New Age Islam
Sat Sep 14 2024, 08:35 PM

Urdu Section ( 24 May 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Indian History: From British Rule to Aligarh Movement تاریخ ہند: برطانوی راج سے علی گڑھ تحریک تک

 

معین احسن جذبی

7مئی،2017

اس قومی سیاسی جماعت میں بڑے درمیانی طبقے کے افراد ، ترقی پسند جاگیردار ، نئے صنعتی سرمایہ دار اور خوش حال تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے۔ یہ تحریک ساحلی علاقوں یعنی ممبئی، مدراس اور بنگال کے متوسط طبقے کی تحریک تھی۔ اس کا سبب ڈبلیو، سی اسمتھ کے تجزیہ کے مطابق یہ تھا کہ برطانوی تہذیب کے اثرات سب سے پہلے ساحلی علاقوں میں پھیلے ۔ ان ہی علاقوں میں سب سے پہلے مغربی تعلیم اور ہندوستانی صنعت کا آغاز ہوا۔ اس طرح ایک متوسط طبقہ پیدا ہوگیا، جو اتفاق سے ہندوتھا۔ ممبئی اور مدراس میں ہندوؤں کی اکثریت ہے ۔ بنگال میں مسلمانوں کی اکثریت ہے لیکن صرف دیہی باشندوں میں ۔ شہری آبادی میں ہندوہی غالب ہیں۔اس لیے بنگال میں بھی مسلمانوں کے بجائے ہندوؤں ہی کا متوسط طبقہ پیدا ہوا۔ اسی طرح شمارلی مغربی صوبے میں جو مسلم اشرافیہ کے مراکز تھے سب سے آخر میں برطانوی اثرات سے دو چار ہوئے اسی طبقے سے مسلمان اپنا متوسط طبقہ پیدا کرسکتے تھے لیکن تاریخی اسباب کی بنا پر سنہ 1870سے پہلے نہ تو حکومت کی تشدد آمیز پالیسی ہی بدلی او رنہ مسلمان ہی حکومت سے تعاون پر آمادہ ہوسکے۔ بہر حال کانگریس میں ہندو اکثریت اسمتھ کے الفاظ میں ایک اتفاقی امر تھا۔ کانگریس میں ہندو بورڑوا طبقے کی نمائندہ تھی جو تعلیم او رملازمت کی دوڑ میں مسلمانوں سے کہیں آگے بڑھ گیا تھا۔ سنہ 1870کے بعد تک ملک میں اس کا کوئی حریف نہ تھا ۔ لیکن حکومت کی فرقہ وارانہ پالیسی نے جب اس پر ملازمتوں کے دروازے بند کیے او رمسلمانوں کو نوازنا شروع کیا تو تعلیم یافتہ ہندوؤں میں حکومت کے خلاف ایک عام بے چینی پیدا ہوئی او راسی کے ساتھ مسلمانوں کی طرف سے رشک و رقابت کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔ بنگالی اخبارات نے اس موقع پر بڑی لے دے مچائی او رحکومت کو مسلمانوں کی باغیانہ سرگرمیاں یاد دلائیں ۔ مسلمانوں سے مفاہمت کی کوشش کو نادانی سے تعبیر کیا ۔ یہیں ایک مستقل شک کا آغاز ہوا۔ بہت سے مسلمان لیڈر جن قومی رجحانات شدت سے پائے جاتے تھے علاحدگی پسند ہو گئے۔

کانگریس کی ابتدائی نیاز مندانہ اور وفادارانہ روش اور اس کے نرم مطالبات کو دیکھتے ہوئے خود کانگریس کے بانی ہیوم بھی سرسید کی مخالفت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ لیکن سر سید کے ذہنی پس منظر میں زبان کا جھگڑا ، گاؤکشی کا قضیہ ،بنگالی اخبارات کی مسلم دشمنی اور اس قسم کی نہ جانے کتنی باتیں تھیں۔ دوسرے وہ ہندوؤں کو صنعتی اور تجارتی اعتبار سے ابھرتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ پھر ان کی نظر میں یہ بھی تھا کہ ہندو اپنی وفاداری اور انگریزی تعلیم کی بدولت حکومت کی مشینری میں دخلیل ہوتے جارہے ہیں او راس طرح ملک کی سیاست میں انہیں خاصا مرتبہ حاصل ہوگیا ہے۔لیکن اس کے برخلاف مسلمان صنعت و تجارت کا تو ذکر ہی کیا تعلیم و ملازمت میں بھی اتنے پیچھے ہیں کہ انہیں کوئی سیاسی اہمیت حاصل نہیں ہوسکتی۔ سرسید نے بڑی کوششوں او رمصیبتوں کے بعد مسلمانوں کو تعلیم پر مائل کیا تھا۔ انہیں اندیشہ تھا کہ مسلمان کانگریس میں شریک ہوکر کہیں تعلیم سے ہاتھ نہ اٹھالیں اور انگریزوں کی مخالفت انہیں ایک بار پھر سیاسی او رمعاشی اعتبار سے سنہ 1857کی سطح پر نہ پہنچا دے او راس طرح ان کے سارے کیے دھرے پر پانی پھر جائے۔

الغرض سنہ 1857کی خوف ناک یاد اور ہندوؤں کے سیاسی او رمعاشی غلبے کاخوف وہ محرکات تھے جو سرسید کے لیے کانگریس کی مخالفت کا سبب بنے۔ انہوں نے لکھنؤ او رمیرٹھ کی تقریروں میں مسلمانوں کے حق میں انتہائی مضر تھے ۔ انہوں نے ہندوستان میں سول سروس کے امتحان کی مخالفت اس لیے کی کہ مسلمانوں کا بنگالیوں کے مقابلے میں جو ان سے تعلیمی اعتبار سے بہت آگے تھے کامیاب ہونا ممکن نہ تھا۔ کونسلوں میں منتخب ممبروں کے اضافے اور توسیع کو وہ مسلمانوں کے لیے اس بناپر نقصاندہ سمجھتے تھے کہ اس ملک میں نیا بتی طرز حکومت کی بنیاد پڑتی تھی جس میں مسلم اقلیت ہندو اکثریت سے ہمیشہ مغلوب رہتی۔

سرسیدبنیادی طور پر مسلمانوں ہی کے لیڈر تھے۔ وہ صرف اس وقت تک قومی مطالبات کی حمایت کرتے رہے، جب تک ان سے مسلمانوں کے ذاتی مفاد کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے کا احتمال پیدا نہیں ہوا۔جمہوریت اور نیابتی طرز حکومت کے زبردست حامی ہوتے ہوئے بھی انہوں نے فرقہ وارانہ نقطہ نظر سے اس صورت حال کا جائزہ لیا جو کانگریس کے مطالبات سے پیدا ہوگئی تھی۔ ہندوؤں کے غلبہ کے خوف او رمسلمانوں کی تعلیمی او ر معاشتی پسماندگی نے انہیں اور بھی حکومت کی گود میں دھکیل دیا ۔ کانگریس نے اپنے مطالبات کے پردے میں برطانوی اقتدار میں حصہ بٹانے کی ابتدائی کوشش شروع کردی تھی۔ یہ مطالبات اگر منظور ہوجاتے تو ہندوؤں اور انگریزوں کا ایک متحد ہ محاذ سا بن جاتا جسے سر سید مسلمانوں کے سیاسی حقوق کے لیے ایک زبردست خطرہ تصور کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی مخالفتوں سے یہ محاذ نہیں بننے دیا ، بلکہ اس کے بجائے ایک اینگلو مسلم محاذ بنا یا جس کی بنیاد مسلمانوں کی غیر مشروط وفاداری پر رکھی ۔ انہوں نے عمداً حکومت کے اقتدار کواو ربھی مضبوط کیا کیونکہ ان کے نزدیک مسلمانوں کی بہبودی حکومت کے مطالبات کی مخالفت کرتے ہوئے بجٹ یا فوجی امور میں کسی ہندوستانی کی مداخلت کوناجائز قرار دیا او رہندوستان کی مفلسی کونظر انداز کر کے نمک کے محصول کا جواز پیش کیا۔

اس میں شک نہیں کہ سر سید اپنی تقریروں میں بعض ایسی باتیں بھی کہہ گئے جو ان کے شایان شان نہ تھیں ۔ مثلاً بنگالیوں کی روایتی بزدل یا ادنیٰ او راعلیٰ کے امتیاز ات کو جس طرح انہوں نے دلیل کے طور پر استعمال کیا وہ غالباً اس زمانے میں بھی کچھ اچھی نظر سے نہ دیکھا گیاہوگا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ سرسید کا مسلمانوں کو کانگریس کے علاحدہ رکھنا قومی نقطہ نظر سے کہاں تک درست تھا؟ اس سلسلے میں خود سرسید کے الفاظ کہ ’’ بنگالیوں کا ایجی ٹیشن تمام ہندوستان کا ایجی ٹیشن نہیں ہے‘‘ اپنی جگہ حقیقت پر مبنی تھا۔ جواہر لال نہرو کی رائے بھی سر سید کے حق میں ہے:

