مولانا مفتی عطا ء الرحمٰن قاسمی
2 جولائی، 2013
تقسیم ہند سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں میں پنجاب ، ہریانہ، ہماچل پردیش او ر چندی گڑھ تھے ۔ 1947 میں یہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی اور خوشحالی آبادی تھی جو حکومت پر اثر انداز ہوا کرتی تھی ۔ 1947 کی قیامت صغری میں گاندھی جی، مولانا آزاد ، مولانا حفظ الرحمٰن سیو ہاروی ،مولانا لقا ء اللہ عثمانی ، مولانا حبیب الرحمٰن ، خان عبدالغفار خان انبالوی، پنجاب و ہریانہ کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے اکھڑتے اور ڈگمگاتے ہوئے قدم جمانے کے لئے کوشاں تھے لیکن حالات اتنے خراب ہوچکے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانان پنجاب و ہر یانہ ، ہماچل پردیش اور چنڈی گڑھ یا تو پاکستان منتقل ہوگئےیا شہید کردیئے گئے۔
لدھیانہ میں صرف مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانوی کا خاندان بچا جس نے کسی طرح دلی میں پناہ لے لیا، انبالہ میں خان عبد الغفار خان انبالوی اور پانی پت میں مولانا لقا ء اللہ عثمانی مرحوم تن تنہا رہ گئے تھے ۔ حالانکہ ان کا بھی خاندان پاکستان جا چکا تھا۔
مولانا آزاد کو پنجاب کی تباہی و بربادی خاص طور پر پانی پت کے اجڑنے و لٹنے کا بڑا قلق تھا۔ بار بار فرماتے تھے کہ آہ ہمارا پانی پت بھی لٹ گیا چونکہ صدیوں سے پانی پت تجویز و قراءت کا مرکز تھا جہاں قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیر مظہری لکھی تھی جس کا شہرہ آج پوری دنیا میں ہے۔ 1947 کے خوف ناک حالات کے بعد ملی قائدین متفکر تھے کہ ان ریاستوں کی وقف آراضی کے تحفظ و بقاء کی کیا صورت ہوگی اور ان اوقاف کے متولی کون ہونگے۔الحمد اللہ 1947 کے بعد مولانا آزاد ،مولانا حفظ الرحمٰن ، مولانا لقا ء اللہ عثمانی ،محمد احمد کاظمی ایڈوکیٹ اور خان عبدالغفار خاں کی مساعی جمیلہ سے 1954 میں پارلیمنٹ نے اوقاف کے انتظام و انصرام کے لئے سنٹرل وقف ایکٹ پاس کیا۔ جس کے تحت حکومت پنجاب کی جانب سے پنجاب وقف بورڈ کا قیام عمل میں آیا ۔ پنجاب وقف بورڈ کے قیام کے بعد بورڈ کے سامنے دو اہم مسئلے تھے ۔
ایک تومشترکہ مشرقی پنجاب کے اوقاف کا ریکارڈ محکمہ کسٹوڈین سے حاصل ہوا تھا جو غیر مکمل و ناقص تھااور بورڈ کو اوقاف کاریکارڈ سپر دکر نے کے باوجود بہت سےاوقاف پر کسٹوڈین کا دعویٰ علیٰ حالہ باقی تھا۔ جس کے لئے سروے کا نظم کرنا ضروری تھا ۔ دوسرامسئلہ یہ تھاکہ وہ تمام مسجدیں ، درگاہیں ، خانقاہیں ،امام باڑے اور شاہی وعوامی وقف جائدادیں خواہ کسی بھی صورت میں پنجاب وقف بو رڈ کی تولیت و تحویل میں تھیں۔ ان میں اچھی خاصی وقف اراضی بھی تھیں ۔ ان کے استعمال کاکیا طریقہ کار ہواور ان کا کیا مصروف ہو۔ اس وقت کے اکابر امت ،اصحاب قانون اور بورڈ کےذمہ داران کے درمیان یہ سنگین مسئلہ زیر غور تھاکہ ان اوقاف کو پنجاب وقف بورڈ کی تولیت وملکیت برقرار رکھتے ہوئے ان کو کس طرح لائق کاشت و لائق استعمال بنایا جاسکے ۔ جس سے وقف کامقصد بھی حاصل ہو اور وقف کا شرعی وقانونی تحفظ و بقا بھی ہو جائے ۔ چنانچہ بڑے غور و خوض کے بعد اور تمام تر شرعی پہلوؤں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پنجاب وقف بورڈ نےکچھ ضروری شرائط اور قانونی پابندیوں کے ساتھ لیز اورپٹے پر دینے کی تجویز منظور کی۔ جس کی تعین مدت کے ساتھ فقہا کے یہاں بھی اس کی گنجائش موجود تھی۔ بورڈ کے شرائط اور واضح ہدایات کے خلاف ورزی کی صورت میں لیز کی توسیع روک دی جائے گی اورلیز ختم بھی کی جاسکتی ہے۔
مشترکہ پنجاب وقف بورڈ اپنی ان شرطوں کے ساتھ وقف اراضی کو لیز پر دیتا رہاہے ۔ موجودہ وقف ایکٹ 1995 میں وقف اراضی کو لیز پر دینے پرکوئی پابندی نہیں ہے لیکن وقف ترمیمی بل 2010 میں وقف اراضی کو لیز پر دینے پرپابندی عائد کی گئی ہے۔ اگر مجوزہ وقف ترمیمی بل 2010 میں لیز کو ختم کردیا گیا تو اس کے غیر معمولی برے اثرات تمام اوقاف بالخصوص پنجاب ، ہر یانہ، ہماچل پردیش اور چنڈی گڑھ کے اوقاف پر پڑینگے ۔ خد ا نخواستہ یہ ترمیمی وقف بل جوں کا توں پاس ہو جاتا ہے تو ہزار ہا ایکڑ وقف آراضی پر ان پٹہ داروں او رلیز پر لینے والوں کے ناجائز قبضے ہوجائیں گے ا ور ایک وقت بھی آئے گا کہ وہ اپنے آپ کو ان وقف آراضی کے مالک ہونے کا دعویدار بن بیٹھیں گے اور عدالتوں میں مالکانہ حقوق حاصل کرنے کے لئے مقدمہ دائر کریں گے او رہماری تمام وقف جائدادوں کو متنازعہ بنادیں گے ۔ اس وقف ترمیمی بل 2010 میں سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف وقف زمینوں کو بیچنے کی اجازت دی جارہی ہے اور دوسری طرف لیز کو ختم کیا جارہا ہے ۔
اس بل کا ایک ایسا کمزور پہلو ہے جس کو کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر اس بل میں سیل کی تجویز شامل ہوگئی تو وقف آراضی بغض خدانا ترس متولیان اور وقف بورڈوں کے بعض نا عاقبت اندیش سربراہان و ذمہ داران اسلاف و بزرگان دین کی وقف جائدادوں کوبڑی بے رحمی کے ساتھ فروخت کر ڈالیں گے ۔ مجھے یہ اطلاع ملی ہےکہ موجودہ وقف ترمیمی بل 2010 میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا نام لیا گیا ہے کہ اس کی تجویز پر بل میں فروخت کرنےکی تجویز شامل کی گئی ہے۔
جناب سلمان خورشید صاحب کے دور کے وقف ترمیمی بل 2010 میں بعض نقائص اور بعض قابل اعتراض باتوں کے باوجود اس ترمیمی بل کا سب سے قابل ستائش پہلو یہ تھا کہ انہوں نے وقف کی شرعی تعریف کوبل میں شامل کردیا تھا کہ وقف کونہ فروخت کرسکتے ہیں، نہ ھبہ کرسکتے ہیں اور نہ تحفہ میں دےسکتے ہیں اورنہ اس میں واقف کے منشاء کے خلاف کوئی تصرف کرسکتے ہیں ، یہی موقف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے شائع شدہ کتاب مجموعہ قوانین اسلامی دفعہ (7) میں مرقوم ہے۔
‘‘شی موقوفہ کو فروخت کرنا، رہن رکھنا ، یا اس کے بدلے کسی اور چیز کو رہن میں لینا یا عاریتاً دینا جائز نہیں ہے’’( مجموعہ قوانین اسلامی ) صفحہ 351
سلیکٹ کمیٹی میں وقف ترمیمی بل 2010 کے مختلف پہلوؤں پر مختلف نکات ومضمرات سیرحاصل بحث کی گئی تھی ۔ وقف ترمیمی بل 2010 میں ارکان سلیکٹ کمیٹی کے علاوہ مختلف ملی قائدین اور ماہرین قانون کی سفارشات شامل ہیں۔
میری معلومات کے مطابق وقف اراضی کے سلسلہ میں ارکان سلیکٹ کمیٹی او رملی قائدین کی متفقہ رائے تھی کہ اس بل میں وقف اراضی کو فروخت کرنے کی گنجائش سےبچی کھچی وقف زمین بھی ضائع ہوجائیں گی اور خود اپنے ہی لوگ وقف زمینوں کو کوڑیوں کے مول بیچ ڈالیں گے۔
اسی وقفہ میں جناب سلمان خورشید صاحب کو وزارت تبدیل ہوگئی نئے وزیر موصوف پر مسلم پر سنل لاء بورڈ کے بعض افراد کی طرف سےوقف زمینوں کو فروخت کرنے کی تجویز زور و شور سے پیش کی گئی ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ خود یہ موقف آل انڈیا مسلم پر سنل لاء بورڈ کی دفعہ دار مرتبہ کتاب مجموعہ قوانین اسلامی کی تشریعی دفعہ 7 کے منافی ہے ۔ اور یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا موقف نہیں ہوسکتا ہے بلکہ بورڈ سے منسلک بعض افراد کی رائے تھی ۔ جس کو نئے وزیر موصوف کے سامنے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی تجویز کی حیثیت میں پیش کیا گیا۔
وزیر موصوف نے ان کی ذاتی رائے کو آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کی تجویز سمجھ کر سلیکٹ کمیٹی کی سفارشات اور اپنے پیش رو وزیر کی جامع تجویز کونظر انداز کرتے ہوئے بعض صورتوں میں وقف زمینوں کو فروخت کرنے کی تجویز شامل کردی ۔ نئے وزیر موصوف ایک مخلص انسان ہیں ، ان کا وقف سے تعلق بھی رہا ہے ۔ یہ کیسے ان لوگوں کے فریب تقدس میں آگئے ۔ جن کے اپنے ایجنڈے اور اپنے مقاصد ہیں۔
میں نے پچھلے دنوں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اجلاس اجین میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ایک رکن کی حیثیت سے وقف آراضی کو فروخت کرنےکی تجویز کی مخالفت کی تھی او رکہا تھاکہ مسلم پر سنل لاء بورڈ کی کس میٹنگ میں یہ تجویز منظو رہوئی ہے تو اجلاس مسلم پرسنل لاء بورڈ میں موجود صدر بورڈ، نائبین صدور جنرل سیکریٹریز اور ارکان بورڈ نے خاموشی اختیار کرلی تھی اور بورڈ کی طرف سےکہا گیا تھا کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسا دینی ادارہ اس طرح کے غیر شرعی فیصلہ کیسے کرسکتا ہے ۔ بورڈ کی وضاحت سےمجھے اس وقت اطمینان ہوگیا تھا۔
مجھے حیرت ہے آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ کے باضابطہ اجلاس میں وقف آراضی کو فروخت کرنے کے سلسلہ میں عدم فروخت کا موقف اختیار کیا جاتاہے اور سرکاری حلقوں میں بعض ارکان فروخت کرنے کی تجویز پیش کرتے پھر رہے ہیں ۔ البتہ بورڈ کی طرف سے میری تقریر کی وضاحت میں کہا گیا کہ تبادلہ وقف آراضی کی شکل فقہا کے یہاں موجود ہے۔ میں پلٹ کر جواب دینے والا تھا کہ کیا آپ بابری مسجد اور اس کی ملحقہ وقف اراضی کو بھی تبدیل کرسکتے ہیں۔ اگر وقف ایکٹ 2010 میں خدا نخواستہ یہ تجویز شامل کر لی گئی تو آئندہ وہ تمام مسجدیں ، درگاہیں ،مدارس ، قبرستان ،امام باڑے اور دوسری وقف آراضی شاہراہوں او رسڑکوں کے کنارے ہوں گی۔ حکومت مفاد عامہ کے تحت تبادلہ کی بات کرے گی۔ تو کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے موجودہ مثلث گروپ حکومت کے حوالے کرے گا او راگر حوالہ کر ے گا تو ہندوستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشوران ملت اس سے کیا اتفاق کر پائیں گے ۔ مگر انتشار و اختلافات پیدا ہونے او رمیڈیا میں غلط میسج جانے کے خوف و اندیشہ سے خاموش ہوگیا ۔ مگر مجھے افسوس ہے مسلم پرسنل لاء بورڈ اب غلط رخ پرجارہا ہے او راپنے بنیادی مقاصد سے ہٹ رہا ہے۔
میں موجودہ اسسٹنٹ جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لاء بورڈ جو کبھی قاضی مجاہد اسلام قاسمی صاحب کے سپہ سالار ہوا کرتے تھے اب اپنا قبلہ بدل چکے ہیں ۔ میں ان کے علم میں لانا چاہتا ہوں کہ مساجد کے سلسلہ میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ کا شرعی موقف بھی یہ تھا کہ از فرش ( تحت الثری)تا عرش مسجد کے حکم میں ہوتا ہے ۔ یہ حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی مرحوم کے دور صدارت اور حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی کے دور نظامت میں ( جو بورڈ کا خیر القر ون تھا) مسلم پرسنل لاءبورڈ نےاختیار کیا تھا ۔ کیا آپ کے دور میں اس میں تبدیلی چاہتے ہیں ۔ محض 40۔50 وقف زمینوں کو فروخت کر کے ہندوستانی اوقاف کے سنگین مسئلہ کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ اس کے لئے وقف اراضی پر ناجائز قابضین کے خلاف سخت سے سخت قانون بنانے پر زور ڈالنا چاہئے اور اس نئے ترمیمی بل 2010 میں اس تجویز کو شامل کرانے پر اصرار کرنا چاہئے اور یہی موقف امت و ملت کے وسیع تر مفاد میں ہے۔
2 جولائی ، 2013 بشکریہ: رو ز نامہ اودھ نامہ ، لکھنؤ
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/the-ramifications-wakf-amendment-bill/d/12769