رلازمہ  ہے لیکن اسلام نے اس جذبہ  کو صحیح رخ دیا ہے ۔ معذوروں کے مختلف  حقوق  و مراعات وضاحت  کے ساتھ بیان کئے ہیں، قانونِ اسلامی  کا ایک معتدبہ حصہ ان کے حقوق سے متعلق  مختص  کردیا گیا ہے، ذیل میں اسلامی نقطۂ نظر سے معذوروں کے معاشی ، معاشرتی ، مذہبی اور سیاسی و حربی و مراعات پر قدرے تفصیل ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔

معاشی  حقوق و مراعات:

اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح معاشی بار نہیں رکھا ہے او رکسبِ معاشی الجھنوں سے انہیں آزاد رکھا ہے۔ وہ تمام قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ  جن میں کمزوروں او ربے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر اتفاق  کی تلقین  کی گئی ہے، معذور بھی  ان کے مفہوم  میں داخل ہیں۔ کتب فقہ میں نفقہ  أقارب کے عنوان سے جو تفصیلات موجود ہیں  ان کا حاصل  بھی یہی ہے کہ ان معذوروں کے معاش و زیست میں تعاون ہو۔ علامہ کاسانی نفقہ  أقارب کے وجوب (بعض رشتہ داروں کے نفقہ  کا بعض رشتہ داروں پر وجوب) کی ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی شرط کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘‘ خاندان کے کچھ مفلس  رشتہ دار ، اپاہج و لاچار ہوں یا معذور و مفلوج  ہوں یا جنون و اندھے پن کا شکار ہوں  ، دست و با برید ہ یا شل  زدہ  ہوں تو ان کا نفقہ  معہود ترتیب فقہی  کے اعتبار سے خاندان کے دیگر صحیح  الاعضاء  متمول  رشتہ داروں پر واجب ہوتا ہے’’۔ ( بدائع الصنائع : 4؍446)

معذوروں کے حقوق کی یہ رعایت خاندانی سطح سے تھی ۔ اسلامی دور ِ درخشاں  میں حکومتی  سطح پر معذوروں کی نگرانی اور دیکھ بھال کا جو نظم تھا وہ حد درجہ  بے مثال اور قابلِ رشک تھا ۔

علامہ شبلی نعمانی الفاروق میں لکھتے ہیں :

‘‘ ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ  کے زمانے میں ) عام  حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج ، از کارِ رفتہ  ، مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں ، لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی، بلا تخصیص  مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزے مقرر کردیئے جائیں ۔’’ ( الفاروق : 2؍ 197،196)۔

غرض حکومتی سطح پر جو معاشی  مراعات مسلم معذوروں کو حاصل تھیں ، پوری رواداری کے ساتھ غیر مسلم معذوروں  رعایا بھی اس سے نفع اندوز ہوتی تھی ، ایک او رمقام پر علامہ  موصوف رقمطراز ہیں:

‘‘ یہ جو قاعدہ تھا او رمحنت ومزدوری سےمعاش نہیں پیدا کرسکتا تھا ، بیت المال  سے اس کا وظیفہ  مقرر ہوجاتا تھا ، اس قسم کی بلکہ  اس سے زیادہ فیاضانہ ،رعایت ذمیوں  کے ساتھ بھی مرعی تھی۔’’ (الفاروق : 2؍ 157)

سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتے ہیں :

‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ  نے ایک بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریافت کرنے پرمعلوم ہوا کہ وہ یہودی  ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس سے پوچھا: تمہیں  کس چیز نے اس حالت تک پہنچایا ؟ اس نے جواب دیا: جزیہ ، ضرورت اور بڑھاپا ،عمر رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اتنا کچھ دیا جو اس وقت کی ضروریات  کے لئے کافی تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے بیت المال  کے خزانچی  کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے  دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو، خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہیں  کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں او ربڑھاپے  میں اسے دھتکا ر دیں .... آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیا ۔ جب  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دمشق  کا سفر کیا تو ایک ایسی بستی سے گزرے جہاں کچھ جذام کے مریض عیسائی بستے  تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کو زکوٰۃ کی مد سے امداد دی جائے اور ان کیلئے راشن جاری  کئے جائیں۔’’ ( العدالۃ الاجتماعیۃ  فی  الاسلام اردو :378)

ایک صحابی رضی اللہ عنہ جن کی بینائی میں نقص تھااورکچھ ذہن بھی  متاثر تھا وہ خرید وفروخت  میں  اکثر دھوکا  کھاجاتے تھے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان جیسے  افراد کی خاطر ،خرید فروخت میں خیار  شرط مشروع فرمایا ، جس کی رو سے بیچنے  والے یا خریدنے والے  کو بیع  کی  قطعیت کے لئے تین دن  کی مہلت  مل جاتی ہے۔ ( ملاخطہ ہو : تکمہ فتح  العلھم :1؍382،378)

معاشرتی  حقوق و مراعات :

اسلام نے معذور  افراد کو الگ تھلگ  کسمپرسی  کی زندگی گزارنے کےبجائےاجتماعی معاشرت کا حوصلہ دیا، ان کےمقام ومرتبہ  کےمناسب  معاشرتی کام بھی تفویض  کئے ، احساس  کمتری  اور معاشرتی سرد مہری  کا شکار بننے  سے ان کو تحفظ  فراہم کیا۔ عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ  عنہ  ایک نابینا  صحابی رضی اللہ عنہ تھے ایک دفعہ  وہ بغرضِ دریافت مسئلہ بارگاہ ٔ اقدس میں ایک ایسے  وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اعیانِ قریش  سے اسلام پر گفتگو فرمارہے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ بے وقت سوال پوچھنا نا گوار گزرا ، بس اتنا ہونا تھا کہ سورۂ عبس کا نزول ہوا ، جس میں رویہ میں تبدیلی کا حکم دیا گیا ۔ روایات میں ہے کہ  اس کے بعد جب وہ نابینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی  خدمت میں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرماتے : ‘‘ خوش آمدید اے وہ ساتھی جس کے بارےمیں پروردگار نے مجھ پر متنبہ فرمایا۔’’

