محمد عارف نگرامی
31 اکتوبر، 2014
اسلام میں عبادت ایک وسیع اصطلاح ہے جس کے معنی اللہ کے غیر مشروط اطاعت و بندگی کے ہیں ۔ عبادت کے اس وسیع تصور نے جائے عبادت یعنی مسجد کو بھی ایک جامعیت عطا کردی ہے۔ اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت صرف اس قدر نہیں جس قدر دوسری قوموں میں ان کی عبادت گاہوں کی ہوتی ہے بلکہ ان مسجدوں کا پورے اسلامی نظام حیات سے گہرا اور اٹوٹ رشتہ ہے۔مساجد مذہب اسلام کا شعا ر ہی نہیں بلکہ در حقیقت وہ اسلامی تہذیب و ثقافت اور اسلامی تمدن کی نقیب بھی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مساجد کا مقام ٹھیک وہی ہے جو مقام نظام جسم میں دل کو حاصل ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھئے تو پہلا انسان اگر نبی ہے تو ایک روایت کے مطابق مسجد کا پہلا معمار بھی ہے ۔ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے کی تھی جس کے آثار طوفان نوح میں مٹ گئے تھے ۔اہن ہشام نے لکھا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا عبادت خانہ بیت اللہ عینی کعبہ ہے جو روئے زمین کی تمام مساجد کا قبلہ اور سمت کے پھیلنے اور دنیا کے مختلف مقامات پر مساجد تعمیر کرنے کی تاریخ اور مساجد کے فن تعمیر سےقطع نظر صرف نظام مسجد پر غور کیجئے تو اس میں زبردست روحانی ، سماجی ، سیاسی اور تہذیبی قوت پنہا نظر آتی ہے اگر اسے منکشف کیا جائے اور روبہ عمل لایا جائے تو انسانیت پھر اسی ہمہ گیر خیر و برکت سے آشنا ہوسکتی ہے جس سے وہ آل سے 14 سو سال پہلے آشنا ہوچکی تھی ۔ اسلامی معاشرہ میں مساجد کا جو کردار ہوناچاہئے اس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم نظام مساجد کی سبھی او رمختلف پہلوؤں سے اس کا جائزہ لیں ۔
مساجد کی تعمیر کا مقصد اس اذان میں مضمر ہے جو مینار مسجد سے پانچوں وقت بلند ہوتی ہے ۔ یہ اذان مومنوں کو تجدید ایمان اور تعمیر سیرت کی طرف لے جاتی ہے حکم ہے کہ جب نماز کے لئے پکارا جائے تو سارے کام چھوڑ کر مسجد کا رخ کرو۔ اس میں نظم و ضبط ڈسپلن ، وفاداری اور فرماں برداری کی زبردست تعلیم ہے ۔ مساجد کا سب سے پہلا کردار روحانی قوت کو فروغ دینا اور ایمانی طاقت کو بڑھا نا ہے ۔ آپ دنیا کے تمام عبادت گاہوں کا جائزہ لیجئے یا ان مقدس مقامات کی زیارت کر لیجئے تمام معابد کو ہوس ناکیوں ، بدکاریوں او رفحاشیوں کا اڈہ پائیں گے ۔ بہت سے مذاہب تو وہ ہیں جو اپنی عبادت گاہوں میں غیر اخلاقی حرکتوں کو نہ صرف برداشت کرتےہیں بلکہ اس کی ترغیب کا سامان بھی کرتے ہیں تاکہ یہ چیز ان کےمذاہب کو پرکشش بنا سکے۔ اس کے بر خلاف آپ مساجد کی طرف آئیے اسلام کے یہ عبادت خانے آپ کو دیگر عبادت خانوں سے مختلف اور ممتاز ملیں گے ۔ ان کا ماحول انتہائی پاکیزہ اور روح پرور ہوگا ۔ یہاں کی نماز برائیوں اور بے حیائیوں سے روکنے کا ذریعہ ہے ۔
اسلام سے پہلے خانہ کعبہ کے اندر مرد، عورت، عریاں طواف کرتے تھے اور اسے عبادت سمجھتے تھے ۔ اسلام نے اس حرکت پر پابندی عائد کردی ۔ دیگر مذاہب میں چند مخصوص لوگ جو پنڈت ، بھکشو ، گرو، پوپ یا دیگر ناموں سے جانے جاتے ہیں ان ہی کے ذمہ ان معابد نگرانی ہوتی ہے او رعملاً وہی فریضہ عبادت انجام دیتے ہیں عام لوگ اس معابد کا رخ یا اس وقت کرتےہیں جب ان کو کوئی ضرورت یا عارضہ پیش آتا ہے ۔ اس کے برعکس اسلام کے مطالبات کے تحت پنج وقتی نماز با جماعت ادائیگی کے علاوہ مسلمانوں کے باقی اوقات بھی مسجد کے نظام سے منضبط ہوتے ہیں اور ان کی مشغول ترین زندگی بھی اسی نظام کی پابندی ہوتی ہے ۔ مسلمانوں کو پانچ مرتبہ مسجد میں حاضر ہونا اور نماز با جماعت کا اہتمام کرنا بھی دینی اور قومی شعار اور اسی وقت وہ سایہ خداوندی کے حقدار ہوتے ہیں ۔ مساجد کی ایک نمایاں شان یہ ہے کہ وہ اطمینان قلب اور دل کے سکون کی بہتر ین جگہ ہوتی ہے ۔ سکون قلب حاصل کرنے کے لیے آج کا انسان بہت کچھ کرتا ہے بہت سے مقامات کی زیارت کرتا ہے مگر سکون قلب میسر نہیں ہوتا کیونکہ فرمان خدا ہے کہ خدا کی یاد میں ہی اطمینان قلب ہے ۔ ظاہر ہے کہ اقامت الصلوٰۃ کا تصورمسجد سے وابستہ ہے معلوم ہوا ہے کے سکون قلب اگر کہیں حاصل ہو سکتا ہے تو وہ مسجد ہے اس لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاض الجنہ کی کیاریاں اور متقیوں کا گھر قرار دیا ہے۔ اللہ کے نزدیک دنیا کی بدترین جگہ بازار اور پسندیدہ جگہ مسجد ہے۔
مساجد کا ایک قابل ذکر پہلو ان کا ثقافتی کردار ہے اسلامی ثقافت یو تو پوری زندگی سے وابستہ ہے او رمکمل زندگی کا آئنہ ہے لیکن اس کا بنیادی تعلق ان علوم سے ہے جو اسلام کے ساتھ وجود میں آئے ہیں ۔ ان علوم کی اشاعت کے بعد کے ادوار میں وسیع پیمانے پر مدارس کا قیام عمل میں آیا لائبریریاں اور اکیڈمیاں وجود میں آئیں ۔ صدر اسلام میں ان تمام اداروں کا کام مساجد سے لیا جاتا تھا ۔ بلکہ آج بھی ان کا یہ کردار بہت سے مقامات پر باقی ہے ۔ قدیم مساجد کے ساتھ بالعمومدرسے پائے جاتے ہیں جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے بہت سے مساجد میں کتب خانوں کا نظم ہے ۔ اسلام کا پہلا مدرسہ مسجد نبوی شریف ہے جہاں صحابہ کرام کی باضابطہ تعلیم و تربیت ہوتی تھی ۔ مسجد نبوی میں ہی وہ چبوترہ بھی تھا جو صفہ کے نام سے مشہور ہے وہاں مبلغین اور علمین مختلف مقامات پر علم دین اور ہدایات اسلام کی تعلیم اشاعت کے لئے بھیجے جاتے تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک عہد میں مسجد کا استعما ل علم دین ہی کے لئے نہیں بلکہ سنجیدہ اور پاکیزہ شعر و شاعری کے لئے بھی ہوتا تھا حسان بن ثابت کے لئے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر فراہم کیاتھا اور فرمایا تھا کہ حسان تمہارے اشعار مشرکوں کو تبرک کی طرح لگتے ہیں ۔ کعب بن زبیر نے شان نبوی اور دو قصیدے مسجد نبوی میں پیش کئے تھے حضرت عمر نے مسجد نبوی کے جنوبی حصہ میں ایک حصہ مختص کیا تھا جہاں بیت بازی ہوا کرتی تھی اس کے علاوہ بعض روایات سے معلوم ہوتا تھا کہ مسجد نبوی میں کتابت اور خوش نویسی سکھانے کا بھی اہتمام ہوتا تھا ۔
مساجد کا سب سے اہم پہلو ان کا سماجی کردار ہے قرون اول کی مسجد نبوی کا مطالعہ کیجئے تو آپ دیکھیں گے کہ اوقات نماز کے علاوہ مسجد کا ایک گوشہ ذاکرین او رمعلمین کے لئے خالی ہے تو دوسرا گوشہ سماجی اور معاشرتی امور کی انجام دہی کے لئے موجود ہ وہاں مریضوں کے لئے خیمہ بھی نصب ہے اور محتاجوں اورضرورت مندوں کے لئے مال اور سامان زندگی کی تقسیم بھی عمل میں آرہی ہےنکاح کی مبارک اور پرمسرت مجلس بھی منعقد ہورہی ہے اور طلاق کے فیصلے بھی صادر کئے جارہے ہیں ۔ امانتیں بھی رکھی جارہی ہیں اور مسجد کی احترام و عزت کے ساتھ خورد ونو ش کے انتظامات بھی ہورہے ہیں گویا مسجد معاشرتی زندگی کے کلی اور جزوی سارے معاملات کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے اور ان کو صحیح رخ دینے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔ مساجد کا یہ کردار زندگی کے ہر مسئلہ کے حل کے لئے مسجد کی طرف رخ کرنے کی دعوت دیتا ہے او رسماجی زندگی کو دینی زندگی سے الگ رکھنے کے زاویہ نگاہ کی نفی کرتا ہے ۔
اس کے علاوہ دیندار مسلمانوں کے لئے سیاست گویا ایک شجر ممنوعہ بن گئی ہے مگر اسلام جس نفاذ زندگی کے نفاذ کا داعی ہے خود اس کے اندر سے ایک سیاست رونما ہوتی ہے جس کی بنیاد اللہ کی حاکمیت طاغوت سے برائت اور مخلوق کی کفالت پر ہے اس سیاست کی فکری بنیاد قرآن فراہم کرتا ہے ۔ اس کی عملی تشکیل سرورعالم کے افعال اور اقوال سے ہوتی ہے اور مسجدیں اس میں موثر کردار ادا کرتی ہے مسجد نبوی کو دیکھئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کا اجلاس وہیں ہوتا تھا وہیں سے حاکموں اور اعمال کے نام احکامات بھی جاری ہوتے ہیں ۔ ساتھ ہی خلفائے راشدین کے زمانے میں اتنا اضافہ بھی ہوا کہ دوسرے ملکوں سے آنے والوں سرکاری وفود کا استقبال بھی مسجد نبوی میں کیا جاتا تھا ۔
مساجد کی شان اور عظمت کے وجود اور ہمہ جہت کرداری کے علاوہ ان اثرات بھی آشکار ا ہوتی ہے ۔ سب سے پہلا اثر جو انسانی زندگی پر مسجدیں ڈالتی ہیں وہ اجتماعیت کا جذبہ اور احساس ہے مسجد کا قیام اس لیے عمل میں آتا کہ اس میں نماز با جماعت کے ساتھ ادا کی جائے ۔ عمومی حیثیت سے دیکھئے تو مسجد میں آنے والے جب پانچو ں وقت ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو ان کے تعلقات میں غیر شعوری طور پر اضافہ ہوتا ہے ایک دوسرے کے حالات سے باخبر ہوتے ہیں باہم جڑتے ہیں اور ان میں باہم تعاون اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ پانچ نماز وں کے علاوہ ایک نماز جمعہ بھی ہے یہ ہفتہ کی عید ہے اسی لئے کسی بڑی مسجد میں ادا کی جاتی ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ ہر چھوٹی اجتماعیت بڑی اجتماعیت کا حصہ ہے ۔ جمعہ کی نماز سےپہلے امام خطبہ دیتا ہے ۔ جس میں دین کے احکامات ‘‘ حالات ’’ کے پیش نظر مسلمانوں کی ذمہ داریوں اور مسائل و مشکلات پر قرآن و سنت سے روشنی ڈالی جاتی ہے۔
مساجد کا دوسر نمایا اثر مساوات اور اخوت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے روئے زمین پر ان گنت قسم کے انسان بستے ہیں امیر و غریب ہوتا بھی عالم و جاہل بھی شہری و دیہاتی تھی عقل مند و کم عقل بھی اور رنگ ونسل کے لحاظ سے مختلف بھی یہ اختلافات عارضی نوعیت کے ہیں مگر مسجدیں ایسا پلیٹ فارم بھی جہاں سب لوگ جمع ہوکر مساوات اور اخوت کے عمل کو فروغ دیتےہیں عالم جاہل سے قدم ملا کر کھڑا ہوتا ہے امیر غریب سے ملک کھڑا ہوتا قیام و سجود میں ایک ساتھ ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ مساجد کا ایک اہم اثر انسانی زندگی میں طہارت اور نفاست بھی ہے اسلام نے نماز کی قبولیت کی شرط طہارت اور نفاست بھی اسلام نے نماز کی قبولت کی شرط طہارت کو قرار دیا ہے اور اسے نصف ایمان بتایا ہے ناپاک جسم اور ناپاک کپڑے نماز کو قبولیت سے محروم کردیتے ہیں اس پاکی کے علاوہ ہر جمعہ کو غسل کرنا ضروری ہے اور ہر نماز کے لئے وضو کرنا لازمی ہے اگر ایک شخص روزانہ پانچ مرتبہ اپنے جسم و لباس کی طہارت پر نظر رکھتا ہو تو ظاہر ہے کہ پاکی اور صفائی کے معاملے میں دنیا کی ہر قوم سے وہ ممتاز ہوگا ۔اس لئے صحیح معنوں میں مہذب وہی لوگ ہوں گے جن میں یہ پاکیزہ اثرات نمایاں ہوں گے اور یہ مسجد سے گہرائی وابستگی کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا مختصر اور ہمہ جہتی تربیت کا مطلب دوسروں تک پہنچانا ۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد اچھے انسانوں کو ڈھالنے کا کارخانہ ہے یہ وہ بھی ہے جس کے اندر دینی اقدار کو دنیا کے سانچے میں ڈھالا جاتا ہے اور اس سےلوگ خدا کے فرماں بردار بن کر نکلتے ۔
31 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/importance-mosques-islamic-society-/d/99859