ودود ساجد
18 اگست،2024
بنگلہ دیش کی سابق وزیر
اعظم شیخ حسینہ کے اقتدار بدر ہونے کے بعد مبصرین مختلف نکات پر بحث کررہے ہیں۔ان
میں سب سے نمایاں نکتہ ’لسانی عصبیت‘ یا زبان کی بنیاد پر وابستگی کاہے۔مشرق اور
مغربی پاکستان کے درمیاان مناقشہ کی ابتداء بھی زبان کی ہی بنیاد پر ہوئی
تھی۔حکومت ہند نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں اور خاص طور پر ہندوؤں پر ہونے والے مبینہ
حملوں کے تناظر میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت سے سرگرمی کے ساتھ رابطہ کیاہے۔
عبوری حکمراں محمد یونس نے جہاں بنگلہ دیش کی ہندو برادری کے درمیان پہنچ کر تحفظ
کی یقین دہانی کراتے ہوئے ان سے معافی مانگی ہے وہیں لوگوں نے وزیر اعظم کی سرکاری
رہائش گاہ سے لوٹا ہوا سامان واپس کرنا شروع کردیاہے۔ تازہ واقعہ یہ ہے کہ خود
محمد یونس نے 16 اگست کو وزیراعظم نریندرمودی کو فون کرکے یقین دہانی کرائی ہے کہ
بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو ہر قیمت پر تحفظ دیا جائے گا۔
میں نے پچھلے ہفتہ عرض
کیا تھاکہ روئے زمین پر موجود ہر آمر وجابر حکمراں کے لئے بنگلہ دیش کے واقعات میں
جا بجا درس عبرت بکھڑا پڑاہے۔ لیکن اس ایک ہفتہ میں رونما ہونے والے دیگر واقعات
او ربنگلہ دیش سے آنے والی دیگر اطلاعات نے مزید کچھ سبق آموز نکات فراہم کئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے تازہ احوال نے دنیا جہان میں اپنے ڈنکے خو د نجانے والوں کے لئے
سُبکی اور خفت کا سامان پیدا کردیاہے۔ اگر پڑوسی ملکوں کے سیاسی احوال ہماری خارجہ
پالیسیوں کا رخ متعین کرتے ہیں تو ہمیں پڑوسی ملکوں کے سیاسی احوال سے اپنے
اندرونی احوال کا موازنہ بھی کرناچاہئے۔انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کے میرے
پسندیدہ صحافی شبھ جیت رائے اس وقت بنگلہ دیش کی راجدھانی ڈھاکہ میں ہیں۔انہوں نے
11 اگست کو اپنی پہلی رپورٹ میں جو کچھ بتایا تھا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ
اسٹوڈنٹس کی جس تحریک کے نتیجہ میں شیخ حسینہ کو اقتدار چھوڑ کر ہندوستان بھاگ کر
آنا پڑا وہ تحریک صرف مسلمانوں کی نہیں تھی بلکہ اس میں بنگلہ دیش کے ہندو طلبہ
بھی شامل تھے۔ اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ تحریک وزیراعظم کے خلاف تو تھی ہی ان
کی سیاسی جماعت ’عوامی لیگ‘ کی متشدد پالیسیوں کے بھی خلاف تھی۔ شیخ حسینہ کے فرار
کے بعد احتجاجی اسٹوڈنٹس نے عوامی لیگ سے وابستہ لیڈروں کے گھروں پر حملے کئے۔ یہ
سماجی عدم مساوات کی کوکھ سے جنم لینے والی ایک سیاسی تحریک تھی ’فرقہ وارانہ
تحریک نہیں۔ خاتون قلم کا ر ’رنگو گھوش‘ نے زبان
وثقافت کے تناظر میں بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات پر ایک مضمون لکھا ہے۔اس میں بتایا
گیاہے کہ زبان کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے تمام طبقات ایک ہیں‘ یہاں تک کہ ہندوستان
کے مغربی بنگال میں بھی وہی مشترکہ لسانی وثقافتی جذبات پائے جاتے ہیں۔ رنکو نے
بتایا کہ شیخ حسینہ کا اقتدار ختم ہوتے ہی بلاامتیاز ہر ایک کی زبان پر وہی بنگالی
گیت تھا جو تقسیم وطن سے پہلے انگریزوں کے خلاف ’بنگالی ادیب ونغمہ نگار ’دیوی
جیندر لال‘ نے لکھا تھا۔رنکو نے مزید بتایا کہ کچھ ثقافتی روایتیں تو ایسی ہیں کہ
جن پر ’مذہبی بندشوں‘ سے آزاد ہوکر ہندو اور مسلمان دونوں عمل کرتے آرہے ہیں۔
اب اس تناظر میں دیکھیں
تو شیخ حسینہ کے فرار کے بعد رونما ہونے والے توڑ پھوڑ‘ لوٹ پاٹ اور مار پیٹ کے
واقعات منفی جوش کا نتیجہ تھے فرقہ وارانہ منافرت کا نہیں۔لیکن اس کے باوجود کچھ
ہندو گھروں اور ان کے عبادتگاہوں پر حملوں کے واقعات رونماہوئے ہی ہیں۔ اس ضمن میں
حکومت ہند نے کھلے طور پر جو تشویش ظاہر کی بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے اس پر
فوراً توجہ دی۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے۔ اس نے ہندوؤں پر
ہونے والے ان حملوں سے انکار بھی نہیں کیا۔ یونس نے 8اگست کو چارج سنبھالا۔ اسی
روز وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوؤں پر حملوں کے تعلق سے تشویش ظاہر کی اور اگلے
ہی روز 9 اگست کو عبوری حکمراں محمد یونس خود ڈھاکہ کے سب سے بڑے ’ڈھاکیشو ری
مندر‘ پہنچ گئے او رہندورہنماؤں سے ملاقات کی۔اسی روز مندروں او رچرچوں پر حملوں
کے واقعات کی رپورٹ درج کرانے کے لئے باقاعدہ ایک ’ہاٹ لائن‘ بھی قائم کی گئی۔
محمد یونس نے ہندومذہبی رہنماؤں سے معافی مانگتے ہوئے انہیں یقین دہانی کرائی کہ انہیں
برابر کے حقوق حاصل ہیں اورانہیں انصاف فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ”حقوق
سب کے مساوی ہیں‘ ہم سب ایک ہیں‘ ہمارے درمیان کوئی تفریق نہیں ہے‘ ہم سب انسان
ہیں اور یہی ہماری قدر مشترک ہے۔ ہمارا ایڈمنسٹریشن اقلیتوں کے عدم تحفظ کے احساس
کو ختم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لئے آپ کے ساتھ مل کر کام کرے گا“۔
یہ موقع موازنہ کرنے کا
نہیں ہے لیکن کیا ہندوستان کے مسلمان 2014 سے اپنے حکمرانوں کے منہ سے اسی طرح کے
الفاظ سننے کا انتظار نہیں کررہے ہیں؟ اس کے برعکس وزیراعطم نے دوران الیکشن
کیاکیا نہیں کہا۔ لیکن ان کے منہ سے ہندوستان کا مسلمان یہ سننے کو ترس گیا کہ حقوق
سب کے مساوی ہیں ہم سب انسان ہیں اور یہی ہماری قدر مشترک ہے او ریہ کہ ہمارا
ایڈمنسٹریشن اقلیتوں کے عدم تحفظ کے احساس کو ختم کرنے اور تحفظ فراہم کرنے کے لئے
آپ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ اس کی بجائے انہوں نے اپنے حامیوں کے درمیان کانگریس
پر نشانہ لگاتے ہوئے یہ کہا کہ ”یہ آ پ کا حق چھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں
کو دیدیں گے“۔ شرپسندوں پر معاشرہ میں ہوتے ہیں۔لیکن حکومتوں کا فرض ان کی
سرگرمیوں پر قدغن لگانا ہوتاہے ان کا ساتھ دینا اور ان کا حوصلہ بڑھانا نہیں۔ ہمیں
دکھ ہے کہ ہم بحیثیت ملک اس فرض کی ادائیگی میں ناکام رہے۔ محمد یونس نے
ہندورہنماؤں سے کہا کہ ’ہماری جمہوری خواہشات میں ہمیں ہندو‘ مسلم اور بدھشٹ
نظرنہیں آنا چاہئے بلکہ ہمیں فقط انسانی نظر آنا چاہئے‘۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کی
جڑ ادارہ جاتی نظام کے اندر ہے اس نظام کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ بنگلہ دیش کے ہندوؤں
کے سب سے بڑے مذہبی رہنما’بدھا دیب دھر‘ نے کہا کہ حملوں کے 205 واقعات ہوئے ہیں
لیکن مقامی مسلمان ہمارے مندروں کی حفاظت کررہے ہیں۔سب سے بڑے ڈھاکیشوری مندر پر
بھی مسلمان ہی پہرہ دے رہے ہیں۔ بدھا دیپ دھرنے مزیدکہا کہ ہندوؤں پر حملوں میں
اضافہ کا ایک سبب یہ بھی ہوا کہ زیادہ ترپولیس اسٹیشن خالی پڑے ہیں پولیس اہلکاروں
کو اسٹوڈینس کے رد عمل کا خوف ہے کیونکہ شیخ حسینہ کی حکومت میں ان پر پولیس نے
سخت تشدد برتا اور پولیس کی گولیوں سے درجنوں مظاہرین ہلاک ہوئے۔ ہندورہنما کی اس
بات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بنگلہ دیش کے ہندوؤں کو وہاں کی پولیس پر اعتبار ہے کہ
مشکل حالات میں وہ ان کا تحفظ کرے گی۔ ایک اور ہندولیڈر نے کہا کہ ہندوؤں پر حملوں
کا ایک سیاسی پس منظر بھی ہے۔ زیادہ تر ہندوگھرانے عوامی لیگ سے وابستہ ہیں، اس کے
علاوہ کچھ شرپسند عناصر نے پولیس کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھا کر لوٹ پاٹ مچانے
کی غرض سے ہندوؤں پر حملے کئے او رکچھ واقعات تو خود ہندوؤں کی باہمی او رپرانی
رقابت کے نتیجہ میں بھی ہوئے۔
حکمرانوں اوران کی
پالیسیوں کے ستائے ہوئے اسٹوڈنٹس اور نوجوانوں نے ہر چند کہ ایک غیر منظم تحریک
شروع کی تھی شیخ حسینہ کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے بعدمظاہرین نے خود کو منظم
کیا اور بنگلہ دیش اور خاص طور پر ڈھاکہ کی سڑکو ں پر لااینڈ آرڈ راو رٹریفک نظام
سنبھالا۔یہی نہیں بلکہ دزیراعظم کی سرکاری ہائش گاہ سے جو کچھ سامان لوٹا گیا تھا
اسے واپس جمع کرنے کی مہم بھی شروع کی گئی۔ شبھ جیت رپورٹ کے مطابق تادم تحریر 70
فیصد لوٹا ہوا سامان واپس جمع کرادیا گیا تھا۔ ایک شخص نے ایک لاکھ’ٹکا‘ لوٹے تھے
جو اس نے واپس کردئے ہیں۔ ایک اور شخص نے کہاکہ وہ ایک بطخ لوٹ کر لے گیا تھا اور
اس نے اسے کاٹ کر کھالیا ہے لہٰذا اب وہ اس کے بدلے رقم جمع کرانے آیا ہے۔اس تحریک
کی سب سے زیادہ متحیر کن بات یہ ہے کہ اس نے چند ہی دنوں میں اتنی ساری اور زبردست
تبدیلیاں کرڈالیں۔شیخ حسینہ کا تختہ پلٹنے سے لے کر محمد یونس کے عبوری حکمراں
بننے تک چیف جسٹس کے استعفے سے لے کر نئے چیف جسٹس کے تقرر تک سب کچھ محض ایک ہفتہ
میں رونما ہوگیا۔اس تحریک کا سبق یہ بھی ہے کہ اپنے ملک کی نوجوان طاقت کو نظر
انداز کرنے کا کتنا بڑا نقصان ہوسکتاہے۔ شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد نے کہا بھی
ہے کہ حکومت کو کوٹہ سسٹم کے خلاف بولنا چاہئے تھا اور نوجوانوں او رطلبہ سے بات
کرنی چاہئے تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی والدہ نے کس طرز کی آمرانہ حکومت
چلائی۔ لیکن جب نظر انداز شدہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر یہ بھی ہوا کہ شیخ حسینہ
نے ایک بیان جاری کرکے انصاف مانگا اور کہا کہ 15 اگست کو ان کے والد کے یوم
وفات پر ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا جائے۔ لیکن مظاہرین نے ان کی پارٹی کے لوگوں کو
’یوم سوگ‘ منانے نہیں دیا۔
اس قضیہ کا ایک سب سے
مشکل اورپیچیدہ پہلو ہندوستان کے ذریعہ شیخ حسینہ کی ’حادثاتی میزبانی‘ کاہے۔ وہ
اپنے دور حکومت میں ہندوستان کی دوست رہی ہیں، ایسے میں ہندوستان کا یہ فرض تھا کہ
وہ ان کے مشکل وقت میں کام آئے۔ شیخ حسینہ کی آمد اتنی عجلت میں ہوئی کہ ہندوستان
کو کچھ سوچنے او رسمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ بظاہر انہیں کوئی بڑا ملک پناہ دینے
کو تیار نہیں۔ ملکوں کی سفارتی زندگی میں کبھی یہ موقع بھی آتاہے کہ فرد اہم نہیں
رہ جاتا۔ لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ایک طرف جہاں شیخ حسینہ کی میزبانی ضروری ہے
وہیں بنگلہ دیش کے نئے حکمرانوں سے بھی رسم وراہ ضروری ہے۔ اسی ضمن میں عبوری
حکومت کے مشیر برائے امور خارجہ توحید حسین نے کہا ہے کہ ڈھاکہ نئی دہلی کے ساتھ
مل کر کام کرناچاہتا ہے لیکن سرزمین ہندسے جاری ہونے والے شیخ حسینہ کے سیاسی
بیانات اس مقصدمیں معاون ثابت نہیں ہوسکتے۔ توحید حسین نے ہندوستان کے ہائی کمشنر
کو یہ بتایا کہ یہ دراصل بنگلہ دیش کو دوسری بار آزادی ملی ہے او ریہ کہ ہم جلد ہی
تمام سیاسی پارٹیوں کومساوی مواقع فراہم کراتے ہوئے آزادانہ او رمنصفانہ الیکشن
کراناچاہتے ہیں۔ توحید حسین نے یہ کہا کہ ہندوستان کے میڈیا نے یہاں ظہور پزیر
ہونے والے فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے اور
ایک منصوبہ کے تحت پروپگنڈہ کیا جارہا ہے۔ ہمارے صحافی اور دانشور طبقات میں بھی
حکومت ہند کی تنقید ہورہی ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسیوں نے بنگلہ دیش میں اٹھنے والے
طوفان سے صرف نظر کیا اور حکومت کو بروقت مطلع نہیں کیا۔ صورتحال سے ہم کتنے متاثر
ہوئے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 13 اگست تک ہند۔ بنگلہ دیش سرحد
پر تعینات دونوں ملکوں ں کے سینئر افسر محض تین دنوں میں 83 میٹنگیں کرچکے تھے اور
دونوں طرف کی فورسز 204 گشت کرچکی تھیں۔ ’بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے لیڈر اور
سابق کابینی وزیر عبدالمعین خان نے کیا درست بات کہی ہے کہ ہندوستان نے سارے انڈے
ایک ہی ٹوکری میں رکھ دئے تھے۔ یعنی ہندوستان نے شیخ حسینہ پر اتنا اعتبار کیا کہ
ایک طرف جہا ں یہ سمجھ لیا کہ وہی ہمیشہ اقتدار میں رہیں گی وہیں بنگلہ دیش کی
اپوزیشن سے بھی کوئی ربط نہیں رکھا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی یہی
سمجھ رکھا ہے کہ ہمیشہ وہی اقتدار میں رہیں گے اور مخالفین ہمیشہ اقتدار بدر رہیں
گے۔
18 اگست،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
---------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism