مفتی عبدالمالک مصباحی
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں کی عصبیت اور تنگ نظری کی وجہ سے امت کی غالب اکثریت کی اس میں شمولیت نہیں ۔ جس کی وجہ سے بورڈ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود ہر محاذ پر ناکام ہے۔ مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم کہلانے کے باوجود اس کی آواز صدا بصحر ا ثابت ہوتی جارہی ہے ، اجتماعیت کے اظہار کے وقت لوگ اس کی آواز پر لبیک کہنے کی بجائے پہلو تہی اختیار کرنے کے ساتھ اس سے الگ راہ نکالنے کی سوچنے لگتے ہیں ۔ آخر ایسا کیوں؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جو بورڈ کے تمام ذمہ داروں کو اپنے کردار کے محاسبہ کی دعوت دیتاہے۔ اگر وقت رہتے ہوئے نہایت دیانت داری اور انصاف کے ساتھ اس کا جواب نہیں تلاش کیا گیا تو آنے والا دن امت کے لیے او ربھیانک سے بھیانک ثابت ہوگا ایسی صورت میں اس کی ذمہ داری کہیں نہ کہیں بورڈ کے ارباب حل و عقد پر بھی عائد ہوگی۔
وہ وقت آگیا ہے کہ ساحل کو چھوڑ کر
گہرے سمندر میں اتر جانا چاہئے
اس میں دو رائے نہیں کہ آج امت مسلمہ نہایت نازک دور اور پریشان کن حالات سے دو چار ہے ۔
کل ہم تین سو تیرہ تھے تو لرزتا تھا زمانہ
اور آج کروڑوں میں ہیں تو کرتے ہیں غلامی
اس غلامی کی ایک بہت بڑی وجہ امت کا مختلف گروہوں میں منقسم ہونا ہے۔الگ الگ ٹکڑوں میں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کی فکر نے آج ہمیں اپنی پگڑی کے تعلق سے حد درجہ فکر مند بنا دیا ہے مگر اس کے باوجود بھی اس کی سلامتی او رحفاظت کے آثار نظر نہیں آتے۔ بات آگے بڑھانے سے پہلے اس بات کی وضاحت کردو ں کہ امت میں اختلاف یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشنگوئی ہے جسے پاٹنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں مگر کیا اس کے باوجود بھی ملکی اور بین الاقوامی حالات کے پیش نظر کوئی ایسا لائحہ عمل تیار نہیں کیا جاسکتا جو امت کے ملی تحفظ کاضامن اور بقائے باہم کامؤثر ہتھیار ہو؟
اندرون خانہ اختلافات کے باوجود ہم ظاہری طور پر متحد ہوسکتے ہیں بلکہ حالات کے جبری تقاضوں کے تحت ہمارے لیے متحد ہونا ضروری ہے ورنہ اب انتظار کی کون سی گھڑی باقی اور ذلت ورسوائی کاکون سا ہتھکنڈا آزما یا جانا ہے؟ گزشتہ چند دہائیوں سے لوگ جسے دیوانے کی بڑا کہہ کر نظر انداز کردیا کرتے تھے اب وہ حقیقت کا روپ دھاڑن کر چکی ہے۔
1980ء میں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی صدارت میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کاقیام عمل میں آیا ( اس کے پیچھے کون سی طاقت کام کرتی رہی او ریہ کس کی بدلی ہوئی شکل ہے فی الحال مجھے اس سے بحث نہیں ) صرف 2سیٹ سے اپنا کھاتا کھولنے والی پارٹی محض 9سال یعنی 1989میں 86سیٹیں حاصل کرچکی او راس وقت سے لے کر آج صرف 37سالوں میں ہندوستان کی سب سے بڑی پارٹی کی شکل میں حکومت کرتی نظر آرہی ہے۔ آخر اس کے پیچھے کون سے عوامل کام کررہے ہیں اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے!
سردست مجھے یہ عرض کرناہے کہ بر سر اقتدار پارٹی او راس کے پشت پناہ تنظیموں نے مسلمانوں کا مذہبی او رمعاشرتی ہر اعتبار سے جینا دوبھر کردیا ہے انہیں حالات کی ابتدائی کڑیاں تھیں جن کے بطن سے ’’ مسلم پرسنل لاء بورڈ ‘‘ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ جیسا کہ اس کی روداد رقم کرتے ہوئے ایک قلم کارنے لکھا ہے:
’’ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام ایک ایسے وقت میں ہوا جب کہ حکومتی سطح سے متوازی قانون سازی کے ذریعے شرعی قوانین کو بے اثر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی، پارلیامنٹ میں لے پالک ( متنبیٰ ، دوسروں کے بیٹے کواپنا بیٹا بنانے کا کام) بل پیش کیا جاچکا تھا او راس وقت کے وزیر قانون مسٹر ایچ ،آر گوکھلے نے اس کو ’’ یونی فارم سول کوڈ‘‘کی تدوین کی طرف پہلا قدم قرار دیا تھا، دوسری طرف علماء قائدین، مسلم تنظیموں او رجماعتوں کی کوشش سے مسلمانان ہند میں یہ احساس پیدا ہوچکا تھا کہ اگر ان کوششوں کا مقابلہ پوری ملت اسلامیہ ’’ اتحاد واتفاق‘‘ کے ساتھ نہ کرے تو شریعت کے قوانین کو ختم کرنے کی سازش کامیاب ہوجائے گی۔
تحریک خلافت کے بعد مسلمانان ہند کی مختلف مسالک کی عظیم شخصیتیں ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئیں اور اس سلسلے کی سب سے پہلی نشست مولانا منت اللہ رحمانی کی کوششوں سے 27-28دسمبر 1972کوممبئی میں ہوئی اور 7اپریل 1973ء کو حیدر آباد میں باضابطہ اس کی تشکیل عمل میں آئی جس میں مولانا قاری طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند، صدر اور مولانا منت اللہ رحمانی جنرل سکریٹری منتخب کیے گئے جب کہ مولانا برہان الحق رضوی جبل پوری نائب صدر چنے گئے ۔ مولانا رضوی صاحب مسلمانوں کی غالب اکثریت کے ترجمان اور فکری اعتبار سے بریلی شریف سے منسلک تھے بلکہ بریلی ہی کے مفتی اعظم ہند علامہ مصطفی رضا خاں ( علیہ الرحمہ) کے حکم سے حاضر ہوئے تھے ۔ مسلمانان ہند کے تمام مسالک بشمول ’’ اہل سنت و جماعت‘‘ کی نمائندہ شخصیات نے نہ صرف اس میں عملی شرکت او رتائید کی بلکہ ملی مفاد او راسلامی عظمت و تشخص کے تحفظ و بقا کی خاطر ہر طرح کی قربانی بھی دی، مگر علمائے دیوبند ہمیشہ اپنی تنگ نظری کی بنیاد پر انہیں نظر انداز کرتے رہے۔ ملک میں آبادی کے تناسب کے اعتبار سے بورڈ میں ان کی نمائندگی کی بجائے انہیں کنارے کرتے رہے یہاں تک کہ انہیں یا تو بورڈ سے بالکل ہی باہر کردیا یا دانستہ طور پر کسی ایسے سیدھے سادھے شخص کو شامل رکھا گیا جو مؤثر طور پر اپنی بات رکھنے کے بجائے ان کے مہرہ کے طور پر استعمال ہوتے رہے جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بورڈ کی کارکردگی مشکوک ہوتی گئی اورعام لوگوں کی حمایت او ردلچسپی بورڈ سے ختم ہوگئی ۔
جس کی وجہ سے شاہ بانو کیس 1986ء سے سائرہ بانو کیس 2016ء تک کے معاملات بشمول طلاق ثلاثہ ،تعداد ازواج وغیرہ میں بورڈ کی بے بسی قابل دید رہی ۔ مدعا ایک تھا معاملہ ایک تھا مگرسپریم کورٹ میں پیٹیشن کئی ایک داخل ہوئے جس کی وجہ سے طاقت منتشر ہوئی اور بات بے وزن ہوکر رہ گئی ۔ ان واقعات و حالات سے سبق سیکھنے کی بجائے بورڈ کا رویہ ابھی بھی جانب دارانہ ہے جب کہ بورڈ کے اسٹیج سے اعلان ہوتا ہے ’’ مسلکی اتحاد‘‘ کو مضبوط کیا جائے ۔ بین المسالک یک جہتی کو فروغ دیا جائے ۔
جس سے عوام میں یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ مقدس لباس والے دلی طور پر اتحاد کے خواہاں ہیں اور ہر طبقہ او رمکتب فکر کی نمائندگی چاہتے ہیں حالانکہ عملی اعتبار سے ایسا کچھ نہیں ۔ آئییذرا قریب آکر اس حقیقت کا اندازہ لگائیے ۔
گزشتہ 16اپریل 2016کو لکھنؤ میں مولانا سید نظام الدین سابق جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا ء بورڈ کی جگہ مولانا رحمانی کو جنرل سکریٹری بنایا گیا، اس موقع پر بھی صدربورڈ مولانا رابع حسن ندوی نے مسلکی اتحاد کا نعرہ لگاگیا شرکانے اس پر واہ واہی اور شاباشی کا اظہار کیا مگر بورڈ کی توسیع او راس کے کلیدی عہدوں پر علمائے اہل سنت میں سے کسی کی شمولیت تودور کی بات ہے عہدیداروں اور شرکا میں بھی دور دور تک ان کا نام ونشان نظر نہیں آتا۔ اگر آپ کوکہیں شک و شبہ لگ رہا ہو تو مجلس عاملہ کی فہرست ملاحظہ کرکے میرے دعویٰ کی سچائی کا اعتراف کیجئے ۔
اسی 16اپریل کو مجلس عاملہ کی جو فہرست جاری کی گئی ا س میں مندرجہ ذیل اسما شمار کرائے گئے ہیں ۔
صدر : مولانارابع حسنی ندوی
جنرل سکریٹری : مولانا ولی رحمانی
ارکین: مولانا کلب صادق، مولانا عبدالوہاب خلجی، ڈاکٹر قاسم رسول الیاسی، ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی ، مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، مولانا فضل الرحیم مجددی ، مولانا یٰسین علی عثمانی بدایونی ، مولانا سفیان قاسمی، مولاناانیس الرحمٰن قاسمی، اسدالدین اوسی ، کمال فاروقی ، مولانا خالد رشید فرنگی محلی، محمد رحیم الدین انصاری، الحاج محمد ہاشم چنئی ، مولانا اطہر علی ممبئی ، الحاج عارف مسعود بھوپال،ڈاکٹر اسمازہرا ، حیدر آباد ،نور جہاں شکیل ،محمد جعفردہلوی ، پروفیسر ریاض عمر،پروفیسر شکیل صمدانی ، علی گڑھ۔
ان میں اہل سنت و جماعت کے ایک بھی نمائندہ کا نام شامل نہیں ہے۔ اب اسی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی سب بڑی مسلم آبادی ، خانقاہی نظام کی دلدادہ ، صلح وآتشی کی خوگر اور امن وسکون کی علمبردار جماعت کو نظر انداز کرکے کوئی منظم آواز بلند کرنے کی کوشش کی جائے گی توبھلا ا س میں کامیابی کیوں کر مل سکتی ہے؟
اس بات سے کوئی حساس اور درد مندانسان انکار نہیں کرسکتا کہ ملت کو اس وقت اپنے تمام آپسی اختلافات کے باوجود متحد ہونے کی سخت ضرورت ہے ورنہ ارباب اقتدار جس راہ چل رہے ہیں وہ اسپین کے عیسائیوں کی پامال کردہ ہے ۔
اپنی تاریخ کو جو قوم بھلادیتی ہے
صفحہ دہرے سے وہ خود کو مٹا دیتی ہے
اسپین میں مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی ، جامع قرطبہ اور غرناطہ کے فصیل سے علم و ہنر کی جو شعاعیں پھوٹیں ان سے یورپ و امریکہ کے در و دیوار روشن ہوئے مگر مسلمانوں کی مفاد پرستی ، آپسی رسہ کشی ، نسلی تفاخر ، گروہی عصبیت ، علما کی تن آسانی اور فکر فرد اسے لاتعلقی ، پیروں کی گوشہ نشینی اور ارباب اقتدار کی عیش پرستی نے انہیں نہ صرف اسپین سے نکلنے پر مجبور کردیا بلکہ لاکھوں افراد تہ تیغ کیے جانے کے بعد اس سرزمین کی یہ حالت ہوئی کہ برسوں تک وہاں کی فضا اللہ اکبر کی صدا سننے کو ترس گئی۔ خدانہ کرے ہزاربار نہ کرے، ہندوستان کے مسلمانوں کی موجودہ جوحالت ہے وہ اسپین کے مسلمانوں سے کچھ کم نہیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ وقت رہتے ہوئے مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور اپنی صفوں میں اتحاد واتفاق کے ساتھ بالغ نظری اور وسیع القلبی پیدا کریں ۔ ملت کے منتشرشیرازہ کو یک جاکرنے کی فوری کوشش کریں۔
جب ملت ہی نہ رہے گی تو اقتدار کا پرچم اٹھائے گا کون؟ جب مسلمان ہی نہ رہیں گے تو پیری مریدی کی کاشت تیار کہا ہوگی؟ جب اہل ایمان ہی نہ رہیں گے تو امارت و سیادت کا ڈنکا بجائے گا کون ؟ اس لیے دیگر تمام مصروفیات اور مشغولیات سے پہلے ’’ حقیقی اتحاد‘‘ کی عملی کوشش کی ضرورت ہے۔
مفتی عبد المالک مصباحی (ایم اے) ‘‘دو ماہی رضائے مدینہ ’’ کے چیف ایڈیٹر ، متعدد اسلامی کتابوں کے مصنف، اور ‘‘رضا فورٹی ’’ کے فاؤنڈر جس کا قیام انہوں نے نئی نسلوں کو تابندہ مستقبل دینے اور دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بالخصوص آئ پی ایس ، پی ایس سی، آئ آئ ٹی اور میڈیکل وغیرہ کی تیاری کروانے کے لئے کیا ہے۔
(بشکریہ ‘‘دو ماہی رضائے مدینہ’’ اپریل، مئی 2017)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/is-there-no-need-review/d/111184
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism