New Age Islam
Mon Sep 16 2024, 10:04 PM

Urdu Section ( 16 Jul 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Cultural Narcissism- Part- 25 (تہذیبی نرگسیت حصہ (25

 

مبارک حیدر

جہاد فی سبیل اللہ

قرآن و سنت سے جہاد کا حکم واضح طور پر ثابت ہے۔ لیکن اس حکم کے نفاذ کا طریقہ کار موجود نہیں۔ ایک بات تو تہذیب و تمدن اور معاشرت کے معمولی طالبعلم کو بھی معلوم ہے کہ جنگ و جدل ایک ایسا عمل ہے جو کسی سنجیدہ نظام مملکت کے بغیر رائج نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے مندرجہ ذیل شرائط ہمیشہ تسلیم کی گئی ہیں۔

1۔ جنگ کرنے والے گروہ کسی قیادت کے ماتحت ہونگے اور اس کے فیصلوں کے تابع، چاہے اس قیادت کی حیثیت انتخابی ہو یا شخصی، اس کا دارومدار زمانے اور تہذیبی درجے پر ہے۔

2۔ ایسی قیادت کے پاس اپنے جائز ہونے کی کوئی سند ہو گی۔ اگر یہ جنگ ہوسِ زر، دنیا پر قبضہ یا ملک گیری یعنی اقتدار کی جنگ ہے تو طاقت اس کی سند ہو گی، اگر قائد لوٹ مار یا ملک گیری کی ہوس رکھنے والے جنگجووں کو جمع کر سکے گا اور کامیابی سے انہیں استعمال کر سکے گا، تو وہ ایک کامیاب فاتح کی جنگ کہلائے گی۔ اس کی مثال چنگیزی تاتار کی ہے۔ دنیا بھر کے اکثر فاتحین بہت حد تک اسی زُمرے میں آتے ہیں۔ ایسی فتوحات کا جواز اس اَمر میں پوشیدہ ہوتا تھا کہ جس دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کیا جاتا تھا وہ منتشر اور غیر منظم ہونے کے باعث یا دیگر کمزوریوں کی وجہ سے قابلِ تسخیر ہوتی تھی۔ کسی ایسی جنگ کا جواز اُس زمانے میں بھی ثابت نہیں ہوا کہ جو طاقتور دشمن پر حملہ آور ہو کر محض کسی نظام کو پریشان کرنے تک محدود ہو، اور جس کا انجام حملہ آور کی تباہی اور نظاموں کی بربادی تک محدود ہو۔ اگر ایک مملکت کی عظمت اور روشن تہذیب کے نام پر کوئی حکمران اپنی مملکت کو توسیع دینے کے لئے قتل و قتال کا رستہ اپنائے گا تو جواز کے لئے مملکت کے کسی دستوری یا روایتی فیصلہ کا سہارا لے گا اور اس کی حیثیت مملکت سے متعین ہو گی۔ اس کی مثالوں میں پچھلے زمانوں کے سکندرِ اعظم، رومی حکمران وغیرہ اور جدید دور میں ہٹلر اور امریکی حکمران آتے ہیں۔ اگر دبے ہوئے طبقوں کے انقلاب کا دعویٰ ہو گا تو انقلابی نظریات اور اجتماعی قیادت کا فیصلہ کرنے والی انقلابی پارٹی کا وجود ضروری ہو گا جس کے دئیے ہوئے اختیار کے مطابق پارٹی کی قیادت جنگ کو آگے بڑھائے گی، اس کے نظریات سیاسی اور دنیاوی ہوں گے۔ مثال کے طور پر روس ، چین اور ویتنام کی کمیونسٹ پارٹیوں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اگر تہذیب اور نظریات کو دنیا میں پھیلانے کا دعویٰ ہو گا تو قیادت کو اس تہذیب یا اس نظریے کی نمائندگی کا ایسا ثبوت فراہم کرنا ہو گا جسے اس تہذیب یا اس نظریہ کے ماننے والے تسلیم کریں۔ اس کی مثال رسول اللہﷺ کی ذاتِ اقدس ہے کہ جنھیں وحی کی سند ہونے کے باوجود مسلمانوں کی اجتماعی اور مکمل تائید حاصل کرنا پڑی۔ خلفائے راشدینؓ کی مثال بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ جہاد کے فیصلوں کو تمام مسلمانوں کی تائید حاصل تھی جو واضح طور پر تہذیبی اور اجتماعی تھی۔

3۔جنگ کے مقاصد صرف منفی نہیں بلکہ مثبت بھی ہونگے یعنی بدنظمی ، انتشار، تباہی اور اذیت کا عمل صرف دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے ہی نہیں ہو گا بلکہ دشمن کی شکست کے بعد ایک متبادل نظام قائم کرنا مقصود ہو گا جس کے لئے جنگ کرنے والوں کا یہ دعویٰ ہو گا کہ اس متبادل انتظام کے رائج ہونے سے ایسے نتائج حاصل ہونگے جو جنگ کی قربانیوں اور اذیتوں کا ازالہ کر کے جنگ زدہ علاقوں اور آبادیوں کی تعمیر و ترقی اور تہذیب و تمدن میں اضافہ کر سکیں گے۔

مسلمانوں کا متفقہ ایمان ہے کہ جہاد کشور کشائی یا گروہ کے اقتدار کے لئے نہیں ہوتا، نہ ہی یہ محض دشمن کو نقصان پہنچانے کے لئے کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے دنیاوی مقاصد کے لئے بھی نہیں کیا جاتا۔ مثلاً اگر کسی مسلم ملک سے کسی غیر مسلم ملک کا تنازعہ اس دنیاوی سوال پر ہو گا کہ غیر مسلم یا سیکولر ملک نے مسلمانوں کے کسی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے جبکہ اس قبضے کے نتیجے میں مسلمانوں کے عقائد اور دینی معاملات میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا، یا مثلاً بھارت نے مملکت خداد پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کا پانی روک لیا ہے تو اس علاقہ کو واپس لینے یا پانیوں کو جاری کرانے کی جنگ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہلائے گی۔ قرآن و سنت نے جہاد کے جو مقاصد بیان کیے ہیں کم از کم اُن میں یہ امور جہاد کے مستحق نہیں۔ جہاد صرف دین پر پابندی لگانے والوں کو بے اثر کرنے یا ختم کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ افغانستان پر امریکہ کا تسلط یا فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ دنیاوی معاملات ہیں، کیونکہ نہ تو افغان اور فلسطین عوام اسلام کی تحریک و ترویج کے لئے جی رہے ہیں نہ ہی امریکہ اور اسرائیل دینِ اسلام پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکتے ہیں۔ افغانستان، عراق، فلسطین اور کشمیر کی جنگ آزادی خالصتاً قومی تحریکیں ہیں جن کا جہاد فی سبیل اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ میں مسلم آبادکار مکمل آزادیوں کے ساتھ اسلامی طرزِ حیات کے مطابق جینے اور تبلیغ کرنے کا حق رکھتے ہیں، جبکہ افغانستان میں اُن کے اس حق پر کسی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا۔ حالانکہ مسلم ممالک میں خصوصاً طالبان کے نظام میں کسی شخص کو کسی دوسرے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل نہیں حتیٰ کہ اسلام کو چھوڑنے والے کی جان محفوظ نہیں۔

القاعدہ اور طالبان کی مسلح کارروائیوں کو جہادِ اسلامی کا درجہ دینا اسلام کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے۔ اس کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ دنیا کے کسی مسلم معاشرہ کو اسلام کے احکام پر عمل کرنے سے روکا نہیں جا رہا۔ دنیا کا کوئی معاشرہ مسلمانوں کے عقائد اوردینی اعمال کے خلاف رکاوٹ کھڑی نہیں کر رہا۔ جہاں کہیں مسلم، غیر مسلم کے درمیان کشیدگی ہے، اس کا باعث کسی ملک کا قانون نہیں بلکہ مذہبی گروہوں کا اپنا تعصب ہے جس میں مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ اگر دنیا میں کہیں مذہب کی بنیاد پر پابندیاں لگائی گئی ہیں تو وہ صرف مسلم اکثریتی ملکوں میں ہیں اور یہ غیر مسلموں کے خلاف لگائی گئی ہیں۔ مثلاً سعودی عرب، پاکستان، طالبان کا افغانستان اور ایران۔ جہاں اسلام کے مخصوص عقائد کے علاوہ کسی دوسرے اعتقاد کا پرچار یا تومنع ہے یا شدید دباؤ کا شکار ہے، حتیٰ کہ فقہ کے معمولی اختلافات کا پرچار بھی منع ہے اور اسلام کو ترک کر کے کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے والے کے لئے موت کی سزا تجویز کی جاتی ہے۔ ہماری تہذیبی نرگسیت کا کمال ہے کہ ہم جنہوں نے دنیا بھر کے مذاہب کے خلاف اتنا شدید مؤقف اختیار کر رکھا ہے کہ جو اعلانِ جنگ کی کیفیت ہے، وہ خود کو مظلوم سمجھتے ہیں۔

2۔ القاعدہ اور طالبان کی جنگی قیادت کے پاس اپنے جائز ہونے کی کوئی سند نہیں سوائے خفیہ تشدد کے، جو کسی لٹریچر یا نظریہ کے بغیر روا رکھا جاتا ہے۔ تشدد، جبر یا ترغیب و تحریص کی حیثیت اسلامی قیادت کے جواز کی نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جنگجوئی اور لشکر کشی کے جو مختلف مقاصد ہوں ان کے مختلف جواز ہوتے ہیں۔ اسلامی جہاد کے لئے قیادت کو جس جواز کی ضرورت ہے وہ دو طرح سے حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ طالبان یا القاعدہ کے پاس ان دونوں میں سے کوئی جواز موجود نہیں۔

اوّل اس طرح کہ قیادت کو وحی کے ذریعے اللہ کی ہدایت حاصل ہو اور ایمان لانے والے اس شمع ہدایت کے پروانے ہوں۔ یہ نبوت کا درجہ ہے۔

دوسرے اس طرح کہ مسلم عوام و خواص اس قیادت کو نبوت کا تسلسل سمجھتے ہوئے اس کی اطاعت پر متفق ہوں۔ یہ دوسری صورت اسلامی حکومت کی ہے جس کا قرآن و سنت میں اگرچہ کوئی ضابطہ یا قانون موجود نہیں تاہم خلافتِ راشدہ کی مثال دی جاتی ہے کیونکہ اسے رسالت سے منسلک ہونے کا شرف اور پہلی نسل کے مسلمانوں کی اجتماعی تائید حاصل تھی۔ آج کے دور میں نہ تو مسلمان عوام و خواص اسلامی میعار پر پورے اترتے ہیں نہ ہی ان کی نمائندہ حکومتیں۔پھر بھی اگر تمام مسلم عوام و خواص اس پر متفق ہو جائیں کہ وہ کسی قیادت کو اسلامی قیادت کی حیثیت سے قبول کر کے جہاد فی سبیل اللہ کا اختیار دے دیں تو یہ غالباً اجتہاد و اجماع کی وہ شکل بن سکتی ہے جو جہاد کو اسلامی جہاد کا درجہ دے دے۔ تاہم یہ اجتہاد یا اجماع صرف پاکستان اور اس کے قبائلی علاقوں یا افغان عوام کے متفق ہونے سے مکمل نہیں ہوتا کیونکہ اُمت مسلمہ صرف اِن لوگوں پر مشتمل نہیں۔

جہاد کے اس موضوع پر پاکستان کے مختلف حلقوں میں بہت سی گفتگو سننے میں آتی رہتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ مسلمان حکومتیں جہاد کا اعلان نہیں کرتیں لہٰذا ایمان والے مجبور ہیں کہ چھوٹی چھوٹی ٹولیاں اور گروہ بنا کر جہاد شروع کر دیں، کیوں اور کس کے خلاف جہاد ضروری ہو گا اس کا فیصلہ یہ خفیہ ٹولی اپنے اجلاس میں کرے گی اور جہاد شروع ہو جائے گا کیونکہ حکومتیں تو ریاکاروں اور کفری طاقتوں کے گماشتوں پر مبنی ہیں جبکہ مسلم عوام جہاد کے لئے بے چین ہو چکے ہیں۔ خود پسندی یا موضوعیت میں ڈوبے ہوئے لوگ خود ہی مقدمہ دائر کرتے اور خود ہی قاضی بن جاتے ہیں۔ جہاد کی ضرورت کا مقدمہ دائر کرنے اور عوام کی بے چینی کا فیصلہ سنانے میں انہیں دیر نہیں لگتی۔

پاکستان اور افغانستان میں پچھلے کئی عشروں سے مذہبی جماعتوں نے بارہا اسلام کے نام پر عوام کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ طرح طرح کے جذباتی مذہبی نعروں کا دباؤ استعمال کیا گیا ہے، جبکہ طاقتور مقتدرہ اور ایجنسیوں کے ایک اہم اور فیصلہ کن عنصر کی تائید بھی انہیں حاصل رہی ہے۔ جنرل ضیاء کی مطلق العنان، غیر قانونی حکومت کے 11 برس میڈیا اور مملکت کے سارے دست و بازو ’’صالح‘‘ قوتوں کو منظم و مامور کرنے پر لگے رہے ہیں۔ آج بھی میڈیا کا بے حد طاقتور بازو تقریباً نوے فی صد اسی جہادی عنصر کا وکیل ہے۔ لیکن کسی بھی انتخابی عمل میں عوام نے اس جہادی عنصر کو اپنی نمائندگی پر فائز نہیں کیا اور اس دعوے کا ثبوت سامنے نہیں آ سکا کہ عوام و خواص جہاد کے لئے بے چین ہو چکے ہیں۔ پُرامن اور تشدد پسند، دونوں طرح کے مذہبی عناصر کا مشترکہ ووٹ بنک قومی رائے کے عشرِ عشیر سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ عوام کی رائے کا یہ انداز کیا ظاہر کرتا ہے؟ اگر حکومتیں کفر کی نمائندہ ہیں اور عوام جہاد کے لئے بے چین تو نتیجہ ہر بار کفری قوتوں کے منتخب ہونے پر کیوں رُکتا ہے۔؟

ممکن ہے جہادی دینی عناصر پورے خلوص سے یہ سمجھتے ہوں کہ دنیا کے مسائل کا حل یا کم از کم مسلم اُمہ کے مسائل کا حل جہاد میں رکھا ہے لیکن ایک حقیقی اسلامی جہاد کی بہرحال شرطِ اوّل یہ ہے کہ اس پر خود مسلم اُمہ کا اتفاق ہو۔ یہ حق کسی گروہ کو حاصل نہیں کہ وہ مسلم اُمہ کے مسائل کے حل کا فیصلہ اُمہ کی رائے کے بغیر مسلط کر دیں۔ اس اتفاقِ رائے کے بغیر جہادی ٹولیوں کی حیثیت محض فسادی ٹولیوں کی رہ جاتی ہے۔

3۔ القاعدہ کے افغان بازو یعنی طالبان کی موجودہ جنگی سرگرمیوں کے مقاصد صرف تخریبی ہیں۔ اذیت اور تباہی کے اس عمل میں ہزاروں غیر متعلقہ یا معصوم لوگوں کے متاثر ہونے اور دو ممالک کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہونے کے باوجود کسی مثبت نظام کا کوئی نقشہ ہے نہ وعدہ۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں کے اندازے کے مطابق ان تخریبی سرگرمیوں کا ایک مقصد امریکہ کے انتخابات میں بش کی پارٹی کو دوبارہ منتخب کرانا تھا۔ ہمیں صرف اتنا بتایا جاتا ہے کہ روس کے بعد امریکہ تباہ ہو رہا ہے پھر بھارت کی باری ہو گی اور شاید چین کی۔ لیکن جو سامنے کی دنیا میں نظر آ رہا ہے وہ صرف اتنا ہے کہ نہ تو روس تباہ ہوا ہے نہ امریکہ تباہ ہو رہا ہے نہ بھارت اور چین کے تباہ ہونے کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے، اگر کوئی علاقہ تباہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے تو وہ افغانستان اور پاکستان کا ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کوئی جنگی سرگرمی مثبت مقاصد کے بغیر جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔ چنانچہ القاعدہ اور طالبان تنظیموں کی موجودہ جنگ کے بارے میں میڈیا کا ایک طاقتور فریق یہ استدلال پیش کرتا ہے کہ یہ غیور افغانوں اور قبائلی پٹھانوں کی وہ شاندار جنگ مزاحمت ہے جو انہوں نے اپنی تہذیب اور قبائلی روایات کے تحفظ کے لئے جاری کی ہے۔ بعض چینلوں کے میزبان اور مہمان بڑی عقیدت اور تحسین سے یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ناقابلِ شکست جذبوں والے یہ قبائلی ہیرو اپنے شہیدوں کا بدلہ لینے کے لئے خودکش حملے کرتے ہیں اور یہ قیامت تک پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میڈیا کا یہ طاقتور فریق غالباً القاعدہ سے کوئی انعام وصول نہیں کرتا بلکہ خالصتاً فی سبیل اللہ دین کی خدمت میں مصروف ہے۔ لیکن دین کی اس فی سبیل اللہ خدمت کے نتیجے میں ایک ملک اور اُس کے سولہ کروڑ عوام جو میڈیا کے ان حضرات کی طرح مسلمان ہیں، سخت اذیت کے عالم میں ہیں۔ میڈیا کے اسی عنصر کا رویہ اُن مزدوروں اور کسانوں کی بغاوت پر بالکل برعکس ہوتا ہے جب وہ یہ قانونی نُکتہ پیش کرتے ہیں کہ ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ جامعہ حفصہ کے معاملہ پر اور بعد میں تخریبی کارروائیوں کے سلسلے میں میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے اِن عناصر نے پاکستان کے آئین، قانون اور عالمی اخلاقیات کے بالکل برعکس قانون شکنی کے واقعات کی تائید کی ہے اور اس کے لئے مذہبی عقائد کو جواز بنایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مذہبی عقائد کی بنیاد پر کسی بھی ملک کا قانون توڑنا، اس کے اداروں کو تباہ کرنا اور ہتھیار اٹھانا جائز ہے، چاہے مذہبی عقائد کی بنیاد پر کی جانے والی اس بغاوت کا فکری جواز فراہم کیا گیا ہو یا نہیں۔

مشکل یہ آ پڑی ہے کہ جو لوگ اِس نام نہاد جنگ مزاحمت کے بارے میں قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ یہ قبائلی اور غیر ملکی ہیرو، جن میں چیچنیا سے لے کر صومالیہ تک کے سبھی ہیرو شامل ہیں اپنے اپنے ملکوں کے ظالموں کو گدی پر بیٹھا چھوڑ کر یہاں آ پہنچے ہیں جہاں ایک غریب اور پسماندہ ملک کے عوام دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں سے کہیں پیچھے اپنی معیشت کو گھسیٹ گھسیٹ کر چل رہے ہیں۔ جہاں اِن کی ساری انتقامی کارروائیوں کا نشانہ صرف مسلح افواج نہیں بلکہ پاکستان کے عام لوگ ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان کو ایک مملکت کی حیثیت سے درہم برہم کرنے کا عمل اِس جنگ کا واضح نصب العین ہے ، جو جابجا شہری آبادیوں پر حملوں کے بعد اب کسی سے پوشیدہ نہیں رہا۔ چنانچہ اب اس واضح نصب العین کی سادہ تشریح ممکن ہو گئی ہے۔

یوں تو موجودہ جنگِ دہشت کو منظم کرنے والے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے مغرب کے وہ مہیب مالیاتی ادارے اور حکمران ہیں جن کا اندازہ سب کو ہے لیکن تہذیبی اور تاریخی اعتبار سے اِس جنگ کی جڑیں برصغیر کی طویل تاریخ میں ہیں جس سے بین الاقوامی استعمار نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ہزاروں برس سے شمال کے اِن مفلوک الحال پسماندہ قبائل کی نظریں بار بار وادی سندھ کی خوشحال اور مہذب آبادیوں پر اٹھتی رہی ہیں۔ خوشحال اور مہذب آبادیوں کا ایک مزاحیہ المیہ یہ رہا ہے کہ یہ زیادہ مہذب ہونے کے باوجود یا زیادہ مہذب ہونے کی وجہ سے وحشی اور پسماندہ حملہ آور کے مقابلہ میں شکست کھاتی رہی ہیں۔ یہ المیہ دنیا بھر کی تہذیبوں کا رہا ہے۔ یونانیوں نے کرخت رومن قبائل سے شکست کھائی۔ رومن تہذیب اپنے کمال پر آئی اور ایران کی تہذیب کمال پر تھی تو یہ دونوں اُن مسلمان عربوں کے ہاتھوں تاراج ہوئیں، جن کے بارے میں آج تک ہمارے موؤخ فخر سے لکھتے ہیں کہ وہ بدو تھے جو روم اور ایران کے درباروں میں قالینوں کو اپنے نیزوں سے چیرتے ہوئے آئے اور چھا گئے۔ تاہم جب یہ بدو علم و فضل اور آدابِ تمدن سے سرشار ہو گئے تو انہیں اُن کا کرخت ماضی یاد دلانے اور عبرت کی مثال بنانے تاتاری آئے اور عربی گھوڑوں کی ٹاپ تاتاری گھوڑوں کی ٹاپ کے نیچے دب کر یادِ ماضی بن گئی۔

برصغیر میں آریہ آئے تو دراوڑ تہذیب اُن کی یلغار کے آگے خاک ہو گئی۔ یہی آریہ جب ہند کی سرسبز و شاداب زمینوں میں ویدانت کی گہرائیوں میں اتر گئے تو منوہر کی مُرلی توڑنے اسی شمال سے بھوکے وحشی وقفوں وقفوں سے آتے اور مہذب ہوتے رہے، لیکن ہر بار مہذب ہونے والوں کو مہذب ہونے کی سزا شمال سے ملی، حتیٰ کہ وادئ سندھ کے یہ علاقے جو اب سرحد اور پنجاب ہیں، حملہ آوروں کی گزرگاہ بن گئے جو یہاں سے آگے سلطنتِ ہند کے مرکز تک جاتے تھے۔ حتیٰ کہ یہ گزرگاہ ایک ایسی تہذیبی طوائف کی طرح ہو گئی جسے مہذب ہونے کے ساتھ ساتھ شمال کے اِن ’’غیور‘‘ اور ’’مردانگی سے بھرپور‘‘ وحشیوں کا انتظار رہنے لگا۔ پنجاب اور ہند سے افغانوں کو لکھے جانے والے دعوت نامے اسی انتظار کی کیفیت کا پتہ دیتے ہیں۔ آج جب پنجاب کے خوشحال اور متوسط طبقوں کی خواتین تیزی سے پردہ پوش ہو رہی ہیں اور مرد داڑھیوں سے مزیّن ہو رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں شمال کے ’’مردانِ غیرت مند‘‘ کا انتظار چھپا ہوا ہے، کہ جس کے باعث ہر طرح کی تباہی کے باوجود اہلِ پاکستان کا ردِعمل شدید احتجاج یا مزاحمت کا نہیں بلکہ جب مولانا اور میڈیا کی طرف سے امریکی مظالم کے خلاف ’’ غیور قبائلی مسلمانوں‘‘ کے اسلامی عزم کی تحسین سنائی دیتی ہے تو ہمارے خوشحال طبقے اپنے شہروں میں ہونے والے تباہی کے واقعات بھول جاتے ہیں، شاید اس لئے بھی کیونکہ ابھی تک کے خود کش حملوں کا نشانہ یا تو غریب سرکاری اہلکار اور سیکیورٹی ملازمین بنے ہیں یا پھر غریب شہری۔ ابھی تک ایسے کاروباری مراکز، مارکیٹیں اور بازار اللہ کی امان میں رہے ہیں، جہاں اسلام اور طالبان کا انتظار کرنے والے خوشحال عناصر کو نقصان پہنچ سکتا تھا۔

پاکستان کی موجودہ مہذب مملکت کو کسی براہ راست یلغار کے ذریعے فتح کرنا شمالی قبائلیوں کے لئے ممکن نہیں تھا۔ پاکستان بنتے ہی پاوندوں کی لوٹ مار کے خلاف قائد اعظم کا سخت مؤقف آیا تھا۔ لہٰذا پاکستان کی قومی افواج کسی بھی بیہودگی کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار تھیں اور افواجِ پاکستان کی عمدہ صلاحیت کسی بھی بیہودگی کا منہ توڑ جواب دے سکتی تھی۔ اس قومی مؤقف کے خلاف ضیاء الحق کی آمریت نے تباہ کن رول ادا کیا۔ پھر بھی ایک جدید مملکت اور مہذب قوم کے ادارے (مضبوط اور میعاری نہ ہوتے ہوئے بھی) اپنی جدید ساخت کے باعث اتنی صلاحیت رکھتے تھے کہ کوئی پسماندہ قوت انہیں تاراج نہ کر سکے۔ اس لئے اسلام اور نفاذِ شریعت کی ایک منظم مہم چلائی گئی اور یہ ضروری تھا تاکہ ادارہ اور عوام میں نئے فاتحین کے خلاف مزاحمت باقی نہ رہے۔ لہٰذا اداروں اور عوام میں پذیرائی سے ’’جہادی‘‘ قوت کو اہم ترین فائدہ یہ ملا ہے کہ سبوتاژ اور دہشت گردی کی وارداتوں کے خلاف وہ رائے عامہ موجود نہیں جو سازش اور تخریب کو ناکام کرنے کے لئے لازمی ہوتی ہے۔ یوں دہشت گردی اور تخریب کی ہر واردات قومی اداروں کو درہم برہم کرنے اور عوام میں مملکت کا احساس ختم کرنے میں کامیاب ہوئی اور اسے روکا نہیں جا سکا۔

تاہم یہ سوال وہیں کا وہیں ہے کہ شمال کے اِن فاتحین کے اس ’’جہاد‘‘ کا مثبت پہلو کیا ہے؟ فاتحین کے لئے تو لوٹ مار اور خوشحالی کے امکانات ہی مثبت پہلو ہیں۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر پاکستان کا دفاعی نظام ٹوٹ گیا تو شمال کے یہ قبائلی پاکستان کے خوشحال شہروں کو 1947ء کی طرح لوٹیں گے۔ لیکن جنگ کے سنجیدہ مقاصد میں لوٹ مار اور مالِ غنیمت کا کوئی مقام نہیں۔ خصوصاً اس لئے کہ یہ جنگ اسلام کے نام کو استعمال کر کے منظم کی گئی ہے۔ لہٰذا جب تک جنگ کرنے والی قوتیں اسلام کا دعویٰ کرتی رہیں گی تب تک یہ حوالہ ہی فیصلہ کُن ہو گا۔ یعنی دیکھنا پڑے گا کہ جنگ کی اتنی وسیع تباہی کے لئے اسلام کوئی جواز فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ اور اسلام کو، اہلِ اسلام کو، پاکستان کی آبادی کو اور انسانوں کی عالمی بستی کو اس تباہی کے بعد کیا ثمرات پیش کیے جانے والے ہیں۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام کے پہلے انقلاب نے اِن سوالوں کا مثبت جواب دیا تھا اور تسخیر کے عمل کا نتیجہ تہذیب کی بہتر شکلوں میں نمودار ہوا تھا۔

ساتویں صدی عیسوی میں جب اسلامی مملکت قائم ہوئی تو اس کا دعویٰ یہ تھا کہ ارد گرد کی ظالمانہ غلام داری سلطنتوں کی مظلوم انسانیت کو آزادی دلا کر شرفِ انسانی دلایا جائے گا۔ یہ دعویٰ اس لئے درست تھا کیونکہ اسلام نے دنیا میں پہلی بار ایک لکھے ہوئے نظریاتی دستور پر قائم مملکت یا سلطنت کا تصور پیش کیا جس میں کسی فرد کو لامحدود اختیارات حاصل نہ تھے۔ اور اگر خلافت کے بعد ملوکیت قائم ہوئی تب بھی بادشاہ کے لئے ممکن نہ تھا کہ اپنی قوم کے متفقہ دستور سے انحراف کرے یا اپنی پسند کے قوانین بنا لے۔ اگرچہ سلطنتِ روم نے بھی مختلف قوموں اور علاقوں پر مشتمل ایک کثیرالقومی تہذیب کی بنیاد رکھی تھی لیکن اسلامی سلطنت نے مختلف نسلوں ، رنگوں اور تہذیبوں کے انسانوں کو بہتر اور مساوی حقوق فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ سلطنتِ روم کی نوآبادیات میں رہنے والوں کو رومن قوم کے برابر حقوق حاصل نہیں ہوتے تھے، جبکہ غلاموں کا درجہ تو حیوانوں جیسا تھا۔ عرب فاتحین نے اسلام قبول کرنے والے تمام لوگوں کے برابر حقوق کو اصولاً تسلیم کیا کیونکہ یہ اسلام کا اصولی فیصلہ تھا، اور غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک ممکن بنایا۔ سلطنتِ روم اور سلطنتِ ایران کے درمیان طویل جنگوں نے ان دونوں مملکتوں کو کمزور کر دیا تھا اور بے شمار علاقے بدامنی کی شورش اور معاشی بدحالی کا شکار ہو رہے تھے۔ اسلامی مملکت نے اس خلا کو پُر کیا اور یہ بھی ایک بڑی اور مثبت تبدیلی تھی۔ کثیرالثقافتی، کثیرالقومی نظامِ حکومت کے قائم ہونے سے علم و فن اور تہذیب کے ان گِنت ثمر انسانیت کو نصیب ہوئے۔ اگرچہ کرخت شریعتی بنیاد پرستی نے علوم کی اِس شاندار تحریک کو کچل دیا، تاہم جو کچھ بچ نکلا اِس میں جدید یورپ کے موجودہ سائنسی ، علمی انقلاب کی بنیاد موجود تھی۔ اور اسلامی تہذیب کی طرف سے انسانیت کی یہ خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔

آج جب دنیا کے پسماندہ ترین قبائلی علاقوں کے کچھ جنگجو دنیا کو فتح کرنے نکلے ہیں تو صورتحال وہ نہیں جو ساتویں صدی عیسوی میں تھی۔ دنیا غلام داری اور عدم مساوات سے نکل کر آج ایک ایسے انسانی معاشرہ میں ڈھل چکی ہے، جہاں عام آدمی کو پچھلی صدیوں کے رؤسا سے بڑھ کر حقوق اور مواقع میسر ہیں۔ قوموں کے پاس ایک سے بڑھ کر ایک دستور موجود ہے جس پر عمل بھی کیا جاتا ہے یعنی ہمارے اسلامی دستور کی طرح نہیں کہ جو صرف مذہبی عناصر کے ہاتھ میں ایک تلوار کی طرح ہے لیکن تیرہ صدیوں سے نافذالعمل نہیں۔

اسلام نے غلاموں اور لونڈیوں سے نیک سلوک سکھایا تھا لیکن مالکان کے حقوقِ ملکیت اور جبر کے حقوق واپس نہ لیے تھے۔ تمام انسانوں کو آزادی کا برابر حق نہیں دیا۔ غلام رکھنے کو ناپسندیدہ یا مکروہ بھی قرار نہیں دیا، بلکہ اِس بات کی اجازت دی کہ اگر غیر مسلم قومیں اسلام قبول نہ کریں تو انہیں فتح کر کے ذمی کے درجہ پر رعایا بنا لیا جائے۔ اگرچہ راقم الحروف کے ذاتی علم کے مطابق اسلام کا یہ مقصد نہ تھا کہ اقوام کو ذمی کا درجہ دیا جائے تاہم عملاً اسلامی حکومتوں نے ایسا کیا۔ آج جب کوئی طاقتور ملک مثلاً امریکہ کسی کمزور ملک مثلاً عراق یا افغانستان پر قابض ہو جاتا ہے تو حالانکہ وہ وہاں کی آبادیوں کو ذمی یا غلام نہیں بناتا، پھر بھی دنیا بھر کے لوگ اور اُس کے اپنے دانشور شدید احتجاج کرتے ہیں، کیونکہ جدید دور میں انسانوں کی برابری کے عالمی قوانین اس طرح سے انسانوں نے قبول کر لیے ہیں کہ ہمارے مزاج سے ذمی اور غلام کے تصورات نکل گئے ہیں۔

دین کے مکمل ہونے کے بعد بھی مالک کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی لونڈی سے جنسی تعلق قائم کرے(سورۃ المعارج، آیت 29 ،30 اور سورۃ النساء آیت 24)۔ مالی فائدہ کے لئے لونڈی کو عصمت فروشی پر مجبور کرے تو بھی اُسے شرعاً منع نہیں کیا گیا، اگرچہ قرآن نے مالکوں کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کی لیکن کسی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا(سورۃ النور آیت 33)۔ اسی طرح مسلم عورتوں کو عزت و آبرو عطا کی مگر مرد کے برابر حقوق عطا نہیں کیے مثلاً مردوں کو عورتوں پر فائق اور افضل قرار دیا اور سرکشی یا حکم نہ ماننے پر عورتوں کی پٹائی کا اختیار دیا (سورۃ النساء آیت 34) اور مردوں کو اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے مزید شادیوں اور غلام عورتوں سے جنسی تعلق کی اجازت دی (سورۃ المعارج آیت 29،30 اور سورۃ النساء 24)۔ کیونکہ شاید اُس وقت کے عرب مرد کو اس سے زیادہ پابندیوں پر آمادہ کرنا ممکن نہ تھا۔ وللہ اعلم۔

لیکن اسلام نے جس انسانی مساوات کی نبیاد رکھی تھی وہ آج کے دور میں بڑھتے بڑھتے انسانی حقوق کی تحریک اور انسانی حقوق کا عالمی ضابطہ بن گئی ہے۔ اسلام نے غلامی کو حرام نہیں کیا لیکن غلاموں کے لئے رحم اور مساوات کا درس دیا جو کہ اس زمانے کی تہذیبوں سے آگے کا ایک قدم تھا۔ لیکن آج کے دور میں غلامی کو قانوناً جرم قرار دیا جا چکا ہے۔ اسلام نے عورتوں کو باعزت اور باوقار بنانے کی پہلی منزل تعمیر کی لیکن آج کے معاشروں کے قانون میں اسے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں، اُسے سوتن کی اذیت سے قانوناً تحفظ حاصل ہے، اسے مارا پیٹا نہیں جا سکتا اور جنسی جبر کا شکار نہیں بنایا جا سکتا۔ غلامی کے خاتمہ کے بعد دیر تک عورتیں رائے دہی کے حق سے محروم تھیں، پھر یہ حق بھی انہیں مل گیا۔ انسانوں کی خریدو فروخت اسلام نے ناپسند کی لیکن اسے حرام قرار نہیں دیا۔ آج کے معاشروں میں غلامی ہی نہیں جبری مشقت تک سنگین جرم ہے۔ اسلام نے قانون کی عملداری کا نظام متعارف کرایا اور شخصی یا لامحدود اختیارات کو ختم کیا، تاہم نظامِ مملکت واضح نہ ہونے کی وجہ سے خلفائے راشدینؓ کے اقتدار کی میعاد مقرر نہ تھی۔ اِس مثال سے بادشاہوں کو بھی تاحیات حکومت کرنے کا موقع مل گیا، لیکن جدید معاشروں نے مدتِ ملازمت، مدتِ نمائندگی، مدتِ اقتدار اور اختیار کی حدیں مزید واضح کر دی ہیں اور آئین و قانون کی عملداری کو انتہائی فیصلہ کُن حیثیت دے دی ہے۔ خصوصاً حکومتوں کو جمہوری عمل سے قائم کرنا ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اسلام نے انسان کی تربیت و تہذیب نفس پر زور دیا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ آج کی جدید تہذیبوں نے انسانی فکر و ضمیر کی تربیت کا یہ عمل اور آگے بڑھایا ہے اور انسانوں کو عقائد کے علاوہ اخلاقیات کے منطقی اور علمی اصول سکھائے ہیں، جس کے نتیجے میں یورپ، امریکہ ، چین، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جاپان جیسے معاشرے وجود میں آئے ہیں، جہاں لوگ اپنے وطن کے قوانین اور اپنے منتخب نمائندوں کے فیصلوں کا احترام کرتے ہیں اور اپنی حکومتوں کے غلط اقدامات پر شدید احتجاج بھی کرتے ہیں لیکن جب تک اکثریت کسی نقطۂ نظر کی حامی نہ ہو جائے لوگ اپنے رائج قوانین کا احترام کرتے ہیں۔ اسلام نے ٹیکسوں کے نظام کو دین کا رُتبہ دے کر فلاحی مملکت کا تصور دیا، جدید معاشروں نے اس تصور کو مملکت کا بنیادی مقصد بنا دیا ہے۔ اسلام نے غیر مسلموں کو اگرچہ دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت یعنی ذمی کا مرتبہ دیا لیکن ذمیوں اور اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا۔ آج کے معاشروں میں یہ تحفظ بڑھ کر مکمل شہری برابری کی شکل اختیار کر چکا ہے اور سیکولر ریاست میں شہریوں کے درمیان کسی طرح کی تخصیص و امتیاز سنگین جُرم ہے۔ اسلام نے عالمی سطح پر ایک مہذب معاشرہ کے تصور کو سلطنتِ روم کے مقابلہ میں کہیں بہتر طریقہ سے رائج کیا، لیکن طاقت کا استعمال اور غیر مسلم اقوام کی محکومیت وقت کا آئین رہا۔ طاقت اور تسخیر کا یہ آئین عملی طور پر آج بھی دنیا کے کئی حصوں میں نافذ ہے، تاہم فرق واضح ہے، اسلام کی بالادستی کے دور میں طاقت و تسخیر کا استعمال گناہ نہیں تھا، آج کے دور میں یہ گناہ یعنی جرم ہے اور جو قومیں اِس آئینِ قوت کا استعمال کرنا چاہتی ہیں انہیں طرح طرح کے بہانے بنانے پڑتے ہیں، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے آنے والے وقتوں میں طاقت اور تسخیر کا طریقہ کار مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔

کیا طالبان کے پاس اپنے عوام اور دنیا بھر کے عوام کے لئے موجودہ انسانی اور جمہوری حقوق سے بہتر حقوق موجود ہیں؟ کیا لوگوں پر اُن کی رضامندی کے خلاف ہر طرح کا جبر مسلّط کرنا اور اُن پر جبراً حکومت کرنا، عورتوں کو تمام موجودہ حقوق سے محروم کر کے انہیں گھروں میں بند کر دینا کیا ایک بہتر دنیا کا نقشہ پیش کرتا ہے؟۔

لیکن انسانی حقوق اور آزادیوں سے بھی بڑھ کر اہم وہ مسائل ہیں جو بنی نوعِ انسان اورخصوصاً پاکستانی قوم کو درپیش ہیں۔ انسانوں کی موجودہ دنیا میں رہنما تہذیب کا درجہ اسے حاصل ہو گا جو ان مسائل کے جواب فراہم کرے۔

1۔ زندگی کا خاصہ ہے کہ کشادگی مانگتی ہے۔ انسان نہ صرف کشادگی مانگتا ہے بلکہ اختیار کی طلب اور جبر سے نفرت کرتا ہے۔ غلاموں کو آزادی ملنے میں اگرچہ طویل عرصے لگے لیکن غلاموں کی بغاوتیں ہمیشہ سے جاری تھیں۔ مثلاً حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں سامی غلاموں کی تحریکِ آزادی، رومن مملکت میں کتنی ہی بغاوتیں جن میں سپارٹیکس کا نام ابھرا، ہندوستان میں جنوب کی کول، گونڈ، بھیل اور دراوڑ نسلوں کی بغاوتیں جنھیں اچھوت اور شودر بنا دیا گیا تھا۔ اور قدیم زمانے میں چین کے کسانوں کی بیسیوں تحریکیں۔ یہ سب برابر کے حقوق اور آزادی کے لئے انسان کی امنگ کا اظہار تھیں۔

آج کے انسانی معاشرہ نے مساوات اور شمولیت کے ایسے قانون بنائے ہیں جو تاریک صدیوں کے اعلیٰ ترین میعاروں سے بڑھ کر ہیں۔ پھر بھی بے انصافی اور عدم مساوات کا احساس ان گنت شکلوں میں موجود ہے، کہ عدم مساوات سے نفرت انسانی مزاج کا خاصا ہے۔ محنت کش کسان اور غریب عوام برابر مواقع مانگتے ہیں۔ دنیا کے وسیع خطوں میں نوآبادیاتی نظام اور قدرتی مجبوریوں کی وجہ سے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔

یہ بات قابل غور ہے کہ آج ہم جنھیں بنیادی سہولتیں کہتے ہیں، مثلاً صاف پانی، سیوریج سسٹم، بجلی و گیس کی فراہمی، صحت بخش خوراک، موسموں کے اعتبار سے مناسب لباس، مضبوط مٹیریل سے بنے مکان، رسل و رسائل اور نقل و حمل کی سہولتیں، وقار کے ساتھ روزگار، بچوں کے لئے ایسی تعلیم جو انہیں دوسرے بچوں سے برابری کی بنیاد پر حاصل ہو، جان و مال، آبرو اور آزادی کا تحفظ جو کسی نوازش کا نتیجہ نہ ہو بلکہ بغیر مانگے ملے، صلاحیت کے مطابق ترقی کے مواقع جن میں طبقاتی، مذہبی، نسلی امتیازات نہ ہوں، قانون کے سامنے ہر شہری کی برابر حیثیت، اپنی مرضی اور رائے کا استعمال، اختلاف اور خیالات کے پرچار کا حق وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ سہولتیں ہیں جو تین صدی پہلے تک بادشاہوں کو میسر نہ تھیں۔ لیکن محنت کش یہ سہولتیں نہ صرف مانگتے ہیں بلکہ اس کے لئے طاقتور تحریکوں کا ظہور ہوا اور پچھلی صدی نے بڑے بڑے سوشلسٹ انقلاب دیکھے۔ اگرچہ انسان پر انسان کے جبر کا نظام زیادہ مضبوط ثابت ہوا اور انسانوں کی مساوات کے لئے امنگ کا نظام کامیاب نہیں ہوا تاہم کمزور طبقوں کا احساس محرومی وہیں کا وہیں ہے۔ انسان ہر وہ چیز مانگتا ہے، ہر وہ حق مانگتا ہے جو اس کے وقتوں میں میسر آسکے، کیونکہ حقوق اور ایجادات انسانوں کی اجتماعی ملکیت مانی جاتی ہیں۔ فکری ملکیت کا قانون بھی ایک مختصر مدت کے بعد ختم ہو جاتا ہے اور ایجاد انسانیت کی ملکیت بن جاتی ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کیا طالبان یا مسلمانوں کے پاس بطورِ قوم دنیا کے انسانوں کی اِس امنگ کو پورا کرنے کا کوئی نظام موجود ہے؟ دینا جانتی ہے کہ مسلمانوں کے مروجہ عقائد کے مطابق غیر مسلموں کو تو محض مذہب کے فرق کی بنیاد پر مسترد کر دیا جائے گا۔ طالبان اور عربوں کے نزدیک غیر مسلم عورتوں کی حیثیت خریدوفروخت کے جانوروں جیسی ہو گی، جبکہ مادی وسائل کی ملکیت میں مسلمان لامحدود نجی ملکیت کے اِسی طرح قائل ہیں جیسے مغرب و مشرق کے کارپوریٹ سرمایہ دار۔

پچھلی صدی کے بڑے مسلم مفکروں نے معاشی عدل و انصاف کے جو فارمولے پیش کئے اُن میں وسائل پر قابض طبقوں کے خلاف کسی جبر یا قانونی پابندی کی کوئی تجویز موجود نہیں۔ سارا دارومدار اِس اپیل پر ہے کہ متموّل حضرات ایمان اور جذبۂ ایثار سے کام لیں۔ معمولی فہم بھی یہ بات سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ ایثار اور ایمان پر چھوڑنے سے اگر معاشروں کا نظام چل سکتا تو قوانین کی ضرورت نہ ہوتی۔ زنا کی سزا نہ ہوتی، قتل کی سزا نہ ہوتی اور ہر طرح کی حدود کا نفاذ غیر ضروری ہوتا۔

2۔ دوسرا بڑا بین الاقوامی مسئلہ قوموں کے درمیان رسہ کشی اور طاقت کے توازن کا ہے۔ دنیا علم پر مبنی معیشت کے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ معاشی اور فوجی برتری کا انحصار ذہنی یعنی علمی برتری پر ہے۔ مسابقت کے اِن میدانوں میں انصاف اور توازن قائم کرنے کا کوئی فارمولا کیا طالبان یا مسلمانوں کے پاس ہے؟ اس کے لئے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آپ پہلے اس دوڑ میں برابر کے شریک ہوں اور رہنمائی کی حالت میں ہوں جیسی اِس وقت امریکہ کی ہے۔ کیا آپ اِس دوڑ میں اس مقام کے دعویدار ہیں؟ یا خودکش دھماکوں سے عالمی امن اور توازن قائم کیا جا سکے گا؟

3۔ تیسرا اِسی سے متعلق مسئلہ طاقت اور تشدد کے استعمال کا ہے، جس نے عالمی امن اور انسانوں کی خوشحالی کے سب امکانات کو شک میں ڈال رکھا ہے۔ کیا طالبان کے پاس عالمی امن اور عدم تشدد کا کوئی ایسا مقناطیسی اصول موجود ہے جس کی طرف عالمی برادری کھچی چلی آئے اور تشدد پسند قوتیں تنہا ہو کر بالآخر صلح پر مجبور ہو جائیں؟۔

4۔ چوتھا بڑا مسئلہ گھٹتے ہوئے وسائل اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کا ہے۔ توانائی، پانی اور خوراک کے وسائل کی کمی کا سوال ہر سال پہلے سے سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ اسی طرح درجہ حرارت کے بڑھنے اور سمندروں کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے کئی بڑے شہروں کے ڈوب جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ اگر اگلے بیس تیس برسوں میں ہم بنیادی انقلابی ایجادات کرنے میں کامیاب نہ ہوئے اور توانائی، پانی ، خوراک اور ہر طرح کی پیداوار میں زبردست اضافے نہ ہو سکے تو ایک ایسے عالمی غدر کا خطرہ پیدا ہو گا جو وباؤں سے بڑھ کر مہلک ہو گا۔ کیا طالبان ایسے مسائل سے باخبر ہیں اور اُن کے پاس اِس سوال کا جواب ہے؟ کیا اتنا کہنا کافی ہو گا کہ کافروں کو مر جانے دو کہ اُن کے کئے کی سزا ہے اور کیا وہ آپ کا یہ فرمان سن کر مر جانے پر آمادہ ہو جائیں گے؟۔

5۔ پانچواں مسئلہ عالمی نظامِ سرمایہ کا ہے جس کی بے لگام سرگرمی سے ہر صدی میں ایک سے زیادہ معاشی بحران دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور انسانیت چند لوگوں کی زرپرستی اور سٹہ بازی کا شکار ہو کر کئی کئی عشروں تک زخم چاٹتی رہتی ہے۔ یہ عالمی بدروحیں جن میں کچھ عرب بھی شامل ہیں، سایوں اور ہیولوں کی طرح خون سونگھتی پھرتی ہیں، انہیں ڈھونڈھنے اور مستقل طور پر پابند کرنے کے لئے طالبان کے پاس کیا کوئی جادوئی نظام ہے؟ ایسے ہی بہت سے اور سوال ہیں جو جواب مانگتے ہیں۔ کیا آپ کے پاس اِن سوالات کے جواب کی تیاری ہے؟

اگر نہیں تو پھر یہ ہنگامہ بلا کیا ہے؟

سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تصنیف ’’ تہذیب اور اس کے اضطراب‘‘ میں لکھا: انسانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو باہم محبت میں باندھنا ہمیشہ ممکن ہوتا ہے، بشرطیکہ ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو ان متحدہ لوگوں کی جارحیت کا نشانہ بن سکیں۔

انسانی معاشروں کی رہنمائی یا تنظیم کرنے والوں نے ہمیشہ انسانی فطرت کے وحشیانہ پہلوؤں کو نظم و ضبط میں لانے کی کوشش کی ہے۔ تہذیب کا سفر اگرچہ سگمنڈ فرائیڈ کے اس نظریہ کی تائید میں کافی ثبوت فراہم کرتا ہے، تاہم یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ لوگوں کو محبت و اتحاد کے رشتوں میں باندھنے کے لئے کچھ دوسرے لوگوں کو دشمن کے طور پر سامنے رکھ لینا کوئی ایسا شاندار طریقہ کار نہیں جسے بدلنے کی ضرورت ہی نہ ہو۔ کچھ انسانوں کو دوسرے انسانوں کی نفرت میں مبتلا کر کے متحرک کرنا یقیناًایک کامیاب طرزِ سیاست رہا ہے۔ لیکن یہ بہرحال ناقص اور قابل اصلاح طرز ہے جسے جوں کا توں رکھنا کسی بھی انسانی اصول سے مناسب نہیں۔ اگرایک گروہ کا دوسرے گروہ کے خلاف منظم ہونا انسانی فطرت کا تقاضا ہے تو یہ سوالات بھی انسانی فطرت کا تقاضا ہیں کہ کیا فطرت تبدیل ہوتی ہے؟، کیا اسے تبدیل ہونا چاہیے؟، کیا یہ پچھلے لاکھ برس میں تبدیل ہوئی ہے؟۔

ہم جانتے ہیں کہ ہمارے قدیم آباؤ اجداد کپڑوں اور اخلاقی حدوں کے بغیر زندگی گزارتے رہے ہیں۔ کیا یہ فطرت نہ تھی؟ اور کیا یہ تبدیل نہیں ہوئی؟ یہ بھی تاریخی طور پر ثابت ہے کہ انسانی معاشرے چند افراد سے بڑے ہو کر آج کے قومی معاشروں تک پہنچے ہیں۔ یعنی چھوٹے چھوٹے گروہوں کی ایک دوسرے کے خلاف جارحیت ختم ہوئی ہے۔ جدید ریاست کے اجتماعی نظام کے ماتحت ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی سے نفرت اور جارحیت کے جذبات ناپید ہوئے ہیں۔ تو کیا یہ فطرت کے خلاف ہوا ہے؟ یورپ ہی نہیں دنیا کے بیشتر ممالک جن کا نظام مؤثر ہے، پرامن اجتماعی زندگی کا نمونہ ہیں۔

یہ نُکتہ یقیناًقابل غور ہے کہ کروڑوں اربوں انسانوں کی کئی نسلیں ایک مملکت کے نظام میں پرامن زندگیاں گزار سکتی ہیں۔ اور اس نُکتہ کی بنیاد پر شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ جارحیت کی وہ شکل انسانی فطرت کا لازمی جزو نہیں جس کے باعث انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو نفرت کا نشانہ بناتا ہے۔ کیونکہ فطرت وہ ہے جس کا اظہار اکثریت کرتی ہے اور اکثر اوقات کرتی ہے۔ اگر انسانوں کی اکثریت زندگی کے اکثر ایام بغیر جارحیت اور بغیر تصادم کے گزارتی ہے تو پھر شاید یہ کہنا درست ہو کہ :

’’ بنی نوع انسانی کی مہذب آبادیوں کی ایک بڑی تعداد کو وقتی جارحیت پر اکسایا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ایسا کرنے کے لئے منظم اور عیار لوگوں کا ایک گروہ شرپسندی کا مصمم ارادہ کر کے اس کام کے پیچھے لگ جائے‘‘۔

تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پر ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جسے اکسانے کے لئے ایک چھوٹا سا عیار اور منظم گروہ کئی عشروں سے ہمارے معاشروں میں سرگرم ہے۔ اس منظم گروہ کی سرپرستی کرنے والے عالمی فنکار بھی اپنی قوموں کا ایک قلیل حصہ ہیں۔ یہ اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

تہذیبی نرگسیت کا علاج ممکن ہے۔ لیکن اگر ہم نے خود تنقیدی کا راستہ اختیار نہ کیا تو عالمی برادری کو شاید یہ حق حاصل ہو جائے کہ وہ ہمارے یہ ہاتھ باندھ دے جن سے ہم نہ صرف اپنے بدن کو زخمی کرتے ہیں بلکہ نوع انسانی پر بھی وار کرتے ہیں۔

URL for Part 24:

https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-24/d/98114

URL for this part:

https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-25/d/98124

 

Loading..

Loading..