مبارک حیدر
اِسلاف کا فخر
خلافتِ راشدہ اور اسلاف کا دور مسلمانوں کی بھاری اکثریت کے نزدیک بے حد واجب الاحترام دور ہے، کیونکہ یہ اسلام کی زبردست کامیابیوں اور اثر انگیزی کا دور ہے۔ یہ انسانی مزاج کی روایت ہے کہ لوگ اپنے آباؤ اجداد کی تعریف کرنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔ ہم بھی انسانوں کی اسی روایت پر ہیں۔ ہمیں بھی اپنی شناخت کے اونچے مینار اچھے لگتے ہیں اور کیوں نہ لگیں کہ جب ہمارے موجودہ وقتوں میں فخر کے لئے کچھ اور موجود ہی نہیں اور فخر کو ہم نے اپنی عادت بنا رکھا ہے۔ جبکہ قومیں حقیقی وقت میں زندہ ہوں تو آگے دیکھتی ہیں، جب نڈھال ، پژ مردہ اور زوال پذیر ہو جائیں تو ماضی کی کہانیوں پر گزر بسر ہوتی ہے۔ جیسے بچے اور جوان ماضی کو کم یاد کرتے ہیں، حال اور مستقبل کے خواب دیکھتے ہیں، کیونکہ نمو کی رونق ہر طرف امید اور امنگ دکھاتی ہے۔ مگر عمر رسیدہ، تھکے ہوئے بزرگ جن کی قوتِ ادراک، قوتِ تعمیر اور قوتِ نسل گری رخصت ہو چکی، وہ ماضی کے افسانے دہراتے اور ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ اگر بہت انا پسند ہوں تو یہ بزرگ اپنے گردوپیش پر برہم ہوتے ہیں اور اسے غلط رو اور ناجائز قرار دیتے ہیں۔ لگ بھگ ایسا ہی تہذیبوں کے ساتھ بھی ہے۔
انسانی حیات کے تسلسل کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک فرد کی حیات ہے جو ایک مختصر عمر تک ہے۔ فرد اپنی مختصر حیات کے ثمر اور ورثے اپنی نسل میں چھوڑ جاتا ہے، لیکن نسل پیدا کرنے کے لئے اور انہیں اپنی جینیاتی اور ہر طرح کی وراثت دینے کے لئے وہ کم سے کم صنفِ مخالف کی مدد کا محتاج ہوتا ہے، یعنی تنہا اپنے اس مقصد کو مکمل نہیں کر سکتا۔ ایک اور حیات قبیلوں اور گروہوں کی ہے۔ عرصہ کے اعتبار سے یہ حیات فرد سے کہیں طویل ہے مگر قبیلے اور گروہ دوسرے قبیلوں اور گروہوں سے کبھی ٹکراتے کبھی بغل گیر ہوتے ہیں۔ رابطہ کی ان دونوں شکلوں میں نئے قبیلے اور گروہ بنتے ہیں، اکیلا کوئی قبیلہ بھی زندہ نہیں رہتا۔ پھر ایک حیات تہذیبوں کی ہے، قبیلوں کی شناخت سے بڑی شناخت بنا کر تہذیبیں انسان کی نشوونما کا کردار ادا کرتی ہیں، لیکن کوئی تہذیب لافانی نہیں۔ فرد اور قبیلے کی طرح تہذیب بھی دوسری تہذیبوں سے ملے بھڑے بغیر تخلیق کا عمل پورا نہیں کر سکتی۔ فرد اور قبیلے کی طرح تہذیب بھی الگ اور تنہا زندہ نہیں رہتی۔ جیسے کوئی فرد اپنے اندر مکمل نہیں بلکہ بقاء کے لئے قبیلہ اور گروہ کا محتاج ہے، جیسے قبیلہ اپنے اندر مکمل اور حرفِ آخر نہیں بلکہ تہذیب میں مدغم ہونے پر مجبور ہے، ایسے ہی تہذیب بھی اپنے اندر تنہا مکمل نہیں، نوعِ انسانی کی بڑی پیش قدمی میں دوسری تہذیبوں کے ساتھ ملنے اور بدلنے کی پابند ہے۔ فرد نفسیاتی مرض میں مبتلا ہو جائے تو صنف مخالف اور گروہ سے کٹ جاتا ہے۔ کوئی سوسائٹی یا کوئی تہذیب جب اپنے خول میں سمٹ جائے، اپنے خول کو اپنی شناخت بنا لے یا فخر و تکبر میں مبتلا ہو کر دنیا سے ٹکرا جائے تو نفسیاتی مریض کی طرح تباہی کی طرف نکل جاتی ہے۔ خول میں سمٹی ہوئی تہذیب کی مثال براعظم امریکہ میں آباد انکا مایا تہذیب تھی اور کسی حد تک برصغیر ہند میں ہندو تہذیب، اور فخر و تکبر کی ایک مثال رومن تہذیب اور جدید وقتوں میں جرمن فاشزم۔ شاید ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی اسی راستے پر گامزن ہو مگر امریکہ کے دانشوروں اور اس کے جمہوری نظام کے باعث توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جلد اپنا رستہ بدل لے۔ شاید امتِ مسلمہ کہلانے والوں کی بڑھتی ہوئی خودستائی اور ماضی پرستی انہیں بھی ایسے رستے پر لے جا رہی ہے جس کی منزل فتح نہیں تنہائی ہے۔
ہمارے ہاں رویوں کی جو دیگیں پک رہی ہیں اُن کا حال جاننے کے لئے چند چاول چکھ لیں۔
11 اگست 2008 ء کا نوائے وقت، خصوصی ایڈیشن میرے سامنے ہے۔ پروفیسر خالدہ منیر الدین چغتائی کا انٹرویو ہے، فرماتی ہیں
’’مسلمانوں نے ہندوؤں کو تہذیب سکھائی، لباس ، مساوات، شرم و حیا اور طلاق کا تصور دیا۔ ہندوؤں کو زندگی کا سلیقہ مسلمانوں نے ہی سکھایا۔ انہیں پہننے کا اوڑھنے کا قرینہ آتا تھا نہ کھانے پینے کی تمیز۔۔۔۔۔۔‘‘
اسی انٹرویو میں فرماتی ہیں
’’ گرداس پور میں اِن دنوں (مسلمان ) لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا، مگر میری ماں نے کہا ’ میں تے اپنی کڑیاں نوں پڑھانا اے‘ تو میرے دادا نے کہا ’ پتر توں پڑھا میں تیرے نال آں، ویکھاں گا کون کیہ کہندا اے ‘ ۔۔۔۔۔۔‘‘
دیکھیں حالت یہ ہے کہ بیسویں صدی ہے اور اس مسلم سوسائٹی میں لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند ہیں لیکن ایک خاتون جو پڑھنا لکھنا سیکھ گئی ہے کہہ رہی ہے کہ ہندوؤں کو عورت مرد کی مساوات اور تہذیب ہم نے سکھائی۔ ہندو تہذیب کے بارے میں متفقہ رائے یہ ہے کہ چار ہزار سال سے یہ اعلیٰ درجے کی تہذیب رہی ہے جس میں علمِ فلسفہ، علمِ ہندسہ رائج رہے جو مسلمانوں نے اِن سے سیکھے۔ اور عورتوں کو موسیقی اور رقص کی تربیت اس تہذیب میں صدیوں سے جاری رہی ہے اور عورت کو خاندان کی محترم ماں کی حیثیت سے اعلیٰ مقام حاصل رہا ہے۔ ہماری نفسیاتی حالت ایسی ہے کہ ہم اپنا سربلند کرنے کے لئے دوسرے کا سر جھکانا ضروری سمجھتے ہیں۔
ملک کے ہر اخبار میں خبریں آ رہی ہیں کہ سچا اور خالص اسلام نافذ کرنے والوں نے لڑکیوں کے سینکڑوں سکول جلا دئیے ہیں اور جو باقی بچے ہیں جلد ہی جلا دئیے جائیں گے تاکہ لڑکیوں کو ’’ شرم و حیا اور مساوات‘‘ میں رکھا جا سکے جس کا دعویٰ محترم خاتون اپنے مضمون میں کر رہی ہیں۔
اسی اخبار میں پروفیسر خالدہ کے انٹرویو کے نیچے ایک مضمون کی سرخیاں یوں ہیں: ’’عورت کا المیہ: عدم تحفظ ، تشدد، حق تلفی اور امتیازی سلوک خواتین کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں‘‘۔
یہ عورت جس کا ذکر کیا جا رہا ہے کہیں اور کی نہیں اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی ہے۔
پروفیسر خالدہ کہتی ہیں کہ ’’ اِن نفرتوں نے تو پاکستان بنا دیا، ان نفرتوں کو دعا دو‘‘ اور ’’جب تک نظامی صاحب اور اُن کا اخبار سلامت ہے، ہم اندھیروں سے کبھی نہیں ٹکرائیں گے‘‘۔ نہ ٹکرانے والی بات ممکن ہے کتابت کی غلطی ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم اندھیروں سے ٹکرانے کی بجائے ان میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔
اسی اخبار میں مولانا صوفی محمد کے ارشادات بھی چھپے ہیں، فرماتے ہیں
’’ پاکستان میں عملاً کفری نظام رائج ہے، جس میں مسلمانوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘‘۔
غالباً اسی کفری نظام کو ختم کرنے کے لئے لڑکیوں کے سکول اور شیو بنانے والے حجاموں کی دکانیں جلائی جا رہی ہیں۔
کل کے اخباروں میں عوامی جمہوریۂ چین میں ہونے والے دھماکوں کی خبر تھی۔ لکھا تھا دھماکے چین کے مسلم اکثریتی صوبہ میں ہوئے جہاں مسلمان علیحدگی پسند تحریک چلا رہے ہیں۔
حضرت اقبال کی تمنا تھی کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کا شغر
لیکن کیا مسلمان ایک ہو رہے ہیں یا صرف علیحدہ ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حرم کے سعودی محافظوں کے ایماء پر مسلمانوں میں اسلامی فخر کے جذبات ابھارے جا رہے ہیں، لیکن خود اپنے وطن میں سعودی لوگ غیر ملکی مسلمان کو شہریت کے حقوق نہیں دیتے، رائے کا حق بھی نہیں دیتے، چاہے ساری عمر اس مسلمان نے عرب آقاؤں کی خدمت کی ہو۔۔۔ عربوں کے حرم میں بوڑھی ہو جانے والی غیر ملکی لونڈیاں مر کر بھی عرب شہریت حاصل نہیں کر پاتیں۔۔۔ ایک ہونے کا یہ تصور کتنا پیچیدہ ہے!
تلخ سچائی یہ ہے کہ موجودہ دور میں مسلم ذہنیت کا غالب رنگ علیحدگی پسندی ہے۔ مسلم اتحاد صرف ایک نعرہ ہے لیکن مسلم علیحدہ پسندی ایک حقیقت۔ تہذیبیں جب رس دار اور توانا ہوتی ہیں تو بین الاقوامیت مانگتی ہیں، دوسری تہذیبیں اُن سے بچنے کے لئے اپنے خول میں سمٹتی ہیں۔ یہی تہذیبیں جب بوڑھی اور بے ثمر ہو جائیں تو علیحدہ مانگتی ہیں اور توانا تہذیبوں کو گناہ، گمراہی اور کفر کے نام دے کر اپنے بچاؤ کی کوشش کرتی ہیں۔ آج ہماری مسلم آبادیاں چاہیے وہ یورپ، امریکہ اور روس میں ہوں، چاہے چین جاپان اور بھارت میں ان کا ایک ہی تقاضا ہے کہ: علیحدگی۔ اپنے خول میں سمٹنے کے لئے ہمیں فخر اور نفرت کے جذبات دئیے گئے ہیں اور موت کے بعد جنت کی بشارت۔ ظاہر ہے کہ یہاں کچھ نہ پانے والوں کو آس کا سہارا اور غفلت کا گنبد چاہیے جس میں وہ چھپے رہیں۔
غفلت کے ضمن میں ایک غریب گھریلو ملازمہ کے خیالات سنئے۔ یہ 24 گھنٹے، 7 دن ڈیوٹی کرنے والی خالص ان پڑھ پیدائشی نوکرانی ہے۔ اسے اپنے مسلمان مالکوں کے سامنے صوفہ تو چھوڑیں کرسی پر بیٹھنے کی اجازت نہیں۔ اس نے جانے کیا کیا پاپڑ بیلنے کے بعد ایک سیکنڈ ہینڈ موبائل فون خریدا ہے، جس کے صرف ایک فنگشن کا استعمال اس نے مشکل سے سیکھا ہے یعنی فون کرنے اور سننے کا فنگشن۔ لیکن یہ فنگشن بھی مالکوں کے سامنے استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ میں نے اس سے پوچھا ’’ بولو جنہوں نے یہ فون جس سے تم اپنے خاندان سے بات کر لیتی ہو، یہ بجلی ، یہ ٹرینیں بسیں، ٹی وی ، یہ گیس اور بجلی کے چولہے جن میں پھونکیں مار کر لکڑیاں جلانے کی ضرورت نہیں پڑتی وغیرہ وغیرہ بنائے ہیں اور جنہوں نے اپنے ملکوں میں مالک ملازم کے انسانی حقوق برابر کیے ہیں اور تم ٹی وی پر دیکھتی ہو ان کی ملازم عورتیں مالکوں سے اور مالک ملازموں سے کیسا برتاؤ کرتے ہیں، تو کیا وہ لوگ اچھے ہیں یا ہم لوگ اچھے ہیں؟ ‘‘ اس نے جواب دیا ’’ وہ تو کافر ہیں، وہ ہم سے اچھے کیسے ہو سکتے ہیں؟۔ وہ دنیا میں جو مرضی کر لیں اگلے جہان جنت میں تو مسلمان ہی جائیں گے۔ یہ چار دن کی زندگی ہے اصل بادشاہی تو موت کے بعد ہونی ہے‘‘ ۔ میں نے پوچھا ’’ اچھا تو یہ بتاؤ ہم میں سے کون سی خوبی تمہیں سب سے اچھی لگتی ہے ؟ ‘‘ اس نے جواب دیا ’’ آپ لوگ اتنے امیر ہیں ، پھر بھی آپ نماز پڑھتے ہیں اور سارے خاندان نے حج کیا ہوا ہے۔ اِس سے بڑی اچھائی اور کیا ہو سکتی ہے۔ میری حسرت ہے کہ میں بھی حج کروں۔ ‘‘
لطف کی بات یہ ہے کہ چند روز پہلے اس ملازمہ کی سولہ سالہ بیٹی کو ایک مدرسہ کے مہتمم حاجی مولانا نے زنا بالجبر کا نشانہ بنایا تھا جسے بچی کے باپ نے رنگے ہاتھوں دیکھ لیا تھا اس واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ ایک نجی چینل پر چلی لیکن مدرسہ کے مہتمم کا کچھ نہیں بگڑا، نہ ہی مدرسہ کو کوئی فرق پڑا۔ اور آج بھی دونوں اتنے ہی محترم اور آزاد ہیں جتنے پہلے تھے۔ ابھی دو دن پہلے اس ملازمہ نے ٹی وی نیوز میں گوالمنڈی لاہور کا واقعہ سنا تھا جس میں مبینہ طور پر نو دس سال کی ایک بچی کو امام مسجد کے بیٹے اور موذن نے جبری زنا کا نشانہ بنا کر ہسپتال پہنچا دیا تھا۔ بھوک، بے حسی، سماجی بے انصافی اور جرائم سے بھرے ہوئے اس معاشرہ کی خبریں سننے والی اس مسلمان عورت کو سکھانے والوں نے وہ اسلامی فخر سکھایا ہے جس کے خول میں سمٹ کر اس کا وجود ہر کڑوی خبر ہر تلخ سچائی سے محفوظ ہو گیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ جرم و ستم کے یہ واقعات انفرادی نوعیت کے ہیں، اجتماعی طور پر معاشرہ الحمد اللہ ٹھیک ہے کیونکہ نماز پڑھنے والوں ، حج کرنے والوں کا اور شبینہ محفلوں کا ہر طرف چرچا ہے۔
URL for Part 21:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-21/d/97974
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-22/d/97984