محمد امین حسنی ندوی
18 مارچ، 2016
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی ایک وجہ حسن اخلاق کی تکمیل بھی ہے، آپ ہی کا ارشاد ہے! مجھے مکارم اخلاق سے اللہ کی محبت حاصل ہوتی ہے ، ارشاد نبوی ہے ! اللہ تعالیٰ مکارم اخلاق کو پسند کرتا ہے ، اور برے اخلاق کو ناپسند کرتا ہے، حسن اخلاق سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے، ارشاد نبوی ہے ۔ کامل ترین مومن وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘قیامت کے روز جب نیکیاں تولی جائیں گی تو اعلیٰ اخلاق کا پلہ جھکا رہے گا’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘‘اعمال کے ترازو میں اعلیٰ اخلاق کا وزن سب سے زیادہ ہوگا’’۔ ان مذکورہ بالا احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی شخصیت او راس کے کردار کے متعلق گواہی اگر لیتی ہے تو اس کے اخلاق سے لی جاسکتی ہے کیونکہ اگر وہ اسلامی اور نبوی زندگی گزارنا چاہتا ہے تو اسے اپنے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ دنیا میں اس کی پسندیدگی اور نا پسندیدگی اور دارو مدار اس کے اخلاق پر ہے کیونکہ دنیا کی سب سے معزز شخصیت کے اخلاق سب سے اچھے تھے اور اس کی گو اہی کسی باہر کے آدمی نے نہیں گھر کی خاتون نے دی ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو قرآنی اخلاق کا پیکر تھے ، قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے جس طرح کے بلند اخلاق پیداکرنے پر زور دیا ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ انسان کو بنانے او ربگاڑنے میں اور دوسروں کے ساتھ اس کے تعلقات استوار کرنے میں جس چیز کا سب سے بڑا دخل ہوتا ہے وہ اس کے ہیں اخلاق۔
گھریلو زندگی ہویا معاشرتی زندگی، آفس کا مسئلہ ہو یا تجارتی مسئلہ کسی طرح کی بھی زندگی ہو آپ میں اگر اخلاق نہیں ہیں بردباری نہیں ہے، تحمل نہیں ہے تو آپ ایک کامیاب انسان نہیں بن سکتے کامیابی کے لئے ان چیزوں کا ہونا بہت ضروری ہے یہی چیز یں کامیابی میں سب سے بڑی معاون بھی بنتی ہیں اور کامیابی کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ، کیونکہ اگر اخلاق نہیں ایک دکاندار اپنے گاہک سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے ، ایک کمپنی کا مالک اپنے ورکروں سے بدسلوکی کرتا ہے، ایک تاجر اپنے کسٹمرس ( Customers) سے بدکلامی کرتا ہے تو وہ اس کے لئے نقصان دہ ہے او رہوسکتا ہے کہ یہی بداخلاقی اس کے کاروبار کو ٹھپ کرنے کا ذریعہ بن جائے ، یہ چیزیں ایسی ہیں کہ انسان اپنے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرکے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرسکتا ہے اگر کہا جائے کہ انسان کی قدر و قیمت اس کے سوٹ بوٹ سےنہیں، جیب سے جھانکتے نوٹوں سے نہیں، کروڑ دو کروڑ کے بنگلے سے نہیں ، چمکتی دمکتی کار سے نہیں ، عہدہ او رمنصب سے نہیں بلکہ اس کے اخلاق سے ہے۔ یہ بات بالکل درست قرار دی جائے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا ‘‘مفلس (کنگال) کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا ! اے اللہ کے رسول مفلس ہم میں وہ ہے جس کے پاس مال و متاع نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! میری امت میں مفلس وہ ہے جو اپنی نماز روزہ اور زکوٰۃ کےساتھ آئے لیکن کسی کو گالی دی ہو، کسی پر تہمت لگائی ہو، کسی کا مال ناجائز طریقہ سے کھایا ہو، کسی جا ناحق خون بہایا ہو تو اس کی نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی ۔ اگر اس کی نیکیاں برابر ہو گئیں تو ٹھیک ورنہ ان کے گناہ اس کو دے دیے جائیں گئے اور اس کو گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا’’ ( ترمذی) معلوم ہوا کہ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ اخلاق ہے اسی اخلاق پر اس کی بلندی بھی ہے او رپستی بھی ،ترقی بھی ہے تنزلی بھی ، مقبولیت بھی ہے اور نا مقبولیت بھی ، عزت بھی ہے اور ذلت بھی ، انسان کے یہ اخلاق گھریلو زندگی میں اور زیادہ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ اس کا واسطہ جتنا گھر کے لوگوں سے پڑتا ہے او ران میں بھی خاص کر بیوی سے ، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! ‘‘ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں او رمیں تم میں اپنے گھر والوں میں سب سے اچھا ہوں ’’ یہ حدیث ہمیں اس بات کی تعلیم دیتی ہے کہ گھر کے افراد کےساتھ اچھا سلوک کیا جائے، ان کو عزت دی جائے ، ان کا احترام کیا جائے، ان کا خیال رکھا جائے، نرمی کےساتھ پیش آیا جائے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور ان کے دل آزاری سے بچا جائے ۔
18 مارچ، 2016 بشکریہ : روز نامہ راشٹریہ سہارا ، نئی دہلی
URL: