مبارک حیدر
وہ عقائد جو دنیا بھر میں احیائے دین اور غلبۂ اسلام کی تحریک کی بنیاد میں کار فرما ہیں، یوں بیان کیے جاسکتے ہیں۔
1۔ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے،اس میں ہرمسئلے کا آخری اورابدی حل موجود ہے۔
2۔ اسلام کا ہر حکم، ہر ضابطہ ہمیشہ کے لئے ہے یعنی ہر زمانے میں اسی طرح عمل کیا جائے گا جیسے رسول اللہ ﷺ اور شیخینؓ کے دور میں کیا گیا۔
3 ۔ اسلام واحد سچائی ہے ، اس کے علاوہ جو کچھ ہے اسے اسلام کے مطابق ڈھلنا چاہیے ورنہ اسے ختم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے یعنی جو بھی اسلام سے اختلاف کرے گمراہی پر ہے اور جاہلیت پر ہے جس کو ختم کرنا مسلمانوں پر فرض ہے۔
4 ۔ اللہ کا حکم ہے کہ اسلام کوتمام دوسرے مذہبوں اور نظاموں پر غالب کیا جائے کیونکہ اسلام کے علاوہ ہرنظام جاہلیت کا نظام ہے اور اللہ سے بغاوت ہے۔
5۔ مسلم امہ سب قوموں سے افضل ہے اور اسے دنیا پر حکومت کے لئے چن لیا گیا ہے۔دنیا اور آخرت کی فضیلت صرف سچے مسلمان کے لئے ہے سچا مسلمان وہ ہے جو شرع کے مطابق عمل کرتا ہے۔
6 ۔ دنیا پر اسلام کو غالب کرنے اور کفر کی طاقتوں کو مٹانے کے لئے نیت کرکے جو بھی قدم اٹھایا جائے وہ جہاد ہے اس جہاد میں مرنے والا شہید ہے ۔ شہید کا انعام ہے جنت اور اس کی حوریں۔ شہید کے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں،شہید کا انعام شہادت کے حاصل ہوتے ہی شہید کو حاصل ہوجاتا ہے۔
7۔ جہاد ہرصحت مند مسلمان پر فرض ہے اور جہاد سے مراد ہے غیرمسلموں پر اسلام کو غالب کرنے کے لئے اسلحہ سے جنگ کیونکہ کفار اللہ کے دشمن ہیں،جہاد کے سب دوسرے معنی ثانوی اہمیت رکھتے ہیں۔جہاد صرف مدافعت کے لئے نہیں بلکہ اسلام کا غلبہ کرنے کے لئے آگے بڑھ کر کافروں کے خلاف کیا جاتا ہے۔
8 ۔ دین اور اسلاف کے حکم سے اختلاف کفر ہے یا کم سے کم ریا کاری ہے۔کافر اور ریا کار چاہے کچھ بھی کر لے اس کا کوئی کارنامہ اسے سچے مسلمان کے برابر مقام نہیں دلا سکتا چاہے سچا مسلمان ذ ہنی سطح پر کچھ بھی ہو۔
9۔ دین کا علم سب علوم سے افضل ہے ، جوشخص دین کا عالم ہے اس سے افضل عالم اور نہیں۔ دین کا علم اتنا گہرا اوروسیع ہے کہ یہ عوام کی عقل سے بہت بالا ہے ۔جوشخص علمائے دین کی رہنمائی اور اسلامی انداز زندگی اختیار نہیں کرتا وہ اسلام کا عالم ہوہی نہیں سکتا۔
10۔ دین کی دعوت اور تعلیم دینے والے یہ علماء اللہ کی مخلوق میں بہترین لوگ ہیں۔ ان اساتذہ سے سیکھنا اور ان کی ہدایت پر عمل کرنا ہرمسلمان پر لازم ہے۔
یہ عقائد صرف پاکستان کے شمالی علاقہ جات یا افغانستان کے مسلمانوں کے ہی نہیں نہ یہ پاکستان کے مدرسوں تک محدود ہیں۔یہ تمام مسلمانوں کے عقائد ہیں جو بالکل اسی شکل میں اُن مسلمانوں میں بھی جاری و ساری ہیں جو دنیا بھر سے ہجرت کرکے دنیا کے جدید صنعتی معاشروں میں روزگار اور خوشحالی کی تلاش میں آباد ہوئے ہیں اوراب وہاں کے شہری بن چکے ہیں۔دعوت دین اور احیائے دین کی تحریک نے ان آبادکاروں کو ایسا ولولہ اور اعتماد فراہم کیا ہے کہ یہ اپنے میزبان ممالک میں مسلمانوں کی حکمرانی کا خواب دیکھتے ہیں۔سید قطب کے پیروکار ڈاکٹر کلیم صدیقی کی گلوبل اسلامک موومنٹ ،برطانیہ میں مسلم پارلیمنٹ کی تحریک چلا رہی ہے۔ فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ اوردوسرے ممالک میں مسلمانوں کے ولولے کا اندازہ اُس تحریک سے لگایا جاسکتا ہے جو انہوں نے اپنے آئمہ مساجد کی قیادت میں کارٹون چھپنے پر چلائی تھی۔ اور قلیل اقلیت اور پسماندہ ہونے کے باوجود ان آبادکاروں کے تحکم کا عالم وہی تھا کہ جو ہرملک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست کے عقیدے سے پیدا ہوتا ہے یعنی ہر ملک میرا ہے کیونکہ میرے خدا کا ہے۔ سپین میں تو مسلم مہاجرین قطعاً یہ نہیں سمجھتے کہ وہ وہاں اقلیت ہیں یا انہیں سپین کا کسی طرح بھی ممنون ہونا چاہیے کہ وہاں انہیں شہریت ملی اوربرابر کے حقوق حاصل ہوئے، جبکہ ان کے اپنے بھائی یعنی اہل عرب تو کسی غیر عرب مسلمان کو ساری زندگی ایڑیاں رگڑنے پر بھی شہریت نہیں دیتے۔ سپین کے مسلم آباد کاروں کا علانیہ دعویٰ ہے کہ سپین مسلمانوں کی ملکیت ہے کیونکہ یہاں ہمارے آباؤ اجداد نے 8 سو سال حکومت کی ہے، جیسے بھارت میں اقلیت ہوتے ہوئے بھی تحریک خلافت کے علمبردار مسلمانوں کا دعویٰ ہے کہ بھارت پر حکومت مسلمانوں کا حق ہے یہ دعویٰ پاکستان کی تحریک غلبۂ اسلام کا بھی ہے جو افغان جنگ کے بعد سارے ملک میں کی گئی وال چاکنگ سے واضح ہوا تھا اورباضابطہ نظریاتی بنیادوں پراب بھی سکھایا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ہمارا یہ انداز سب سے ممتاز ہے۔ جہاں ایک طرف ہر ملک میں ہم اپنا حق سمجھتے ہیں کہ اسلام اور مسلم امہ کی عظمت کے لئے تحریک چلائیں ،مسجدیں بنائیں، تبلیغی مراکز قائم کریں اور میزبان ملک کے نظام کو کافرانہ کہہ کر کھل کر اس کی مذمت کریں، وہاں یہ بھی ہمارا جزو ایمان ہے کہ کسی کو اسلام کے خلاف گستاخی کرنے کی اجازت نہ دیں، چاہے یہ گستاخی وہ اپنے ملک میں بیٹھ کرکررہا ہو۔ دوسری طرف یہ بھی قاعدہ قانون کی حیثیت رکھتا ہے کہ مسلم معاشروں میں رہنے والے غیرمسلم اپنے کسی قول و فعل سے اسلام کی مخالفت نہ کریں،ذرا سا اعتراض بھی نہ اٹھائیں اپنے عقائد کو اسلام سے بہتر کہنے کی جسارت نہ کریں،اسلامی تاریخ اور ہمارے اسلاف پر تنقید نہ کریں۔ہمارا عقیدہ ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں غیر مسلم کو کسی بھی طریقہ سے اقتدار کے اعلیٰ درجوں تک پہنچنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی اورغیر مسلموں کو مسلمانوں کے برابر حقوق نہیں دئیے جاسکتے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ عقیدتاً اسلام واحد صداقت ہے جسے غالب حالت میں رہنے کے لئے کسی جواز کی ضرورت نہیں۔تبدیلئ مذہب پر بھی ہمارا عقیدہ منفرد ہے:ہر مذہب کے لوگوں کو اپنا مذہب چھڑوا کر مسلمان بنانا ہمارا حق ہے لیکن کسی دوسرے مذہب کے مبلغین کو حق نہیں کہ کسی مسلم کو اپنے مذہب پر مائل کریں۔اسی طرح لوگوں کو اسلام میں آنے کی اجازت ہے لیکن چھوڑنے کی نہیں۔
جو لوگ موجودہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ انتہاپسندی کا نتیجہ ہے اور تقریروں ، تحریروں ، تبصروں اور مذاکرات میں بڑی درد مندی سے اپیلیں کررہے ہیں کہ انتہا پسند عناصر قانون اور مملکت کا پاس کرتے ہوئے راہ راست پر آجائیں،یا یہ کہ اسلام کا ایسا چہرہ پیش کریں کہ جو ’’مہذب ‘‘دنیا کو پسند آئے ، نہ جانے کس بنا پر یہ اپیلیں اورتبصرے کررہے ہیں۔جن اقدامات کو بنیاد پرستی ، انتہا پسند ی اور تخریب کاری کہا جارہا ہے وہ اسلام کے ان مسلمہ عقائد کی رو سے صرف جائز ہی نہیں بلکہ مسلمانوں پر فرض ہیں۔سید قطب اور سید مودودی نے احیائے اسلام کی جو تحریک چلائی تھی اس کا یہ اعلانیہ درس تھا۔اُس سے پہلے شیخ عبدالوہابؒ اورحضرت شاہ ولی اللہ ؒ اور ان سے بھی پہلے حضرت امام احمد بن حنبل ؒ اور کتنے ہی بزرگوں نے یہی درس دیا تھا ،اقبال ؒ نے اِنہی جذبوں کی آبیاری کی تھی۔ مسلم خون میں شاہین اور غازی کے امیج گوندھے گئے ہیں اور’’شہادت ہماری آرزو ہے‘‘ایک عرصہ سے مولانا مودودی کے نوجوان مجاہدوں کا نعرہ چلا آرہا ہے۔آج جب خون میں گندھے ہوئے یہ خواب اور لبوں پر تڑپتے ہوئے یہ نعرے حقیقت کا رنگ لینے لگے ہیں تو اس پر ہماری حیرت حیران کن ہے۔اور شایدایک گونہ ریاکارانہ بھی۔ریاکارانہ اس لیے کہ اگر ہمیں ان عقائد سے اختلاف ہے تو ہم نے کبھی کہا کیوں نہیں اوراگر ان عقائد کی کوئی دوسری تشریح ہمارے ہاں موجود ہے تو اسے پیش کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟کیا محض عافیت کوشی ؟کیا نظریاتی معاملات میں اور قوموں کی فکری تعمیر میں عافیت کوشی قابل برداشت ہے؟۔۔اگر علمائے دین کا کوئی گروہ سیاسی ہشیاری کے تقاضوں سے مجبور ہوکر خود کش حملوں کی مذمت کرتا ہے تو افسوس ہوتا ہے کیونکہ دوسری ہی سانس میں یہ لوگ پھر انہیں عقائد کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں جن کا براہ راست نتیجہ یہ اقدامات ہیں۔
غلبۂ اسلام کی تحریک سے جو اذیت عام لوگوں کو پہنچ رہی ہے یعنی بے گناہ لوگوں کی اموات، بے یقینی و بدامنی کی فضا سے آمرانہ رجحانات کی تقویت ،عوام کے مسائل سے حکومت کی بڑھتی ہوئی بے اعتنائی اور نتیجتاً عوام کی مکمل بے بسی، یقیناًالمناک ہے۔ لیکن اس سے کہیں بڑھ کرالمناک اور بھیانک مستقبل کا وہ نقشہ ہے جو اس تحریک کے بھولے بھالے پروانے اپنے لہو سے اور اپنے عوام کے لہو سے کھینچ رہے ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک مرحلہ وار طور پر دنیا بھر میں اسلام کے نفاذ کی طرف جارہی ہے جیسا کہ ان کے اساتذہ انہیں بتاتے ہیں۔ یہ لاکھوں دیوانے اور کروڑوں مسلم عوام اس ایمان سے سرشار ہوکر آگے بڑھ رہے ہیں کہ اسلامی ریاست کا یہ خواب پورا ہونے والا ہے۔ وہ اپنے اساتذہ کی بشارتوں کو ایمان کا درجہ دے کر یہ یقین کر چکے ہیں کہ جب ان کے لشکر بھارت اور چین جیسی مملکتوں کے خلاف نکلیں گے تو فتح ان کے قدم ایسے ہی چومے گی جیسے محمد بن قاسم کے ، محمود غزنوی کے اور قتیبہ بن مسلم باہلی کے قدم چومے تھے۔
کاش آج کی دنیا آج سے 13سو سال یا ہزار سال پہلے کی دنیاہوتی جہاں عربوں نے اور کئی دوسرے مسلم حملہ آوروں نے فتح پائی۔ اگر مسلم امہ کی فکری حالت نہیں بدلی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا بھی نہیں بدلی۔ صدیوں سے خود پسندی اور ملی فخر کے جس غار میں ہمیں سلایا گیا ہے وہ اس وقت ایک سفاری پارک میں بدل چکا ہے جس کے گرد ایک مضبوط باڑ ہے اور غالباً لوہے کی اس باڑ میں ہائی وولٹیج کرنٹ چھوڑا گیا ہے جس کا کنٹر ول روم ہمیں معلوم نہیں۔ ہم شیر ہیں، ہم شاہین ہیں، ہم غازی ہیں اور شہادت ہماری آرزو ہے، لیکن اس دنیا کی اقوام اس جنگل سے نکل آئی ہیں جہاں ہم بادشاہ تھے۔اب یہ ایک اور طرح کا جنگل ہے جہاں ہم سے بھی بڑی بلاؤں کی حکومت ہے ہم ان بلاؤں کی تفریح گاہ میں رہتے ہیں اور یہ بلائیں اپنے تفنن طبع کے لئے اس سفاری پارک میں کبھی چنے پھینکتی ہیں اور کبھی کنکر، کیونکہ ان کے حساب سے تو شایدہم شیر بھی نہیں،بلکہ محض چنے چبانے والی کوئی مخلوق ہیں، جن سے وہ کبھی کبھی اپنے عوام کوڈرانے کا کام لیتی ہیں۔
تحریک غلبہ اسلام کے جن مرحلوں کا نقشہ ہمارے علماء نے تحریک کے کارکنوں کے سامنے کھینچ رکھا ہے، کس حد تک مکمل ہوں گے، واضح طور پر کہا نہیں جاسکتا۔ممکن ہے کہ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کو بے وقار کرنے اورحکومتی نظام کو تہہ و بالا کرنے تک کا مرحلہ کامیابی سے طے ہوجائے۔ اس لیے کہ یہ ان قوتوں کو زیادہ پریشان نہیں کرتا جن کے خلاف ہم شہادت کے نشے میں چور رہتے ہیں۔ ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کا سامان تجارت مسلسل بکتا ہے :کراچی میں ایک سو چالیس لاشوں اور پانچ سو زخمیوں کے بکھرے ہوئے اعضا کی خبریں روک کر ایک چھوٹے سے کمرشل بریک میں ناچتے گاتے لڑکے لڑکیاں موبائل فون سے کھیلتے اور پیپسی بوتل کو سروں کے گرد گھماتے نظر آتے ہیں، اورکچھ خوبصورت کاریں شو روم میں ایک دوسرے سے بڑھتی دکھائی دیتی ہیں ۔ ممکن ہے مسلم ممالک کی ہر حکومت اور ہر سیاستدان کو ذلت اور بدنامی میں ڈالنا ملٹی نیشنل مفادات کوبراہِ راست مفید ہو۔ قوم پرستی، حب الوطنی اور نیشن سٹیٹ کے وہ نظریات جن کی قوت سے قومیں نو آبادیاتی چنگل سے نکلی ہیں، ایک منظم انداز کے ساتھ ختم کئے جا رہے ہیں۔ پسماندہ اور نو آزاد قوموں کی منڈیوں تک کھلی رسائی کے لئے ان قوموں کی مرکزی قومی مقتدرہ کو انتشار میں ڈالنا ایک عام فہم سی تجویز ہے جس پر کافی برسوں سے عمل ہورہا ہے، آئی ٹی اوکے ماتحت ہونے والے بین الاقوامی معاہدے اس کی عملی شکل ہیں۔ اور تحریک احیائے اسلام جب تک مسلم ممالک کی سرحدوں اور حکومتوں کو تہہ و بالا کرتی ہے، تب تک ملٹی نیشنل سسٹم کو کوئی اذیت نہیں کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے سفاری پارک میں شیروں ، لگڑ بگوں یا چیتوں کو ہرن کے شکار یا ہاتھیوں کے غول کو ستانے کی اجازت دی گئی ہو۔
مستقبل کا عظیم المیہ صرف اس میں نہیں ہوگا کہ ہم ان مرحلوں کے دوران اپنی قومی سرحدوں اور اقتدار اعلیٰ کے موثر اداروں سے محروم ہوجائیں گے، عظیم المیہ صر ف اس میں بھی نہیں کہ ہماری کئی نسلیں اپنی صلاحیتیں اور وسائل اپنی ہی انتڑیاں ادھیڑنے میں صرف کرچکی ہوں گی۔عظیم المیہ اس میں ہے کہ اگر ہم ان مراحل سے گزر کر طالبان کی پین اسلامک سلطنت قائم کربھی لیںیعنی عالمی کارپوریٹ مافیا کے لئے جو مفید ہے وہ خلافت طالبان دن بدن طاقتور اورموثر ہوتی چلی جائے اور یہ سب دیکھتے ہوئے بھی پڑوس میں چین اوربھارت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں، اور یوں یہ معجزہ مکمل ہوجائے تو اس وقت غلبۂ اسلام سے سرشار اسلامی لشکر کو بھارت اور چین پر چڑھ دوڑنے سے روکناممکن نہیں ہوگا۔عظیم المیہ در اصل اس وقت شروع ہوگا۔یہ انتہائی امکانات ہم اس لیے فرض کررہے ہیں کہ یہ اس تحریک کا منطقی اختتامیہ ہے ۔عظیم المیہ اس لیے پیش آئے گاکیونکہ:
یہ قرین قیاس نہیں کہ لڑتے بھڑتے ، مرتے مارتے، یہ مسلم ہجوم خلافت اسلامیہ کا مرکز قائم کرنے کے دوران اتنے ترقی یافتہ بھی ہوجائیں گے کہ جدید علم و ہنر (سائنس اور ٹیکنالوجی) بھی ان کے قدموں میں پڑی ہو۔ یعنی جدید ترین دفاعی نظام قائم ہوچکے ہوں، انہوں نے کیمیکل اور نیو کلیئر ہتھیاروں کے خلاف دفاعی ڈھال بھی ایجاد کرلی ہو،جو کہ ترقی یافتہ قوموں کے پاس موجود ہیں، خلائی ٹیکنالوجی بھی امیر المومنین کے بریف کیس میں موجود ہو، بین الاقوامی معیار سے بھی آگے کی جارحانہ حکمت عملی ہمارے علم میں ہو اوراقوام عالم کی تباہ کن عسکری صلاحیتوں کا ہر توڑ ہم نے ایجاد کرلیا ہو۔
یہ سب ممکن نہیں کیونکہ جس انداز سے اسلامی تحریکوں کو جدید علوم سے متنفرکیا گیا ہے اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہم غالباً روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے بھی اہل نہیں رہیں گے۔ جذبۂ شہادت یقیناًکفار کے پاس ہمارا عشر عشیر بھی نہیں لیکن اپنے محفوظ ٹھکانوں سے وسیع تباہی کے ہتھیارچلانا توکسی جذبہ شہادت کے بغیر بھی ممکن ہے۔ دنیا کی جدید علمی اورصنعتی مملکتیں تاریخ اور تجربہ سے غفلت کو گناہ کبیرہ سمجھتی ہیں۔ سب کو علم ہے کہ کچھ قوموں کو عربوں نے شکست دی تھی،بغداد کوتاتاریوں نے تاراج کرکے اسلامی تہذیب کا سنہری دور ختم کردیا تھا۔ سب کو پتا ہے کہ ان دونوں صورتوں میں د و بڑی وجوہات تھیں۔
1 ۔ حملہ آوروں کی کرخت سادگی اورفتح کرنے کا شدید جذبہ، چاہے یہ جذبہ ایمانی ہو یا تاتاریوں کی ہوسِ زر۔
2 ۔ حملہ کا سامنا کرنے والوں کی خوشحالی سے پیدا ہونے والی تن آسانی اور جنگ سے بیزاری۔
لیکن پچھلے زمانوں میں دونوں قوتوں کے درمیان کم کم فرق ہوتا تھا۔یعنی حملہ آور اور مدافعت کرنے والے فریقوں کے پاس ہتھیاروں کے اعتبار سے کوئی بہت بڑا فرق موجود نہ تھا۔ان عوامل سے جدید قومیں غافل نہیں۔جس جذبہ جہاد سے مسلمان جیتے ، جس جذبہ تسخیر سے تاتاری جیتے،وہ سب شاید موثر نہ رہتے اگر مدافعت کرنے والوں کے پاس زہر بھری ہوائیں یا وسیع تباہی کے ہتھیار موجودہوتے۔آج کی ان ترقی یافتہ قوموں کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں حتیٰ کہ آخری خبریں آنے تک روس ایسے جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس کی تباہی کے اثرات متعلقہ علاقے سے باہر نہیں پھیلتے اور یہ بات قرین قیاس نہیں کہ یہ اقوام حملہ آوروں کے خلاف اپنے ہتھیار استعمال نہیں کریں گی۔یہی وہ بھیانک المیہ ہوگا جس سے ہمارے دینی رہنما غافل نظر آتے ہیں۔
