New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 08:53 PM

Urdu Section ( 10 Jan 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Hazrat Sheikh Mohiuddin Abdul Qadir Jilani and the Renaissance of Islam سیدنا شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی اور تحریک احیائے دین


محمد ہاشم قادری مصباحی

6جنوری،2017

حضور پیران پیر شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ کی مبارک حیات طیبہ کے مختلف گوشے اہل اسلام کے لئے راہ ہدایت ہیں۔آپ کی پاکیزہ ، مجاہدہ ،عملی زندگی اور تحریک احیائے دین جو آپ کا مقصد حاات بھی تھی۔ پڑھنا ، سننا طالبان راہ حق کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ ایمانیات ، تصوف ، اصلاح عقائد ،بندگی رب العزت اور بندگان خدا کو راہ راست پر لانا ، اسلام کا پیرو بنانا، احیائے دین کرنا جس کی بنا پر حضرت شیخ محی الدین کا لقب بھی ملا۔ ہم آپ کے ملفوظات کی روشنی میں واضح کرنا چاہتے ہیں کہ آپ کی تعلیمات مسلمانوں کے لئے کس قدر اہمیت کی حامل اور دین و دنیا کے لئے فائدہ مند ہیں۔ اگر آپ کی احیائے دین کی جدو جہد نمایاں نہ ہوتی اور اگر آپ کا یہ امتیازی وصف نہ ہوتا تو پھر یہ لقب بے معنی ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی مظلومیت نے آپ کو آتش زیر پا بنا دیا تھا اور آپ دین کو از سر نوزندہ کرنے کے لئے ہمہ تن مصروف جہاد ہوگئے ۔ آپ ایک ملفوظ میں فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی دیواریں پے در پے گر رہی ہیں اور اس کی بنیاد بکھر گئی ہے اس کو درست کریں ۔ یہ چیز ایک سے پوری نہیں ہوگی (سب کو مل کر کرنا چاہئے) ۔ اے سورج او راے چاند او راے دن ! تم سب آؤاس مختصر سے ملفوظ میں احیائے اسلام اور اقامت دین کے لئے کتنی تڑپ ، کتنا سوز او رکتنا درد چھپا ہوا ہے۔ اس کو پڑھ کر قاری کا دل ہل جاتا ہے ۔ پکارنے والا دین کی اقامت کے لئے پوری کائنات کو پکار رہا ہے ۔ اس سے زیادہ پر زور اور عام دعوت دوسری کیا ہوگی۔ احیائے اسلام اور اقامت دین کی جد وجہد کے لئے اجتماعیت کا کتنا شدید احساس ہے۔ آپ ایک دوسرے ملفوظ میں ارشاد فرماتے ہیں : صاحبو! اسلام رورہا ہے اور ان فاستوں ، گمراہوں اور مکر کے کپڑے پہننے والوں او رایسی باتوں کادعویٰ کرنے والوں کے ظلم سے جو ان میں نہیں ہیں ،اپنے سر کو تھامے ہوئے فریاد مچارہے ہیں ۔

دین برحق کی خدمت پر اللہ کا اجر: حضرت قلب ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : جس نے اللہ تعالیٰ کے دین برحق کی خدمت اور تبلیغ و اشاعت صدق و خلوص کے ساتھ کی اللہ خود ان کا اجر و ثواب بن جاتا ہے اور دنیا وعقبیٰ میں اسے عز ت و آبرو عطا فرماتا ہے ۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّـهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (القرآن ، سورہ محمد ، آیت ۔7)ترجمہ: اے ایمان والو، تم دین خدا کی مدد کروگے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا ۔ (کنزالایمان) اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی مدد ہے کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے دین کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعہ ہی کراتا ہے ۔ یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ ودعوت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح و غلبہ عطا فرماتا ہے جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے۔ وہ دین کے ہوگئے تو اللہ بھی ان کا ہوگیا ۔ انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انہیں بھی دنیا پر غالب فرما دیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر رب نے فرمایا : وَلَيَنصُرَنَّ اللَّـهُ مَن يَنصُرُهُ (القرآن ، سورہ حج، آیت40)ترجمہ: اللہ اس کی مدد ضرور کرتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے ۔ جو اللہ کے دین کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا ۔ بیشک اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا ہے۔ تم اللہ کی مدد کرو(یعنی اس کے دین کی نشر و اشاعت کرو) وہ تمہیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا او رتمہاری ہر طرح کی مدد فرمائے گا ۔ پس میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ اللہ کے کلام کی تبلیغ و اشاعت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور تسلیم و رضا کو اپنا شعار بناؤ۔ جو مسلمان اللہ کے کلام اوراس کے نبی کی سنت کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنی زندگی وقف کردیتا ہے اس کا اجر و ثواب فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں سے بھی زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی نصرت واعانت ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہے۔(فتوح الغیب ، مقالہ نمبر 38، صفحہ 106) سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ اگر حدود الہٰی میں ( احکام شرعی) میں سے کوئی حد ٹوٹتی ہے تو سمجھ لو کہ تم فتنے میں پڑ گئے اور شیطان تم سے کھیل رہا ہے۔ فوراً شریعت کی طرف رجوع کرو۔ اسے تھام لو۔ نفس کی خواہشات کو جواب دو۔ اس لئے کہ ہر وہ حقیقت جس کی شریعت تائید نہیں کرتی، باطل ہے۔ حضرت محبوب سبحانی سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی کی ساری زندگی خلق خدا کا رشتہ خالق سے جوڑنے میں گزری ۔ انہوں نے اللہ کے بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لگایا ۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ایک بڑی عظیم روشنی ظاہر ہوئی جس سے آسمان کے کنارے بھر گئے۔ اس سے ایک صورت ظاہر ہوئی اور اس نے مجھ سے خطاب کرکے کہا : اے عبدالقادر ، میں تیرا رب ہوں، میں نے تیرے لئے سب محرمات (حرام) حلال کردئے ہیں۔ میں نے کہا : دور ہو مردود ۔ یہ کہتے ہی وہ روشنی ظلمت سے بدل گئی اور صورت دھواں بن گی اور ایک آواز آئی عبدالقادر ، خدانے تمہارے علم و تفقہ کی وجہ سے بچا لیا ورنہ اس طرح ستر صوفیوں کو گمراہ کرچکا ہوں۔ میں نے کہا : اللہ کی مہربانی ہے۔ کسی نے عرض کیا حضرت، آپ کیسے سمجھے کہ یہ شیطان ہے۔ کہا، اس کہنے سے کہ میں حرام چیز وں کو تمہارے لئے حلال کردیا۔

ایمان کی بنیاد عقیدہ توحید کو مضبوط کرتی ہے: حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی نے ایک مجلس میں توحید کے مضمون کو اس طرح و اشگاف الفاظ میں بیان فرمایا : ساری مخلوق عاجز ہے ، نہ کوئی تجھے نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان ۔ جو کچھ تیرے لئے مفید ہے یا مضر اس کے متعلق اللہ کے علم میں قلم چل چکا ہے۔ اس کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔ جو نیکوکار ہیں وہ باقی مخلوق پر اللہ کی حجت نہیں ۔ بعض ان میں ایسے ہیں جو ظاہر او رباطن دونوں اعتبار سے دنیا سے دور ہیں گو دولت مند ہیں مگر حق تعالیٰ کے اندر دنیا کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ یہی قلوب ہیں جو صاف کو مقلب القلوب سے وابستہ کرتا ہے شریعت ا س کے ظاہر کو تہذیب سکھائی اور توحید و معرفت باطن کو مہذب بناتی ہے۔

مشیت الہٰی کے خلاف شکایت مت کر: محبوب سبحانی قطب ربانی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا : ہم تجھے تاکید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے جو امور تیرے لئے ظاہر ہوں ان کے خلاف کسی کے سامنے شکایت نہ کر اور اللہ تعالیٰ نے جیسا اور جو سلوک تجھ سے کیا ہو اس فعل کے باعث مخلوقات میں اسے مہتم نہ کر( تہمت نہ لگا) ۔ اگر کسی دور میں تومبتلائے مصائب و آلام رہا ہو تو یہ تجھے سمجھنا چاہئے کہ مصیبت کے بعد راحت و آرام ہے او رغم و الم کے بعد مسرت و شامانی بھی اللہ کی طرف سے موعود ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنے کلام مقدس میں فرمایا: بلاشبہ مصیبت کے بعد راحت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں بہت وسیع وبسیط ہیں۔ اتنی بسیط کہ بندہ انہیں شمار نہیں کرسکتا ۔ حق تعالیٰ نے فرمایا: اور اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو انہیں ہر گز شمار نہ کرسکوگے۔پس جب اللہ تعالیٰ کی اتنی نعمتیں نوع انسانی کے لئے مقدر ہیں کہ توان کا احاطہ بھی نہیں کرسکتا تواس فیاضی اور رحمت وبخشش سے ہر گز مایوس نہ ہو۔ خالق کے علاوہ مخلوق سے باطنی ربط و تعلق نہ رکھ۔ تیری محبت ہوتو پھر اسی سے ہو عرض حاجت ہو تو اسی کے حضور ہو او رکسی قسم کا شکوہ و شکایت نہ ہو کیونکہ دنیامیں جتنے او رجس نوعیت کے بھی عوامل اور واقعات ہیں وہ سب اس کے اذن او رحکم سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ پس احوال تقدیر پر شکوہ شکایت نہ کر اور مشیت ایزدی کے خلاف واویلا چھو ڑ دے کیونکہ مختلف مصائب میں کتنے مصائب ہیں جو انسان پر اپنے پروردگار کی شکایت کے باعث نازل ہوتے ہیں۔شیخ جیلانی فرماتے ہیں : میں حیران ہوں کہ تو ایسے پروردگار کی شکایت کس طرح سے کرتا ہے جو ارحم الراحمین ہے ، خیر الحاکمین ہے، فیاض و مہربان ہے، بندوں پر رحمت و بخشش فرمانے والا ہے او ران پر والدین سے زیادہ شفقت و کرم کرنے والا ہے۔ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ مہربان ہے جتنا کہ والدین اپنی اولاد پر ہوتے ہیں ۔پس تم بھی اللہ کا ادب و احترام کرتے ہوئے زندگی میں جو مصائب در پیش آئیں ان پر صبر و تحمل کرتے ہوئے اللہ سے عفو و کرم کے خواستگار رہو کیونکہ توبہ اور طلب عفو پر معاف کردینا اور مشکلات رفع فرمانا اس کا دستور ہے۔ ( فتوح الغیب ، مقالہ نمبر 18، ناز پبلشنگ ہاؤس ، دہلی)

ایمان کو مضبوط کرنا احیائے دین کا حصہ : حضرت پیران پیر قطب ربانی نے ارشاد فرمایا : اگر تو اللہ کی رحمت سے مایوس ہونے لگے توسمجھ لے کر تیرا یقین و ایمان بہت کمزور ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شرط اطاعت کے ساتھ مومن سے جو وعدہ کر رکھے ہیں ان کے خلاف ورزی وہ ہر گز نہیں کرتا اور جب تیرے دل میں یقین و ایمان محکم ہوگیاتو اللہ تعالیٰ تجھے یوں خطاب فرمائے گا: آج کے دن تو ہمارا محبوب ومقرب ہے او ر ہماری رحمتیں تیرا استقبال کرتی رہیں گی۔ یہ خطاب تجھ سے بار بار ہوگا اور پھر تو خدا کے بر گریذہ بندوں میں سے ہوجائے گا اور درجہ ایمان پر تیرا کوئی ارادہ و مطلب باقی نہ رہے گا اور تو ارادہ الہٰی کی موافقت ہی میں روحانی سرورمحسوس کرے گا۔ اب تو اللہ کے سوا تمام دیگر چیزوں سے بے رغبت اور بے نیاز ہوگیا اور شرک کی تمام آلائشوں سے محفوظ ۔ اب تجھے اللہ کی طرف سے رتبہ تسلیم و رضا عطا ہوگا او راس کی حمایت وخوشنودی کا تجھ سے وعدہ کیا جائے گا۔ پھر تجھے دنیا و عقبیٰ میں جن وانس تمامخلوقات میں محبوب و محترم بنایا جائے گا کیونکہ اللہ کی اتباع سے تونے مخلوق کومطیع کرلیا ہے ۔ اللہ کی محبت مخلوق کی محبت کی ضامن ہے اور اس کا قہر مخلوق میں بغض پیدا کرتا ہے۔پھر دنیا میں تونے جن چیزوں کو خواہش کی ہوگی او رتجھے نہ ملی ہوں تو ان کا عمدہ سے عمدہ معاوضہ تجھے آخرت میں دیا جائے گا۔ تجھے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا اور جنت الماویٰ کی تمام برگریزہ نعمتیں تجھے عطا کی جائیں گی۔ اگر تونے دنیائے فانی رہتے ہوئے نفس کی لذت و شہوات سے اجتناب کیا اور خالصتاً اپنے معبود برحق ہی کا اپنا قبلہ مقصود بنا یا تو اس جذبہ توحید کی برکت سے تجھے اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اپنی جائز حلال نعمتوں سے وسعت کے ساتھ فیض یاب فرمائے گا اور عقبیٰ میں تجھے موحدین و صالحین کیساتھ بلند درجات عطا فرمائے گا۔

راہ اعتدال تبلیغ دین کا حصہ :سید نا شیخ عبدالقادر جیلانی کے اقوال اور ارشادات سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے اسلام کی اعتدال کی راہ کو اپنایا اور بندگان خدا کو اس کی تعلیم دی۔ دولت، انسان کے اعمال کی بہترین ، خدمت خلق ، ایثار قربانی اور رضائے الہٰی کے حصول میں معاون بھی رہتی ہے پھر حکماء کے بقول یہی دولت انسان کی کمزوری اور بے راہ روی ، ظلم و زیادتی کا ذریعہ بھی ثابت ہوتی ہے۔ یہ ایک انتہائی حساس اور نازک پہلو ہے جس کی وجہ سے اسلام نے اعتدال پر زور دیا ہے تاکہ کوئی بشر کا حق چھین نہ سکے۔

دراصل معاملات کی درستگی قانون عدل کے بغیر مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ جب تک عدل وانصاف کا نظام قائم نہ ہو، معاشی زندگی میں حقوق پامال ہوتے رہتے ہیں ۔ خوف خدا اور احتساب نفس اس نظام کی بنیاد ہے۔ جس کے اندر خوف خدا اور احتساب نفس نہ ہو تو وہ انسان نہ تو اپنی زندگی کے ساتھ انصاف کرسکے گا او رنہ ہی مخلوق کو انصاف دے سکے گا۔ آپ سید ناشیخ بے پناہ خدا کا خوف رکھتے تھے ۔ خلفاء اور حکام کو ہمیشہ تنبیہ کرتے رہتے او ران کے منصفانہ طرز عمل اور ظالم حکمرانوں کو تنقید فرماتے تھے ۔ آپ صرف وعظ و نصیحت پر اکتفانہ فرماتے بلکہ ضرورت سمجھتے تو بڑی صاف گوئی اور جرأت کیساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ۔ حکام وسلاطین و خلیفہ وقت پر تنقید او ران کے غلط فیصلوں کی مذمت بھی کرتے او راس کے بارے میں کسی کی وجاہت اور اثر کی مطلق پر واہ نہ کرتے ۔ حافظ عماد الدین بن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : آپ خلفاء ، وزرا، سلاطین کو بڑی صاف گوئی اور بیباکی و جرأت کے ساتھ ان کو بھرے مجمع میں بر سر منبرٹوک دیتے ۔ جو کسی ظالم کو حاکم بناتا اس پر اعتراض کرتے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت والے کی آپ کو پروا ہ نہ ہوتی تھی۔

محبوب سبحانی کی ارشادات و نصیحتیں : (1) اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک کی قسم نہ کھاؤ۔ اس میں احتیاط رکھو کہ تمہاری زبان سے خدا کی قسم کا لفظ نہ نکلے۔اس عادت کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انوار کا ایک دروازہ اس کے قلب پر کھول دیا جاتاہے ، اسے رخصت پایہ حاصل ہوتی ہے۔ اس کے عزم و ارادہ میں قوت و استحکام پیدا ہوتا ہے۔ (2) جھوٹ سے بچو بلکہ ہنسی مذاق میں جھوٹ نہ بولو۔ یہ عادت صادقہ اختیار کرنے پر اللہ تبارک و تعالیٰ شرح صدر فرمائے گا۔ او رعلم صافی عطا فرمائے گا ۔ (3) ایفائے عہد کرو تاکہ سخاو حیا کے مراتب تم پر آشکار ا ہوسکیں۔ (4) مخلوق الہٰی کیلئے لعنت کا لفظ استعمال نہ کرو۔ ابر اروصادقین کے اخلاق کا یہی طریقہ ہے جس کانتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفظ آبرو فرماتا ہے او رنقصان خلق سے مامون کر دیتا ہے۔ (5) کسی کے لئے بددعا نہ کرو بلکہ صبر کے ساتھ زور و ستم برداشت کیا کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مخلوق میں اسے محبت و قبولیت عامہ منصب عطا ہوتا ہے۔ (6) اہل قبلہ میں سے کسی ایک کے مشرک ، کافر، منافق ہونے کی بشارت قطعی نہ دو۔ اتباع سنت نبوی یہی ہے۔ اور اس بات سے انسان علم الہٰی میں مداخلت کرنے سے بچ سکتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کو رحمت عامہ کے فیضان سے کثیر حصہ مل جاتا ہے۔ (7) گناہ ظاہری یا باطنی ہوں ان سے خود کو بالکل قطع نظر کر ڈالو او راپنے جوارح کو بھی بچاؤ ۔ اس کانتیجہ یہ ہے کہ قلب و جوارح کواس کا اثر جلد معلوم ہوجائے گا۔ (8) اپنی معیشت و روزی کا بوجھ مخلوق پر نہ ڈالو۔ اس عادت سعید سے امر با لمعروف او رنہی عن المنکر کی خدمت میں خوش اسلوبی سے ادا ہوسکتی ہے اور اس میں کمال عزت ہے۔ اس سے یقین اور اعتماد علی اللہ کی صفات کی تکمیل ہوتی ہے۔ (9) ابن آدم سے ذرہ بھر بھی لالچ نہ رکھ ۔ عزت، بزرگی ،غنا ، خالص نقش شافی توشاق ، اس خصلت میں ہے اور زہد کا اصول اسی بات پر منحصر ہے۔ (10) تواضع او رمدارات کو اپنی عادت بناؤ ۔اس عادت میں جملہ طاعت شامل ہوجاتی ہیں ۔ اس میں علو مرتبت ہے، یہی کمال تقویٰ ہے او راس عادت سے صالحین تک رسائی ہے ۔ آپ نے فرمایا: اپنے احوال کی شکایت کسی دوست نہ کسی قرابت دار سے او رنہ کسی دوسرے سے کیا کرو۔ ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی شکایت کرنا ہے۔ کسی مخلوق پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرو اور نہ کسی سے کچھ سوال کرو او رنہ کسی کو دل کی حالت بتلاؤ۔

لقب محی الدین : حضرت عمر کیانی و شیخ عمر بزار سے نقل ہے کہ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کا لقب محی الدین کا کیا باعث ہے؟ تو آپ نے فرمایا: دین اسلام بوڑھا ، کمزور ہوگیا تھا اس کو توانا کیا محی الدین ہوا۔ آپ نے خاصان خدا کو مخاطب کرکے فرمایا ء انتباہ کرنا سیکھو ۔ بدعت کے کام نہ نکالو ، اطاعت کرو الگ راہ نہ اختیار کرو۔ گناہ سے آلودہ نہ ہوا کرو بلکہ ان سے پاک رہا کرو۔ اپنے مالک حقیقی کے آستانہ پر جمے رہو۔ صبر اختیار کرو بے صبر نہ ہو، ثابت قدم رہو، تفرقہ سے بچو ، رحمت الہٰی سے مایوس نہ ہوا کرو۔ ذکر الہٰی کرنے کیلئے اکٹھے ہوجایا کرو۔

آپ کے پندہ نصائح بے شمار ہیں ۔۔طوفان نوح لانے سے اے چشم کیا فائدہ

دواشک ہی کافی ہیں اگر کچھ اثر کریں ۔ حدیث نبوی ہے: (ترجمہ) حکمت کی بات مومن کی گمشدہ چیز ہے جہاں بھی اسے پائے اسے حاصل کرے کیونکہ وہی اس کا بہتر ین مستحق ہے۔ اللہ ہمیں نیک باتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

6 جنوی، 2017 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی

URLhttps://newageislam.com/urdu-section/hazrat-sheikh-mohiuddin-abdul-qadir/d/109657

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..