New Age Islam
Mon Apr 21 2025, 04:21 AM

Urdu Section ( 1 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pure Monotheism, Pure Religion and Pure Worship توحید ِخالص، دین ِ خالص اور بندگی ٔخالص

محمد یوسف اصلاحی

28 اکتوبر 2022

’’ اے رسولؐ! کہہ دیجیے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ رہو، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بے شک وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔ پلٹ آئو، اپنے رب کی طرف اور اطاعت گزار بن جائو اس کے، اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آجائے، پھر کہیں سے تمہاری مدد نہ ہوسکے، اور پیروی کرو، اس بہترین ہدایت کی جو تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (الزمر :۵۳-۵۵)یہ تین آیتیں سورئہ زمر سے منتخب کی گئی ہیں۔ سورئہ زمر کا مرکزی مضمون ہے توحید ِ خالص، دین ِخالص اور بندگی ٔ  خالص۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں انسانیت کے سارے مسائل کا حل اور دونوں جہان کی عظمت اور کامرانی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے لئے خالص ہوجائے اور صرف اسی کا ہوکر رہے۔

الٰہ کی شانِ کریمی

ان تین آیتوں میں سے پہلی آیت خدا کی بندوں کیلئے  ان کے رب رحیم کی جانب سے ایک پیغامِ اُمید، نویدِ مسرت اور ایک مژدۂ جانفزا ہے، جو بندے کو وسعتِ رحمت کے تصور اور اللہ سے پُرامیدی کے احساس سے سرشار کر دیتا ہے۔یہ آیت ایک طرف تو خدا کی شانِ رفعت و عظمت، اس کے بے پایاں عفو و درگزر اور اس کی بے مثال وسعتِ رحمت کا تعارف کراتے ہوئے بندے کو ہمیشہ پُرامید رہنے اور خدا سے کسی حال میں بھی مایوس نہ ہونے کا سبق دیتی ہے، اور دوسری طرف ابلیس لعین کی مکاری، چال بازی اور بندوں کو خدا سے مایوس کرنے والی سازشوں پر ابلیس کا دل ہلا دینے والی کاری ضرب لگاتی ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا کہہ کر آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندو! تم نے اپنی جانوں پر جو زیادتی بھی کی ہو، کافر و مشرک ہو یا ملحدو زندیق، قاتل و زانی ہو یا فاسق و فاجر، تم سرکش و باغی ہو یا خدا کے نافرمان، تم گناہوں کی دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، اللہ کا دَر وہ دَر ہے جس سے کبھی کوئی مایوس نہیں لوٹایا جاتا، وہ ایسا  قادرِ مطلق ہے کہ اس کے کئے ہوئے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ روئے زمین پر اپنی کارگزاری دکھانے والے سارے انسان اس کے بندے ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے اور خالق کے پاس اپنی مخلوق کے لئے بے پناہ پیار بھی ہے اور ان کے لئے بیکراں عفو و رحمت بھی، جب کوئی باغی اور گنہگار بندہ سچے ارادے سے اس کی طرف پلٹتا ہے تو وہ ہرگز اس کو مایوس نہیں کرتا۔

یہ آیت اپنے دل نواز پیغام اور خدا کی شانِ رحمت کے انوکھے اندازِ بیان کی وجہ سے  اپنے اندر غیرمعمولی تاثیر رکھتی ہے اور کٹر سے کٹر انسان کے دل کو بھی ایک بار موم بنادیتی ہے اور بندہ بے اختیار اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور ڈال دیتا ہے۔ اسی لئے مہبط وحی حضرت محمد صلی اللہ   علیہ وسلم نے فرمایا:  ’’مجھے اس آیت کے بدلے یہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں بھی ملیں تو مجھے پسند نہیں۔‘‘ یعنی میری نظر میں اس آیت کے مقابلے میں یہ ساری دنیا اور اس کی تمام متاع قطعاً درخورِ اعتنا نہیں۔ اس ایک آیت کے مقابلے میں یہ سب کچھ ہیچ ہے۔پھر آیت کا انداز محض تذکیر یا ضابطہ بیان کرنے کا نہیں ہے، بلکہ اللہ نے اپنے رسولؐ کو اس پر مامور فرمایا اور حکم دیا کہ اے نبیؐ! میرا یہ پیغام اور میرا یہ اعلان میرے بندوں تک پہنچا دیجئے اور اس پیار بھرے اسلوب اور انداز میں پہنچا دیجئے کہ اے بندو! تمہارا رب تمہیں خطاب کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، دیکھو اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، وہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (اس لئے کہ) یقیناً وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔

توبۃ النصوح

اس آیت میں خوش خبری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو ہونا یہی چاہئے کہ بندہ سارے گناہوں سے پاک ہونے کے جذبے سے خدا کی طرف پلٹے۔ مگر انسان کا نفس کبھی کبھی اس دھوکے میں مبتلا کردیتا ہے کہ یکایک میں سب گناہوں کو تو نہیں چھوڑ سکتا، دھیرے دھیرے چھوڑوں گا۔ کچھ سے توبہ کرتا ہوں، کچھ معاملات میں بدستور رب کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرکشی کرتا رہوں گا۔ تو درحقیقت یہ وہ توبہ نہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے، خالص اور مطلوب توبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کردے اور توبہ کے بعد کی زندگی کامل فرماں برداری کی زندگی ہو۔آگے دو آیتوں میں گناہوں کی معافی کے لئے تین باتوں کی تلقین کی گئی ہے جو یک گونہ شرائط بھی ہیں اور علامات بھی، یعنی اللہ کی طرف رجوع، اس کے حضور خود سپردگی، اور کلام اللہ کی کامل اطاعت و پیروی۔

انابت الی اللّٰہ: پہلی شرط یا علامت ہے انابت الی اللہ۔ جس کے معنی ہیں اپنے رب کی طرف پلٹ آنا، خواہ کفر و شرک سے توبہ کر کے آدمی خدا کی طرف پلٹے اور ایمان لائے، خواہ گناہوں سے توبہ کرکے خدا کا فرماں بردار بندہ بننے کا عزم کرے۔ خدا کی طرف پلٹنے کا یہ عمل اور توبہ کی یہ کیفیت خدا کے نزدیک وہ پسندیدہ عمل ہے جو بندے کی کایا پلٹ دیتا ہے، اور اللہ کے آغوشِ رحمت میں بندے کو اپنے اندر سمیٹ لینے کا جوش پیدا کردیتا ہے۔ کسی بندے کی توبہ اور انابت سے اس کے خالق اور پروردگار کو کس قدر خوشی ہوتی ہے۔ ہر انسان خدا ہی کا بندہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ میرا بندہ میرے احکام کی پیروی کرے کہ آخرت میں اُسے انعامات سے نوازا جائے۔ لیکن ناشکرا بندہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف    چل پڑتا ہے اور سرکشی کی روش اختیار کرلیتا ہے، لیکن جب بھی وہ اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے تو ربِ رحیم اپنے بندے کو دھتکارتا نہیں، بلکہ خوش ہوتا ہے اور انتہائی خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ پھر میری طرف پلٹ آیا۔حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسی آیت کے بارے میں کسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! اگر کوئی شرک میں مبتلا ہو تو؟ آپؐ لمحہ بھر کے لئے خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: ہاں، خوب سن لو، شرک کرنے والا بھی اگر خدا کی طرف پلٹ آئے، اور یہ بات آپؐ نے تین بار فرمائی۔واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی وسعت ِ رحمت کی کوئی تھاہ نہیں، اس کی شانِ عفو و کرم سے بندہ کو کبھی مایوس نہ ہونا چاہئے۔ بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا ہونے والا بلکہ گناہوں سے زمین و آسمان کی فضا بھر دینے والا بھی جب اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے اور واقعتاً توبہ اور انابت کی کیفیت کے ساتھ رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو وہ کریم و رحیم اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔

خود سپردگی: دوسری شرط یا علامت یہ ہے کہ توبہ کے بعد بندہ واقعی اپنی زندگی بدل دے، وہ اب  فرماں برداروں کی سی زندگی گزارے، حقیقتاً خود کو اللہ کے حوالے کردے اور اس توبہ و انابت اور فرماں برداری کی زندگی میں تاخیر نہ کرے کہ اس کا آخری وقت آجائے اور حلق میں سانس غرغرانے لگے تو اس وقت توبہ کرے، یا جب گناہوں کی پاداش میں کوئی دنیوی عذاب آجائے تو اس وقت توبہ کے لئے ہاتھ اُٹھائے… بلکہ جب بھی احساس ہو اور آنکھ کھلے، جلد سے جلد اپنے رب سے اپنا معاملہ صحیح کرلے۔ اس لئے کہ موت کے سکرات کے وقت جب آخرت کا عذاب سامنے ہو یا کوئی دنیوی عذاب سر پر آجائے تو اس وقت نہ تو توبہ قبول ہے نہ فرماں برداری کا عہد کوئی مفہوم رکھتا ہے۔ ایسی حالت تک پہنچنے پر تو پھر خدا کے عذاب سے بچانے والی اور آئی مصیبت کو ٹالنے والی کوئی طاقت نہیں۔ کہیں سے بندے کو کوئی مدد اورسہارا ملنا ممکن نہیں۔ ’’اس سے پہلے کہ کوئی عذاب آجائے‘‘ کے الفاظ بندے کو متوجہ کرتے ہیں کہ توبہ کرنے میں اور اللہ سے   اپنے معاملہ درست کرنے میں ہرگز تاخیر نہ کرنی چاہئے، احساس ہوتے ہی فوراً آدمی خدا کی طرف بے تابانہ دوڑ پڑے اور رب کی آغوشِ رحمت میں اپنے آپ کو دے دے۔

28اکتوبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/monotheism-religion-worship/d/128314

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..