محمد طیب معاذ
20 جولائی ،2012
بعثت محمدی کا بنیادی مقصد
انسانیت کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی غلامی میں دینا اور جہالت کی تاریکیوں
سے بچا ان کو واضح منہج ربانی پر چھوڑ نا تھا۔ جیسا کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:
‘‘ تاکہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لائیں ’’۔(سورہ ابراہیم :1)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے اپنی تعلیمات کے ذریعے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں میں انقلابی ہدایات دی ہیں، وہاں
امت کو تجارت کے شعبہ میں بھی قولی اور فعلی طریقے سے واضح اور مکمل ہدایات سے نوازا
ہے۔ جس کا مختصر تذکرہ درج ذیل سطور میں کیا جاتا ہے۔
باری تعالیٰ کا ارشاد گرامی
ہے:‘‘ جو مال ودولت اللہ نے تمہیں دے رکھا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کرو
اور دنیا میں اپنا حصہ فراموش نہ کرو اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے اللہ نے
تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے۔اور ملک میں فساد پیدا کرنے کی کوشش نہ کرو کیوں کہ اللہ
فساد کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا ’’۔ ( القصص :77)
اس فرمان میں اللہ تعالیٰ
نے حدود و قیود میں رہتے ہوئے کا روباری معاملات میں مشغولیت کی اجازت دی ہے بلکہ دین
اسلام نے کسب حلال کو واجب قرار دیا ہے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
‘‘اللہ کے مقر ر کردہ فرائض (نماز روزہ، حج ، زکوٰۃ وغیرہ) کی بجا آوری
کے بعد (سب سے مقدم چیز) کسب حلال ہے’’۔
حج دین اسلام کے عظیم ترین
ارکان میں سے ایک ہے۔ اس میں بھی تجارت کو مباح قرار دیا ہے ،جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔
‘‘اگر تم حج کے دوران اپنے پروردگار کافضل (رزق وغیرہ) بھی تلاش کرو
تو کوئی مضائقہ نہیں ’’۔ (البقرۃ :198)
ہاتھ کی کمائی کو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے افضل ترین کمائی قرار دیا ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت ہے:
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ
عنہ کہتے ہیں ، کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول کمائی کے ذرائع میں سے کون سا ذریعہ سب
سے زیادہ عمدہ اور پاکیزہ ہے ۔ آپ نے فرمایا :
‘‘آمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور دیانت دارانہ تجارت’’۔
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی معاشی جدوجہد:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے والد ماجد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل ہی وفات پا چکے تھے، جدا مجد
کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت ابو طالب کے ذمہ تھی۔ ابو طالب
چونکہ مالی لحاظ سے کمزور تھے، اس لئے رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے کم سنی کے باوجود
اپنے چچا کا ہاتھ بٹا نے کا فیصلہ کیا۔ عرب میں بکرریاں چرانا کوئی معیوب پیشہ نہ تھا،
بڑے بڑے شرفاء اور امراء کی اولاد یں بکریاں چرایا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے بھی 10؍سال
کی عمر میں بکریاں چرانی شروع کیں ۔(بخاری )
صدق مقال:
رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ہمیشہ ہر معاملے میں صداقت وراست گوئی کو اختیار کیا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے شام کے تجارتی سفر سے ہمیں علم ہوتاہے:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کا سامان تجارت لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے، اس سفر میں آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کا میسرہ نامی غلام بھی تھا۔ اس
کامیاب ترین سفر سے واپس آکر اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور صاف
گوئی کے بارے میں بتلا یا ۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت
سے اتنی متاثر ہوئیں کہ انہوں نے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا۔
امانت داری :
ایک کامیاب تاجر کے لئے صادق
اور امین ہونالازمی امر ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو مشرکین مکہ شدید ترین
مخالفت کے باوجود صادق و امین کہنے پر مجبور تھے۔ مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کٹر مخالف بھی اپنی قیمتی چیزیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس امانتاً رکھواتے
تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرتے وقت اپنے دشمنوں
کی امانتوں کو بعینہ واپس کرنے کے لئے سید نا علی کرم اللہ و جہہ کو خصوصی ہدایات جاری
کیں اور فرمایا کہ اے علی رضی اللہ عنہ ! مجھے ہجر ت کا حکم ہوچکا ہے ، میں آج رات مدینہ روانہ ہوجاؤنگا تم میرے بستر پر میری
چادر اوڑھ کر سو رہو، صبح سب کی امانتیں واپس
دے دینا۔ (الرحیق المختوم)
اس واقعہ سے علم ہوا کہ نبی
کریم صلی اللہ علیہ و سلم امانتوں کی کس قدر حفاظت فرمایا کرتے تھے۔ اس نازک وقت میں
جب کہ جان کا خطرہ ہے ، لیکن آپ کی فکر صرف ادائے امانت کی جانب ہے۔
اسلام میں ادائے امانت کی
پرُزور تاکید کی گئی ہے۔ امانت کسی کا فرد فاجر کی ہی کیوں نہ ہو اس کی حفاظت کرنا
اور اسے واپس کرنا انتہائی ضروری ہے۔ فرمان الہیٰ ہے :‘‘(مسلمانو!) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ جو لوگ امانتوں کے حقدار ہیں انہیں یہ
امانتیں ادا کردو’’۔( النساء :58)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: ‘‘جو تجھے امین بنائے تو اس کی امانت اسےادا کردے اور جو تیری خیانت کرے
تو اس کی خیانت نہ کر۔’’(ابوداؤد 3535)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے ساتھ قبل از نبوت کا روباری معاملات طے کرنے والے افراد نے خود آپ کے امین ہونے
کی گواہی دی ہے۔ حضرت سائب رضی اللہ عنہ جب مسلمان ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوئے تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی ۔ سیدنا سائب نے
جواباً ان سے کہا کہ میں تم سے زیادہ ان کو جانتا ہوں کیو نکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم میرے شریک تجارت تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ معاملے کو صاف ہی رکھا
۔ (ابو داؤد)
قرض کی ادائیگی میں سہولت
:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کو بتقاضائے بشریت معاشرے میں رہتےہوئے بعض اوقات قرض لینے اور دینے کی ضرورت بھی پڑجاتی تھی۔ قرض پرلین دین کا ثبوت
قرآنی آیات (یعنی جب تم قرض کالین دین کرو تو اس کو تحریر کرو) سے ثابت ہے۔اس معاملے
میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت
کے لئے روشن مثالیں چھوڑی ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ کے مطابق
قرض کی ادائیگی کے بارے میں عملی مظاہرہ کر کے دکھایا ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتےہیں کہ ایک خاص عمر کا اونٹ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کا قرض تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
تقاضا کرنے کے لئے آیا ،تو آپ صلی اللہ علیہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ
سے فرمایا :اسے اونٹ دے دو ۔ لوگوں نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا۔ اس عمر کا اونٹ تو
نہ ملا لیکن اس سے بہتر عمر کا اونٹ ملا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کو دیدو
اس آدمی نے کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا حق پورا دے دیا، اللہ آپ کو بھی پورا
دے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرض کو
اچھے طور پر ادا کرے۔ ( بخاری :2393)
اسی طرح قرض کے بارے میں آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکمت سے لبریز حکم بھی ذہن نشین رکھنا چاہئے جس میں آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص کسی چیز کا ادھار پر
لین دین کرے تو اس میں پیمانہ ،وزن اور مدت معلوم ہونی چاہئے ۔(صحیح بخاری 2086)
یعنی یہ تینوں چیزیں واضح
ہوں او رمتعین ہوں تاکہ بعد میں فریقین کے درمیان کسی قسم کی بد مزگی پیدا نہ ہو۔
اسی طرح زمانہ جاہلیت میں
قرض کی ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں سود، در سودا صل رقم میں اضافہ ہی ہوتا رہتا تھا۔
جس سے تھوڑی رقم پہاڑ بن جاتی اور مقروض کی رات کی نیند اور دن کا چین برباد کردیتی
تھی۔ عصر حاضر میں بینکاری نظام بھی یسی ظالمانہ اصول پر قائم ہے۔
اس ظالمانہ نظام کے برعکس
محسن انسانیت نے حکم دیا کہ اگر مقروض تنگ دست ہے تو سود لینا تو درکنار اصل مال لینے
میں بھی اسے مہلت دو اور اگر قرض معاف کرنے کی استطاعت ہے تو یہ بہت زیادہ بہتر ہے۔
تاجروں کیلئے انمول ہدایات:
رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم
نے مختلف مواقع پر تجارت کیلئے اہم ہدایات جاری کیں جن سے شناسائی حاصل کرنا انتہائی
ضروری ہے۔
تاجر کو صبح اولین ساعتوں
میں اپنا کام شروع کرنا چاہئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت میں برکت کی
دعا فرمائی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دن کے
ابتدائی حصہ میں تجارت شروع کیا کرتےتھے ۔
حضرت صخر غامدی رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ
میری امت کیلئے صبح کے و قت میں برکت عطا فرما۔
تاجر کو تجارت میں بطور خاص
دھوکہ دہی سے پر ہیز کرنا چاہئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‘‘جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ۔’’ (جامع التر مذی)
دھوکہ کے کاروبار سےتاجر کواگرچہ
فائدہ ہو بھی جائے تو اس میں کوئی خیر برکت نہیں رہتی اس سے متعلق لوگوں میں یہ رائے
قائم ہوجاتی ہے کہ فلاں تاجر دھوکہ دہی کرتا ہے اس طرح بتدریج لوگ اس سے معاملہ کرنے
سے گریز کرنے لگتے ہیں نتیجہ اس کونقصان وخسارہ ہوتاہے۔
ناپ تول برابر برابر رکھنا
چاہئے ، ارشاد خداوندی ہے:
اور انصاف کے ساتھ وزن ٹھیک رکھو اور تول میں کمی نہ کرو۔( رحمن:9)
ناپ تول میں کمی کرنے والوں
کے لئے قرآن کریم میں سخت و عید آئی ہے۔
‘‘ہلاکت و بربادی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے ’’۔(سورۃ مطففین:1)
بلکہ جھکتا تو لنے کو مستحب
قراردیا گیا ہے، جامع ترمذی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے تولنے والے صاحب سے ارشاد
فرمایا ‘‘ زن وارجع ’’ یعنی : جھکتا تو لا کرو۔
تجارت لین دین میں ہمیشہ راست
گوئی کو معمول بنائیں اورجھوٹی قسمیں اٹھانے سے پرہیز کریں۔
حضرت ابو سعید الحذری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘‘سچے اور امانت دار تاجر کو نبیوں ، صدیقوں اور شہداء کی معیت ورفاقت
نصیب ہوگی۔ (ترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
‘‘تجارت میں بہت زیادہ قسم کھانے سے بچو یہ چیز وقتی طور پر توتجارت کو فروغ دیتی ہے لیکن تجارت سے برکت
ختم کر دیتی ہے۔’’( مسلم، ابوفتادہ)
سیدنا قیس ابو عرزہ فرماتے
ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم تاجروں کو ‘‘سماسرہ’’ کہا جاتا
تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ہمیں اس سے بہتر نام دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: اے تاجرو ! مال کے بیچنے میں بہت سی لا یعنی باتیں کہنے او رجھوٹی قسم کھانے کا امکان ہوتا ہے
لہٰذا تم لوگ صدقہ کرو تاکہ لغزشوں کا کفارہ ہوسکے ۔( ابوداؤد)
خراب مال کا عیب نہ چھپانا
سید نا واثلہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
‘‘کسی تاجر کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ کوئی چیز بیچے اور اس کے اندر
جو عیب ہے اسےبیان نہ کرے’’۔( المنتفی)
مندرجہ بالا احادیث مبارکہ
سے کامیاب تجارت کے زریں اصول سامنے آتے ہیں ۔ دیانت داری اور کسب حلال لاز م و ملزوم
ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی اس عظمت رفتہ کے آثار اب غیروں
کے پاس دیکھنے کو ملتےہیں اور خود مسلمان ان سے تہی دامن ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ آج بھی ان اصولوں پر عمل پیرا ہو کر مسلمان دنیا کی تجارت میں اپنا کھویا ہوا مقام
حاصل کریں ۔
20 جولائی ،2012 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: