New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 07:06 AM

Urdu Section ( 30 May 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Cultural Narcissism- Part 4 (تہذیبی نرگسیت حصہ( 4

 

مبارک حیدر

عقائد کا انتشار

عقائد کی وہ شکلیں جو آج کے دور کی فکری تحریکوں سے اتنی مختلف ہیں مسلم اقوام کی نفسیات میں انتشار کا باعث بنی ہیں، کیونکہ وہ لوگ جنھیں مدرسوں یا علماء تک رسائی مل گئی ہے وہ تو ان عقائد کو قبول کرکے یقین کی سطح پر آگئے ہیں اور اب انہیں کسی تذبذب یا معذرت کی ضرورت پیش نہیں آتی۔لیکن ان کے جراتمندانہ جذبوں سے پیدا ہونے والا عمل ان لاتعداد مسلمانوں کو تذبذب اور افسردگی میں ڈال رہا ہے جو ان عقائد کو سرسری انداز سے سنتے اورمانتے ہیں لیکن عملی زندگی میں جدید فکری تحریکوں کے تابع رہتے ہیں۔یہ صورتحال اس وقت تک قومی اور ملی زندگی کو مضمحل اور منتشر کرتی رہے گی۔جب تک دونوں طرح کے فکری رویوں میں ایک پسپا نہ ہوجائے۔فکری اور نظریاتی معاملات میں مصلحت کا مقام خارجی کاہے۔جبکہ ایمان اورعقیدہ کی دنیا میں تو مصلحت ایک زہرقاتل ہے۔یہ معاملات ایمان اورعقیدے کے ہیں جن میں اعتدال پسندی اورروشن خیالی جیسی اصلاحات مہمل ہیں جب تک فکری اورعلمی سطح پر عقائد کی اصلاح نہ کی جائے گی،موجودہ انتشار مسلم امہ اور اس خطے کا مقدر رہے گا۔ کوئی جمہوری عوامی تحریک، کوئی آمریت،کوئی خوشحالی،فاٹا پر ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری،کچھ بھی اس انتشار کو روک نہیں سکتا۔اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ کارپوریٹ امریکہ اور برطانیہ خود مذاہب کے تصادم کی موجودہ عالمی تحریک کے خالق نہیں بلکہ یہ آسمان سے اترا ہوا مقدر ہے ،اور یہ بھی مان لیا جائے کہ امریکی ادارے خلوص نیت سے پاک افغان انتشار کو ختم کرنا چاہتے ہیں، تب بھی یہ اٹل حقیقت ہے کہ یہ انتشار اس وقت تک حل کی طرف نہیں جاسکتا جب تک عقائد کی موجود شکل پر فیصلہ کن بحث شروع کرکے نتیجہ تک نہ پہنچا دی جائے ۔

تحریک احیائے اسلام کے نمائندہ عناصر سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تکالیف کا حل اسلام کوزندہ کرنے میں ہے حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ اسلام تو زندہ موجود ہے۔مولانا مودودی اور سید قطب نے صدیوں سے بڑھتے ہوئے مسائل کا سبب یہ بیان کیا کہ مسلمان دین کی اصل روح سے غافل ہوگئے ہیں۔ نجانے کیوں ان دونوں مفکروں نے اس اہم سوال پر غور نہیں کیا کہ پہلی نسل کے مسلمان یعنی رسول اللہ سے تربیت پانے والے صحابہ اورآپ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے آپﷺ کی رحلت کے چند روز بعد بغاوت ، فتنہ ارتداد اور خانہ جنگی کی حالت میں کیوں مبتلا ہوئے جبکہ ان کے دینی درجات پر شک نہیں کیا جاسکتا پھر چند برس اور گزرنے کے بعد شہادت عثمانؓ اور مسلمانوں کی مستقل تقسیم کے المیے پیدا ہوئے،دو اسلامی مراکز قائم ہوئے وراثتی بادشاہت آئی اور خاندان رسولﷺ کا قتلِ عام ہوا۔ یہ سب واقعات اسلام سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں ہوئے۔ اگر یہ عظیم مفکر تحقیق کا مسلمہ طریقہ اختیار کرتے یعنی حقائق کو حقائق کی طرح دیکھنا اوران پر اپنے مقاصد سے بالا تر ہوکر فیصلہ دینا تو شاید وہ تسلیم کرتے کہ ان المناک واقعات کی وجہ غالباً یہ تھی کہ نئے معاشرے کی سیاسی تنظیم اورمملکت کو چلانے کے لئے ضابطے اور قوانین موجودنہ تھے۔آج ان کے پیروکار جن سیاسی اداروں کو نیست نابود کرنے کے لئے تحریک چلارہے ہیںیہی وہ سیاسی ادارے اور قوانین ہیں جو کسی معاشرہ کو طوائف الملوکی سے بچاتے ہیں۔مثلاً چناؤ کے ذریعے قائم ہونے والے قانون ساز ادارے جنھیں سید قطب بد ترین جاہلیت ، اللہ کی حاکمیت سے بغاوت،اور اللہ کے قانون پر انسانی قوانین کو ترجیح دینا کہتے ہیں،جبکہ نہ مولانا مودودی ،نہ سید قطب، نہ موجودہ تحریک غلبہ کے رہنما یہ واضح کرتے ہیں کہ مملکت کے نظام کو چلانے کے لئے یا حکومت کے تقرر کے لئے کونسا قاعدہ ان کی نگاہ میں درست ہے۔ اگر چھوٹا منہ بڑی بات نہ ہو تو ایسا لگتا ہے کہ اگر آپﷺ کے وصال کے وقت آپ ﷺ کی نیابت اور مملکت کی سربراہی کا کوئی متفقہ ضابطہ مسلمانوں کے پاس موجود ہوتا تو شاید وہ الجھنیں اور وہ تقسیم اسلام کی صفوں میں پیدا نہ ہوتیں جو آج تک مسلمانوں کے سیاسی معاملات کو الجھاتے چلے آرہے ہیں۔ضرورت تب بھی علم کو عام کرنے اوراداروں کو قائم کرنے کی تھی اور ضرورت آج بھی یہی ہے۔اسلام نہ تب لاغر تھا نہ اب لاغر ہے۔نظام سیاست تب بھی واضح نہ تھا اور اب بھی واضح نہیں،مسلمانوں میں علم تب بھی لاغر تھا اور اب بھی لاغر ہے۔

یہ اوردوسرے بیسیوں معاملات جو آج بھی مسلم معاشروں کو انتشار اور کمزوری کی طرف لے جارہے ہیں تقاضا کرتے ہیں کہ حکومت اوراپوزیشن کے ذمہ دار رہنما اور اہل فکر وسیع ترین پیمانے پر مذہبی رہنماؤں ، مدارس کے قائدین اورشمالی علاقوں میں طالبان کے نمائندوں کو ایک جگہ اکٹھا کریں اور ان بنیادی سوالات پر تفصیلی مذاکرات کریں کہ کیا مسلم معاشروں کی آزادی اور سربلندی کے لئے موجودہ راستہ قابل عمل ہے؟اور ان عقائد کی حقیقت کیا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے، جن کے باعث معصوم اورمخلص مسلمان ساری دنیا کواپنا دشمن سمجھتے ہیں حتیٰ کہ مسلم امہ کے اندر ان لوگوں کو بھی واجب القتل سمجھتے ہیں جو ان کے مسلک یا پروگرام سے اختلاف رکھتے ہیں۔

موجودہ وقت احیائے علوم کی تحریک شروع کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ایک ایسی تحریک جو مسجد اورمدرسہ سے وابستہ حضرات کو بد اعتمادی اور نفرت کے اُس رویہ سے آزادکراسکے جو انہیں جدید علوم و فنون اور صنعتی دور کی تہذیب سے ہے اور یہ ممکن نہیں جب تک جدید طرز فکر سے وابستہ مسلم دانشور دینی مسائل پر اعلیٰ درجے کاعلم حاصل نہ کرلیں۔اکثر دانشور وں کا رویہ غالباً بیزاری اور لاتعلقی کا ہے۔ لیکن سوال اس معاشرے کی بقا اور سلامتی کا ہے: پرائے میدان Hostile pitch پر کھیلنے یا نہ کھیلنے کا چناؤ اب ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ ساٹھ برس کے دوران اپنے میدان میں کھیلنے کی ضدمیں ہم نے ہر میدان گنوا دیا ہے ۔کچھ لوگوں نے قائد اعظم کے پاکستان میں آکر جہالت کا کھیل شروع کیا تو ہم نے ان کی جہالت اور جارحیت کو بے نقاب کرنے کی بجائے اپنے لیے یہ خوش فہمی چن لی کہ وقت اور بدلتی دنیا خود ہی لوگوں کو ان کی جہالت سے بیزار کردے گی۔ایسا نہیں ہوا اورآج نتائج سامنے ہیں۔ اگر کوئی معجزہ رونما ہوکر ہمیں مہیب المیوں سے بچالے تو یہ اللہ کا خاص کرم ہوگا،ورنہ اس خطۂ ارض پر آنے والی تباہی علمائے دین اوردانشوروں کی اولادوں میں امتیاز نہ کرسکے گی۔ایک راستہ تو وہ ہے جو مولانا مودودی مرحوم نے اختلاف کرنے والوں کے لئے تجویز کیا تھا۔ انہوں نے ارتداد پر اپنے مشہور رسالہ میں لکھا تھا کہ اسلامی انقلاب کے بعد :

’’مسلمان آبادی کو نوٹس دے دیا جائے کہ جو لوگ اسلام سے اعتقاداً و عملاً منحرف ہوچکے ہیں ، وہ ایک سال کے اندر اندر اپنے غیر مسلم ہونے کا باقاعدہ اظہار کرکے ہمارے نظام اجتماعی سے باہر نکل جائیں۔اس مدت کے بعد (یعنی اگر وہ کہیں نہ جائیں )تمام قوانینِ اسلامی ان پر نافذ کیے جائیں گے، دینی فرائض و واجبات کے التزام پر انہیں مجبورکیا جائے گا اور پھر جو کوئی دائرہ اسلام سے باہرقدم رکھے گا اسے قتل کردیا جائے گا‘‘ (اسلامی قانون میں مرتد کی سزا صفحہ80)

دوسرا واحد راستہ علم و دانش ، انسان دوستی او ر محبت کا ہے جس کا ہماری دانست میں اسلام سے کوئی ٹکراؤ بھی نہیں۔لیکن یہ راستہ اصولوں کی وضاحت اور غلط نظریات کی اصلاح کے بغیر بے معنی ہے اور غیر موثر ہے ۔یہ راستہ سلامتی اور آزادی دونوں کی ضمانت دیتا ہے ۔یہ قوم پرستی اور حب الوطنی کا راستہ ہوتے ہوئے بھی بے جا تصادم اور ناقابل عمل مہم جوئی کورد کرتا ہے ۔ یہ جاپان جرمنی اور متحدہ امارات کا راستہ ہے اور ایک حد تک خود سعودی عرب کا بھی ، جہاں آزادی کی ضمانت جنگ اور تصادم سے نہیں آئی۔نہ ہی مذہبی علماء کی بالادستی نے ان ممالک کو عزت و آبرو کی ضمانت دی ہے ۔ اس راستہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اپنی تعمیر و ترقی کے لئے انکسار اور صلح کا رویہ اپنایا جائے۔

نو آبادیاتی نظام سے آزادی کے لئے برصغیر کے مسلم عوام نے کئی بار مذہبی تحریکوں کا سہارا لیا،1857ء کی جنگ آزادی ، تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات اس کی مثالیں ہیں۔لیکن کامیابی صرف اس وقت نصیب ہوئی جب مسلم قوم کے جدید ذہنوں نے دور جدید کی سیاسی اور فکری تحریکوں کو تسلیم کیا ۔آج بھی جدید ترین علم و فکر ہی استعمار کا مقابلہ کرسکتا ہے۔

لیکن قوم کا ایک بہت بڑا حصہ عقائد اور حقائق کے تضاد میں بٹ گیا ہے ، جنھیں اس تضاد سے نکالنا منتخب حکومتوں اور دانشوروں کی ذمہ داری ہے۔جبکہ دینی قیادت کا ایک بہت بڑا حصہ جودین سے والہانہ عقیدت کے باعث غلبہ اسلام کی موجودہ تحریک سے وابستہ ہوا ہے،علم و ہنر سے نفرت نہیں رکھتا اور قوی امید ہے کہ اگر ابلاغ کی موجودہ ضرورتوں کو تسلیم کیا جائے اور ’’پرائے میدان‘‘کا نظریہ ترک کرکے کھیل کے ارضی حقائق کو تسلیم کیا جائے تو شاید ہم اور ہماری نسلیں قتل و غارت گری کے مہیب المیہ سے بچ جائیں ۔

URL for Part 3: https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part3-/d/87249

URL for this part:  https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-4-/d/87260


Loading..

Loading..