مفتی عبدالمنعم فاروقی
6 جنوری، 2017
نبی رحمت کی بعثت سے قبل صرف بلاد عرب ہی نہیں بلکہ پوری دنیا ظلمت کدہ میں تبدیل ہو چکی تھی 'ہر طرف کفروشرک'قتل وغارت گری، لوٹ مار ظلم و ستم بے حیائی وبے شرمی ، شراب و کباب دھوکہ و فریب اور بد اخلاقی و بد امنی کا دور دورہ تھا لڑکیوں کی پیدائش کو عیب سمجھا جاتا تھا انھیں پیدا ہوتے ہی دفن کر دیا جاتا تھا آپسی عداوتیں عروج پر تھیں معمولی اختلاف پر برسوں جنگ کیا کرتے تھے طاقت ور کمزور پر ظلم کیا کرتا تھا مالدار غریب پر حکومت کرتا تھا انسان بیچے خریدے جاتے تھےاور انھیں غلام باندی بنا کر رکھا جاتا ہر سو ابلیسی اور طاغوطی لشکر دندناتے پھر رہے تھے انسان انسانیت کی سطح سے نیچے گر چکا تھا ان حالات و کیفیات کو دیکھ کر زمانہ انگشت بدنداں تھا انسانیت نوحہ کناں ماتم زدہ تھی مورخین نے اس زمانے کو دور جاہلیت کا نام دیا ہے ان حالات میں اللہ نے انسانوں پر فضل و کرم فرمایا اور انسانوں کی رہنمائی و رہبری اور ان کی ہدایت و سرفرازی کے لئےمحسن انسانیت رحمت عالم اور قیامت تک کے لئےآخری رسول بنا کر مبعوث فرمایا آپ کی تشریف آوری کیاتھی گویا پوری انسانیت کے لئےآب رحمت تھی ظلمتیں کافور ہوئیں ہر سمت اجالاہو گیا معبودان باطل منہ کے بل گر پڑے توحید کا علم بلند ہوا کفر و شرک کا طلسمی ٹوٹ گیاتوحیدو رسالت جلوہ گر ہوا ظلم و ستم کے بادل چھٹ گئے عدل و انصاف کی رم جھم بارش برسنے لگی بےحیائی و بے شرمی بھاگ کھڑی ہوئی شرم و حیا نے اپنی چادر تان لی دم توڑتی ہوئی انسانیت کو آکسیجن ملا اسے حیات نو حاصل ہوئی اور انسانیت نے چین و سکون کی سانس لی نبئ رحمت نےدنیا کو خدائی احکام و فرمان سے روشناس کرایا اور اپنی بےمثال و بے نظیر تعلیمات سے لوگوں کو جینے کی راہ دکھائی دنیا کو امن و امان اطمینان و سکون کا پیغام دیاجن و انس سے ان کے خالق و مالک کاتعارف کرایا –
دنیا کی تخلیق اور اس میں انسانوں کے بسائے جانے کے مقصد کو واضح کیا بتایا کہ سب کا خالق و مالک ایک ہےاس کا کوئی شریک نہیں وہی عبادت و پرستش کے لائق ہےدنیا کا نظام اسی کے دم سےہےہر شئےاسی کی حکومت و حاکمیت ہے موت و حیات کا وہی خالق ہےنفع و ضرر کا وہی موجد ہے اس کی مرضی کے بغیر نہ کوئی پتہ ہل سکتا ہےنہ کوئی قطرہ گر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی شئےوجود میں آ سکتی ہے اس نے ایک مقصد کے تحت اور ایک وقت مقررہ دے کر انسانوں کو دنیاں میں بھیجا ہے اس کی اصل زندگی آخرت ہے جو لا محدود ہے آخرت میں خدا کا قرب اور انعامات کے حصول کا مدار دنیا میں خدا اور پیغمبر خدا کی تا بعداری پر موقوف ہےنبئ رحمت کی بعثت کا مقصد ہی انسانوں کو خدا کی مرضی بتانااور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی عملی صورت دکھانا ہےنبئ رحمت نے اپنی رحمت بھری تعلیمات سے انسانو کو مکمل رہبری و رہنمائی فرمائی عبادات ہو یا معاملات اجتماعی ہو یا انفرادی عائلی ہو یا معاشرتی جلوت ہو یا خلوت شہری ہو یا ملکی عالمی ہو یا آفاقی غرض یہ کہ انسانی زندگی کے کسی گوشہ کو تشنہ نہیں چھوڑا نبئ رحمت نے بتایا کہ آدمؑ پہلے انسان ہیں اور سارے انسان انہیں کی اولاد ہیں کسی گورے کو کسی کالے پر مالدار کو غریب پر عربی کو عجمی پر آقا کو غلام پر اور بادشاہ کو عامی پر ہرگز فوقیت نہیں مگر نگاہ خداوندی میں وہی شخص محترم و مکرم ہے جو اس سے ڈرتا ہے اور اسی کی مرضی پر چلتا ہے انسانیت کا احترام بہت بڑی چیزہےظلم زیادتی کرنے والے زمین میں فساد برپا کرنے والے اللہ کی نظر میں مبغوض ہیں ماں باپ کی خدمت بڑی عبادت ہے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی باعث اجر ہے اہل تعلق اور پڑوس سے اچھا برتاو ایمان کا حصہ ہے غریب و مسکین بیوہ و یتیم کی مدد و نصرت بہت بڑی خدمت ہے نبئ رحمت نے نہ صرف انسانوں کے ساتھ تعلق ہمدردی اور مدد و نصرت کی تعلیم دی بلکہ حیوانات کو تکلیف دینےاور نباتات کو بے ضرورت کاٹنے اور ضائع کرنے سے منع کیا نبئ رحمت نے احترام انسانیت کی طرف اتنی توجہ دلائی کہ انسانی تاریخ میں اس کی نظیر ملنا نا ممکن ہے-
چنانچہ حضرت جعفر بن ابی طالب کی نہایت بلیغ اور جامع تقریر اس کا بین ثبوت ہے جو انہوں نے شاہ حبشہ"اصحمہ نجاشی کے دربار میں کی تھی ــ۔اسلام کے ابتدائی زمانے میں مشرکین مکہ کی ازا رسانیوں سے تنگ آکر بعض مسلمان رسول اللہ سے اجازت لے کر حبشہ ہجرت کر گئے'مشرکین مکہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے ایک وفد حبشہ بھیجا تا کہ انہیں واپس لایا جا سکےمشرکین کے وفد نے پہنچ کر اول تحائف پیش کیے پھر مسلمانوں کے خلاف بادشاہ کو خوب بھڑکایا تحقیق حال کے لئے جب بادشاہ نے مسلمانوں کوبلایا تو اس موقع پر حضرت جعفر نے شاہ حبشہ کے سامنے جن الفاظ میں تقریر دل پزیر کی اس کا کچھ حصہ یہ تھا "اے بادشاہ ہم سب جاہل اور نادان تھے بتوں کو پوجتے اور مردار کھاتے تھےقسم قسم کی بے حیائیوں میں مبتلا تھےرشتے ناتوں کو توڑا کرتے اور پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے ہم میں طاقتور کمزور پر ظلم کرتاتھا اسی حالت سے ہم دو چھار تھے کہ اللہ نے ہم پر رحم فرمایااور ہم ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجاجس کے حسب و نسب اور صدق و امانت اور عفت و پاک دامنی سے ہم خوب واقف ہیں اس نے ہم کو ایک اللہ کی طرف بلایااسی کی پرستش کا حکم دیا اور سچائی امانت داری اور صلہ رحمی کی تعلیم دی پڑوسیوں سی حسن سلوک کرنے لڑائی جھگڑے سے بچنےحرام کھانے سے یتیموں کا مال کھانے پاک دامن پر تہمت لگانےاور تمام بے حیائی کے کاموں سے بچنےکا حکم دیا اور یہ حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں کسی کو اس کا شریک نہ کریں نماز پڑھیں زکوٰۃ دیں روزہ رکھیں اور اپنا جان و مال راہ خدا میں لگانے سے گریز نہ کریں(سیرت المصطفیٰ،1-250)-
نبئ رحمت نے عام انسانوں کے علاوہ ملکی شہری اور پڑوسی سے لے کر جملہ رشتہ داروں تک کے حقوق بتائے ہیں،نبئ رحمت نے حجۃالوداع کے موقعہ پر اپنے خطبہ میں انسانی حقوق اور احترام انسانیت کی طرف جس انداز میں توجہ دلائی وہ تمام انسانوں کے لئے آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے، ارشاد فرمایا :مفہوم-"اے لوگوں تم سب کا پرور دگار ایک ہے اور تم سب کا باپ بھی ایک ہی ہے،خبردار! کسی عربی کو عجمی پر برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو عربی پر فضیلت حاصل ہےاور نہ کالے رنگ والوں کو گورے رنگ والوں پر اور نہ سرخ رنگ والے کو کسی کالےرنگ والے پر فوقیت حاصل ہے سوائےتقویٰ اور پرہیزگاری کے"(مسنداحمد:24204)، ماں باپ کےحسن سلوک کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا :نیکیوں میں سب سے جلدی ثواب صلہ رحمی اور ماں باپ کے حسن سلوک پر ملتا ہے(ابن ماجہ) رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی تعلیم دیتےہوئے ارشاد فرمایا:جو شخص یہ چاہتا ہے کی اس کی رزق میں وسعت کی جائے اور اس کی عمر میں اضافہ کیا جائےتو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کو جوڑے رکھے (بخاری)یتیموں کے متعلق آپ نے ارشاد فرمایا:میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہونگے جیسے شہادت اور بیچ کی انگلی (بخاری)بیواہ اور مسکین کی مدد و نصرت کرنے کی فضیلت بتاتے ہوے ارشاد فرمایا: بیوہ اور مسکین کی مدد کرنے والا اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے اور رات میں مسلسل نماز پڑھنے والے اور دن میں مسلسل روزے رکھنے والےکی طرح ہے(بخاری)،پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دیتے ہوے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیےکہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاو کرے(مسلم)ایک دوسری حدیث میں پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو جنت کی بشارت اور ان کے ساتھ برا کرنے والوں کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے(مشکوٰۃ) چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ احترام و اکرام کی تعلیم دیتے ہوے ارشاد فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے(ترمذی)، نبئ رحمت نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ صنف نازک کو بلند و بالامقام عطا کیا، انہیں وہ مرتوہ عطا کیا جس کی وہ مستحق تھیں،
آپ نے عورتوں کو جو عزت و عزمت سے نوازا تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں،آپ کی آمد سے پہلےصنف نازک کا بدترین استحصال کیا جاتا تھا ، ان کے حقوق پامال کئے جا چکے تھے، باندی بنا کر ان کے ساتھ جانوروں جیساسلوک کیا جاتا تھا، اپنی تسکین کی خاطر انہیں شمع محفل بنایا جاتا تھا، بعض بدبخت ان کی پیدائش کو منحوس تصور کر کے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیتے تھے ، غرض یہ کہ عورتوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا جاتا تھا ، ایسے ناگفتہ بہ حالات میں آپ کی آمدبعثت ہوئی، آپ نے آتے ہی عورتوں کو وہ مقام دلایا جس کا صدیوں سے انتظار تھا، آپ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ فرمایا کہ عورت ہر روپ میں قابل تعظیم اور لائق احترام ہے اس کی خدمت اور عمدہ برتاؤ باعث اجرو ثواب ہے،اگر عورت بیوی ہے تو اس پر خرچہ بہترین صدقہ ہےاور عورت اگر ماں ہے تو اس کے قدموں میں جنت ہے، اگر وہ بہن یا بیٹی ہے تو ان کی دیکھ بھال عمدہ تربیت اور شادی کرکے ان کے گھر بسانا دخول جنت کا ذریعہ ہے آپ نے جنگ و جدال اور دشمن سے مدبھیڑکے موقع پر بھی انسانیت کی تعلیم دی ہےچنانچہ اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق نے ایک لشکر کوروانہ کرتے وقت اس کے کمانڈر کو ہدایتیں دیتے ہوے یہ بھی ارشاد فرمایا: کسی بچہ کو قتل مت کرنا، کسی عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا، کسی ضعیف کو نہ مارنا، کوئی پھل دار درخت نہ کاٹنا، کسی بکری وغیرہ کو خواہ مخواہ ذبح نہ کرنا، کسی باغ کو نہ جلانا، کسی باغ کو پانی چھوڑ کر تباہ نہ کرنا بزدلی نہ دکھانا، اور مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا(مصنف ابن ابی شیبہ) ، نبئ رحمت اور آپ کی رحمت بھری تعلیمات جو آئنہ کی طرح صاف ، شفاف ہیں ،
اس کے باوجود آج پوری دنیا میں اسلام دشمن طاقتیں نہایت منظم طریقہ سے ان حسین ، لا جواب اور لا ثانی تعلیمات کو بدنام کرنے اور اس حسین چہرہ کو مسخ کرنے کی ناپاک کوشش میں لگے ہوے ہیں، اس سازش میں مغربی زرائع ابلاغ زیادہ پیش پیش ہے، چند فرضی اسلامی ناموں کا سہارا لے کر نبئ رحمت کے نام لیواؤں کو بدنام کرنے کی انتہائی مزموم کوششوں میں لگے ہوے ہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہونے کے ان نازک حالات اور اس فتنہ پروری کے اس دور میں ہماری ذمہ داری ہے کہ نبئ رحمت کی رحمت والی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کرائیں، اپنی صلاحیت و قابلیت کا استعمال کرتے ہوےاپنی بساط کے موافق دنیا کے سامنے اس کے نقوص کو واضح کریں، اپنے قول و عمل ، اخلاق و اطوار اور اپنے کردار کے ذریعہ ثابت کریں کہ نبئ رحمت کی تعلیمات واقعی لا جواب ، انسانیت نواز امن و سکون کا ضامن اور قلبی اطمینان کا باعث ہیں دور حاضر میں تڑپتی سسکتی اور امن و امان کی متلاشی انسانیت کو پیام رحمت کی اشد ضرورت ہے، اس کے بغیر انسانیت کے سکون کا تصور عبس ہے، آج دنیا مادی ترقیات کے باوجود تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑی ہے، اگر نبئ رحمت کا رحمت والا پیام نہ پہنچا تو تباہی سے بچنا ان کے لیےنا ممکن ہو جاے گا، ہم غلامان نبئ رحمت خود بھی تعلیمات نبوی کے مطابق زندگی گزاریں اور رحمت والا پیغام دوسروں تک بھی پہچانے کی فکر کریں۔
انسانیت کو تو نے وہ آئین دے دیا
گویا پیام نازش و تمکین دے دیا
عالم کو ذوق جلوہ تزئین دے دیا
ٹوٹے دلوں کو مزدہ تسکین دے دیا
6 جنوری، 2017 بشکریہ: روز نامہ راشٹریہ سہارا، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/teachings-prophet-lifeline-humanity-/d/109671
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism