محمد الشیخ
12 اپریل 2018
سعودی عرب کی منسٹری آف کلچر اینڈ انفارمیشن نے اعلان کیا ہے کہ اگلے چند دنوں کے اندر ریاض میں سنیما ہال تقریبا چالیس سالوں کے بعد پھر دوبارہ کھولے جائیں گے۔
اس معاملے میں خود سنیما کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں اہم اس قدام کی علامتیت ہے۔ اب یہ بات ہر انسان کو معلوم ہو چکی ہے کہ سعودی عرب میں ایسے حکومتی ادارے ہیں جو مختلف میدانوں اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں کشادہ ذہنی اور آزاد خیالی کو فروغ دینے کے لئے پر عزم ہیں۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب حکومت کو اس بات کا کامل یقین ہو چلا ہے کہ تنگ ذہن اور قدامت پرست معاشرہ جو خوشیوں اور مسرتوں کے خلاف ہے اور تفریح طبع کو ممنوع قرار دیتا ہے وہ ایک بیمار معاشرہ ہے اور اس کی اس بیماری کو دور کیا جانا ضروری ہے۔ اس منفی نقطہ نظر کے حامیوں کو خاموش کیا جانا ضروری ہے ، تاکہ معاشرے کو اس مہلک بیمارے سے بچایا جا سکے ، جس نے بنیادی طور پر نوجوانوں کے درمیان انتہا پسندی اور دہشت گردی کو فروغ دیا ہے۔
خود ساختہ پابندیاں
اگر کوئی اس تنگ نظری کے اسباب و علل پر غور کرنے کی کوشش کرے تو اسے یہ اندازہ ہو گا کہ یہ ان شخصیات کی وجہ سے ہے جنہوں نے ایسے افکار کے بیج بوئے جن سے ایسی ایسی ممانعتیں سامنے آئیں کہ جن کی کوئی دلیل نہیں ہے اور فتویٰ جاری کرتے وقت جن کی بنیادیں شرعی احکام پر نہیں ہوتیں۔
ان شخصیات کا ماننا ہے کہ انہوں نے جن چیزوں کو جائز یا جن باتوں کو ممنوع قرار دیا ہے وہ حتمی اور پتھر کی لکیر ہیں اس سے مختلف نقطہ نظر کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ان کے مطابق جو وہ کہتے ہیں مکمل طور پر وہی درست ہے اور اس کے علاوہ باقی تمام باتیں غلط ہیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ دوسروں کی رائے کو مسترد کرنے میں یک رخا پن ہی ہمارا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے ، جس نے ایک ایسا معاشرہ تیار کر دیا ہے جو صرف ایک جہت میں چلتا ہے اور صرف انہیں باتوں پر یقین کرتا ہے جو علماء کہتے ہیں۔
مذہبی تفقہ کی تاریخ مباحثوں اور اختلاف رائے سے بھری پڑی ہے۔ شریعت کے تئیں اس نقطہ نظر کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے شریعت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔ جب کوئی ایک رائے کسی کے اوپر زبردستی تھوپی جاتی ہے تو اس یکطرفہ پن سے انتہاپسند ذہنیت کا جنم ہوتا ہے جو کہ دہشت گردی کا سب سے پہلا زینہ ہے۔
جب ہم کشادہ ذہنی کی بات کریں گے اور جب ہم کسی پر کفر و رتداد کا الزام لگائے بغیر کھلے دماغ کے ساتھ اوامر و نواہی پر گفتگو کرنے کی بات کریں گے ، یعنی جب ہم تکثیریت پسندی کو تسلیم کر لیں گے ، تب اصلاح اور تہذیب کی جانب ہمارا پہلا قدم اٹھے گا۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں مختلف نوعیتوں کے متعدد عناصر بھی ہیں جن میں سے بعض کا فقہی موقف ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہے۔
بقائے باہمی کا ہدف ہم اس وقت تک نہیں حاصل کر سکتے –جو کہ ملک کے تحفظ اور استحکام کی بنیاد ہے- جب تک ہم ان متعدد عناصر کے درمیان اختلافات کا احترام نہ کریں ، اور کسی کو اپنے معتقدات دوسروں پر مسلط کرنے سے نہ روکیں۔ جن چیز کو کچھ لوگ مکمل طور پر ممنوع سمجھتے ہوں ممکن ہے کہ کچھ دوسرے لوگوں کے نزدیک وہ چیز جائز ہو۔ چونکہ ہم سب ایک ہی مادر وطن کا حصہ ہیں اسی لئے ہمیں دوسروں کے معتقدات کا احترام کرنا چاہئے اگر چہ ہمارا ن سے اختلاف ہو۔
انتہاپسندی کا اعلاج
مجھے یقین ہے کہ عظیم کشادہ ذہنی کے متعلق یہ رویہ جو ابھی پنایا گیا ہے ، سب سے پہلے ہمارے معاشرے میں انتہاپسندی اور تنگ نظری کا خاتمہ کرے گا جو کہ دہشت گردی کا وائرس (virus) ہے۔ اس تبدیلی کے نتائج ابھی سے ہی ظاہر ہونا شروع ہو چکے ہیں۔
اس سال جس تعداد میں دہشت گرد عناصر کا انکشاف ہوا ہے اس میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زبردست مثبت تبدیلی سامنے آئی ہے۔ اور مجھے پختہ یقین ہے کہ مختلف شعبوں میں اس کشادہ ذہنی کے دوام سے انتہاپسندی کا دائرہ مزید تنگ ہو گا اور دہشت گرد جماعتوں کو اپنے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے میں مزید پریشانیاں پیش آئیں گی۔
میں آخر میں بالکل دوٹوک انداز میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ کشادہ ذہنی اور آزاد خیالی صرف انتہاپسندی اور دہشت گردی کا علاج ہی نہیں بلکہ یہ تہذیب و ثقافت کی ترقی کے لئے اکسیر بھی ہے ، جسے اختیار کرنے سے تنگ نظر اور پس ماندہ لوگوں نے ہمیں کئی دہائیوں سے روکے رکھا ہے۔
ماخذ:
english.alarabiya.net/en/views/news/middle-east/2018/04/12/Countdown-to-the-opening-of-cinemas-in-Saudi-Arabia.html
URL for English article: http://www.newageislam.com/islamic-society/mohammed-al-shaikh/countdown-to-the-opening-of-cinemas-in-saudi-arabia/d/114913
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism