مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
2اگست،2019
قربانی: بظاہر ایک چھوٹا سا لفظ ہے، کثیر الاستعمال ہے، خواہی نخواہی ہر طبقے میں یہ لفظ اتنی کثرت سے بولا جاتا ہے کہ اس کے معنی مفہوم کو ہر آدمی سمجھتا ہے او راس کی تفہیم کے لئے لغت اور ڈکشنری الٹنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔ منطق کی اصطلاح کاسہارا لیں تو یہ بد یہی ہے یعنی جس کے معنی کو سمجھنے کے لئے غور و فکر اور ذہنی جمناا سٹک کی ضرورت نہیں ہے۔تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو انسانی اخلاق واقدار، تعمیر سیرت و کردار اور قوموں کے عروج وزوال میں قربانی کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے۔ اپنی ہی زندگی کاجائزہ لیں تو معلوم ہوگا والدین کے بے پناہ قربانیوں کے طفیل ہی ہم اس روئے زمین پر چلنے پھرنے اور زندگی گذارنے کے لائق ہوئے، جاڑے کی یخ بستہ راتوں میں ماؤں نے حفاظت نہ کی ہوتی، اپنی نیند کو حرام نہیں کیا ہوتا۔ خود بھیگے بستر پر سو کر ہمارے لیے خشک بستر فراہم نہیں کیا ہوتا تو ہم کب کے مر کھپ گئے ہوتے۔ والد نے اپنی معاشی پریشانیوں کے باوجود اپنی ضرورتوں کی قربانی دیکر ہمارے لیے آرام و آسائش،تعلیم و تدریس کی راہ ہموار نہ کی ہوتی تو ہم مہذب سماج میں زندگی گذارنے کے اہل نہیں ہوتے۔ یہ ذاتی قربانی ہے جو ہر شخص اپنے بال بچوں کے لیے دینے کو تیار رہتاہے، تھوڑا آگے بڑھیں، آپ کی ایک فکر ہے، ایک موقف ہے، ایک تحریک ہے، جس کا درست ہونا، حق ہونا برسوں کے تجربات سے یا وحی الہٰی سے ثابت شدہ ہے، لیکن آپ کے خاندان والے، گھرو الے اعزو اقربا اس تحریک کے خلاف ہیں، نہ صرف خلاف ہیں بلکہ آپ کا جینا دو بھر کیے دے رہے ہیں، ساتھ دینا تو بڑی بات ہے، وہ آپ کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں، ایسے میں اس موقف کو ثابت کرنے اور تحریک کو کامیاب کرنے کے لیے آپ کو اپناگھر بار چھوڑنا پڑتاہے۔خاندان سے دوری اختیار کرنی پڑتی ہے، یہ بھی قربانی ہی کی ایک قسم ہے۔ آپ جس تحریک کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، وہ آپ سے ہر قسم کی قربانی کا طالب ہے۔ جان بھی، مال بھی اور وقت بھی، آپ نے جہاں نعرہ ئ حق بلند کیا، خطرات سر پر منڈلانے لگے جس میں جان بھی جا سکتی ہے۔
اگر آپ ہر قسم کی قربانی سے دامن بچا کر تحریک کو کامیاب کرنا چاہتے ہیں تویہ اس دنیامیں ممکن نہیں ہے۔ تاریخ میں ایک جلیل القدر نبی کا نام آتا ہے، جنہوں نے روئے زمین پر خدائے واحد کی پرستش کانعرہ بلند کیا اور بتایا کہ عبادت کے لائق صرف اللہ رب العزت ہے۔ اسی کی بندگی کرنی چاہئے، اس کی پاداش میں انہیں اپنا گھر، بلکہ اپنا ملک تک بھی چھوڑنا پڑا، اتناہی نہیں بادشاہ وقت نے دہکتی آگ میں ڈال دیا کہ معاملہ ختم ہوجائے لیکن عزم کے پکے اس انسان نے ساری قربانی دے کر اپنی تحریک کو زندہ رکھا۔ بڑی آرزوؤں اور تمناؤں کے بعد بڑھاپے میں ایک لڑکاہوا تھا، جب وہ کاموں میں ہاتھ بٹانے کے قابل ہوا توحکم ہوا کہ اس کی قربانی دو، بچہ بھی بڑا حلیم تھا، بردبار تھا، جس گھر میں پلا بڑھا تھاوہاں اس نے والدین کی قربانی دیکھی تھی، اچھا خاصہ گھر چھوڑ کر وادی غیر ذی ذرع یعنی بنجر زمین میں بودوباش اختیار کرنا پڑا تھا۔ مزاج قربانی کا بنا ہوا تھا،باپ نے ذکر کیا، بیٹے نے سر تسلیم خم کردیا، نہ صرف خم کیا، بلکہ ترکیب بتائی کہ مجھے اوندھے منہ لٹا ئیے، کہیں ایسا نہ ہو آپ کی شفقت پدری جوش میں آئے او رآپ قربانی سے رک جائیں، کس کی قربانی؟ بیٹے کی قربانی، پھر چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ بوڑھا باپ اپنے ہاتھوں بڑھاپے کے سہارا کو رسی سے باندھ دیتا ہے، چہرے کے بل لیٹا دیتا ہے، چھری حلق پر چلانا چاہتا ہے کہ قربانی قبول ہوجاتی ہے، خواب سچا ہو جاتا ہے ابتلا ء و آزمائش کی گھڑی ختم ہوتی ہے اور مینڈھا اس قربانی کے بدلے میں قبول کرلیا جاتا ہے، کیسا رہا ہوگا وہ سماں، کیسی ہلچل عرش و فرش پر مچی ہوگی، دل بیتاب کتنا تڑپا ہوگا، آپ سب جانتے ہیں کہ قربانی کا ایسا نمونہ کسی او رنے اس روئے زمین پر کا ہے کو پیش کیا ہوگا، اس کامل انسان کی قربانی کی یادگار آج تک قائم ہے، یہ بتانے کے لئے ہم سب کو ملک وملت کی فلاح وبہبود کی غرض سے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
قربانی کایہ ذوق صرف ذاتی نہ ہو، بلکہ اجتماعی طور پر یہ مزاج پروان چڑھے،ہر آدمی اپنی جان و مال کو اجتماعی کاموں کے لیے قربان کرے اس کے لئے علامتی طور پر جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے، جانور کی قربانی میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور محبت کے وہ جذبات بھی جو جانوروں سے فطری محبت وانسیت اور ان کی نگہداشت سے انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔اسی لیے اسلام میں مال خرچ کرنے کے ساتھ قربانی کا طریقہ بھی بتایا گیا، تاکہ انسان کا مزاج جانور کی قربانی کے ذریعہ اپنی قربانی تک پہنچ جائے۔ اس لیے بعض دانشور وں کی جانب سے جو یہ تجویز آتی رہتی ہے کہ جانور کی قربانی کے بجائے اس کا م پر خرچ کی جانے والی رقم کو فلاحی کاموں میں لگا دیا جائے، غریب بچیوں کی شادی کرادی جائے، یہ تجویز قربانی کے فلسفہ سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔ خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام میں ذریعہ او رمقصد دونوں کی اہمیت ہے او رجو طریقہ قربانی کا بتایا گیا، اسی طریقے سے قربانی ہوگی تو انسانوں میں وقت پڑنے پر جان کی قربانی کا حوصلہ او رجذبہ پیدا ہوگا، پھر یہ معاملہ ذاتی نہیں رکھا گیا کہ ہر آدمی اپنی سہولت سے جب چاہے قربانی کر لے اور جس تاریخ میں چاہئے، جانور کو ذبح کر دے، ایسا کرنے سے قربانی کا صرف انفرادی جذبہ پیدا ہوگا، جب کہ مطلوب یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کامزاج پیدا کیا جائے، اس کے لئے چند ایام مقرر کیے گئے، تاکہ ان ایام میں ہی قربانی دی جائے اور اعلان کردیا جائے کہ میری نماز یں، میری قربانی اور میری حیات وموت سب خالق کائنات ہی کے لیے ہے۔ اس کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی گزانی ہے،چاہے اس کے نتیجے میں ذاتی مفادات خواہشات، امیدیں اور توقعات سے دستبردار ہی کیوں نہ ہونا پڑے۔
جانور جب ذبح ہوجاتا ہے تو اس کی آنکھیں عمو ماً کھلی رہتی ہے او رہم سے پوچھتی ہیں کہ میں نے تمہارے اندر قربانی کے صفات پیدا کرنے کے لیے اپنی جان دیدی،لیکن تم نے اپنی خواہشات کی قربانی دی یا نہیں اگر میری جان کے جانے سے تمہارے اندر قربانی کا جذبہ پیدا ہو گیا اور تم خود غرضی اور ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ گئے اورتم نے ملک و ملت کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے کاعز م کر لیا ہے، تو مجھے اپنی جان کے جانے کا غم نہیں۔ ہمیشہ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے قربانی دینی ہوتی ہے اور ہم نے قربانی دیدی۔ ہم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اور گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ کیا واقعی جانور کی کھلی آنکھوں کا جواب دینے کی پوزیشن میں ہم ہیں۔ اگر نہیں تو ہمیں یادر کھنا چاہیے کہ اللہ کے یہاں نہ تو جانور کا گوشت پہنچتا ہے او رنہ خون، اصل دل کی وہ کیفیت پہنچتی ہے، جسے تقویٰ کہا جاتا ہے،اور تقویٰ وہ ’ماسٹرکی‘ اور شاہ کلید ہے، جس سے قربانی کے دروازے کھلتے ہیں او رہماری سوچ، ہمارا عمل، زندگی گذارنے کا طریقہ، معاشرت، معیشت سبھی کچھ بدل جاتا ہے، او رہم سماج کے لیے، ملک کے لیے، ملت کے لیے، مفید سے مفید تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔
2اگست،2019، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sacrifice-qurbani-desirable-believers-sacrifice/d/119364
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism