محمد عبد اللہ
28 مئی، 2013
(انگریزی سے ترجمہ ، نیوایج اسلام)
پال شیہان نے ایک دن یہ کہا کہ قرآن پاک میں 100سے زائد ایسی آیات ہیں جو مسلمانوں کافروں کے خلاف تشدد کی دعوت دیتی ہیں ۔
مشکوک ویب سائٹ Thereligionofpeace.com پر انحصار کرتے ہوئے اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ‘‘قرآن خطرناک جنگ کے ساتھ پر امن بقائے باہم کے ساتھ خود اپنے تضادات کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے ۔’’
قابل اعتراض بات یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی رائے کہ اسلام کو فطری طور پر متشدد اور دوسروں کے تئیں عدم رودار مذہب ہے، اسلام پر براہ راست بصیرت کا نتیجہ ہے یا محض اسلام کے خلاف ایک پرانے تعصب پر مبنی ہے ۔
اسلام کے ناقدین اکثر قرآن پاک کی زیادہ جرأت مندانہ آیات کو سیاق و سباق کے خلاف یہ دلیل دیتے ہوئے پیش کرتے ہیں کہ یہ آسانی سے دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور حمایت کر سکتے ہیں۔ وہ اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں کہ اگر یہودی اور عیسائی صحیفوں کو ان کے تاریخی سیاق و سباق کے خلاف پیش کیا جائے تو وہ بھی بالکل اسی طرح جارحانہ ہو سکتے ہیں ۔
مثال کے طور پر، پرانے عہد نامے کا کہنا ہے:'' اس وجہ سے اب چھوٹوں میں سے ہر مرد کو مارو، اور ہر اس عورت کو مارو جس نے کسی مرد سے قربت حاصل کی ہو ۔ لیکن ان تمام لڑکیوں کو جنہوں نے مردوں سے قربت حاصل نہیں کی ہے ، انہیں خود کے لئے معاف کر دو (نمبر -18-31:17)'' ۔
یہودی اور عیسائی جماعتوں نے بہت تشدد کیا ہے اور اپنے اعمال کا جواز پیش کرنے کے لئے بائبل کے ان متون کا استعمال کیا ہے۔ عیسائی مجاہدین نے مسلمانوں اور یہودیوں کے خلاف ان کا استعمال کیا ہے ۔ نازیوں نے یہودیوں کے خلاف ان کا استعمال کیا۔ سربی عیسائیوں نے بوسنیائی مسلمانوں کے خلاف ان کا استعمال کیا۔ صیہونی انہیں باقاعدہ فلسطینیوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ لیکن غیر مذہبی لوگوں نے ایک دوسرے کے نظریے کے نام پر وہی کیا ہے۔
2011 ء میں ناروے کے بئیرنگ بیروک نے مبینہ طور پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پھیلایا اور قدامت پسند عیسائی نظریے ایک بنیاد پرست کی رکنیت اختیار کر لیا۔ یقینا بیریویک ‘‘مذہبی ’’ ایسوسیشن کے بارے میں کوئی ذکر نہیں تھا ، وہ کسی قسم کا ‘‘متقی ’’ تھا۔
معصوم لوگوں پر تشدد اور قتل کی نمائش ایک بنیاد پرست اور بے شک انتہا پسند، ذہنیت کی علامت ہیں جو کہ بنیادی طور پر اسلامی تعلیمات کے برعکس ہے ۔
دہشت گردی کی وجوہات کے بارے میں مزید با مقصد اور علمی مطالعہ بشمول بنیاد پرست نظریہ ، انتہا پسندوں کے ساتھ ہمدردی اور لگاؤ ، سماجی و اقتصادی عوامل، ذاتی تجربات، مجرمانہ سرگرمیوں، نسل پرستی اور اسلام فوبیا کے ہمیں اس کے اسبابی عوامل سے رو سناش کرائے گا ۔
ہو تمام عوامل کسی نہ کسی طرح سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے عمل میں ایک کردار ادا کرتے ہیں ۔ لہٰذا معاملہ پیچیدہ ہے، اور اسے صرف ایک وجہ سے جرم قرار دیا جاتا ہے ۔
وہ دہشت گردوں کی طرح تنقید کرتا ہے، شہیان قرآن کو سیاق و سباق کے بر عکس پیش کرتا ہے ۔
، مثال کے طور پر، اس نے اس جزوی اقتباس کا حوالہ دیا ہے '' اور جہاں کہیں بھی تم انہیں پاؤ قتل کرو ۔۔۔'' شیہان یہ بیان کرنے میں نا کام ہے کہ یہ پانچ لمبی آیات (195-2:190)، کا حصہ ہے، جس کا ایک ساتھ پڑھا جا نا ضروری ہے ۔ جب اسے سیاق و سباق میں پڑھا جائے تو اس قانونی دلالت سےیہ شرط ماخوذ ہو تی ہے کہ لڑائی صرف بعض سخت حالات کے تحت ہی جائز ہے ۔ مزید برآں، یہی آیات حد سے تجاوز کی ممانعت کرتی ہیں ، اور یہ معصوم لوگوں کے قتل کو فروغ نہیں دیتی ہے بلکہ اپنے دفاع کی اجازت دیتی ہے۔ اس کا مزید بیان یہ ہے کہ '' اور ان سے اس وقت تک لڑتے رہنا کہ فساد نابود ہوجائے اور (ملک میں) خدا ہی کا دین ہوجائے اور اگر وہ (فساد سے) باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں (کرنی چاہیئے) ۔'' ظاہر ہے جب پورے سیاق و سباق کے ساتھ آیات کی تحقیق کی گئی تو یہ واضح ہو گیا کہ قرآن معصوموں کے قتل کو فروغ نہیں دیتا ہے ۔
جو لوگ قرآن پاک پڑھتے ہیں انہیں کم از کم مندرجہ ذیل اصولوں کو ذہن میں رکھنا چاہئے : آیت کے نزول کی وجہ یا خاص آیت کا تاریخی سیاق و سباق، آیات کی منسوخی کے علم سے واقفیت ؛ ان آیات کی تحقیق جو اسی موضوع پر ہوں ، حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی زندگی کا مختصر علم اور ان طریقوں کا علم کہ کس طرح ان ایات کا اطلاق کیا جاتا ہے ۔
میں یہ کہنے کی ہمت کروں گا کہ شیہان اس علمی سطح پر کھرے نہیں اترتا، اور ایک مشکوک ویب سائٹ پر انحصار کم از کم پریشانی کا باعث ہے۔
اگر ان نصوص کو ان کے مناسب متن اور تاریخی سیاق و سباق میں نہیں پڑھا جاتا ہے تو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کے ذریعہ یکساں طور پر اس میں تحریف و تنسیخ کی جاتی ہے۔
جب ان آیات کی با مقصد تحقیق کی جائے تو انسان یہ سمجھنے میں نا کا م نہیں ہو گا کہ قرآن اور حضرت محمد کی تعلیمات سختی سے دہشت گردی اور معصوم لوگوں کے قتل کی مذمت کرتی ہیں خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ۔
مثال کے طور پر شیہان ان آیات اور احادیث کا ذکر کرنے میں ناکام ہے:
'' ۔۔۔ اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمہیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو'' (قرآن 6:151) ۔
'' ۔۔۔ اس قتل کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں'' (5:32) ۔
یا: وہ حدیث مبارکہ جس میں یہ بیان ہے'' جو شخص کسی معاہد [غیر جنگجو، معصوم غیر مسلموں] کو قتل کرے گا جنت کی خوشبو سے محروم ہو جائے گا ۔۔۔'' (بخاری)۔
سیاق و سباق کے ساتھ قرآن یا حدیث کا مطالعہ کسی کو صرف ایک ہی نتیجے تک لے جاتا ہے : معصوم لوگوں کو قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے نہ تو بغداد میں اور نہ ہی بوسٹن میں ۔ توقف کامل
ایسوسی ایٹ پروفیسر محمدعبداللہ گریفتھ اسلامک ریسرچ یونٹ کے بانی ڈائریکٹر ہے ۔
ماخذ: http://www.brisbanetimes.com.au/comment/critical-opinion-of-islam-ignores-the-fundamental-truths-20130527-2n7gg.html
URL for English article:
https://newageislam.com/islam-politics/critical-opinion-islam-ignores-fundamental/d/11780
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/critical-opinion-islam-ignores-fundamental/d/13184