پروفیسر محمدعبداللہ بھٹی
3 جولائی ، 2015
سرتاج الانبیاء محبوب خدا مجسم رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب اور وفادار بیوی اِس جہانِ فانی سے جا چکی تھیں ۔ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی محبوب بیوی سے 25 سالہ خوبصورت ناطہ ٹوٹ چکا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی اپنی معصو م بیٹیوں کو دیکھتے تو دل بھر آتا ۔معصوم بیٹیاں ماں کی جدائی میں غم کاپیکر بن چکی تھیں ۔ وہ کم سن تھیں اور قدم قدم پر انہیں ماں کی بہت ضرورت تھی۔ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم پر رسالت کی بہت بڑی ذمہ داری تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حال میں نبھانی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہ اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہ بنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم تو خیر سے اپنے خاوند ابوالعاص بن ربیع اور حصرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے گھر آباد تھیں ۔ جبکہ اصل مسئلہ تو معصوم شہزادیوں سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا تھا جن کو توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی ۔ اِس کے ساتھ ساتھ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی نیک خاتون خانہ کی ضرورت تھی جو نہ صرف بچیوں کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اُن کو ماں کی محبت دے سکے بلکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائیں تو باعث راحت وسکون ہو۔
چچا ابو طالب اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد کفار مکہ کے مظالم میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی گھر سے باہر تشریف لے جاتے تو بد قماش لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنگ کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوڑا کرکٹ پھینکتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو چہرے مبارک گرد و غبار سے اٹا ہوتا تو معصوم شہزادیوں کے دل تڑپ اٹھتے اور رخساروں پر آنسو نہنے لگتے پھر معصوم شہزادیاں اپنے بابا جان کا سر اور چہرہ مبارک دھوتی اور ساتھ ساتھ کفار کو برا بھلا بھی کہتیں کہ وہ کیوں ہمارے بابا جان کو تنگ کرتے ہیں ۔ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جگر گوشوں کے آنسوں دیکھ کر پریشان ہوجاتے لیکن اپنی بیٹیوں کو حوصلہ دیتے کہ رو نہیں اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔ حالات تقاضہ کرتے تھے کہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اب دوسری شادی کرلیں ۔ انہی دنوں میں ایک دن تاجدار عرب وعجم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن گھر میں آرام کررہے تھے کہ عالم خوا ب میں حضرت جبرائیل علیہ السلام سبز ریشمی پارچہ سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی تصویر لا ئے اور عرض کیا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتون دنیا اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہے۔ بیوی کا چہرہ دیکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں ارشاد فرمایا اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو ضرور پورا ہوگا اور دن رب ذولجلال ایک ایسی زوجہ ضرور عطا کرے گا۔ یہ خواب مسلسل تین رات آتا رہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے آنے سےپہلے ہی ان کا چہرہ مبارک کے جمال پر انوار کا محبّ و مشتاق بنا دیا۔ چند دن بعد ایک دن سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف فرما تھے کہ حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرا نکاح کرلیں ۔ کس سے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا ۔ بیوہ اور کنواری دونوں طرح کے رشتے ہیں جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرمائیں ۔حضرت خولہ رضی اللہ عنہ کےقریب ترین دوست اور عاشق زاد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ دونوں جگہ بات کرو۔
نبی کریم سےاذن پانے کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے درِ دولت پر پہنچیں اس وقت وہ گھر پر نہیں تھے اُن کی اہلیہ محترمہ سے بات کی تو ماں نے کہا عائشہ رضی اللہ عنہ کے باپ کو آنے دو اُن سے بات کروں گی پھر بتاؤں گی کل آنا اِس کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ کے والد زمعہ کے پاس آتی ہیں اور آنے کا مقصد بیان کیا باپ نے بہت خوشی کااظہار کیا اور کہا مجھے ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں لیکن سودہ کی مرضی دریافت کرلو۔ اب حضرت خوالہ بنتِ حکیم ؓ اندر حضرت سودہ ؓ کے پاس جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ رسول ؐ تم سے شادی کرنا چاہتے ہیں کیا مرضی ہے۔ حضرت سودہ ؓ نے سنا تو اپنی سماعت اور قسمت پر یقین نہ آیا کہ اِس عمر میں جب کہ پچاس سال سے تجاوز کرچکی ہے محبوب خدا ؐ کا رشتہ آئے گا خوشی اور جذبات کا عجیب عالم تھا کہ ایسی دولت نایاب حاصل ہو گی کیونکہ حضرت سودہؓ قدیم الاسلام تھیں بولیں خولہ ؓ میں رسول خدا ؐ سےمحبت کرتی تھیں بولیں خولہ ؓ میں رسول خداؐ اپنے آقا اور مولا پر ایمان لائی ہوں وہ میرے ہادی و رہنما ہیں انہیں میری ذات کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کلی اختیار ہے جس طرح چاہیں فیصلہ فرمائیں ۔اگلے دن حضرت خولہ بنت حکیم ؓؓ دوبارہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے گھر گئیں وہ پہلے سے منتظر تھے گویا ہوئے خولہ ؓ مجھے تمہارے توسط سے حضور اکرم ؐ کا پیغام ملا ہے میرا جو تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اس کی روشنی میں کیا یہ جائز ہے عائشہ رضی اللہ عنہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھتیجی ہیں ۔ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس ضمن میں بات کروں گی پھر ا’طلاع دونگی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری بات سننے کے بعد کہا ابوبکر ؓ صرف میرا چچا بھائی ہے نکاح جائز ہے۔
پھر حضرت سودہ ؓ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی ہوگئی جنہوں نے اپنے آقا مولا ؐ کی بیٹیوں کی دیکھ بھال اپنی اولاد سے بڑھ کر کی۔ چند دن بعد حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت خولہ ؓ کے ذریعے رسول خدا ؐ کو پیغام بھیجا کہ آپ رسول اللہ ؐ سے کہہ دیں کہ جب چاہیں عائشہ ؓ سے شادی کرلیں ۔ سیدہ حضرت عائشہ ؓ کی عمر محبو ب خدا سے نکاح کے وقت 15 سال ہجرت کے وقت 18 سال اور رخصتی کے وقت 19 سال تھی اور جو لوگ نکاح کے وقت 6 سال رخصتی کے وقت 9 سال لکھتے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ میاں محمد سعید نے اپنی کتاب حیاب ام المومنین ؓ میں معتبر حوالوں کے ساتھ اِس اہم موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔
ماہ شوال دس نبوی بعوض پانچ سو درہم حق مہر پر نبی کریم ؐ کے نکاح میں سیدہ عائشہ ؓ آگئیں نکاح کےوقت ان کی عمر پندرہ سال تھی لیکن اُس وقت رخصتی عمل میں نہ آئی اِس کو موخر کردیا گیا جس کی حکمت رسول خدا ؐ او ران کا خدا ہی بہتر جانتے تھے ۔ حضرت سیدہ عائشہ ؓ سے نکاح ایک تو حکم ربی تھی دوسرا اپنے محبوب اور عاشق حضرت ابوبکر صدیق ؓؓ کے ساتھ تعلقات کی مضبوط بنیاد استوار کرنا اور غلط جہالت پر مبنی رواجوں کی قید سے لوگوں کو آزاد کرانامقصود تھا ۔ جس نے انسانی معاشرے کو جہالت کے سمندر میں غرق کیا ہوا تھا مثال کے طور پر منہ بولے رشتوں کو بنیاد بنا کر نکاح کے لیے جائز اور وسیع حلقے کو محدود کردیا گیا تھا جس سے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہورہے تھے اس دور جہالت میں منہ بولے بھائی کی بیٹی سے نکاح حرام خیال کیا جاتا تھا لہٰذا اِس جہالت پر مبنی رسم کا قلع قمع کرنا ضروری تھا ۔ لہٰذا محبوب خدا ؐ نے حضرت عائشہ ؓ سے نکاح کرکے اِس جہالت پر مبنی رسم کا خاتمہ کردیا۔
3 جولائی، 2015 بشکریہ : روز نامہ اخبار مشرق ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/our-mother-hazrat-ayesha-bint/d/103754