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ احد کے لئے روانہ  ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا بن ام مکتوم کو اپنا نائب فرمایا ( السیر ۃ النبویۃ لابن ہشام : 3؍17) غور کیجئےکتنا بڑا منصب  ایک نا بینا شخصیت  کے سپرد کیا جارہا ہے۔

مذہبی حقوق و مراعات :

بہت سی وہ عبادات جو جسمانی تعب و مشقت کی متقاضی  ہیں، اسلام نے معذورحضرات کو یا تو ان سے  با لکلیہ مستثنیٰ  رکھا ہے یا پھر ان کا متبادل تجویز کیا ہے۔ جمعہ و جماعت  کی لازمی حاضری سے معذور حضرات مستثنیٰ ہیں، مالدار ہوں مگر اپاہج  والا چار ہوں توعبادت  حج میں ، حج بدل  اورروزہ میں فدیہ کی شکل رکھی گئی ہے، جہادجیسی  عظیم عبادت سے بھی یہ حضرات مستثنیٰ رکھےگئے  ہیں ۔ ارشاد باری  ہے : اندھے پرکوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی  حرج  ہے اور نہ بیمار  پر کوئی حرج ہے ( سورۂ فتح : 17)تشریحی نوٹ ملا حظہ ہو:بصارت سےمحرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سےچلنے پھرنے سے معذوری ہے یہ دونوں  عذر تو لازمی ہیں ، ان اصحاب عذر یا ان جیسے دیگر معذوروں کو جہاد  سے مستثنیٰ کردیا گیا، حد تو یہ ہے کہ یہ معذور حضرات جو اپنی معذوری کے سبب جہاد سے پیچھے رہ گئے  ان کے لیے بھی مجاہدین کے برابر اجر وثواب کا وعدہ گھر بیٹھے حاصل ہے۔

غزۂ تبوک کےموقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذوروں کے بارےمیں  جہاد میں شریک  لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے  پرچلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر  کے شریک ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے پوچھا  یہ کیوں  کر ہوسکتا  ہے جب کہ وہ مدینہ میں بیٹھے  ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جسھم العذر  عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے ( بخاری شریف: کتاب الجہاد )

سیاسی و حربی حقوق او رمراعات:

اسلام سے قبل جنگ میں مقا تلین اور غیرمقاتلین کے درمیان کوئی امتیاز  نہ تھا، دشمن قوم کے ہر فرد کو دشمن سمجھا جاتا تھا اور اعمال  جنگ کا دائرہ  تمام طبقوں  اور جماعتوں  پریکساں محیط  تھا، عورتیں ، بچے ، بوڑھے ،بیمار ،زخمی کوئی بھی اس ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ تھا ( الجہادفی الاسلام :198) اسلام نے اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز یہ کی کہ محاربین ( Belligerents) کو دو طبقوں میں تقسیم کردیا، ایک اہل قتال (Combatants) دوسرے غیر اہل قتال (Non-Combatants) اہل قتال وہ ہیں  جو عملاً جنگ میں  حصہ لیتے ہیں یا عقلاً و عرفاً حصہ لینے  کی قدرت رکھتے ہیں یعنی جوان مرد اور غیر اہل قتال  وہ ہیں جو عقلاً و عرفاً جنگ  میں حصہ نہیں لے سکتے یا عموماً نہیں لیا کرتے مثلاً  عورتیں  ، بچے ، بوڑھے ،بیمار ،زخمی  ، اندھے ، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیاح ، خانقاہ نشین زاہد، معبدوں اور مندروں  کے مجاہد اور ایسے  ہی دوسرے  بے ضرر لوگ  اسلام نے طبقہ ٔ اوّل  کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور طبقۂ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کرد یا ہے ۔ ( الجہاد فی الا سلام : 223)

آج معذوروں کے حقوق  کے علمبردار اوردعویدار  طاقتیں  اپنی طاقت کے نشہ میں نہ صرف معذوروں سمیت بستی کی بستی  او رملک کے ملک  اجاڑ رہی ہیں بلکہ ہلاکت خیز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعہ، نسلوں، معذوروں کی افزائش و آبادی  میں اضافہ  کا سامان بہم پہنچارہی  ہیں، ناطقہ  سربہ گریباں  اور خرد معرکۂ حیرت بنی ہوئی ہےکہ ان  کے قول و عمل  کے اس تفاوت و تضاد  کی آخر کیا توجیہ  کی جائے ۔

اس کائنات ارضی  و سماوی میں اسلام  ہی وہ واحد مذہب  ہے جس  کی تعلیمات  و ہدایات  تضاد و نفاق کےجراثیم  سےمطلق پاک ہیں اور اسلام ہی روئے زمین پر وہ اکیلا  مذہب ہے جو معذوروں  سمیت پوری انسانیت  کا مسیحا  ہے ،البتہ  شرط اس نظام کواپنانے اور برتنے کی ہے۔

17 مئی ، 2013  بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/islam-rights-disabled-/d/11822

 

Loading..

Loading..