معین قاضی ، نیو ایج اسلام
13 جون 2017
مجھ سے اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ "آپ داڑھی کیوں نہیں رکھتے؟"
کچھ لوگوں نے تو مجھے سختی کی ساتھ اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ بغیر داڑھی کے ہونا تو عورتوں کی صفت ہے۔ "اگر آپ داڑھی رکھیں تو میں خود بخود آپ کی طرف متوجہ ہو جاؤں گا کیونکہ ایسا کر آپ سنت پر عمل پیرا ہو جائیں گے،" میرے ایک داڑھی والے دوست نے مجھ سے کہا۔ مجھے اس کی اس بات پر کافی حیرانی ہوئی کیوں کہ اس نے کبھی مجھے جاننے کی تکلیف گوارہ نہیں کی۔ اس لئے کہ اگر وہ ایسا کرتا تو اسے ایک ایسے شخص کا علم ہوتا جو ایک اخلاقی اور معنوی زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہے اور جو اخلاقیات کا ایک مستحکم راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ لیکن اس سے واقعی اس شخص کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میری داڑھی نہیں تھی اسی لئے مجھے ایک مذموم مسلمان سمجھا گیا۔ اس کے لئے اخلاقیات کی ظاہری علامت عصمت و پاکیزگی کی پوشیدہ علامت سے کہیں زیادہ اہم تھی۔
یہ ان میں سے ایک ایسی چیز ہے جسے دیگر مسلمان جنت کے حصول کے لئے ایک شرط اولین مانتے ہیں۔ اگر مردوں کے لئے ایمان کا حقیقی معیار ایک مشت داڑھی رکھنا اور عورتوں کے لئے سر سے پاؤں تک حجاب پہننا ہے ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیمات کا کیا: "سب سے بہترین جہاد خود اپنے نفس کو زیر کرنا ہے۔ سب سے بڑا تقویٰ شعور اور فکر و نظر کا تقویٰ اور طہارت ہے۔
بنیادی اور انتہائی ضروری امور کے بجائے معمولی لیکن ظاہری مسائل پر گفتگو کرنا ان لوگوں کا ایک انتہائی محبوب ترین مشغلہ ہے جو تقوی کے جسمانی مظاہر اور شواہد کے دلدادہ ہیں۔ میں یقینا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے ہر پہلو پر پختہ یقین رکھتا ہوں لیکن ہمیں ان کی تبلیغ کرنے میں کوئی امتیاز نہیں برتنا چاہئے، اور مناسب طریقے سے ان میں سے ہر ایک کی اہمیت کا اعتراف کرنا چاہئے اس لئے کہ اسلام ایک جامع نظام حیات ہے لہٰذا، ہمیں ان پر جزوی طور پر نہیں بلکہ کلی طور پر ایمان رکھنا چاہئے اور عمل کرنا چاہئے۔ ایک مثالی اسلامی نمونہ وہ ہے جس سے قرآنی نظام حیات کے بنیادی عناصر کا تعین ہوتا ہو۔ اعتدال پسندی اسلام کی روح ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک صحیح حدیث ہے کہ:
"تم ایک ایسے وقت میں ہو کہ تم پر جتنی چیزیں فرض کی گئی ہیں ان میں سے اگر دسواں حصہ بھی ترک کر دوگے تو تم برباد ہو جاؤ گے۔ لیکن ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ جس میں اگر کوئی شخص ان میں سے صرف دسویں حصے پر بھی عمل کر لیگا تو نجات پا لیگا ۔"-
( ترمذی ، کتاب الفتن 34: باب 79، حدیث نمبر 2267)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "ہر مذہب کی ایک انفرادی خصوصیت ہے اور اسلام کی انفرادی خصوصیت حیاء اور پاکیزگی ہے۔" اگرچہ ہم ایک مسلمان کے طور پر حیاء کے تصور کو صرف عورتوں کے ساتھ مخصوص جانتے ہیں، جبکہ حیاء ایک ایسا وصف ہے جو مرد اور عورت دونوں کے لئے لازم ہے۔ در اصل خود نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ اپنے رویے میں حیاء اور پاکیزگیٔ سیرت و کردار کا مظہر اتم قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب قرآن مجید مؤمنوں کو اپنی نگاہوں اور عصمت کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے- جو کہ حیاءکے اہم پہلوؤں میں سے ایک ہے- تو یہ عورتوں سے پہلے مردوں کو اس کا حکم دیتا ہے ( قرآن 31-24:30)۔
شرافت و پاکدامنی کے لئے عربی لفظ حیا مستعمل ہے۔ اس لفظ کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لفظ لغوی طور پر زندگی کے لئے عربی لفظ (حیات) سے متعلق ہے۔ مسلم علماء اور صوفیا نے اس سے یہ بات اخذ کیا ہے کہ ان دو اصلاحات کے درمیان ایک گہرا ربط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شرافت و پاکدامنی ایک ایسی صفت ہے جو روح کو ایک روحانی زندگی عطا کرتی ہے۔ روحانی زندگی اور شرافت و پاکدامنی کے درمیان یہ تعلق اس لئے موجود ہے کیونکہ تقویٰ کا تعلق صرف ظاہری نمائش سے نہیں ہے؛ بلکہ یہ سب سے پہلے اور سب سے اہم خدا کے سامنے شرافت و پاکدامنی کی باطنی کیفیت کے بارے میں روادار ہونا ہے - یعنی ہر جگہ اور ہر وقت خدا کی موجودگی کا شعور رکھنا جو انسان کو انتہائی نجی لمحات میں تقویٰ کی رہنمائی کرتا ہے۔ ظاہری شرافت و پاکدامنی کا مطلب ایسا رویہ اختیار کرنا ہے جس سے اپنی عزت نفس اور دوسروں کے احترام کو تحفظ فراہم ہو خواہ اس کا مظاہرہ لباس کے ذریعہ کیا جائے خواہ اپنی گفتگو یا طرز عمل کے ذریعہ کیا جائے۔ باطنی شرافت و پاکدامنی کا مطلب ایسے کسی بھی طرز عمل یا عادت و خصلت سے گریز کرنا ہے جو خدا کی ناراضگی کا باعث ہو۔ ظاہری شرافت و پاکدامنی داخلی شرافت و پاکدامنی کی علامت ہے، اور داخلی شرافت و پاکدامنی ظاہری شرافت و پاکدامنی کے لئے ضروری ہے۔
ہر طبقے کے مذہبی انتہاپسندوں کے لئے خواتین کا لباس ایک پسندیدہ موضوع ہے اور اس ضمن میں ان کا اپنا ایک جدا اخلاقی نقطہ نظر ہے۔ ہر شخص خواتین کے لباس یا ان کے لباس کی ‘‘پاکیزگی’’ کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہے جو اخلاقی نگہبانوں کی جانب سے متعین کئے گئے معیار کے خلاف ہو۔ لیکن کوئی بھی قلب و باطن کی شرافت و پاکدامنی جیسے انتہائی اہم مسئلہ پر بات کرنے میں دلچسپی نہیں لیتا۔ آج ایک عورت کے کردار کا تعین اس کے کپڑے کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ لیکن آج ہمارے بےوقعت دانشورانہ اور اخلاقی دائرہ نظر میں شرافت و پاکدامنی اور اخلاقی طرز زندگی جیسی حقیقی علامتوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
لوگ اکثر " حجاب " اور "ہیڈ اسکارف" کو خلط ملط کر دیتے ہیں۔ ہیڈ اسکارف پہننا حجاب کی ہی ایک شکل ہے، لیکن مرد اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ حجاب بہت زیادہ ہے۔ اور حجاب پر گفتگو کے آغاز میں ہی قرآن مردوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ عورتوں کو نہ گھوریں اور ذہنی انتشار کا شکار نہ بنیں۔ قرآن 24:30 مردوں کو شرافت و پاکدامنی کا مظاہرہ کرنے کا حکم دیتا ہے: "مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں۔ یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔
اس نکتے کی وضاحت اس وقت ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ایک صحابی الفضل بن عباس کے ساتھ سفر کیا۔ایک بے حد خوبصورت عورت نبی ﷺ سے کسی معاملے میں مذہبی رہنمائی حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس آئی۔ اور الفض بن عباس اس خاتون کی خوبصورتی کی وجہ سے اسے دیکھنے لگے۔
نبی ﷺ نے بے حیائی کے ساتھ لباس پہننے یا اپنی خوبصورتی کو ظاہر کرنے کے لئے اس عورت کی زجر و توبیخ نہیں کی۔ بلکہ آپ ﷺ نے اپنے دست مبارک سے ان کی ٹھوڑی کو پکڑ کر ان کے چہرے کو دوسری طرف پھیر دیا تاکہ وہ اس عورت کی طرف نہ دیکھ سکیں۔
اسلام میں پاکیزگیٔ نفس کا تصور مرد و خواتین دونوں کے لئے ہے۔ روحانی زندگی اور شرافت و پاکدامنی کے درمیان تعلق اس لئے موجود ہے کیونکہ حیاء صرف ظاہری وضع قطع کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب سے پہلے اور سب سے اہم خدا کے سامنے شرافت و پاکدامنی کی باطنی کیفیت کے بارے میں روادار ہونا ہے - یعنی ہر جگہ اور ہر وقت خدا کی موجودگی کا شعور رکھنا جو انسان کو انتہائی نجی لمحات میں تقویٰ کی رہنمائی کرتا ہے۔ ظاہری شرافت و پاکدامنی کا مطلب ایسا رویہ اختیار کرنا ہے جس سے اپنی عزت نفس اور دوسروں کے احترام کو تحفظ فراہم ہو خواہ اس کا مظاہرہ لباس کے ذریعہ کیا جائے خواہ اپنی گفتگو یا طرز عمل کے ذریعہ کیا جائے۔ باطنی شرافت و پاکدامنی کا مطلب ایسے کسی بھی طرز عمل یا عادت و خصلت سے گریز کرنا ہے جو خدا کی ناراضگی کا باعث ہو۔
جب خواتین کے لباس کی بات آتی ہے تو ہر شخص اس میں خبط کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ اپنے جسم کا پردہ کرنے کے علاوہ خواتین کے کپڑے کچھ لوگوں کے لئے ظلم و زیادتی کی علامت بن چکے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کے لئے یہ آزادی کی علامت ہے۔ لیکن، خاص طور پر قدامت پرست مسلمانوں کے لئے لباس ایک مسلمان عورت کی اخلاقیات اور اس کی "مسلمانی" کا فیصلہ کرنے کا ایک معیار بن چکا ہے۔ جبکہ مسلمان مردوں کی پاکدامنی کا اب بھی ایسا کوئی پیمانہ نہیں ہے جب کہ قرآن حیاء اور پاکزگی کا حکم مردوں کو بھی اسی سختی کے ساتھ دیتا ہے جس سختی کے ساتھ عورتوں کو اس کا حکم دیتا ہے۔ یقیناً فیصلہ اگر اس گفتگو کی روشنی میں کیا جائے تو کوئی یہ گمان کر سکتا ہے کہ مسلم خواتین کا بنیادی مذہبی فریضہ "لباس کا کوڈ" پر عمل پیرا ہونا ہی ہے۔
بعض اماموں کے اس پر اصرار سے لیکر کہ زمین پر زلزلے اس وجہ سے آ رہے ہیں کیوں کہ مسلم عورتیں غیر موزوں لباس پہن رہی ہیں –مفتیوں کی جانب سے مسلم خواتین کے بائی کاٹ کئے جانے تک ، مسلم عورتوں پر گفتگو کی دانشورانہ سطح انتہائی تکلیف دہ ہے اور کم و بیش اس کا تعلق صرف حیاء کے تصور سے ہے۔ مسلم خواتین کو ان کے جسموں تک ہی محدود کر کے اور یہ ظاہر کر کے کہ حیاء اور پاکدامنی ان کی بنیادی مذہبی ذمہ داری ہے، ہم انہیں ان کی انفرادیت سے محروم کر رہے ہیں۔
آج ہم انتہائی کشمکش کی حالت میں ہیں۔ مسلم اکثریتی ممالک میں آج ہمیں انتہا پسندی، توہم پرستی، فرقہ واریت پیدرانہ نظام معاشرت جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے، اسی لئے اب ہم صرف "صحیح طریقے سے" خدا کی عبادت کرنے کے بارے میں ظاہری تفصیلات پر اپنی تمام تر توجہات صرف کرنے کے متحمل نہیں ہیں۔ اگر ہم نام نہاد فتنہ کو ختم کرنے کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں حقیقی مسئلے کو حل کرنے کی شروعات کرنی ہوگی جو ایک طویل عرصے سے ہماری طرف نظریں جمائے ہوئے ہے – جو کہ خواتین کے تئیں ہمارا رویہ ہے۔
مذہبی تعلیمات کی توجہ کا اخلاقی ہدایات و تعلیمات سے ظاہری وضع قطع (لباس، مراسم و معمولات) کی طرف منتقل ہو جانا تشویش ناک رجحان ہے- جو کہ ایک ایسا وائرس ہے جو مرکزی دھارے میں شامل مسلم افکار و نظریات میں اپنی گرفت مضبوط بنا چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری مذہبی ترجیحات روحانی تبدیلی کے بجائے اب لباس اور روز مرہ کے مراسم و معمولات سے متعلق ہو چکی ہیں۔ یہ سازباز اس نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جس سے ہم مذہب کو دیکھتے ہیں۔
قرآن میں اللہ کا اعلان ہے، "۔۔۔ اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وه ہے جو سب سے زیاده ڈرنے واﻻ ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے" (قرآن 49:13)۔
----
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/islam’s-modesty-men-women/d/111638
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism