New Age Islam
Tue Oct 08 2024, 03:23 PM

Urdu Section ( 13 Jun 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Significance of Shab-e-Barat شب برات: حقیقت کیا ہے؟

 

 

محمد آصف اقبال، نئی دہلی

13 جون، 2014

"کہا کہ: چھوڑو اْن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے\"۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے گمراہ لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ؟ قرآن ہمارے سوال کا جواب دیتے ہوئے راہمنائی کرتا ہے اورفرماتا ہے کہ :\"ہاں مگر یہ قرآن سْناکر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتْوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے\"(الانعام:۷۰)۔یہ وہ صورتحال جس کا ہر مسلمان کو پاس و لحاظ رکھنا ہے۔ایک جانب خود اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال کو گمراہ کن کاموں سے دور کھناہے دوسری طرف ان گمراہ لوگوں سے نفرت کرنے اور دوری بنانے کی بجائے ان کی اصلاح کی فکر کرنی ہے۔اس کے لیے ان کو :قرآن و حدیث کی روشنی میں نصیحت کرنی ہے ، آخرت کی ہولناکیوں سے متنبہ کرنا ہے ،جنت کی نعمتیں بیان کرنی ہیں اور ساتھ ہی وہ بشارتیں سنانا ہیں جو کامیابی اور سرخروئی حاصل کرنے والوں کے لیے بیان ہوئیں ہیں۔فی الوقت ہم جس مسلۂ پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں وہ شب برات ہے۔شب برات کی حیثیت کیا ہے اور اس کو کس طرح گزارنا چاہیے؟سنت محمدیؐ ہماری کیا راہمنائی کرتی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا محبت اور عقیدت رکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اجمعین کا اس معاملے میں کیا رویہ تھا۔یہ وہ باتیں ہیں جن پر غور و خوض کرنا نہایت ضروری ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ آج امت مسلمہ نے شب برات کو تہوار سمجھ لیا ہے اور ساتھ ہی اس کے کچھ مخصوص مراسم بھی مقر رکر لیے ہیں جن کی شدت سے پابندی کی جاتی ہے۔ جس طرح محرم ایک تہوار بن چکا ہے اسی طرح دوسرے نمبر کا تہوار شب برات ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بناؤٹی اور خود ساختہ تہوار ہے۔ نہ قرآن میں اس کا کوئی تذکرہ ہے اور نہ ہی احادیث میں۔ صحابہ کرامؓ کے دور میں تاریخ سے بھی اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا اور نہ ہی ابتدائی زمانے کے بزرگانِ دین ہی اس تہوار کو اسلامی تہورار قرار دیتے ہیں۔ دراحقیقت اسلام رسموں اور تہواروں کا مذہب نہیں ہے۔ یہ تو ایک سیدھا اور معقول مذہب ہے جو فضول کاموں میں وقت، محنت اور دولت کی بربادیوں سے بچا کر زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور ان کاموں میں آدمی کو مشغول کرنا چاہتا ہے جو دنیا اور آخرت کی فلاح و بہبود کا ذریعہ ہوں۔ ایسے مذہب سے یہ توقع کرنا کہ وہ سال میں ایک دن حلوے پکانے اور آتشبازیاں چھوڑنے کے لیے مخصوص کرے گا ا،یہ سب باتیں عقل سے بعید تر ہیں۔اللہ کے نبی نے مسلمانوں کے لیے اس قسم کی رسمیں اور تہوار پسند نہیں کیے بلکہ اگر اُس زمانے میں یہ اور اس قسم کی دیگر خرافات انجام دی جاتیں تو لازماً اس کو حکماً روک دیا جاتا اور جو ایسی رسمیں اس زمانہ میں موجود تھیں ان کو روکا بھی گیا۔

فضیلت جو بیان کی جاتی ہے:

اس رات کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس میں قسمتوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں اور پیدائش اور موت کے معاملات طے ہوتے ہیں۔ لیکن یہ سب روایات ضعیف ہیں اور ہر ایک کی سند میں کوئی نہ کوئی کمزوری موجود ہے۔ اس لیے حدیث کی قدیم تر اور زیادہ معتبر کتابوں میں کہیں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ زیادہ سے زیادہ اگر کوئی چیز اسلامی لٹریچر میں ملتی ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ شعبان کی پندرھویں شب کو حضرت عائشہؓ نے آنحضرتؐ کو بستر پر نہ پایا اور وہ آپ کو تلاش کرنے کے لیے نکلیں۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے بقیع کے قبرستان پہنچیں۔ وہاں آپ کو موجود پایا۔ وجہ دریافت کرنے پر آپؐ نے فرمایا کہ اس رات کو اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا کی طرف توجہ فرماتا ہے اور قبیلۂ کلب کی بھیڑوں کے جس قدر بال ہیں اس قدر انسانوں کے گناہ معاف کرتا ہے۔ لیکن حدیث کے مشہور امام ترمذیؒ نے اس روایت کوبھی ضعیف قرار دیا ہے اور اپنی تحقیق یہ بیان کی ہے کہ اس کی سند صحیح طور پر حضرت عائشہؓ تک نہیں پہنچتی۔تاہم اگر ان کی کوئی اصلیت تسلیم بھی کر لی جائے تو حد سے حد بس اتنا ہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرنا ایک اچھا فعل ہے جسے انفرادی طور پر لوگ کریں تو ثواب پائیں گے۔ اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیزان روایتوں سے ثابت نہیں ہوتی جس سے یہ سمجھا جائے کہ چودھویں تاریخ کو یا پندرھویں شب اسلام میں عید قرار دیا گیا ہے یا کوئی اجتماعی عبادت مقرر کی گئی ہے۔حلوے اور آتش بازی کا معاملہ تو خیر اس قدر کھلا ہوا ہے کہ جو شخص کچھ بھی اسلام کے متعلق جانتا ہے وہ پہلی ہی نظر میں یہ کہہ دے گا کہ ان چیزوں کی پابندی اس مذہب کی روح کے خلاف ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ:

لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینہ میں ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور یہ بات حدیث کی زیادہ معتبر کتابوں سے ثابت ہے ۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں آپؐ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبری جیسے عظیم الشان منصب پر مامور کیا گیا اور قرآن جیسی لازوال کتاب کے نزول کا آغاز ہوا۔ اس وجہ سے نہ صرف رمضان میں آپؐ غیر معمولی طور پر عبادت فرمایا کرتے تھے بلکہ اس سے پہلے ہی آپؐ عبادت میں عام دنوں کے مقابلے زیادہ مصروف ہو جایا کرتے۔ حضرت عائشہؓ اور حضرت اُمِّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ رمضان کے سوا سال کے باقی گیارہ مہینوں میں صرف شعبان ہی ایسا مہینہ تھا جس میں آپؐ سب سے زیادہ روزے رکھتے تھے بلکہ تقریباً پورا مہینہ ہی روزے رکھتے گزر جاتا تھا۔لیکن آپؐ کا یہ طرز عمل اپنی ذات کے لیے خاص تھا اور اس گہرے روحانی تعلق کی بنا پر تھا جو نزول قرآن کے مہینے سے آپؐ کو تھا۔ رہے عام مسلمان، تو ان کو اپؐ نے ہدایت فرمادی تھی کہ ماہِ شعبان کے آخری پندرہ دنوں میں روزے نہ رکھا کریں۔ کیونکہ اس میں یہ اندیشہ تھا کہ اگر عادۃً لوگ اس مہینہ کے آخری دنوں میں روزے رکھنے لگے تو رفتہ رفتہ یہ ایک لازمی رسم بن جائے گی اور رمضان کے فرض روزوں پر خواہ مخواہ دس پندرہ مزید روزوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ اور اس طرح لوگوں پر وہ بار پڑ جائے گا جو خدا نے ان پر نہیں رکھا ہے۔

مسلمانوں میں آتش بازی کی ابتداء:

