New Age Islam
Sat Nov 09 2024, 11:57 AM

Urdu Section ( 16 Apr 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sufi, Sufism and Islam صوفی۔ تصوف اور اسلام

 

محمد اخلاق،  نیو ایج اسلام 

16 اپریل، 2013

‘‘صوفی’’  لفظ ‘‘ صوف ’’سے بنتا ہے اور عربی زبا ن میں ا س کا مطلب ‘‘ صفا’’سے ہے، یعنی ‘‘ کلب کی صفائی’’۔کچھ لوگ اسے فارسی لفظ‘‘  صوف’’ سے جو ڑ کر‘‘  پشمینا پوش’’  یا‘‘  کمبل جیسا موٹاگرم کپڑا پہننے والے’’ سے لیتے ہیں۔ تو کچھ نے اسے ‘‘ صف’’سے جوڑ کر بتایا کہ قیا مت کے دن پہلی صف میں جو نیک جنتی لوگ ہوگے۔‘‘  صوفی ہیں’’۔

‘‘ صوفی’’ لفظ کو ‘‘ صوفا’’ ،‘‘ صوفانا’’ اور ‘‘ صوف’’کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔شیخ ابولنشرسراج نے لکھا کہ ’’صوفی اپنے ظاہر ی لبا س کی وجہ سے صوفی کہلائے ۔‘‘یعنی بھیڑوں کی اون کے کپڑے پہننا امبیا ء، اولیاء اور صوفیوں کی خاص پہچان رہی ہے۔مولانا عبدالرحمٰن جا می علیہ السلام نے‘‘  سب سے پہلے صوفی کے روپ میں ابو ہا شم قوفی کو بتایا ہے’’ ۔یعنی پہلی ہجری میں بھی‘‘  صوفی’’ لفظ تھا۔ اسی کو شیخ السلا م طاہر القادری نے کتا بِ سنت کی روشنی میں یو ں بیان کیا ہے کہ‘‘  صوفیہ اسلام’’ نے جو تصّوف اختیار کیا وہ پیغمبرِ آخر الزمانبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی حیاتِ مقدس کا اخلاقی پہلو ہے۔ اس کو تمام سلسلوں کے صوفیوں نے اور سلسلہء چشتیہ کے بزرگوں نے خصوصاًاپنے اصولِ تصوف کی بنیاد کرا ر دیا ہے’’۔

داتا گنج بخش علی ہجوری لاہوری رضی اللہ عنہ  نے عربی کے‘‘ صفا’’  اور ہندوستانی لفظ‘‘ صفائی’’ سے جوڑ کراس کا بیان یوں کیاہے ۔ ‘‘صوفی وہ ہے جو اپنے فانی وجود کو تلاشِ حق میں غرق کر دے اور دنیا وی خواہیشوں سے آزاد ہو کر روحانیت اور حقانیت سے اپنا رشتہ جوڑ لے ۔سادگی ،بلند اخلاق ،انصاف پسند گی اور دوسروں کی عزت کر نا صوفی کردار کی بنیاد ہے۔ دنیا وی وجسمانی خواہشات سے بچنا ،نفس اور اپنی ضروریات پر قابو رکھنا صوفیو ں کی عادت میں ہوتا ہے۔ اور صوفی اپنے کو تپا کر میں اور تم کی بندیش سے پا ک ہو جا تا ہے’’۔

داتا گنج بخش علی ہجویری رضی اللہ عنہ  فر ما تے کہ ۔‘‘حیا کے پھول ،صبر و شکر کے پھل ،عزو نیازکی جڑ ، غم کی کونپل، سچائی کے درخت کے پّتے، ادب کی چھال، حسنِ اخلاق کے بیج ، یے سب لے کر ریاضت کے ہاون دستے میں کوٹتے رہوں اور اس میں عشقِ پشمانی کا عرق روز میلا تے رہوں ۔ ان سب دواؤں کو دل کی ڈیکچی میں بھر کر شوق کے چُلہیں پر پکاؤ۔ جب پک کر تیار ہو جائے توصفائے کلب کی صافی میں چھان لینا اور شیرین زبانی کی شکر ملا کر محبت کی تیز آنچ دینا ، جس وقت تیار ہو کر اُترے تو اس کو خوفِ خدا کے حوالے سے ٹھنڈا کر کے استعمال کرنا ’’۔یہ ہی وہ عظیم نسخہ ہے جو انسان کو عشقِ خدا کی بھٹّی میں تپا کر آج بھی کندن کر سکتا ہے۔ صوفیوں کی عبادت ۔ خلوصِ عمال اور بلند اخلاقی قدروں کی عملی زندگی ہو تی ہیں ۔ یہ لوگ اصواِ رسول اور صحابہ کے نقشے قدم پر عمل کر تے ہوئے،قرآنی تعلیمات اپنا کر تعات وعبادات کو مقصدِ حیات بنا لیتے ہیں۔صوفیوں کا ہر فعل و عمل صرف رضاء الیٰ کی خاطر ہوتا ہے، دنیا کے ذائیقے اور ہوس و ہواس کی خاطر نہیں۔

اسلام میں تصوف ترکِ دنیا کا نا م نہیں ۔اس بارے میں محبوبِ الیٰ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔‘‘ ترکِ دنیا کے یہ معنی نہیں کے، کو ئی اپنے آپ کو تنگ کرے اور لنگوٹ با ندھ کر بیٹھ جا ئے ، بلکہ ترکِ دنیا یہ ہے کہ لبا س بھی پہنے ، کھانا بھی کھا ئے اور حلال کی جو چیز یں انہیں پہنچے اسے رواں رکھے لیکن ان کے جمع کر نے کی طرف رغبت نا ہو ں اور دل کو اس سے نا لگائے۔ (فوئد الفائداز۔نظام الدین اولیاءرحمۃ اللہ علیہ ) ۔ترکِ دنیا ہے’’۔

خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں۔ ‘‘ اللہ کا ولی بننے کے لئے پہلا قول یہ ہے کہ مظلوموں کی فریا د سُننا،بیچاروں کی حاجت روائی کرنا اور بھوکوں کوکھا نا کھلا نا’’ ۔خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ  نے فرما یاں کہ اللہ کے ولی میں تین خصوصیت ہو نی چاہئیں:۔‘‘1۔ دریا کی سی سخاوت، 2۔آفتاب کی سی شفقت، 3 ۔زمین کی سی خاکساری’’ ۔ آگے فرماتے ہے کہ صوفی کو عالمِ کسرت میں واحدتِ الوجود (اللہ کے علاوہ کسی کا بھی وجود نہیں ) کا جلوہ دکھائی دیتا ہے ۔ آپ نے معارفت کے مقامات اور عارف کے کمالات یو ں لکھے ہے ۔:‘‘عارف ’’ علم کے تمام معوزسے واقف ہو تا ہے، اسرارِ الیٰ کے حقائق اور نورِ الیٰ کے دقائق کو آشکا ر کرتا ہے۔ ‘‘ عارف’’ عشقِ الیٰ میں کھو جا تاہے اور اُٹھتے۔بٹھتے ، سوتے۔جاگتے اس کی قدرتِ کاملا میں محو اور متحرت رہتا ہے ۔

ہر فقیر صوفی نہیں ہو سکتا ہے ۔ حضرت جلالدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے نذدیک فقیر کے لئے یہ چیزیں لازم ہے :۔ ‘‘ توبہ ، علم، حلم، معرفت، عقل، عافیت، رحمت ، خلوص، غربت، اخلاق، بیچارگی، خوف، اتقاد، افلاس، شوق، تجدیق، لطف ، ریاضت، شرف، حسر، مستی، ہمت، محبت، وصل، قرب، ادب، اشتیاق، تسلیم و دیدار’’ ۔

دہلی میں ایک بڑے صوفی بزرگ ہوئے امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ جن کا کلام صوفیوں کا تزکرہ اور صوفی سوچ و انداز کا ایک عظیم خزانہ ہیں۔ وہ بیک وقت صوفی بھی تھے اور سپا ہی بھی۔وہ شاعر کے ساتھ مو رخ بھی تھے۔ آج ہند و پاک میں جب بھی جہاں بھی کسی صوفی کا عرس ہوُ اس میں‘‘ رسمِ کل ’’ کے ساتھ‘‘  رنگ’’  و‘‘  صوفیانہ کلا م کی قوالی ’’  بغیر‘‘  کلامِ خسرو’’  کے کبھی بھی مکمل نہیں ہو تی۔

بقول پروفیسر عنوان چشتی۔ ‘‘ تصوف فرد کی عملی ، اخلاقی اور روہانی شخصیت کی تشکیل کرتا ہے۔ تو دوسری طرف ایک صالح اور بے لوس معاشرے کی تعمیر پر زور دیتا ہے۔ یہ حسنِ اخلاق اور کردار کی بلندی ہمیں ہر ایک صوفی میں شّدت سے ملتی ہے’’ ۔ اسی عنوان میں ڈاکٹر تنویر چشتی کے نزدیک۔ ‘‘ تصوف کا مقصد انسان میں اخلاق جیسے اوصاف ، خوفِ خدا ، اور محبت جیسی کیفیت دنیا سے بے نیازی ، بے رغبتی، خاموشی وخلوت نشینی جسیے طبعی رجحانات ، فکر وفن ، شبِ بیداری،ذکر وفکراور عبادات وریا ضت جیسے عمال کو فروغ دینا تاکی روح میں مطلوبہ صفات( دادِ صفا) پیداہو سکے۔‘‘ صوفی کو بیک وقت ولایا ت اور ولادت دونوں اعجازات حاصل ہوتے ہے۔(فوائد الفائد از۔نظام الدین اولیا ء رحمۃ اللہ علیہ )۔ جو رشتہ صوفی کا خدا سے ہوتا ہے وہ ‘‘ ولایت’’ ہے۔ جو معاملات خلقِ خدا کے سا تھ ہے وہ ‘‘ ولادت’’ کا رشتہ ہے’’ ۔

اسلام میں تصوف کی شکل یو سمجھ میں آجاتی ہیں :۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ ’’حضرت حارثا رضی اللہ عنہ سے سرکار صلی للہ علیہ وسلم  نے فرمایا ۔۔۔اے حارثاتیرے ایما ن کی کیا حقیقت ہے ؟حضرت حارثا رضی اللہ عنہ نے جواب دیا یا رسول للہ صلی للہ علیہ وسلم  میرے ایمان کی یے حقیقت ہے کے میں نے خدا کو دنیا سے الگ کر لیا یعنی میں نے دنیا کو دل سے نکال دیا،اور رات کو بے داری کرتا ہو یعنی یا دِ الیٰ میں مشروف رہتا ہوں ۔ اور اب یہ عالم ہو گیا کہ میں عرشِ عاظم کو بے نقاب دیکھتا ہو ۔ یہ سن کر حضور صلی للہ علیہ وسلم  نے فرمایا حارثاتو عارف ہو گیا ہے تو راز کو جان گیا ہے ۔ اس حال کو تھامے رہنا اور ا س پر استقامت اختیارکر نا۔

حضرت شیخ شہاب الدین سحر وردی نے یو ں فرمایا کے تصوف کے علم کا اوسط۔ عمل، انتہا عشق اورعطاِ الیٰ ہے ۔ اس تعریف کی روح سے تصوف کے تین پہلو ہوئیں :۔ علمی، عملی اور عشقِ حقیقی ۔اور باطنی یہاں پے یہ سمجھے کہ ‘‘ عالم کا صوفی ہو نا ضروری نہیں بلکہ صوفی کا عالم ہونا ضروری ہیں ’’ ۔ اس سے قرآنِ مجید کی یہ حدایت کہ ‘‘  خدا سے ڈروں جیسا ڈرنا چاہئے ۔ تاکہ انسان گناہوں سے پاک رہے’’ ۔ مگر کتابِ الیٰ ہی فرماتی ہے ‘‘ اولیاء اللہ کونا کوئی خوف ناخطر ، ان کی حفاظت خودخدا کرتا ہے ’’  یہ بات ہیں صوفیاء حضرات کے عمالِ صالح کی۔

 خدا ہم سبھی کو ان کے نقشِ قدم پر چل کر ایک نیک اور صالح معاشرے کی تعمیر کی طوفیق عطا کرے

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/sufi,-sufism-islam-/d/11157

 

Loading..

Loading..