New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 03:43 AM

Urdu Section ( 27 Feb 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Music in Islam گانا ، موسیقی اور مذہب اسلام

 

محمد شارب ضیاء رحمانی

27 فروری، 2013

غیر محرم سے موسیقی سننا، غیر محرم کے سامنے گانا اور مروجہ بینڈ کی حرمت قرآن و احادیث کی روشنی میں علماء سے صراحۃً منقول ہے۔ جس میں  کسی کا بھی کوئی اختلاف نہیں ۔قرآن و احادیث کے ذخیرے سے اس کی حرمت واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں مقام مذمت میں بیان فرمایا:

 مفہوم ‘‘ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جوان غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی رہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ ہوجائیں (پ 21س ،لقمن  آیت 6) اس آیت میں مذکور ‘‘لھو ا لحدیث ’’ کی تفسیر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یوں کی ہے ‘‘ ھو واللہ الغناء ، خدا کی قسم اس (لھو الحدیث) سے مراد‘‘ گانا’’ ہے( مصنف ابن ابی شیبہ) نیز بیہقی میں مشہور مفسر قرآن عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی اس کی تفسیر یہی منقول  ہے ‘‘ ھو الغناء و اشباھہ’’ اس سے مراد گانا اور اس جیسی چیزیں ہیں’’ ۔ اسی طری ابلیس کو راندۂ درگاہ کرنے کے بعد اس سے کہا گیا ! مفہوم ‘‘ اور ان میں سے جس پر تیرا بس چلے اپنی  آواز سے اس کے قدم اکھاڑ دینا ( بنی اسرائیل ،آیت 64) آیت کریمہ میں ‘‘صورت شیطان ’’ یعنی شیطان کی آواز ، کی تفسیر مجاہد سے ‘‘گانا اور گانے کے آلات ہی مروی ہیں ۔ ( روح المعانی، ج 15 ، ص 111) ۔ مقام زجر و تنبیہ میں  پ 27، النجم ، آیت 61 میں موجود ‘‘ سامد ون’’ کی تفسیر ابو عبیدہ نے ‘‘گانے والوں’’ سے کی ہے اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ھو الغناء  بالیما نیۃ (روح المعانی ج 27 ، ص 72) ۔ قرآن کریم کے انیسویں  پارہ میں رحمان کے نیک بندوں کی اہم صفات میں سے ایک صفت یہ بیان کی گئی ہے ‘‘ لایشھدون الزور’’ وہ بیہودہ باتوں میں شامل نہیں  ہوتے ہیں  اور جب وہ بیہودہ مشغلوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو سنجیدگی سے گذر جاتے ہیں ( فرقان ، آیت  73) یہاں ‘‘ زور ، بے ہودہ باتوں ’’ کی تفسیر محمد ابن حنفیہ ، مجاہد، امام ابو حنیفہ سے یہی  ‘‘گانا’’ منقول ہے ۔ ذخیرۂ احادیث  میں بھی  وضاحت کے ساتھ گانے اور آلات موسیقی کی حرمت موجود ہے۔

چنانچہ  بخاری شریف میں ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میری  امات میں کچھ لوگ ہونگے جو جائز قرار دیں گے ریشم کو، شراب کو اور گانے کے آلات کو (بخاری ، کتاب الاشربہ ، ج 2 ، ص 837)، ابن ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں  کے گانے کی آواز سنی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو! یہ کون لوگ ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا ‘‘ فلاں فلاں’’ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا ء فرمائی او رکہا اے اللہ انہیں جہنم میں الٹ دے اور آگ میں ڈھکیل دے (مجمع لزوائد) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت  ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بلا شبہ میں بانسریا ں  توڑنے کیلئے بھیجا  گیا ہوں( نیل الا وطار) ۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ نے شراب ، جوا، ‘‘ڈھولک’’  کو حرام کیا ہے ( ابو داؤد شریف) عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دف حرام ہیں اور گانے کے آلات حرام ہیں  اور ڈھولک حرام ہیں (جمع الجوامع) اس سے زیادہ حرمت پہ صراحت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے ۔

 اب ہمیں اپنے اس قول پر ‘‘ارے بھائی! نماز پرھنے ، روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ  اگر دنیا کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کیلئے کچھ لڑکیاں  ایسا  کرہی لیتی ہیں تو شریعت کا اس میں کیا نقصان ہے’’۔غور کر لینا چاہئے اور دل پہ ہاتھ رکھ کر بلکہ دبا کر پڑھ جانا چاہئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو ۔ کتنی سخت و عید سنائی گئی ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے قریب میری  امت کے کچھ لوگوں کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر اور خنزیر کی صورتوں میں بدل دیا جائے گا ، صحابہ رضی اللہ عنہ پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ مسلمان ہوں گے؟ فرمایا ہاں! وہ اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کا اقرار بھی کریں گے، روزے بھی رکھیں گے۔ صحابہ  رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر ان کا یہ حال کیوں ہوگا؟ فرمایا وہ ‘‘باجوں اور گانے والی عورتوں ’’ کے عادی ہوجائیں گے اور شراب پئیں گے (ابن حبان ) سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت میں زمین میں دھنسنے اور صورتوں کے بگڑنے کے واقعات ہوں گے، عرض کیا گیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا  کب ہوگا؟ فرمایا جب  ‘‘ گانے والیاں ’’ عام ہوجائیں گی اور شراب حلال سمجھی جائے گی (ابن ماجہ ) محدثین نےچہروں کے خنزیر اور بندر کی طرح ہوجانے کی ایک تشریح یہ بھی کی ہے کہ گانے سے دو خصلتیں پیدا ہوتی ہیں۔ایک بے حیائی ، دوسری نقالی ۔ بے حیائی خنزیر کی خصلت ہے اور نقالی بندر کی۔ چنانچہ عام طور پر ان دو جانوروں کی عادتیں اس گناہ میں ملوث رہنے والوں کے اندر پیدا ہوجاتی ہیں۔ دوسرا مطلب جو الفاظ سے ہی واضح ہے کہ حقیقتاً ایسے لوگوں کے چہرے خنزیر او ربندر بنائیے جائیں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اپنی جگہ اٹل ہے ، چاہے ہمیں ابھی کچھ سمجھ میں نہ آتا ہو( اللہ ہم سبھوں کو محفوظ رکھے)۔

تر مذی میں روایت ہے کہ جب میری امت پندرہ کام کرنے لگے کی تو اس وقت اس پر بلائیں نازل ہوں گی، منجملہ ان کے گانے والی لونڈیوں اور گانے کے آلات کے تیار کرنے کو بھی شمار فرمایا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘گانا باجا سننا ’’ گناہ ہے اور اس کےلئے بیٹھنا نا فرمانی ہے اور اس سے لطف لینا کفر ہے (نیل الاوطار) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘ گانے والی عورتوں کی اجرت اور اس کا گانادونوں حرام ہیں’’ ( طبرانی ،ترمذی ، ابن ماجہ) معجم الکبیر میں اس روایت پر یہ اضافہ ہے کہ گانے کی اجرت لینا اس طرح حرام ہے جس طرح کتے کی قیمت لینا ( اندازہ لگائیے ! جسے آج پورے معاشرہ میں کہ اسے ایک اہم پیشہ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کی آمدنی کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت سے تشبیہ دی ہے) جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گانا جماتا ہے نفاق کو قلب میں جس طرح جماتا ہے پانی کھیتی کو۔ (مشکوۃ المصابیح ، بیہقی ) ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات کسی شخص کے گانے کی آواز سنی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا ‘‘ اس کی نماز قبول نہیں  ’’ ( نیل الاوطار)۔ نیز سنن ابی داؤد ، ج 2، ص 519 او رمسند احمد ج 2، ص 121 اور ابو داؤد شریف ج 2،ص 530 میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت، ترمذی  ج 2 ص 54 میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی روایت ، نیز ابن مسعود ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہ  مسدد اور ابن حبان کے حوالہ سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  ، صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ ، جابر رضی اللہ عنہ ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ،ابو مامہ رضی اللہ عنہ  کی کئی روایتیں  بالترتیب نیل الا و طارج 8 ص 104 ، طبرانی ، مسند ابن حنبل  ج 5 ص 257 ، کنز العمال ج 11، ص 444 ، بیہقی ج 1 ، ص 223، دار قطنی ، ابن ماجہ ص 187 ، بیہقی ، طبرانی ، دیلمی ، کنز العمال ج 4، ج 15 میں اس کی حرمت پہ دلالت کرنے والی روایتیں موجود ہیں۔ ان کے علاوہ حرمت کے اتنے دلائل ہیں کہ ان کا بیان یہا ںممکن نہیں، تفصیل  کے لئے دفتر چاہئے ۔ اب کیا ان سب احادیث  کو نظر انداز کر کے اس کی حرمت میں ذرہ برابر  بھی شبہ  کیا جاسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اگر ہم مسلمان ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا ہم نے کلمہ پرھا ہے تو اس سے ہمیں  کوئی مطلب نہیں کہ ہم دنیا سے ان محرمات میں کتنے پیچھے جارہے ہیں ؟ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ جس کے پیچھے ہم جارہے ہیں کہیں یہ ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے دور تو نہیں کررہے ہیں؟ ۔ کیونکہ ایمان اور اسلام کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ  قرآن  اور احادیث  میں وضاحت کے ساتھ  موجود ہے اس میں چوں و چرا ں کی کوئی گنجائش کسی صاحب ایمان کو نہیں  رہنی  چاہئے ۔ انہیں  ریسرچ ، مشاہدہ اور تجربات کے بغیر مان لینا ہی اہل  ‘‘ ایمان ’’ کی شان ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی ابتداء  میں ہی کہا گیا کہ ‘‘ یومنون بالغیب ، ‘‘ بن دیکھے یقین کر لیتے ہیں’’۔

ہاں اس سلسلہ میں  صوفیاء کے یہاں اس کے رو اج کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ تو موجودہ ہئیت کے ساتھ سماع ان کے یہاں ثابت  ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے؟ ۔ مروجہ طریقہ پر عورتوں  کی آواز اور رقص کے ساتھ اس وقت گانے بجانے اور بینڈ  کا تصور اور اس کی تائید  ان نفوس قدسیہ  کے حوالہ سے کم از کم ایک مسلمان نہیں کرسکتا ۔ جو حدیثیں موسیقی  وغیرہ کے جواز کے استدلال میں پیش کی جاتی ہیں ان کے بارے میں محدثین  کی صراحت یاد رہنی چاہئے کے وہاں نغمہ گانے والی نابالغہ  او ر چھوٹی بچیاں تھیں ، جو غیر مکلّف ہوتی ہیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی صراحت کے مطابق ‘‘ پیشہ  ورگانے والیاں ’’ نہیں تھیں ، نیز یہ بھی کہ دف کا استعمال اس زمانہ میں کسی  اہم موقعہ  کے اعلان کے لیے ہوا کرتا تھا ، آلات موسیقی کے طورپر نہیں (فتح الباری ج 2، 442) ساتھ ہی صحابیہ کی شادی والی روایت کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جنگ بدر میں شہید ہونے والے ان صحابیہ کے رشتہ داروں  کی یاد میں رزمیہ نظمیں  چھوٹی  بچیاں  گارہی تھیں جو جہاد کے لئے حوصلہ افزاء تھیں۔ نیز یہاں گانا بغیر آلات مراد ہیں جیسا  کہ ابن ماجہ میں بھی اس کی صراحت موجود ہے (فتح الباری ، ج 9 ص 226) اور پردہ وغیرہ جیسے احکام ، مدینہ  میں مشروع ہوے ہیں ، مکہ میں نہیں ۔ لہٰذا مطلقا موسیقی کے جواز میں آپ کے مدینہ  میں نا بالغہ لڑکیوں کے ذریعہ دف بجا کر استقبال کرنے والی روایت کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ۔ اسی کو ‘‘ پڑھے لکھوں کی زبان میں قیاس مع الفارق’’ کہتے ہیں۔

 جہاں  تک ان لڑکیوں کے صوفیانہ کلام پیش کرنے کی بات ہے تو یہ واضح  رہے کہ عورتوں کیلئے غیر محرم کے سامنے زور سے تو قرآن مجید کی تلاوت بھی ممنوع ہے۔ کیونکہ ان کی آواز بھی پردہ ہے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی  قیاس  کی اجازت سےمتعلق  روایت کی جہاں تک بات  ہے تو قیاس  روایت کی جہا ں تک  بات ہے تو قیاس صرف حکم کو ‘‘ ظاہر کرتا ہے ، ثابت نہیں کرتا’’ جس کے خود اہم اور نازک اصول قرآن و احادیث  سے مستفاد ہیں۔ زیر بحث  مسئلہ  میں ایسی  کوئی وجہ  نہیں ہے کہ حالات کو دیکھتے ہوئے قیاس کر کے اس کو جائز قرار دے دیا جائے ۔یہاں علماء کرام کے اقوال کو بھی ملاحظہ فرمائیے! در مختار میں امام ابو حنیفہ سے یہ منقول ہے کہ اس شخص کی گواہی معتبر  نہیں ہوگی جو مجمع میں گائے  اس لئے کہ وہ شخص لوگوں کو گناہ  پر مجبور کرتا ہے۔ محیط میں ہے کہ گانا سننا حرام ہے اور شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی  کا فتویٰ موجود ہے کہ جس نے جائز قرار دیا گانے کو وہ فاسق  ہو گیا۔ اب حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اس فتوے کو سامنے رکھ کر ہمیں  اپنا احتساب کر لینا چاہئے ۔

امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں تمام تر دلائل  کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ہی فیصلہ کن بات لکھی ہے کہ سماع حرام ہے اس وقت جب کہ اس کی وجہ سےشہوت ابھرتی  ہو، اجنبیہ سے سنا جائے ، آلات موسیقی  ہی حرام ہوں، یا کلام میں ہی کوئی  شرکیہ جملہ  ہو، (جیسا کہ چند سالوں قبل امارت شرعیہ نے شرکیہ گانوں کی ایک فہرست شائع کی تھی ۔ان میں سے مثلاً ‘‘خدا بھی آسماں سے جب زمین پہ دیکھتا ہوگا میرے محبوب کو کس نے بنایا سوچتا ہوگا’’ ۔

(نعوذ باللہ) سماع ، مباح اس وقت ہے جب کہ حب الہٰی  کا غلبہ  ہو اس وقت سرور اور اللہ کی محبت کی چاشنی  حاصل  کرنے کے لیے تمام شرائط کے ساتھ اس طرح کے صوفیانہ کلام سنے جائیں  یا نعتیہ  کلام پڑھا جائے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یا حضرات صوفیاء سے اس سلسلہ  میں جو کچھ بھی ثابت  ہے وہ سب اسی قبیل  سے ہیں۔ ان کے ذریعہ  مروجہ  بینڈ باجے  اور ان کے ذریعہ اس کی تائید  کا ہم تصور بھی نہیں  کرسکتے۔ لیکن مروجہ  گانے او رموسیقی میں تو تمام  کے تمام شرائط  مفقود  ہیں اور حرمت  کی جتنی و جوہات ہیں سب موجود ہیں۔ قرآن و احادیث اور متقد مین علماء کی صراحت کے بعد تو اس سے زیادہ وضاحت کی ضرورت ایک صاحب ایمان  کے لیے نہیں ہونی چاہئے ورنہ سورج کی روشنی میں اگر ہمیں  کچھ نظر نہ آتا ہوتو اس میں ہماری آنکھ کا قصور ہے، آفتا ب کا نہیں۔

27 فروری، 2013  بشکریہ : دور جدید ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/music-islam-/d/10590

 

Loading..

Loading..