محمد بلال غوری
14 مئی، 2015
میں پرویز رشید کی محبت میں گھائل ہوں نہ مدارس کی نفرت پر مائل ،مگر یہ کفر کا دھندہ بہت گندہ ہے حضور!!!مانا کہ آپ نائب ِخدا ہیں ،آپ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لئے شواہد پیش کرنےمیں تردد کرتے ہیں نا فیصلہ سنانے سے پہلے ملزم کوصفائی کا موقع دینے کا تکلف کرتے ہیں مگر دائرہ اسلام سے اخراج کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہا تو دنیا میں کافروں کی بہتات ہو جائے گی اور مسلمان چراغ لیکر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملیں گے۔ہو سکتا ہے پرویز رشید کے الفاظ موزوں نہ ہوں یا پھر کسی کو سرے سے ان کی بات ہی ناگوار گزری ہو مگر ’’مردہ فکر‘‘ کا پرچار کرنے والوں نے ڈھنگ سے اختلاف کرنے کے بجائے تکفیر اٹھائی کہ جس روایتی ہتھیار سے پلٹ کر حملہ کیا اس سے تو ’’جہالت کی یونیورسٹیوں ‘‘ والی بات درست محسوس ہوتی ہے۔اگر سوالات اٹھانے کو سازش نہ سمجھا جائے تو میں یہ پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ برصغیر پاک و ہند میں اسلام کی پہلی دینی درسگاہ کی بنیاد کس نے رکھی؟میری طالبعلمانہ تحقیق کے مطابق مسلمانوں کی تاریخ میں علم کو کبھی عصری اور دینی تفریق کا سامنا نہیں رہا۔وہ درسگاہیں جنہیں آج ہم مدرسہ کہتے ہیں،وہی ہر طرح کے علوم و فنون کے مراکز ہوا کرتی تھیں ۔
مدارس کی موجودہ شکل تو سامراجی دور کی یادگار ہے جب انگریزوں نے برصغیر کے نظام تعلیم پر ضرب لگائی تو دنیاوی و سائنسی علوم کے لئے الگ تعلیمی ادارے بنا دیئے اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مدارس کو نہ صرف دینی تعلیم کے لئے مخصوص کر دیا بلکہ ایسے مدارس کی ابتداء بھی سرکاری طور پر تاج برطانیہ کے نمائندوں نے کی۔گورنر جنرل بنگالWarren Hastings نے کلکتہ میں اس نوعیت کے پہلے مدرسے ’’مدرستہ العالیہ‘‘ کی بنیاد رکھی جسے بھارتی حکومت نے پہلے کالج میں تبدیل کیا اور اب چند سال پہلے اسے یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔2009ء میں ایک بھارتی دانشور Nilanjama Gupta نے اس سازش کی کچھ گرہیں کھولیں۔ان کی کتاب Reading with Allah:Madrasas in west bengal بھارت اور برطانیہ میں بیک وقت شائع ہوئی۔وہ لکھتے ہیں کہ ہندوؤں کا پاٹ شالا صرف دھرم کے گرد گھومتا تھا لہٰذا جو ہندو اپنے بچوں کو ایڈمنسٹریٹر یا جوڈیشل آفیسر بنانا چاہتے،وہ بھی اپنے بچوں کو جدید علوم پڑھانے کے لئے مسلمانوں کے مدارس میں داخل کراتے کیونکہ اس وقت تک مدارس دینی تعلیم کے لئے مخصوص نہیں تھے بلکہ وہاں ہر طرح کے عصر ی علوم پڑھائے جاتے۔جب جدید علوم کے لئے انگریزی اسکول اور کالج کھل گئے تو مدارس مغربیت کے اس سیلاب سے خود کو بچانے کی غرض سے دینی تعلیم کے حصار میں مقید ہو کر رہ گئے۔پانی ٹھہر جائے تو بدبو اور تعفن کا مسکن وجود میں کیوں نہ آئے اورکنویں کے مینڈک کیوں نہ جنم لیں؟ہمارے اس تعلیمی ورثہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔
ملا نظام الدین محمد کا درس نظامی جو 1748ء تک رائج تھا، اس میں فلسفہ،حساب،الجبرا،جیومیٹری،فلکیات،طب اور فقہہ جیسے مضامین شامل تھے۔خیر آباد اور چڑیا کوٹ کے مدارس تو غالباً فلسفہ اور منطق کے لئے ہی مخصوص تھے۔جہالت و تنگ نظری کی اس لہر کے آگے بند باندھنے کی آخری کوشش شیخ الہند مولانا محمود الحسن نے کی جن کے شاگردوں کی صف میں مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا حسین احمد مدنی اور مولانامحمد علی لاہوری جیسے عظیم المرتبت علماء شامل ہیں۔اس کوشش میں مولانا محمد علی جوہر،ابوالکلام آزاد اور سرسید احمد خان جیسی نابغہ روزگار شخصیات نے کلیدی کردار ادا کیا۔1909ء میں ’’جامعتہ الانصار‘‘کے نام سے ایک ادارے کی بنیاد رکھی گئی جس نے دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ یونیورسٹی کو باہم مربوط کرنے کی کوشش کی۔طے یہ پایا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ کو تب تک ڈگری نہیں ملے گی جب تک وہ مدرسے میں جا کر ضروری دینی تعلیم نہ حاصل کر لیں اور دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل طلبہ کو اس وقت تک سند جاری نہیں کی جائے گی جب تک کہ وہ یونیورسٹی جا کر انگریزی زبان نہ سیکھ لیں۔
مولانا محمود الحسن نے تو انگریزی سیکھنے والے طلبہ کے لئے ماہانہ 15روپے وظیفہ بھی مقرر کیا مگر بہت جلد یہاں کے قدامت پسند اور وہاں کے جدت پسند افراد کی سوچ حاوی ہو گئی اور یہ سلسلہ ختم ہونے سے دونوں ہی اپنے اپنے خول میں بند ہو گئے۔نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے ہاں نیم انگریز اور نیم ملاں تیار ہونے لگے۔یہ دونوں طرح کے تعلیمی ادارے دو الگ نوعیت کے انتہا پسند تیار کرنے کی فیکٹریوں میں بدل گئے۔مدارس نے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا تو کالجوں اور یونیورسٹیوں نے ایسی لادین نسل تیار کی جو دینی شعور سے بے بہرہ تھی۔چونکہ قیام پاکستان کے بعد انگریز کا بنایاہوا نظام جو ں کا توں مستعار لے لیا گیا اس لئے تمام انتظامی معاملات نیم انگریز طبقے کے پاس آ گئے جس نے پاکستان کے نظریاتی تشخص کو دھندلانے کی کوشش کی۔جبکہ مدارس کے طلبہ کی دوڑ مسجد تک ہی محدود رہی،مولوی کو مذہبی شعائر تک محدود کر دیا گیایا پھر بالادست طبقات نے اسے اپنا آلہ کار بنا لیا۔مولوی نے اس بے توقیری کا انتقام یوں لیا کہ اس نے اسلام کی آڑ میں نفرتوں کی آگ خوب سلگائی اوررفتہ رفتہ یہ نوبت آئی کہ ان واعظوں نے اپنے اپنے پیروکاروں کے دماغ میں کفر کے ’’ٹیومر‘‘ پید اکر دیئے ،اب تو شاید یہ ’’ٹیومر‘‘ بھی ملیگنینٹ ہو گئے ہیں کیونکہ اس مرض لادوا کا شکار انتہا پسند اپنے سواکسی کو مسلمان تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ہر وہ شخص جو خود کو مسلمان کہتا ہے،اس کے خلاف کفر کا فتویٰ دینے والے تین تین مسلمان نکل آتے ہیں۔دین دشمن ،جہنمی،واجب القتل ،مرتد اور کافر کے القابات بانٹنے والے نائبِ خدا ہر وقت موقع کی تاک میں رہتے ہیں،ان کے نزدیک سب کفر ہے :
میں بھی کافر تو بھی کافر
پھولوں کی خوشبو بھی کافر
لفظوں کا جادو بھی کافر
یہ بھی کافر وہ بھی کافر
فیض بھی اور منٹو بھی کافر
نور جہاں کا گانا کافر
میکڈونلڈ کا کھانا کافر
برگر کافر ،کوک بھی کافر
ہنسنا بدعت، جوک بھی کافر
طبلہ کافر،ڈھول بھی کافر
پیار بھرے دو بول بھی کافر
سُر بھی کافر تال بھی کافر
بھنگڑا کیا دھمال بھی کافر
گاگھرہ،ٹھمری،گیت بھی کافر
کافی اور خیال بھی کافر
وارث شاہ بھی کافر
چاہت کی زنجیر بھی کافر
زندہ مردہ ہیر بھی کافر
نصر ویاس کی کھیر بھی کافر
بیٹے کا بستہ بھی کافر
اور بیٹی کی گڑیا بھی کافر
ہنسنا رونا کفر کا دھندا
غم کافر، خوشیاں بھی کافر
جینز بھی اور گٹار بھی کافر
ٹخنوں سے نیچے باندھو تو
اپنی یہ شلوار بھی کافر
فن بھی کافر، فنکار بھی کافر
جو میری دھمکی نہ چھاپیں
سارے یہ اخبار بھی کافر
یونیورسٹی کے اندر کافر
ڈارون کا بندر کافر
میلے ٹھیلے کفر کا دھندہ
گانے بجانے سارے پھندہ
مندر میں تو بت ہوتے ہیں
مسجد کا بھی حال بُرا ہے
کچھ مسجد کے باہر کافر
کچھ مسجد کے اندر کافر
مسلم ممالک میں اکثر کافر
کافر کافر میں بھی کافر
کافر کافر تو بھی کافر
یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کچھ گروہ اور جتھے مقدس ہستیوں کی ناموس کے جملہ حقوق اپنے نام رجسٹرڈ کروائے پھرتے ہیں۔یا پھر انہیں نائبِ خدا ہونے کے ناتے یہ ٹاسک دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی فہرست طویل نہ ہونے پائے۔اسلام کے علمبرداروں کو مسلمانوں کے خون سے وضو کرتے دیکھتا ہوں تو ’’کافروں کے کافر‘‘ کا یہ شعر دل و دماغ میں گونجنے لگتا ہے کہ۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویﷺ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
14 مئی 2015 بشکریہ : روز نامہ جنگ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/we-unbelievers-/d/103154