ایک رویہ یہ ہے کہ اس طرح کے خدشات کا اظہار کرنے والوں کو فوری طورپر بزدلی کا خطاب دے کر اپنی صفوں کا اعتماد بحال رکھا جائے لیکن یہ رویہ اس لیے مہلک اور ناقص ہے کہ اتنی واضح تباہی کو نہ دیکھنا یا اپنے بھولے بھالے پیروکاروں کو بہادری کے نام پر اُکساتے رہنا کسی دینی یا اخلاقی اصول سے درست نہیں۔
مانا کہ روس ، چین،بھارت اورمغربی استعمار کو مٹانا برحق،پاک افغان مدرسوں سے ایمان کی روشنی پاکر نکلنے والی اسلامی قیادت کو دنیا کی حکمرانی پر بٹھانابھی برحق،حرمین شریفین کے محافظوں کو ساری دنیا کا محافظ بنانا بھی برحق،(یہ مفروضے اگر مان بھی لیے جائیں)لیکن کیا یہ مقاصد اتنے برحق ہیں کہ ان کے لئے کروڑوں مسلم مجاہدین کی اجتماعی شہادت بھی جائز ہے؟اس سوال کا جواب اس وقت تک فیصلہ کن نہیں جب تک یہ طے نہ ہوجائے کہ ان عقائد کی صحت کیا ہے جن کی بنا پر ان مقاصد کو برحق قرار دیا جارہا ہے۔اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ ان اجتماعی قربانیوں کے بعد جس فتح کی بشارت دی جارہی ہے وہ پوری ہوگی یا نہیں ؟
یہ عجیب ہے کہ جب ہم موجودہ تحریکی نظریات کو اس انداز سے بیان کرتے ہیں تو عام قاری اسے طنز اورمزاح خیال کرتا ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگ برہم بھی ہوں کہ اسلامی تحریکوں کو طنز کا نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن یہ ایک سوئے اتفاق ہے جبکہ درحقیقت یہ نقشہ طنز یہ نہیں بلکہ یہ نظریاتی خاکہ اورتحریک کے مستقبل کا یہ پلان ایک ریسرچ پر مبنی ہے جو مختلف دینی طلباء اوراساتذہ سے رجوع کرنے کے بعد تیار کیا گیا ہے، جماعت اسلامی کے لٹریچر کے علاوہ اخوان المسلمون کے قائد سید قطب کی تحریروں کا مطالعہ کیا گیا ہے ، بھارت ، برطانیہ، سپین اور دیگر ممالک کی مسلم تنظیموں کے نعروں اور منشوروں کو دیکھا گیا ہے ۔یہ نظریاتی خاکہ حتی المقدور مبالغہ سے پرہیز کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے مبالغہ آمیز دکھائی دینے کی وجہ یہ ہے کہ آج کا عام پڑھا لکھا مسلمان جدید دور کی فکری تحریکوں سے متاثر ہوا ہے، جن میں انسانی حقوق ، آزادی رائے اور جمہوریت کے تصورات ایسے تصورات ہیں جن کے سامنے اسلام کے وہ تصورات ایک خاص انداز سے پسماندہ دکھائی دیتے ہیں جو مدرسوں میں یا غلبۂ اسلام کی تحریکوں میں پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا جب ان کا بیان ان کے اصل اور بے تکلف انداز سے کیا جاتا ہے تو شاید مزاحیہ ، غیر سنجیدہ یا مبالغہ آمیز دکھائی دیتا ہے اور یہ امر اپنی جگہ ایک الگ المیہ ہے۔
URL for
Part 2:
URL for
this part: