مفتی محمد ثناء اللہ قاسمی
4 اکتوبر، 2014
اس وقت پوری دنیا کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، وہ امن و سکون ہے، اس امن و سکون کی تلاش میں دنیا سر گرداں او رپریشان ہے، غاصب ، ظالم اور جابر حکمراں بھی ملکوں کو تاراج کرنے کےلئے قیام امن ہی کانعرہ لگاتے ہیں ، خواہ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں کتنی ہی بدامنی ، دہشت گردی اور ظلم و ستم کا بازار کیوں نہ گرم ہو، باتیں امن کی ہی کرتے رہیں گے، موٹو امن کا ہی استعمال کریں گے، سلوگن امن و شانتی ہی ہوگا، لیکن پوری دنیا اس بات کو اچھی طرح جانتی ہے کہ یہ زمینوں اور اس کے وسائل کو ہڑپ کرنے کی جد وجہد ہے، اس کا امن و سکون شانتی اور چین سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ پھرکیا کچھ کرناچاہئے؟ بین المذاہب مکالمات ( انٹر فیتھ ڈائیلاگ) کو سمجھاجارہا ہے کہ ہر مذہب کے لوگ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایسی فضا بنائیں کہ لوگوں کے درمیان صبر و تحمل اور قوت برداشتPesens)) پیدا ہو، اور ہمدردی و رواداری کے ساتھ مل جل کر زندگی گذار نا ممکن ہوسکے ۔ جہاں تک اس موضوع کاتعلق ہے ، ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ بین المذاہب ڈائیلاگ نہیں ہیں، بلکہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مکالمہ ہے، اس لئے کہ مذاہب کی تکمیل تو انبیاء و رسل کے عہد میں ہوچکی ، اور اس کا آخری ایڈیشن ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور اللہ نے اعلان کردیا کہ آج تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کردیا گیا اور میری نعمت تمام کو پہنچی اور تمہارے لئے دین اسلام پر راضی ہوا ۔
اب جب دین کی تکمیل ہوگئی تو ہم ان مکالمات کے نتیجے میں اس میں کچھ داخل نہیں کرسکتے اور نہ ہی ا س میں سے کچھ کم کرسکتے ہیں ۔ اس لیے بین المذاہب مکالمات کے ذریعہ ان میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اسی طرح ان مکالمات کےذریعہ مختلف مذاہب کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کو جوڑ کر اور دیگر متعقدات کو چھوڑ کرکوئی نیا دینی اور مذہبی اصول بھی نہیں بنایا جاسکتا ۔ ان مکالمات کا حاصل صرف یہ ہے کہ ہم آپس کےمعاملات و تعلقات کو باہمی گفت و شنید کے ذریعہ عدل و انصاف کے ساتھ حل کر سکیں ۔ اسلام کا اول دین سے داعی رہا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مذاہب کے ماننےوالوں کے ساتھ مکالمہ کے بعد معاہدہ بھی کیا، مکی زندگی میں حلف الفضول ایک معاہدہ ہی تھا کہ ہم کسی پر ظلم نہیں ہونے دیں گے، مشرکین مکہ کے ساتھ صلح حدیبیہ لمبی گفت و شنید اور بین المذاہب مکالمہ کے بعد بقاء باہم کے لیے ایک معاہدہ ہی تھا، مدینہ میں یہود کے مختلف قبائل بنو نظیر ، بنو قریضہ اور بنی قنیقاع کے ساتھ آپ نے مکالمہ کیا اور پھر ‘‘میثاق مدینہ ’’ جیسا تاریخی معاہدہ وجود میں آیا ۔ یہ مکالمے او رمعاہدے ہمیں بتاتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں سے مکالمہ کرتے رہنا چاہے، تاکہ ایک ساتھ مل جل کر رہنے کی فضا ہموار ہو، البتہ یہ مکالمے شہری حقوق، امن اور مذہبی آزادی تک محدود رہنے چاہئے ، آسمانی مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ڈائیلاگ او رمکالمے کی بنیاد آسمانی تعلیمات اور مذاہب کے مابین قدر مشترک چیزیں ہوں گی، قرآن کریم میں ہے کہ اے اہل کتاب اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے تمہارے درمیان مشترک ہے۔
ہم اللہ کے سواکسی کی عبادت نہ کریں اور نہ اس کے ساتھ شریک ٹھہرائیں او رنہ ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب بنائے ( سورہ عمران 64) قرآن کریم میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے حکم دیا گیا کہ اللہ کے علاوہ لوگ جن چیزوں کی پوجا کرتے ہیں، ان کو بھی برا بھلا نہ کہو، گالیاں مت دو، کیونکہ اس کے نیتجے میں وہ بغیر جانے بوجھے اللہ کو گالیا ں دینے لگیں گے۔ ( سورۃ انعام :108)نتیجہ مذہبی تصادم اور فرقہ وارانہ منافرت تک پہنچ جائے گا، اس لیے اس سے بچو تاکہ ملک کی فضا میں تناؤ نہ پیدا ہو اور جھگڑے کی داغ بیل نہ پڑے۔ مسلمانوں کی جانب سے اس کا امکان ہمیشہ اس لیے کم رہا ہے کہ قرآن کریم نے بار بار تمام انبیاء کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا اور ان کی نبوت و رسالت اور ان پر بھیجی گئی کتابیں اور صحیفے کو مسلمان کے ایمان کا جز بنا دیا ، اور بار بار اس کی تاکید کی گئی کہ ان انبیاء اور کتابوں پر بھی ایمان رکھنا تمہارے لئے ضروری ہے، قرآن کریم میں کم از کم سولہ آیتیں ایسی ہیں جن میں سابق آسمانی کتابوں کی تصدیق کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ کتاب ( قرآن) جو حق کے ساتھ نازل کی گئی تصدیق کرتی ہے ان کتابوں کی بھی جو پہلے نازل ہوئیں ۔ ( مائدہ :48) اس پس منظر میں دیکھیں تو تمام انبیاء کرام ، ان کا لایا ہوا دین اور ان پر نازل کی گئی کتابیں سب مسلمانوں کے متعقدات، دینی افکار اور شرعی مطالبات کا حصہ ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ یروشلم پرجب تک مسلمانوں کی حکومت رہی، یہودی اور عیسائیوں کے مقدس مقامات اور ان کی دینی آزادی کو تحفظ حاصل رہا ، اسپین پر مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی، لیکن وہاں کےدیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی آزادی اور ان کے حقوق کی رعایت تاریخ کے صفحات میں زریں انداز میں مرقوم ہیں ، سلطنت عثمانیہ نے اپنے طویل دور حکومت میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ مثالی سلوک کیا اور اسپین سے خارج یہودیوں کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ آج دنیا اسلام کی اس مذہبی رواداری اور آزادی کو بھول چکی ہے، مکالمات اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ ہو رہے ہیں، تشدد کے سد باب کی بات کی جارہی ہیں ۔ لیکن مختلف مذاہب کے نام لیواؤں نے مسلمانوں پرجو قہر برما، غزہ، عراق، فلسطین وغیرہ میں روا رکھا ہے اور جس طرح بچے، بوڑھے، عورتیں، کمزور اور بوڑھوں کا قتل عام ہورہا ہے ، ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو سبوتاز کرنے کیلئے جس طرح نئے نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں اور مختلف ناموں سے مسلمانوں کو خائف اور ہراساں کرنے کی جو مہم چلائی جارہی ہے ایسے میں مسلمانوں کی طرف سے ایک طرفہ عدم تشدد کا عمل کس طرح دیر پا ہوسکتا ہے؟ یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ مذاکرات کی میز پر آنے والے او رمکالمات کی مجلسوں میں شریک ہونے والے تو نن پرابلم گروپ کے لوگ ہوتے ہیں ، پرابلم گروپ جو تشدد میں یقین رکھتا ہے ،مکالمہ کے میز پر آنے اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا۔ آج روایت یہ بن گئی ہے کہ طاقتور ہمیشہ تشدد پر آمادہ رہتا ہے اور کمزور مکالمہ کی میز پر ۔ اگر ہم اپنی عدم تشدد کی آواز اور مذہبی رواداری کا پیغام ان حکمرانوں تک پہنچا سکے، جن کے نزدیک طاقت کا استعمال ان کی سوپر میسی کی برقراری کے لیے ضروری ہے تو شاید انٹر فیتھ ڈائیلاگ کچھ دور رس نتائج کے حامل ہو سکیں گے۔ لیکن جن کا شیوہ اور طریقہ ہر جائز کاموں کے خلاف ویٹو استعمال کرنے کا رہا ہے ، وہ کب ا س قسم کی تجویز کو گوارہ کریں گے۔
میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ دنیا نے یہ مان لیا ہے کہ دنیا میں امن و سکون کی پامالی کا سبب مذہب ہے ، اس لیے اس کی بحالی کے لیے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو ایک میز پر جمع کرلیا جاتا ہے لیکن یہ حقیقت اور واقعہ کے خلاف ہے، دنیا کی دو بڑی جنگیں ، ہندوستان میں گورو پانڈو کی لڑائی ، مغلیہ دور حکومت میں مسلم حکمراں اور نوابوں کے درمیان کی لڑائیاں الگ الگ مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نہیں تھیں، لیکن ہم مذہب ہونے کے باوجود ان لڑائیوں نے جو بربادی کی داستان رقم کی وہ تاریخ کا المناک باب ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تہذیبی اور مذہبی تصادم ہمیشہ حکمرانوں کے بنائے ہوئے اصول اور ان کی منشا سے پیدا ہوتے ہیں، ان کے اپنے تحفظات اپنے حلقۂ اثر کو وسعت دینے کے منصوبے اور اپنے مفادات کے لئے کسی حد تک چلے جانے کے عزم نے ہی دنیا میں بد امنی پیدا کر رکھی ہے، ایک بار ان کو مکالمات و مذاکرات کی میز پر لا بیٹھا ئیے پھر دیکھئے کس طرح امن کی فضا قائم ہوتی ہے۔حکومت کی ان پالیسوں کے طفیل ہی عوام میں جذباتیت ، جوش اور جائز و ناجائز کی تمیز کے بغیر قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا ہے، اور حکمراں طبقے کی شہہ پاکر ایسا بے قابو ہوجاتا ہے کہ مذہب کی ساری تعلیمات دھری کی دھری رہ جاتی ہے، مراقبہ، یوگ اور مختلف ذریعوں سےجذبات پر قابو پانے کی جو مشق ہوتی ہے وہ ریت کے ٹیلو ں کی طرح ڈھہ جاتی ہے، ان حالات میں اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلی عاجز آتی ہے تو کتے پر بھی جھپٹ پڑتی ہے ،بلی کا جھپٹنا دنیا کو یاد رہتا ہے، لیکن کتے نے جو ظلم اس پر کیا ہے، اس کی طرف کسی کا ذہن منتقل نہیں ہوتا ۔اس لئے ان مکالمات کے ذریعہ ہمیں ایک ایسے سماج کی تشکیل کے لیے سوچنا چاہئے، جس میں حکمراں طبقوں کی بھی عدم تشدد اور رواداری کے اصولوں کا پابند بنایا جاسکتا ہو، جب تک طاقتور ظلم کرتا رہے گا، عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں گی، ان مکالمات سے امن و آشتی کا قیام عمل میں نہیں آسکتا۔
4 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/a-dialogue-interfaith-dialogue-/d/99371