تاریخ کے حوالہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ۱۳۲ھ میں جب بنو عباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھیننے کے لیے سازشوں کے جال بچھائے تو انہوں نے دیکھا کہ بنو امیہ کو شکست دینا آسان کام نہیں ہیکیونکہ عرب کے جنگجو لوگ اموی حکومت کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایرانیوں اور عجمیوں سے تعاون لینے کے لیے سوچا۔ ایرانی آتش پرست تھے مگر فاروقی اور عثمانی حکومت کی فتوحات نے مجوسی آتش کدوں کو سرد کر دیا تھا مگر آتش پرست ایرانی مسلمانیت کا لبادہ اوڑھ کر اسلام میں داخل ہو گئے۔ ایرانیوں کا ایک مشہور خاندان\"خاندان برامکہ\"تھا ۔ \"برمک\"کہتے ہیں آتش کدے کی آگ روشن کرنے اور اس کی نگرانی کرنے والے کو یہ مجوسیوں کے ہاں سب سے بڑا مذہبی عہدہ سمجھا جاتا تھا۔ جب مسلمانوں کی آمد سے برمک عہدے بھی ختم ہو گئے تو برمکی خاندان کے لوگوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ لیا مگر اندورنِ خانہ آگ سے محبت برقرار رکھی۔ جب بنوعباس نے بنو امیہ سے اقتدار چھینا تو ایسے نو مسلم عجمیوں سے تعاون لیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایرانی امور سلطنت میں شامل ہو گئے۔ بلکہ برمکی خاندان نے تو حکومت اسلامیہ میں بڑے بڑے عہدے حاصل کر لیے اور خالد برمکی تو وزرات کے عہدے تک جا پہنچا۔ 163ھ میں خالد کا انتقال ہو ا تو خلیفہ ہارون الرشید نے اس کے بیٹے یحیٰ کو برمکی وزرات کا قلمدان سونپ دیا۔ برمکی چونکہ سابقہ آگ پرست تھے اس لیے یحیٰ برمکی نے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں مقدس آگ کو روشن کرنے کا ایک عجیب طریقہ ایجاد کیا۔ اور خصوصاً شعبان کی پندرھیوں رات کو نیک اعمال سے منسوب کرکے اس رات کثرت سے چراغاں کیا۔ آگ روشن کرنے کا مقصد لوگوں کے دلوں میں آگ کا تقدس اور وقار پیدا کرنا تھا۔ مساجد میں چراغاں کی بدعت کو اسی نے ایجاد کیا تاکہ وہ اس طرح آگ کی پوجا کر سکیں گویا آتش بازی اور چراغاں کی رسم اسلام میں ڈیڑھ سو سال بعد جاری ہوئیں ۔پھر زمانہ کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہیں اور آتش بازی کی جدید صورت جو آج ہمارے سامنے موجود ہے اس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔

کتب احادیچ کی شروحات سے ثبوت:

مذکورہ واقعہ کا ثبوت ان شروحات سے بھی ملتا ہے جن پر ہمارے معزز علماء احناف اور علماء اہلحدیث ہر دو کا اتفاق ہے۔ جیسے ترمذی کی عربی شرح تحفتہ الا حوذی میں مرقوم ہے:کیونکہ وہ مجوسی تھے جب وہ مسلمان ہوئے تو انہوں نے آتش پرستی کو اسلام میں داخل کر دیا ۔لوگوں کو یہ دھوکہ دیتے ہوئے کہ یہ بھی دینی طریقہ ہے حالانکہ ان کا مقصد آگ کی پوجا تھی ۔جب وہ مسلمانوں کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرتے تو آگ کو سجدہ مقصود ہوتا جبکہ شریعت میں کسی مقام پر بھی ضرورت سے زیادہ آگ روشن کرنا جائز نہیں۔(اردو ترجمہ:)۔مشہور حنفی عالم علی قاری نے بھی یہی نقل کیا ہے:اس رات خاص طور پر فقراء کے لیے انواع اقسام کے کھانے تقسیم کرنا اس بارے میں کوئی حدیث مروی نہیں نہ مرفوع نہ موقوف نہ صحیح اور نہ ضعیف اور یہ اعتقاد رکھنا کہ اس رات مردوں کی روحیں حاضر ہوتی ہیں اور ان کی تکریم کے لیے گھروں کو صاف رکھنا اور دیواروں کی لیپا پوتی کرنا اور ضرورت سے زیادہ چراغاں اورقندیلوں کو روشن کرنا تمام بدعات ،گمراہی کے کام ہیں۔اب اگر ان باتوں کے تعلق سے آپ کو اطمیان نہیں تو اپنے ہی محلہ کے کسی عالم دین سے اس بارے میں دریافت کریں اور بتائیں کہ میں نے ڈھیر سارا چراغاں کیا، پٹاخے پھوڑے اور اسی طرز کے دیگر کام انجام دیے۔آپ بتائیں کہ اس عمل کے بعدمیں دین سے قریب ہوا یا دور؟

دیکھیں اسلام میں خاص طور پر یہ بات ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جو کچھ خدا نے اپنے بندوں کے لیے لازم کیا ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسری چیز بندے خود اپنے اوپر لازم نہ کر لیں۔ کوئی خودساختہ رسم، کوئی مصنوعی قاعدہ، کوئی اجتماعی عمل ایسا نہ ہو جس کی پابندی لوگوں کے لیے فرض کی طرح بن جائے۔ خدازیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس کے بندوں کی بھلائی کن چیزوں کی پابندی میں ہے اور کس چیز کی کتنی پابندی میں ہے۔ اس کی قائم کی ہوئی حدوں سے تجاوز کرکے اگر بندے بطور خود کچھ رسمیں مقرر کرلیں گے اور فرض کی طرح ان کی پابندی کریں گے تو اپنی زندگی کو آپ تنگ کر لیں گے۔ پچھلی قوموں نے یہی غلطی کی تھی کہ نئی نئی رسمیں ایجاد کرکے اپنے اوپر فرائض اور واجبات کے ردّے چڑھاتی چلی گئیں اور رفتہ رفتہ رسمیات کا ایک ایسا تانا بانا اپنے گرد بن ڈالا جس کے جال نے آخر کار ان کے ہاتھ پاؤں جکڑ کر رکھ دیے۔ قرآن رسموں کو زنجیروں سے تشبیہ دیتا ہے اور حضرت محمدؐ کے مشن کا ایک بڑا کام یہ بتاتا ہے کہ ان زنجیروں کو کاٹ پھینکیں جن میں انسان نے اپنے آپ کو خود کَس رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت محمدیؐ میں فرائض کا ایک نہایت ہلکا اور سادہ ضابطہ تجویز کرکے باقی تمام رسموں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ عید الفطر اور عید الاضحٰکے سوا کوئی تہوار نہ رکھا گیا۔ حج کے سوا کوئی عبادت پر مبنی سفر نہ رکھا اور زکوٰۃ کے سوا کوئی نذر ونیازکا طریقہ مقرر نہ کیا۔اور ہمیشہ کے لیے یہ اصول طے کر دیا گیا کہ انسان کو جس طرح خدائی فرض میں کوئی چیز کم کرنے کا حق نہیں ہے، اسی طرح کوئی چیز بڑھانے کا حق بھی نہیں ہے۔

ہر بدعت گمراہی ہے:

ابتدائی زمانہ میں جو لوگ شریعت محمدی کی روح کو سمجھتے تھے وہ سختی کے ساتھ اس اصول کے پابند رہے۔ انہوں نے نئی رسمیں ایجاد کرنے سے انتہائی پرہیز کیا اور جو چیز لازمی رسم بنتی نظر آئی اس کی فوراً جڑ کات دی۔ انہیں معلوم تھا کہ ایک چیز جس کو نیکی اور ثواب کا کام سمجھ کر ابتداء میں بڑی نیک نیتی کے ساتھ شروع کیا جاتا ہے وہ رفتہ رفتہ کس طرح سنت، پھر واجب، پھر فرض اور آخر کار فرضوں سے بھی زیادہ اہم بنتی چلی جاتی ہے اور جہالت کی بنا پر لوگ اس نیکی کے ساتھ کس طرح بہت سی برائیاں ملا جلا کر ایک قبیح رسم بنا ڈالتے ہیں۔ اس قسم کی رسمیں جمع ہو کر کس طرح انسانی زندگی کے لے ایک وبال اور انسانی ترقی کی راہ میں ایک بھاری رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اس لیے ابتدائی دور کے علماء اور امام اس بات کی سخت احتیاط رکھتے تھے کہ شریعت میں کسی نئی چیز کا اضافہ نہ ہونے پائے۔ ان کا یہ مستقل عقیدہ تھا کہ جو چیز شریعت میں نہیں ہے اسے شرعی حیثیت دینا یا جس چیز کی شریعت میں جو حیثیت ہے اس سے زیادہ اہمیت اس کو دینا بدعت ہے ۔اور ہر بدعت گمراہی ہے۔لیکن افسوس ہے کہ بعد کی صدیوں میں اس طرف سے انتہائی غفلت برتی گئی اور بتدریج مسلمان بھی اپنی خودساختہ رسموں کے جال میں اسی طرح پھنستے چلے گئے۔ جس طرح دنیا کی دوسری قومیں پھنسی ہوئی تھیں۔اس خرابی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں جو قومیں اسلام کے دائرے میں داخل ہوئیں ان کو صحیح اسلامی تعلیم و تربیت نہ مل سکی۔ وہ اپنے ساتھ پرانے جاہلیت کے بہت سے خیالات اور بہت سے طور طریقے لیے ہوئے اسلام میں داخل ہوگئیں۔ ان کو صدہا برس سے رسمیات اور تہواروں اور میلوں ٹھیلوں کی عادت پڑی ہوئی تھی۔ اس کے بغیر ان کے لے مذہبی زندگی میں گویا لطف ہی نہ رہا۔ اسلام کی سادہ شریعت کے دائرے میں آکر بجائے اس کے کہ وہ پرانی رسموں کا بوجھ اترنے اور پرانی زنجیروں کے بند کٹنے سے اطمینان محسوس کرتیں، انھیں یہاں آتے ہیں یہ فکرلاحق ہو گئی کہ کس طرح وہی بوجھ پھر اپنے اوپر لاد لیں جنہیں اسلام نے اتارا تھا اور وہی بیڑیاں پھر پہن لیں جنہیں اسلام نے کاٹا تھا۔ چنانچہ انہوں نے کچھ تو پرانی جاہلیت کی رسمیں ذراسی ظاہری صورت بدل کر باقی رکھیں تو کچھ نئی رسمیں خود ایجاد کیں ۔یہاں تک کہ اسلام کو بھی ویسی ہی رسموں اور تہواروں کا مذہب بنا کر رکھ دیا جیسے ان کے پرانے مذہب تھے۔افسوس کہ ان نئی رسموں کی ایجاد میں خاصی باریک بینی سے کام لیا گیا۔ قرآن اور حدیث کو اس غرض کے لیے نہ تو دیکھاگیا کہ اسلام نے انسانی زندگی کے لیے جو نظام نامہ مرتب کیا ہے اس کے اصول معلوم کیے جاتے۔ بلکہ ساری چھان بین اسی لیے کی گئی کہ کہاں سے ایک نئی رسم ایجاد کرنے کے لیے یا پرانی جاہلانہ رسموں کو جاری رکھنے کے لیے کوئی بہانہ مل سکتاہے۔ پھر اگر کسی جگہ ایک بال کی نوک کے برابر بھی کوئی اشارہ مل گیا تو اس پر ایک پہاڑ برابر عمارت تعمیر کر ڈالی گئی۔ لوگ اپنی جگہ خوش ہیں کہ اسلام میں تہواروں اور رسموں کی جو کمی تھی اس کوانہوں نے پورا کر لیا ہے۔ حالانکہ دراصل انہوں نے اپنی جہالت سے ایک بار پھر وہ ساری بیڑیاں پہن لی ہیں جو اللہ نے اپنی نبیؐ کے ہاتھ سے کٹوادی تھیں اور اپنے آپ کو پھر اس جال میں پھانس لیا ہے جس میں پھنس کر دنیا کی کوئی قوم کبھی نہ ابھر سکی ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کی رائے:

امام ابو العباس شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نییہ عظیم قاعدہ ذکر کیا ہے:علماء کرام اس متفق ہیں کہ جن مسائل میں لوگوں کا تنازع ہو اسے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانا واجب ہے، اورکتاب اللہ اور سنت رسول دونوں یا دونوں میں سے ایک جو بھی فیصلہ کر دیں وہ شریعت ہے اور اس پر عمل کرنا واجب ہے۔اور جس کی کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مخالف کریں اسے پھنک دینا اور اس پر عمل نہ کرنا واجب ہے، اور جو عبادات کتاب ا للہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہ ہوں وہ بدعات ہیں ان پر عمل کرنا جائز نہیں، چہ جا ئیکہ ان کی دعوت دی جائے، اور ان کی مدح سرائے کی جائے ۔کہا کہ: \"اے نبی ! لوگوں سے کہ دو کہ!اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو در گزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے\"(آل عمران:۳۱)۔مزید فرمایا: \"اے محمد ؐ !تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اِختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسْوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کرلیں\"(النساء:۶۵)۔اس معنی اور موضوع کی آیات بہت زیادہ ہیں۔اور یہ آیات اختلافی مسائل کو کتاب اللہ اور سنت رسول ؐاللہ پر پیش کرنے اور پھر ان کے فیصلے پر رضامندی کے وجوب پر واضح نص ہیں، اور یہی ایمان کا تقاضا ہے اور بندوں کے لیے جلد یا دیر انجام کے لحاظ سے بہتر بھی ہے۔حافظ ابن رجب ؒ اپنی کتاب\"لطائف المعارف\"میں مندرجہ بالا کلام کے بعد اس مسئلہ کے متعلق کہتے ہیں:اور شعبان کی پندرویں رات یعنی شب برات اہل شام میں سے خالد بن معدان،اور محکول،اور لقمان بن عامر وغیرہ کی تعظیم کرتے ہوئے اس رات عبادت کرنے کی کوشش کرتے، اور لوگوں نے ان ہی سے اس رات کی فضیلت اور تعظیم کرنا سیکھی۔ اور ایک قول یہ ہے کہ: انہیں اس سلسلہ میں کچھ اسرائیلی آثار پہنچے ہیں،۔۔۔۔اور حجاز کے اکثر علماء کرام نے اس کا انکار کیا ہے جن میں عطاء ، ابن علی ملیکہ شامل ہیں،اور عبدالرحمن بن زید بن اسلم نے اسے فقہائے مدینہ سے نقل کیا ہے، اور امام مالک ؒ کے اصحاب وغیرہ کا یہی قول ہے،ان کا کہنا ہے :یہ سب کچھ بدعت ہے۔۔۔۔اور امام احمد ؒ سے شب برات کے بارے میں کوئی کلام معلوم نہیں ہے۔۔۔ حافظؒ نے یہاں تک لکھا ہے کہ :شب برات میں نفلی نماز ارو شب بیداری کرنے میں نبی ؐ اور ان کے اصحاب سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔بس یہ باتیں مکمل طور پر ہمارے لیے کافی ہیں کہ شب برات جس شکل میں آج منائی جاتی ہے وہ کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قابل قبول نہیں ہے۔اور جس چیز کو اسلام قبول نہ کرتا ہو اور نہ ہی اس پر عمل کرنے کے لیے کہے، لیکن پھر بھی اپنی دلچسپی،دلگی اور خوشی کے لیے انجام دی جائے تو وہ دین اسلام سے دوری ہی قائم کرنے کا ذریعہ بنے گی!

قرآن واضح راہنمائی کرتا ہے:

واقعہ کے پس منظر میں اللہ تعالیٰ ہماری مکمل راہنمائی فرماتے ہوئے کہتا ہے کہ: \"آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے\"(المائدہ:۳)۔دین کو مکمل کر دینے سے مْرادْ س کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جْملہ مسائل کا جواب اصولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مْراد نعمتِ ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچّا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیّت عطا فر مایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہی۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبْوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔مزید فرمایا:\"کیا یہ لوگ کچھ ایسے شریکِ خدا رکھتے ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک ایسا طریقہ مقرر کر دیا ہے جس کا اللہ نے اِذن نہیں دیا؟\"(الشوریٰ:۲۱)۔ اس آیت میں شْرَکَا ء سے مراد ، ظاہر بات ہے کہ وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں ، یا جن کی نذر و نیا ز چڑھاتے ہیں ، یا جن کے آگے پوجا پاٹ کے مراسم ادا کرتے ہیں۔ بلکہ لامحالہ ان سے مراد وہ انسان ہیں جن کو لوگوں نے شریک فی الحکم ٹھیرا لیا ہے ، جن کے سکھائے ہوئے افکار و عقائد اور نظریات اور ان فلسفوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں ، جن کی دی ہوئی قدروں کو مانتے ہیں ، جن کے پیش کیے ہوئے اخلاقی اصولوں اور تہذیب و ثقافت کے معیاروں کو قبول کرتے ہیں ، جن کے مقرر کیے ہوئے قوانین اور طریقوں اور ضابطوں کو اپنے مذہبی مراسم اور عبادات میں ، اپنی شخصی زندگی میں ، اپنی معاشرت میں ، اپنے تمدن میں ، اپنے کاروبار اور لین دین میں ، اپنی عدالتوں میں ، اور اپنی سیاست اور حکومت میں ، اس طرح اختیار کرتے ہیں کہ گویا یہی وہ شریعت ہے جس کی پیروی ان کو کرنی چاہیے۔ یہ ایک پورا کا پورا دین ہے جو اللہ رب العالمین کی تشریع کے خلاف، اور اس کے اذن کے بغیر ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کیا اور ماننے والوں نے مان لیا۔ اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسا غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور غیر اللہ سے دعائیں مانگنا شرک ہے۔اسی جانب یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے جس میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا:\"جس نے بھی ہمارے اس دین میں نیا کام ایجاد کیا جو (دراصل ) اس میں نہیں تو وہ نا قابل قبول ہے\"(بخاری و مسلم)۔اورحضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ بنی کریم ؐخطبہ میں کہا کرتے تھے:\"بلا شبہ سب سے بہتر کام اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے، اور سب سے اچھا اور بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، اور سب سے برا کام بدعت اور دین میں نیا کام ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے\"(صحیح مسلم)۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/the-significance-shab-e-barat/d/87497 

Loading..

Loading..