’’سرسید کا یہ فیصلہ کہ تمام کوششیں مسلمانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کرنے پر صرف کردینی چاہئیں ، یقیناًدرست اور صحیح تھا۔ بغیر اس تعلیم کے میرا خیال ہے کہ مسلمان جدید طرز کی قومیت کی تعمیر میں کوئی موثر حصہ نہیں لے سکتے تھے، بلکہ یہ اندیشہ تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوؤں کے غلام بن جائیں گے جو تعلیم میں بھی ان سے آگے تھے اور معاشی اعتبار سے بھی زیادہ مضبوط تھے‘‘۔

’’ہندوؤں کی طرح مسلمانوں میں ابھی تک کوئی بورڑوا طبقہ نہیں پیدا ہوا تھا۔ اس لیے نہ تو تاریخی حالات اس کی اجازت دیتے تھے او رنہ ان کے خیالات میں کوئی ایسا انقلاب پیدا ہوا تھا کہ مسلمان بورڑوا تحریک و طنیت میں شامل ہوجائے‘‘۔

مولانا محمد علی نے اسے اور بھی واضح طور پر پیش کیا ہے:

’’ سید احمد خاں معصوم نہ تھے، غیر خاطی نہ تھے مگر کوئی دور اندیش او رمصلحت بیں مسلمان ان کے اس احساس سے اپنے کوسبک دوش ہر گز خیال نہ کرے گاکہ انہوں نے مسلمانوں کو کانگریس کی ابتداء میں کانگریس میں شرکت سے روکا۔ یہی نہیں کہ اس وقت کی شرکت سے مسلمانوں کونقصان پہنچتا او روہ جس طرح مدراس ، کلکتہ او رممبئی کی یونیورسٹیوں کی تعلیم سے مستغنیٰ رہ کر گھاٹے میں رہے تھے، علی گڑھ کالج سے مستغنیٰ رہ کر کالج میں رہتے بلکہ انگریزوں کے خلاف جوش انتقام سے مجبور ہوکر کانگریس میں ایک شورش پسند فریق کی حیثیت سے شریک ہوتے اور اسے بھی نقصان پہنچاتے ۔ مسلمانوں کے لیے میدان سیاست میں قدم رکھنے کا وہ وقت نہ تھا بلکہ ان کی شرکت سیاست کے لیے وقت بیس برس بعد آیا جب کہ علی گڑھ کالج کے قیام کو بھی تیس سال گزر چکے تھے اور جس طرح مدراس کلکتہ او رممبئی یونیورسٹیوں کے سنہ1885میں تیار ہو کر کانگریس کی بانی ہوئی ، اسی طرح 1875سے علی گڑھ اسکول اور سنہ 1877سے علی گڑھ کالج کی بنیاد کے تیس سال بعد مسلمانوں کی ایک نئی تعلیم یافتہ سنہ 1906میں تیار ہوکر مسلم لیگ کی بانی ہوئی اور مسلمانوں نے بہ حیثیت ملت میدان سیاست میں قدم رکھا‘‘۔

مسلمانوں کی اس سیاسی بیداری کے بارے میں وہ ایک جگہ پھر لکھتے ہیں:

’’1907میں جب کہ قیام کالج کے پورے تیس سال بعد ایک نئی نسل آغوش کالج تربیت پاچکی اور تعلیم یافتہ مسلمانوں نے ہندوؤں کی طرح ایک سیاسی کروٹ لی اور کانگریس کی طرح مسلم لیگ کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا یہ کوئی اتفاقی امرنہ تھا کہ طلبا نے حکومت پولیس او رخود اپنے یورپین اسٹاف کی جانب سے اس پولیس کی حمایت کے خلاف اسٹرائک کردی اور عین اسی زمانے میں ایک دو ماہ پیشترکی میری دعو ت پر گوکھلے آنجہانی بھی علی گڑھ میں تشریف لائے اور جنہوں نے طلبا کو اپنا گرویدہ پایا ‘‘۔

مذکورہ بالا اقتباسات سے ظاہر ہے کہ کانگریس کی بنیادجس زمانے میں پڑی مسلمانوں کا متوسط طبقہ تشکیلی دور میں تھا اور ہندوؤں کی طرح وہ بھی وفادارانہ طریقے سے جدید تعلیم ، مغربی خیالات او رآئینی جد وجہد سے آشنا ہورہا تھا ۔ سنہ 1885میں جس معاشی بے چینی نے ہندوؤں کے متوسط طبقے کو کانگریس کی صورت میں ایک جا کر دیا تھا اسی طرح سنہ 1906میں اسی نوع کے معاشی حالات نے مسلمانوں کے متوسط طبقے کو جو اب تیار ہوچکا تھا اپنی سیاسی تنظیم پر آمادہ کیا۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی تعداد جس طرح بڑھ رہی تھی اس مناسبت سے حکومت کے پاس ملازمتیں نہ تھیں۔ اس سے ایک بے اطمینانی پیدا ہوئی جس نے ہندوؤں کے غلبے کے خوف سے مل کر مسلم لیگ کی صورت اختیار کرلی۔

کانگریس میں مسلمانوں کی عدم شرکت کی اصل وجہ یہ تھی کہ سنہ 1870تک انگریزوں کے خلاف جد وجہد کرنے کے بعد خود مسلمانوں کی ہمتیں جواب دے چکی تھیں ۔ پھر مسلمانوں کے اس طبقے کے لیے جس کا ذریعہ معاش صرف ملازمت تھی، سر سید کی ہم نوائی کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا۔ ہندواکثریت کا اندیشہ اتناشدید نہ تھا کہ انہیں کانگریس کی شرکت سے باز رکھتا ۔ لیکن بد قسمتی سے اس اندیشے کوبعد کے واقعات سے کافی تقویت پہنچی ۔ سنہ 1893میں گنپتی کے میلے اور انسداد گاؤکشی کی تحریک نے ممبئی ، اعظم گڑھ اور دوسرے مقامات میں ہندو مسلم فسادات برپا کردیے۔یہ تحریکیں جنہیں تلک جیسے لیڈر کی حمایت حاصل تھی دراصل انگریزوں کے خلاف تھیں ۔ یہ گویا ترقی پسند قوم پرستی او رہندو مذہب پرستی کی انتہائی رجعت پسندقوتوں کے اتحاد کا اظہار تھا۔ جس کی ابتدا تلک سے ہوئی۔ اس صورت حال کا تجزیہ کرتے ہوئے پام دت لکھتے ہیں :

’’ ایسے حالات میں جب کہ ہر قسم کی سیاسی سر گرمی اور سیاسی ادارے کو سامراج اپنی پوری قوت دبا تا تھا او رجب کہ قومی تحریک ابھی عوام تک نہیں پہنچی تھی ، سیاسی سرگرمیوں کے لیے اس طرح مذہبی اداروں کی آڑ لینا بالکل جائز تھا۔ لیکن یہاں سوال ایک سیاسی تحریک کی صرف ظاہراً شکل نہیں ہے اور بات صرف اتنی نہیں ہے کہ سیاسی سرگرمی کے لیے مذہبیت کی آڑ لی گئی۔ واقعہ یہ ہے کہ یہاں خالص مذہب پرستی یا تو ہم پرستی کو قومی تحریک میں مرکزی حیثیت دے دی گئی تھی اور دعویٰ یہ کیا جاتا تھا کہ قدیم ہندو تہذیب روحانی نقطہ نظر سے جدید مغربی تہذیب سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس بنیادی سیاسی تبلیغ سے قومی تحریک کی اصل ترقی اور سیاسی بیداری کوبڑا دھکا پہنچا او رمسلمانوں کی بڑی تعداد جو قومی تحریک سے الگ او را س کے خلاف ہوگئی، اس کی کچھ ذمہ داری اس پر بھی ہے کہ قومی تحریک میں ہند و مذہب پر بڑا زور دیا گیا‘‘۔

یہ بھی ہمیں نہ بھولنا چاہیے کہ سرسید کے آخری دور کی سیاست میں علی گڑھ کے پرنسپل مسٹر بیگ کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اکثریت کے غلبہ کے خوف کوانہوں نے او ربھی ہوا دی۔ کبھی انہوں نے مسلمانو ں کو گزشتہ بغاوت کے انجام کی یاد تازہ کرائی او رکبھی ملازمتوں کے چھن جانے کی دھمکی دی اور اس طرح وہ خلیج جو تاریخی اسباب کی بنا پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان پیداہوگئی تھی اسے او ربھی وسیع کیا۔ سنہ 1888میں یونائیٹڈ انڈین پٹیر یا ٹک ایسوایشن کا جو کانگریس کی مخالفت کے لئے قائم ہوئی ایک حد تک مسٹر بیگ کی کوششوں کی رہین منت تھی۔ لیکن اس قسم کی مخالفتوں کے باوجود کانگریس کی قومی تحریک بڑھ رہی تھی۔ چنانچہ 1892میں ہندوستانی کونسلوں کا قانون پاس ہوا اور صوبے کی کونسلوں میں میونسپل اور ڈسٹرکٹ بورڈوں ،تجارتی جماعتوں اور یونیورسیٹوں سے بھی ممبر لیے جانے لگے۔ ممبروں کوکونسلوں میں سوالات کرنے اور بجٹ پر بحث کرنے کے بھی اختیارات حاصل ہوئے۔ یہ مسٹر بیگ کی شکست تھی جو کانگریس او راس کے مطالبات کو برطانوی حکومت کے اقتدار کے لیے بہت بڑاخطرہ تصور کرتے تھے۔ بہر حال انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں او رسنہ 1893میں ایک جماعت مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی حفاظت کے لیے قائم ہوئی۔ اس کانام محمڈن اینگلو اوینٹل ڈنفنس ایسو سی ایشن آف اپر انڈیا رکھا گیا۔ یہ جماعت جیساکہ نام سے ظاہر ہے صرف مسلمان ممبروں پر مشتمل تھی اور ا س کا قیام ٹھیک اس زمانے میں عمل میں آیا۔ جب تلک کی انسداد گاؤکشی کی تحریک سے جگہ جگہ ہندو مسلم فسادات برپا تھے۔ اس کے سیکریٹری خود مسٹر بیگ تھے ۔ سرسید نے خود اپنی مصروفیت اورپیرانہ سالی کی بنا پر اس کی کارروائیوں میں بہت کم حصہ لیا۔سارا کام مسٹر بیگ ہی کرتے تھے او ران کی ساری توجہ ہندوؤں کے خلاف اینگلو مسلم بلاک بنانے میں صرف ہوتی تھی جو ان کے نزدیک برطانوی حکومت کے استحکام کے کے لیے نہایت ضروری تھا۔ چونکہ سرسید خود بھی ہندو اکثریت سے خوفزدہ تھے اور ان کی نظر میں بھی مسلمانوں کا مستقبل انگریزی حکومت کی پائداری پر مبنی تھا، کاس لیے بیگ کی فرقہ وارانہ سیاست کو ان کی تائید حاصل رہی ۔ اس کے علاوہ سر سید بیگ پر اتنا بھروسہ کرنے لگے تھے کہ آخری عمر میں انہوں نے انسٹی ٹیوٹ گزٹ بھی ان کے سپرد کردیا تھا۔ بیگ نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر فرقہ وارانہ فضا کو اور بھی مکدر کیا۔ میر ولایت حسین کے الفاظ میں ’’بیگ نے بنگالیوں او ران کی تحریک کے خلاف انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے اڈیٹوریل کالم میں مضامین لکھنا شروع کیے جو سرسید سے منسوب ہوئے اور بنگالیوں نے سرسید کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور اس طرح بنگالیوں سے اعلانیہ لڑائی شروع ہوگئی‘‘۔

مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو سرسید کی خدمات مسلمانوں کے لیے بڑی اہم اور بڑی انقلاب آفریں تھیں۔ ان کے دور میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسابھی تھا جو اپنی معاشی بدحالی کی بنا پر حکومت سے تعاون کرنے پر مجبور تھا ، لیکن اسے مذہبی جواز کی بھی ضرورت تھی۔ سرسید نے یہ مذہبی جواز مہیا کیا اور حالی کی رائے کے مطابق مذہب کا وہ متروک حصہ تلاش کیا جو موجودہ زمانے کے موافق تھا۔ ان کی وجہ سے تقلید ، تعصب اور تنگ نظری میں وہ اگلی ہی شدت باقی نہ رہی۔ اس کے علاوہ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا سے جوبے تعلقی دین کی بدولت پید اہوگئی تھی وہ بھی سرسید کی کوششوں سے دورہوئی او رمسلمان دنیوی امورمیں جوش و خروش سے حصہ لینے لگے۔

سرسید کی وفادارانہ پالیسی شروع سے آخر تک غیر متزلزل رہی۔ انہیں حکومت کے استحکام کا اس درجہ خیال تھا کہ معمولی سے معمولی سیاسی ہنگامے کوبھی برداشت نہ کرسکتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے صرف کانگریس کے ہندوؤں ہی کی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی مخالفت کی۔ مثلاً جنگ بلقان کے دوران میں جب مسلمان ترکی اور خلیفہ ترکی کی حمایت میں انگریزوں سے بدظن اورمشتعل ہورہے تھے، انہوں نے ترکوں کے مقابلے میں انگریزوں ہی کی طرفداری کی اور خلیفہ ترکی کو روحانی پیشوا ماننے سے انکار کردیا۔

لیکن اگر سرسید اس حد تک وفادارانہ ہوتے تو شاید حکومت ان کے تعلیمی منصوبوں کی عملی شکل دینے میں اتنی مدد نہ کرتی اورمسلمانوں کا وہ متوسط طبقہ جو مغرب کے علوم وفنون ،اقدار و تصورات او رتہذیب و معاشرت سے آشنا ہوکر سیاست میں اپنی جگہ پیدا کرنے کے قابل بنا اس قدر جلد نہ بن پاتا۔ سرسید نے ایک عرصے تک مسلمانوں کو سیاست میں نہ پڑنے دیا،لیکن ان کے آخری دورمیں حالات بہت کچھ بدل چکے تھے ۔ مسلمانوں کی نئی تعلیم یافتہ نسل ملکی سیاست میں حصہ لینے کے لیے بے چین ہو رہی تھی ۔سرسید نے اگر چہ اس سے پہلے امیر علی کی محمڈن نیشنل کانفرنس میں جو اسی نئی نسل کی بے اطمینانی کاپہلا مظاہرہ تھی شریک ہونے سے انکار کردیا تھا ، لیکن سنہ 1893تک انہیں خود مسلمانوں کی ایک سیاسی جماعت کی ضرورت کا احساس پیدا ہو چلا تھا۔ محمڈن ڈیفنس ایسوسی ایشن اسی ضرورت کی بنا پر وجود میں آئی۔

سرسید کو انگریزوں سے بڑا حسن ظن تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ حاکم محکوم میں مساویانہ تعلقات بھی دیکھنا چاہئے تھے ۔ اس معاملے میں سرسید کی توقعات جس حد تک وہ چاہتے تھے پوری نہیں ہوئیں۔ سنہ 1884میں انہیں یہ شکایت پیدا ہوگئی تھیں کہ انگریزوں کو مسلمانوں سے وہ ہمدردی نہیں جس کے وہ متمنی تھے ۔ لیکن اس مسئلے کو وہ خالص ہندوستانی نقطہ نظر سے دیکھتے تھے اور اگر کبھی اس خود داری کو ٹھیس لگتی تو برہم ہوجاتے ۔اپنی وفات سے کچھ قبل وہ شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگے تھے کہ انگریزوں کے توہین آمیز رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ اس تلخ حقیقت کے بارے میں آخر کار انہیں کہنا پڑا کہ ’’انگریزوں کا جو سلوک اپنے ہم قوموں سے اور ہندوستانیوں سے ہے اس میں اتنا فرق ہے جتناسفید اور سیاہ‘‘۔ اور شاید اسی غیر مساویانہ سلوک کی بنا پر وہ ’’ اپنی زندگی کے آخری ایام میں کانگریس کے مطالبات کو حق بجانب سمجھنے لگے تھے‘‘۔

سرسید کو غالباً غیر ملکی سرمایہ دارانہ استحصال کاپوری طرح علم نہ تھا ورنہ وہ انگریزوں سے اتنی توقعات وابستہ نہ کرتے۔ صنعت و تجارت پر حکومت کی بے شمار پابندیوں کے باوجود انہیں یہ امید تھی کہ انگریز مسلمانوں کو اپنی تجارت میں حصہ دینے پر تیار ہو جائیں گے۔ یہی خیال ان کا سرکاری ملازمتوں کے بارے میں تھا، لیکن ان مراعات کے لیے وہ وفاداری اور علیٰ تعلیم کی شرائط بھی پیش کرتے تھے۔ یہ سب ان کی خوش فہمی تھی ۔ وہ انگریزوں کی شرافت ، دیانت ، اخلاق اور عہد و پیمان پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ کر بیٹھے تھے ۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ سنہ 1870سے مسلمانوں متعلق انگریزی پالیسی میں جو تبدیلی ہوئی وہ کسی تر حمانہ اور شریفانہ جذبہ کے بجائے خود برطانوی حکومت کے اپنے مفاد پر مبنی تھی ۔ ہندوؤں کے بڑھتے ہوئے متوسط طبقے کے مقابلے میں حکومت مسلمانوں کا ایک متوسط طبقہ پیدا کرنا چاہتی تھی تاکہ باہمی رقابت اور دشمنی کی بنیادوں پر حکومت کی عمارت کواور بھی مستحکم کیا جاسکے ۔ انگریزنہ ہندوؤں کے دوست تھے نہ مسلمانوں کے او رنہ وہ کسی اتنی مراعات دینے کے قائل تھے کہ خود ان کا مفاد مجروح ہو۔ ان کے سرمایہ دار زرکشی کے لیے ملک میں بڑے بڑے سرمایے لگا رہے تھے او راسی سرمایے کی حفاظت کے لیے ہنٹر کی نظر میں حکومت کا استحکام ضروری تھا۔

سرسید کا ایک کارنامہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کے لیے سب سے پہلے قوم کا لفظ استعمال کیا اور انہیں قومیت کے تصور سے آشنا کیا۔ سنہ 1857تک اور اس کے بعد بھی اس قسم کی جداگانہ قومیت کا تصور ہندوؤں میں تھا نہ مسلمانوں میں لیکن یہ ضرور تھا کہ سید احمد شہید کی تحریک سے مسلمانوں میں اپنی جداگانہ ہستی کا ایک خفیف سا احساس پیدا ہو چلا تھا۔ اس میں فرقہ واریت مطلق نہ تھی ۔ یہ بعد کی چیز ہے جو سر سید کے زمانے میں انگریزوں کی سیاسی اور معاشی پالیسی کی بدولت پیدا ہوئی ۔ بہر حال مسلمانوں میں ایک جداگانہ قوم کا تصور سرسید ہی کی دین ہے اور سنہ 1884کے بعد کی پیداوارہے۔ اسے سرسید کی محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس نے اور بھی ابھارا جو سنہ1886میں مسلمانوں کی عام تعلیمی اصلاح کی غرض سے قائم ہوئی تھی۔ اس کے سالانہ جلسوں میں ملک کے دور دراز گوشوں سے نمائندے شریک ہوتے او رمسلم قومیت کے جذبہ سے سرشار ہوکر واپس جاتے لیکن اس جذبہ کی جہاں سب سے زیادہ نشو و نما ہوئی وہ علی گڑھ کالج تھا جس کی اقامتی زندگی پر سرسید کی خاص توجہ تھی۔ علی گڑھ کے طلبہ جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے آتے تھے ۔ سرسید کے زیر اثر ایک خاص انداز میں رہنے ، ایک خاص یونیفارم پہننے او رایک خاص انداز میں سوچنے کے عادی بنائے گئے۔ اس یک رنگی سے جداگانہ قومیت اور جداگانہ قومیت سے فرقہ وارانہذہنیت کی پرورش ہوئی ۔

سرسید بعض معاملات میں قدامت پرست اور تنگ نظر میں تھے ۔ مثلاً موجودہ حالات میں وہ عورتوں کے پردے کے حامی تھے اور ان کی انگریزی تعلیم کے مخالف ۔ وہ ان کے لیے اخلاق اور دینیات کی تعلیم ہی کافی سمجھتے تھے ۔ ان کا عقیدہ تھا کہ عورتوں سے پہلے مرد وں کی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد وہ خود عورتوں کو تعلیم سے آراستہ کرلیں گے کیونکہ ’’ جہاں کے مرد تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں وہاں کی عورتیں بھی تعلیم یافتہ ہوگئی ہیں‘‘۔

ادنیٰ حیثیت کے مسلمان لڑکوں کے لیے بھی وہ انگریزی تعلیم کو ضروری خیال نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بھی شدید مخالفت کی اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس سے ہائی ایجوکیشن میں خلل پڑے گا ۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ نہ دیکھا کہ ہندوستان صنعتی ترقی کی طرف قدم بڑھا رہاہے ۔ ان کی ساری توجہ بس اس پر تھی کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ جلد سے جلد انگریزی تعلیم حاصل کرکے ملکی سیاست میں دخیل ہوجائے ۔ اس کے علاوہ تمام چیزیں ان کی نظرمیں ثانوی حیثیت رکھتی تھیں۔

سرسید کو ابتدا میں سخت مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آخری عمر میں وہ عام طور سے مسلمانوں کے سب سے بڑے لیڈر سمجھے جانے لگے تھے۔ پھر بھی عالموں اورمولویوں کاطبقہ جو دراصل ادنیٰ درجے کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا تھا۔ سرسید کی مسلسل مستقل اور شدید مخالفت کرتارہا۔ یہ طبقہ سیاسی اعتبار سے جتناانگریز دشمن تھا اتناہی مذہبی اعتبار سے قدامت پرست بھی تھا۔ وہ لوگ بھی سرسید کے مخالف رہے جو قدیم سماج کے پروردہ تھے اورڈرتے تھے کہ کہیں سرسید کے جدید خیالات سے ان کے قدیم اقدار و تصورات کا وہ شیرازہ بکھر جائے جو ان کی ذہنی اورجذباتی تسکین کا باعث تھا۔ پھر بھی سرسید کی جدیدیت نے قدیم اقدار کی دیواروں میں ایسے شکاف پیدا کر دیے تھے جن کی وجہ سے دل و دماغ کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا ۔ عقل نئی دنیا کی طرف کھنچتی تھی، جذبہ پرانی دنیا کی طرف ۔دونوں کی ہم آہنگی کے لیے کچھ وقت درکا رتھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سرسید کے آخری دور میں جب ان کی تحریک کی عمر بیس بائیس سال ہوچکی تھی علما یا قدیم کے پرستاروں کے علاوہ عام مخالفتوں میں بڑی حد تک کمی پیدا ہوگئی تھی ۔ قدیم جدید سے مانوس ہوچلا تھا ۔

آخر میں اگر ہم سرسید کے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے قائم کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ مجموعی طور پر اپنے دور کی عام ترقی پسندی کے معیار پر ہر طرح پورے اترتے ہیں۔ حکومت سے وفاداری ان کی رجعت پسندی کی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ خود کانگریس بھی جو ملک کی سب سے زیادہ ترقی پسندجماعت تھی اسی منزل میں تھی اور سرسید کے بعدبھی ایک عرصے تک اسی منزل میں رہی۔ کانگریس بورڑوا طبقے کی نمائندہ تھی اور اس دور کا بورڑوا طبقہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اتناطاقتور نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کے نظام کو چیلنج کر سکے ۔ اس کے بر عکس وہ برطانوی حکومت کو اپنا دوست سمجھتا تھا۔ اس طبقے کے نزدیک ان کی اصل دشمن برطانوی حکومت نہیں تھی بلکہ یہ حقیقت تھی کہ عوام بالکل پسماندہ تھے، ملک کی جدید ترقیوں کی ہوا نہیں لگی تھی ، تو ہمات او رجہالت کا اثر لوگوں پر بہت زیادہ غالب تھا اور نوکر شاہی نظم و نسق کا ناقص نظام ان تمام خامیوں کا ذمہ دارتھا ۔ ’’ ان خرابیوں کے خلاف جد وجہد کرتے ہوئے انہیں توقع رہتی تھی کہ برطانوی حکومت ان کے ساتھ تعاون کرے گی‘‘۔ سرسید کو اس نقطہ نظر سے دیکھئے تو وہ بھی مسلمانوں کی پسماندگی ،جہالت اور توہمات کودورکرنے اورمغربی اقدار او رجمہوری تصورات کے پھیلانے میں تمام عمر مصروف رہے۔ کانگریس لیڈروں کی طرح وہ بھی حکومت کے وفادار تھے اور حکومت کے نظم ونسق میں ہندوستانیوں کوبرابر کاشریک دیکھنا چاہتے تھے لیکن جیسا کہ بتایا جاچکا ہے انہیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ہندو اپنی اکثریت اور تعلیمی ترقی کی بدولت مسلمانوں سے پہلے حکومت کی مشینری پر قابض ہوجائیں او ران کے حق تلفی کریں۔ سرسید کو کانگریس کی مخالفت کی بنا پر رجعت پسندقرار دیناایک عام غلطی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو یقیناًایک جداگانہ سیاسی نصب العین دیا، لیکن اسے ایک تاریخی مجبوری کے سوا کچھ اور سمجھنا سخت نا انصافی ہوگی۔

سرسید کی داستان نا مکمل رہ جائے گی اگر ہم شعر و ادب کی دنیا میں انقلاب کا ذکر نہ کریں جو ان کی توجہ کارہین منت ہے۔ انہوں نے مختلف النوع موضوعات پر قلم اٹھا کر زبان کو ہر قسم کے خیالات کی ادائیگی کے قابل بنایا۔ تکلف اور تصنع کی بجائے سادگی اور سلاست کو رواج دیا ۔ اس طرح اردو کو جہاں تک نثر کا تعلق ہے سرسید کی بدولت پہلی بار وسعتیں نصیب ہوئیں۔ ان کی تحریر ایک عرصے تک نثر لکھنے والوں کے لیے نمونہ بنی رہی۔ حالی، شبلی سبھی ان کے خوشہ چیں ہیں۔ نظم بھی ان کی کچھ کم احسان مندنہیں ۔ مولانامحمد حسین آزاد اگرچہ نئی اور نیچرل شاعری کے بانی ہیں لیکن اس کے رُخ کو سادگی اور افادیت کی طرف موڑ نے میں سرسید کابہت بڑا ہاتھ ہے۔ اس نیچرل شاعری کے بانی کی نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں:۔

’’ میں مدت سے چاہتا تھا کہ ہمارے شعر ا نیچر کے حالات کے بیان پر متوجہ ہوں ۔ آپ کی مثنوی ’’ خواب امن‘‘ پہنچی ۔ بہت دل خوش ہوا۔ درحقیقت شاعری اور زورسخن وری کی داددی ہے۔ اب بھی اس میں خیالی باتیں بہت ہیں ۔ اپنے کلام کو اور زیادہ نیچر کی طرف مائل کرو۔ جس قدر کلام نیچر کی طرف مائل ہو گا اتنا ہی مزادے گا۔ اب لوگوں کے طعنوں سے مت ڈرو۔ ضروری ہے کہ انگریزی شاعروں کے خیالات لے کر اردو زبان میں ادا کیے جاویں۔ یہ کام ہی ایسا مشکل ہے کہ کوئی کر تو دے ۔ ابھی تک ہم میں خیالات نیچر کے ہیں ہی نہیں ۔ ہم بیان کیا کرسکتے ہیں۔‘‘۔

7مئی،2017 بشکریہ: میرا وطن، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/indian-history-british-rule-aligarh/d/111255

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..