مدثر احمد قاسمی
24 دسمبر،2021
اس دنیا میں بسنے والے
تمام لوگوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں ، اسی لئے تمام لوگ شب و روز اپنے مسائل کو حل
اور دو ر کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اس مشغولیت میں رہتے ہوئے کچھ دوسرے
ایسے کام بھی ہیں جن کا انجام دینا بہترہی نہیں بلکہ لازم ہے،کیونکہ اس کے بغیر
انسان کی زندگی کامقصد پورا نہیں ہوتا۔ ان کاموں میں ایک اہم کام اپنی زندگی کو
عبادت سے سجا کر اللہ رب العزت کی خوشنودی حاصل کرنا ہے۔ لیکن ہمارے لیے ایک بڑا
او راہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذاتی مصروفیت او رحکم الہٰی کی تابعداری کے درمیان
توازن برقرار نہیں رکھ پاتے ۔اکثر لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ حکم الہٰی کی فرما
نبرداری میں ذاتی مصروفیت کو بھی زبان حال سے او رکبھی زبان قال سے رکاوٹ گردانتے
ہیں اور معدود ے چند لوگ ایسے بھی ہیں جو بزعمِ خود فرمان الہٰی کی بجا آوری میں
اس قدر غرق ہوتے ہیں کہ انہیں ر وز مرہ کے کاموں کے لئے وقت نہیں مل پاتا او روہ اپنے
اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔
اس تمہیدی کلام کی تہ تک
پہنچنے او رذہنی الجھن دور کرنے کے لئے ہمیں دو اصطلاحات پر غورکرنا اور دونوں کے
درمیان فرق سمجھنا ہوگا۔ وہ دو اصطلاحات ’ رُہبانیت‘ اور ‘زُہد‘ہیں ۔ شریعت
اسلامیہ میں جہاں زُہد کو اپنانے کی ترغیب ہے وہیں رُہبانیت سے بچنے کی تلقین بھی
ہے۔ زُہد عُرفِ عام میںدنیا سے بے رغبتی کو کہتے ہیں لیکن اس بے رغبتی کا یہ مفہوم
نہیں ہے کہ معاشرت کے اصولوں اور طریقوں کو نظر انداز کردیا جائے بلکہ اس کا مطلب
یہ ہے حوائج دنیا کی تکمیل کے ساتھ نظر صرف اللہ رب العزت کو خوش کرنے اور اُخروی
فائدے کی جانب ہو۔ سہل بن سعد الساعدیؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں آیا او راس نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !
مجھے کوئی ایسا عمل بتلائیے جب میں اسے بجا لاؤں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت
کرے او رلوگ بھی مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ دنیا سے
بے رغبت ہوجاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت فرمائے گا اور لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس
سے بے نیاز رہولوگ تم سے محبت کریں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
زُہد کی مزید تفصیل امام
غزالیؒ نے احیاء العلوم میں یہ کی ہے کہ زُہد کے تین درجات ہیں: (1) بندے کامقصد
عذابِ جہنم، عذابِ قبر، حساب کی سختی ، پل صراط سے گزرنا اور ان دیگر مصائب وآلام
سے چھٹکارے کا حصول ہو جن کا احادیث مبارکہ میں بیان ہوا ہے ، یہ ادنیٰ درجے کا
زُہد ہے۔
(2)اللہ رب العزت کی طرف سے ملنے والے ثواب ، نعمتوں اور جنت میں
جن انعامات کا وعدہ کیا گیاہے، مثلاً : محلات وغیرہ ان پر نظر رکھتے ہوئے زُہد
اختیار کیا جائے اور
(3) بندہ صرف اور صرف اللہ کی محبت کے سبب اور اس کے دیدار کی دولت
پانے کیلئے زُہد اختیار کرے، نہ تو اس کا دل اُخروی عذابوں کی طرف متوجہ ہو او رنہ
ہی جتنی نعمتوں کی طرف متوجہ ہو ، یہ سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔
ُزُہد کے حوالے سے مذکورہ
تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کے اندر دنیا کا لالچ نہیں ہونا چاہئے، بس بقدر
ضرورت دنیا سے ربط ہو او رباقی سب کچھ اللہ پر نچھار کرنے کا جذبہ دل میں موجزن ہو
اورکوشش یہ ہو کہ رفتہ رفتہ زُہد کے اعلیٰ معیار تک پہنچ جائے۔ اگر ہم دنیا کو اس
انداز سے برتیں گے تو ہمارے دنیاوی مسائل بھی حل ہوتے رہیں گے او رمعرفت الہٰی کے
در بھی اس طرح ہوںگے کہ مقصد زندگی کی راہ پر چلنا ہماری پہچان بن جائے گا۔ اس کے
بعدنہ ہی ہم اپنی پریشانیوں کا رونا روئیں گے او ر نہ ہی عبادت کے لئے وقت نہ ملنے
کی شکایت کریں گے۔
اوپر کی بحث سے یہ بات
ثابت ہوگئی کہ ہم دنیا کے مسائل سے بالکلیہ کنارہ کشی اختیار نہیں کرسکتے بلکہ
شریعت کی نظر میں ایک پسندیدہ زندگی کے لئے دنیاوی مسائل اور عبادت میں ایک توازن
پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس توازن کے برخلاف ایک طرز زندگی جو کچھ لوگ اختیار
کرناپسند کرتے ہیں وہ ہے رُہبانیت والی زندگی۔ یہ وہ طرز زندگی ہے جس میں لوگ دنیا
سے بالکلیہ کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف اور صرف عبادت والی زندگی اپنانا چاہتے
ہیں۔ اس طرز زندگی کی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سختی سے ممانعت آئی
ہے۔ حضرت ابوامامہ الباہلیؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم کچھ صحابہؓ نبی اکرم صلی
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ پر جارہے تھے، ہم میں سے ایک شخص نے
راستہ میں ایک غار دیکھا جس میں پانی کا چشمہ تھا، اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ
اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت مرحمت فرمادیں تو میں اپنی باقی عمر اسی
غار میں اللہ اللہ کرتے ہوئے گزار دوں ۔ یہ سوچ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے
مشورہ و اجازت لینے کی غرض سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دی،
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خواہش سن کر فرمایا: ’’ میں یہودیت یا
عیسائیت (کی طرح رہنانیت) کی تعلیم دینے کے لئے نہیں مبعوث ہوا۔ میں تو یکسوئی کا
سیدھا راستہ لے کر آیا ہوں۔‘‘( مسند امام احمدؒ)
رہبانیت سے متعلق حضرت
مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ : یہ رہبان کی طرف منسوب ہے،
راہب او ررہبان کے معنی ہیں ڈرنے والا، لفظ رہبانیت کا عام اطلاق ترک لذات و ترک
مباحات کے لئے ہوتا ہے اس کے چند درجے ہیں، ایک یہ کہ کسی مباح و حلال چیز کو
اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے ، یہ تو دین کی تحریف و تغیر ہے، اس معنی کے
اعتبار سے رہبانیت قطعاً حرام ہے او رآیت قرآن ( اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں
اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ(مائدہ :87)اور
اس کی امثال میں اسی کی ممانعت و حرمت کا بیان ہے۔ رُہبانیت کا ایک اور درجہ یہ ہے
کہ کسی مباح کو حرام تو قرار نہیں دیتا مگر اس کااستعمال جس طرح سنت سے ثابت ہے اس
طرح کے استعمال کوبھی چھوڑ دیتا ہے یعنی ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتاہے،
یہ ایک قسم کا غلو ہے، اس سے احادیث کثیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
منع فرمایا ہے او رجس حدیث میں لا رھبانیۃ فی الاسلام آیا ہے یعنی اسلام میں
رہبانیت نہیں اس سے مراد ایسا ہی ترک مباحات ہے کہ ان کے ترک کو افضل و ثواب سمجھے
۔ (معارف القرآن ، سورہ حدید، آیت نمبر :72)
خلاصہ یہ ہے کہ ہمیں نہ
بالکلیہ تارکِ دنیا بنتا ہے او رنہ ہی صرف دنیا کی چکا چوند میں کھو کر رہ جاتا ہے
بلکہ ایک ایسے راستے کو اپنا نا ہے جسے صراطِ مستقیم کہا جاتاہے۔ انشا ء اللہ اس
راستے پر چل کر دین و دنیا اور حقوق اللہ و حقوق العباد کے درمیان ایک خوبصورت
توازن قائم کرنے میں ہم کامیاب ہوجائیں گے۔
24 دسمبر،2021 ، بشکریہ : انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism