محمد یوسف ٹینگ
3 اکتوبر،2021
مشتاق احمد یوسفی جن کا
جون 2018 ء میں ستانوے سال کی قابل رشک
عمر میں انتقال ہوا ہے۔ اس نام کے ساتھ یوسفی، کالا حصہ دیکھ کر میں کچھ سٹپٹا
گیا، مسلمانوں کے نام کے ساتھ قریشی، ہاشمی، فاطمی، صدیقی، فاروقی، عثمانی، حیدری،
حسینی وغیرہ لاحقے تو خیراپنااعلیٰ شجرہ نسب خود بیان کرتے ہیں لیکن یہ یوسفی،
کیسے اس صف صاحبان میں درآیا۔بنیادی طور پر یوسف فرعونی مصر کے زمانے کا نام ہے جو
عربوں کے عروج سے ہزاروں سال پہلے کی بات ہے۔ دوسرے یوسف اس راقم کم ترقلم کا نام
بھی ہے۔ ا سلئے بھی گتھی کو سلجھاتے سلجھاتے راقم نے مشتاق احمد یوسفی صاحب کی چند
کتابیں خرید لیں۔ ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد بھی چھ کے عد د سے کچھ کم ہے
لیکن جب میں نے ان کے اوراق پلٹتے ہوئے ان کے جملوں اور فقروں کو جستہ جستہ
پڑھا۔تو میری آنکھیں چند ھیا گئیں۔میرے ہونٹوں سے قہقہوں کی بجلیاں گوندنے کے بعد
گڑگڑانے لگیں۔ میں اردو کے سب سے بڑے طنز مزاح نگار سے ہم کنار ہورہا تھا۔ اردو
میں طنز ومزاح کی شوخیاں اس کی ابتداء سے ہی اپنے جلوہ دکھانے لگی تھی۔ بعد میں
اودھ پنچ رسالے، تن ناتھ سرشار کے کردار خواجہ بدیع الزماں خوجی،کہنیا لال کپور،
فکر تونسوی، رئیس امروہوی او رمجتبیٰ حسین وغیرہ کے مزاحیہ رسالے کے قلمکار اس صنف
سے اردو کے حریم ناز اور ایوان الم میں مسکراہٹوں کا اجالا کرنے کی اپنی سعی کرتے
رہے۔ لیکن مزاح او رطنز کی کھلی دھوپ او ر وہ بھی نثر میں جیسے مشتاق احمد یوسفی
سے کرن کرن پھولتی رہی۔
مشتاق احمد یوسفی
------
میرے خیال میں ا س کے
معیار، اعتبار اور افتخار کا نہ صرف اردو کے ماضی او رنہ شاید آئیندہ بہت عرصے تک
کوئی ثانی پیدا ہوا یا ہوسکے گا۔مشتاق یوسفی نے اردو طنز و مزاح کو عالمی سطح سے
ہم کنار کرنے کی سعی کی، جو ناتھن سوفٹ مارک ٹوین بلکہ جارج برنارڈ شا کے دامن تک رسائی
کی اور سب سے بڑی بات کہ ان کے خاص رنگ و آہنگ کی اپنی الگ طرحداری ہے۔ وہ فقروں
او رجملوں کے علاوہ رواں عبارت کے تہہ نشین خیال سے تبسم اور تگلم کی انجمن سجاتے
ہیں۔
میرا خیال ہے کہ فیض احمد
فیض کے انتقال کے بعد اردو کا سب سے بڑا خسارہ یوسفی کی رحلت کرجانے سے ہوا۔ اگرچہ
دونو ں کی تعلیم و ادب کا موسم بالکل الگ الگ تھا۔ لیکن توشہ چاہے سونے چاندی کی
صورت میں ہو، لعل و گہری کی صورت میں یا اطلس وکمخواب کی شکل میں، نقصان تو بہر
حال صاحب ثروب کا ہی ہوتاہے اور ارد وفیض اور یوسفی کے الگ مگر انفرادی شناخت سے
محروم ہوئی تو اس کی محفل آرائی کے دو بڑے فانوس بجھ گئے۔
مشتاق یوسفی کو پڑھتے
ہوئے پہلے پہلے ا س کے مطالعے کی وسعت،اس کے حافظے کی گہرائی اور اس کی بز جنگلی
کا ر چاؤ حیران کرتاہے۔ وہ اردو ہندی، سنسکرت، فارسی، انگریزی،فرانسیسی، پنجابی،
پشتو، سندھی وغیرہ کے اشعار فقرے، محاورے اور استعارے اس بے شائستگی سے استعمال
کرتاہے کہ ان کا محل او رموقعہ جیسے انہیں گلے لگانے کے لئے باہیں پھیلائے ہو۔ ایک
جگہ پروہ عورت کی محبوبیت کا ذکر کرتاہے تو اسے مجاز کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
موت بھی اس لئے گوارا ہے
موت آتا نہیں ہے، آتی ہے
ایک اور اقتباس:
”صاحب، آپ فقیروں سے مسخری کرتے ہو۔ پکاسو کہتاہے کہ پینٹنگ یعنی
مصوری اندھوں کا پیشہ ہے۔آرٹسٹ وہ پینٹ نہیں کرتا جو دیکھتا ہے بلکہ جو وہ محسوس
کرکے، دیکھتا ہے۔دوسرے ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ تین چار سو سال پینٹنگز میں جو شیوخ
اور نایاب ہلدی میں پیلا رنگ نظر آتا ہے۔ وہ اس طرح بنایا جاتاکہ پہلے گائے تو
مسلسل کئی دن تک آم کے پتے کھاتے، پھر اس کے پیشاب سے پیلا پیلا رنگ بناتے،یہی رنگ
پکے ہوئے رس بھرے آموں، بسنتی چولیوں او راجاؤں کی پر غرور پکڑیوں میں بھرتے تھے۔“
اپنی کتاب ”خاکم بدہن“
میں دست زلیخاء کے نام سے اپنے دیباچے کا آغاز یوں کرتے ہیں:”بابائے انگریزی ڈاکٹر
سمیویل جانسن کا یہ قول دل کی سیاہی سے لکھنے کے لائق ہے کہ جو شخص روپئے کے علاوہ
کسی اور جذبے کے تحت کتاب لکھتا ہے۔ اس سے بڑا احمق روئے زمین پر کوئی نہیں۔ ہمیں
بھی اس کلیے سے حرف بہ حرف اتفاق ہے۔ بشرطیکہ کتاب سے وہی مراد ہے جو ہم سمجھتے
ہیں۔ یعنی چیک بک یا روکڑ بس۔ دیباچہ لکھنے میں وہی سہولت او رفائدے مضمر ہیں جو
خود کشی میں ہوتے ہیں۔یعنی تاریخ وفات، آلہ قتل او رموقع واردات کا انتخاب صاحب
معاملہ خود کرتا ہے اور تعزیرات پاکستان میں یہ واحد جرم ہے جس کی سزا اس صورت میں
ملتی ہے کہ ملزم ارتکاب جزم میں کامیاب نہ ہو۔“
تیشہ بغیر سرنہ سکا جو کو
ہکن اسد
ایک اور پرکیف اقتباس
”انسان کو حیوان ظریف کہا گیا لیکن یہ حیوانوں کے ساتھ بڑی زیادتی
ہے۔۔۔ انسان واحد حیوان ہے جو مصیبت پڑنے سے پہلے مایوس ہوجاتاہے۔ انسان واحد
جانور ہے جسے خلاق عالم نے اپنے حال پر رونے کے لئے غدود گریہ بخشے ہیں۔کثرت
استعمال سے یہ بڑھ جائیں تو حساس طنز نگار دنیا سے یوں خفا ہوجاتے ہیں جیسے اگلے
وقتوں میں آقا نمک حرام لونڈیوں سے روٹھ جاتے تھے۔۔۔ ذہین لوگوں کی ایک قسم وہ بھی
ہے جو احمقوں کا وجود سرے سے برداشت ہی نہیں کرسکتی لیکن جیسا مارکولس دی سیڈ نے
کہا تھا او ریہ بھول جاتے ہیں کہ سبھی انسان احمق ہوتے ہیں۔ موصوف نے تو یہ مشورہ
بھی دیا ہے کہ اگر تم واقعی کسی احمق کی صورت دیکھنا نہیں چاہتے تو خود کو اپنے
کمرے میں مفقل کرلو او رآئینہ توڑ کہ پھینک دو۔“
مشتاق احمد یوسفی کا
نیرنگ زماں ہمیں راجپوتانہ کے ریگزارنے دیا۔ وہی صحرا جس نے اردو / پنجابی کو مہدی
حسن جیسا گلوکار دیا اور ریشما ں جیسی حور صحرا
جس کے گلے میں سرسوتی کا نواس تھا۔ مشاق یوسفی دیر سے پاکستان گیا وہ مالی
امور کا ماہر تھا اور وہ وہاں یونائیٹیڈ بینک کا چیرمین بننے کے بعد آل پاکستان
بینکنگ فیڈریشن کا پریذیڈنٹ بنا۔ اس نے خوشحال دماغ البالی اور اقبال مندی کی
زندگی بھی گزاری۔ پاکستان سرکار نے اسے اپنے سب سے بڑے اعزاز نشان پاکستان اور
تمغہ امتیاز سے بھی نوازا۔ لیکن اصل امتیاز اس کی صرف چند کتابیں جو اردو ادب کے
لافانی شاہکاروں کی حیثیت سے زوال آمادہ اردو زبان کے آخر تک پڑھی جائے گی۔
کہا جاتاہے کہ شاعری کا
دوسری زبان میں ترجمہ تقریباً محال ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں فٹز جیرالڈ کی
رباعیات عمر خیام اور سعدی شیرازی کی گلستان کے دوسری زبان میں ترجمے ملتے ہیں اور
وہ بہت اچھے بھی تسلیم کئے گئے ہیں۔ لیکن اگر کسی چیز کو ترجمہ اپنی آغوش میں کبھی نہیں سما سکتا تو وہ
یوسفی کا طرحدار مزاج کہ جس طر ح ہیلن آف ٹرائے،گلریز کی نوش لب اور عربی شاعروں
کی سلمٰی کے رخساروں کی نظیر نہیں مل سکتی۔اس طرح یوسفی کی مزاح نگاری کا ترجمہ
محال ہی نہیں قطعی طور غیر ممکن ہے۔ راقم کو اس سلسلے میں انگریز ی ادیب اور جینا
ودلف کا یہ قول برجستہ لگتا ہے۔
”ادب کے تحفوں کو دوسری زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے جو تحفہ سب سے
پہلے غارت ہوتاہے۔ وہ مزاح ہے۔“
یوسفی کے فن کا اصل
اندازہ تو اس کی کتابوں کو پڑھنے سے ہی ہوسکتاہے۔ خاص طور آب گم کا۔ مگر چلتے چلتے
اس کے چند جملوں، فقروں وغیرہ کے شگوفوں کی جھلک سے لطف اندوز ہوجائیں۔
”فقیر کی گالی، عورت کے تھپڑ او رمسخرے کی بات سے آزردہ نہیں
ہوجانا چاہئے۔یہ تو قول متصل ہمارا نہیں مولا عبیدزاکافی کا ہے۔ ازوشنام کدایان
سہلی زماں، زبان شاعراں و مسخر گاں مرنجید۔راہ زن کے لغوی معنی مرزا نے اسی زمانے
میں زن بازاری بتائے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ جب سے اس کے حقیقی معلوم ہوئے ہیں۔
غالب اور آتش کے مصرعوں ”ہوکر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پانو“ ہزار رہ زن امید دار
راہ میں ہے کا سارا لطف ہی جاتا رہا۔“
”مسلسل ورق گردانی کے سبب نئی نویلی کتابیں اپنی کنواری، کراری،مہک
اور جلد کی کساوٹ کھو چکی تھیں، بیشتر کتابوں کے کونے کتے کے کانوں کی طرح گئے تھے
اوربعض پسندیدہ اوراق کی کیفیت یہ تھی کہ“
جانا جاتا ہے کہ اس راہ
لشکر نکلا“”خوگر ہجو کے شب و روز اب آلو کی تعریف و توصیف میں بسر ہونے لگے۔ ایک
وقت تھا کہ دیت نام پر امریکی بمباری کی خبریں پڑھ کر مرزا پچھتاوا کرتے کہ کولمبس
نے امریکہ دریافت کرکے بڑی نادانی کی مگر اب پیار میں آتے تو آلودگی کی گدرائی
ہوئی گولائیوں پر ہاتھ پھیر تے ہوئے فرماتے ”صاحب! کولمبس جہنم میں نہیں جائے گا۔
اسے واپس امریکہ بھیج دیا جائے گا۔“ مہذب دنیا پر امریکہ کے دو احسانات ہیں۔تمباکو
او رآلو۔ سوتمباکو کا پیڑ تو سرطان نے غرق کردیا مگر آلو کا مستقبل نہایت شاندار
ہے جو ملک جتنا غریب زدہ ہوگا، اتنا ہی آلو اور مذہب کا چلن زیادہ ہوگا۔“
مزاح کو صرف قہقہے بلند
کروانے کا فن قرار دینا اس فن کی نفاست کو نیچ سطح پر لانا ہے۔ خشونت سنگھ آنجہانی
کہا کرتے کہ اگر ایک چٹکلے اور اچھے دوست میں مجھے انتخاب کرنا پڑے گا تو میں دوست
کو ہی چھوڑنا ناپسند کرنا چاہوں گا۔لیکن چٹکلے اسرارالحق مجاز بھی کرتے تھے اور
نریش کمار شاد بھی۔لیکن ان کو پطرس بخاری کی سطح کامزاح نگا رہر گز نہیں مانا
جاسکتا۔لطیف اور ترشا ہوا مزاح مزاج کی کیفیت اور ایک (State
of Mind)پیدا
کرتا ہے جس میں اس عالم رنگ و بو کا ایک نیا جہاں معنی پیدا ہوجاتا ہے او رمنہ سے
زیادہ من میں لڈو پھوٹنے لگتے ہیں۔مشہور مقولہ ہے کہ ایک مسخرہ دنیا کا سب سے غم
زدہ شخص ہوتاہے۔ لیکن وہ مزاح کی ڈھال سے نہ صرف،غم و الم کے تیروں کو تھامتا رہا
ہے بلکہ ان کی قلب ماہیت کے آدمی کی نس نس کو ایک جھپٹے کے عالم میں پہنچا جاتاہے۔
جہاں انسان کے لئے مکھوٹوں کو اتار کر اسے ایک طربیہ صورت حال سے سرشار کردیتاہے
اور اردو میں احمد شاہ پطرس بخاری کے ساتھ شاید یوسفی ایسی صورت حال کی عکاسی کرنے
میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ذرا ان کے ایک مسخا کے کا ایک اقتباس دیکھئے۔
”یہاں چاروں طرف تہہ در تہہ تاریکی تھی جس میں پہاڑ ی جگنو جا بجا
مسلمانوں کی امیدوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔مرزا نظریں نیچی کئے رس گنڈیاں چوستے
رہے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ضر غوض اپنی کار کی ہیڈلائٹ جلادیتے او رسانولی رات
اپنے راز سپرد کرکے چند قدم پیچھے ہٹ جاتی۔ ان سونے کے دانت سے شعاعیں پھوٹنے
لگتیں اور گیسنوں کی شب تاب آنکھوں کے راغ جل اٹھتے۔ کچھ اور پیکر بھی جنہیں روشنی
نے رات کی چٹان چیر کر تراشا تھا۔ نظر کے
سامنے کوند جاتے چہرہ فروغ مے سے گلستان کئے ہوئے۔ ان کوندے میں ندی چھما چھم کرنے
لگتی جیسے ٹشو کی ساڑی (معاف کیجئے یہ تیر بھی اس تیر کش کا ہے)“
اور آخر میں چند سطریں:
”ایک دن مرزا نے ضرغوض سے پوچھا یار کن چن چنگا دیکھی۔ ارشاد ہوا
نہیں ہم چینی فلمیں نہیں دیکھے مگر کون سی فلم میں کام کررہی ہے۔“
3 اکتوبر، 2021، بشکریہ: چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism