New Age Islam
Sat Oct 05 2024, 11:36 PM

Urdu Section ( 8 Jul 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Cultural Narcissism- Part- 21 (تہذیبی نرگسیت حصہ (21

 

مبارک حیدر

سنتِ رسول ﷺ کا نظریہ

اہلِ اسلام کا ایمان ہے کہ نبی اللہ ﷺکی ذات کے دونوں پہلو یعنی نبوت اور بشریت اگرچہ ہدایت کے ماتحت تھے تاہم بشری فیصلے یعنی ایک انسان کی حیثیت سے کیے جانے والے فیصلے شرعی حکم کا درجہ نہیں رکھتے۔ آپﷺ کے بعض فیصلے ایسے بھی ہیں جنھیں اللہ نے پسند نہ فرمایا مثلاً غزوہ بدر کے قیدیوں کا فیصلہ اور سورۃ تحریم میں رسول اللہﷺ کے اس فیصلے کو ناپسند کیا گیا جو آپؐ نے غالباً اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے سامنے دوسری زوجہ کے بارے میں کیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کنارہ کشی کے عمل کی اللہ نے توثیق نہیں کی۔ خود رسول اللہﷺ نے اپنی بعض آرا کو ذاتی رائے کے طور پر تبدیل کیا۔ جیسے پودوں کی کاشت پر آپ کی رائے جو عملاً نتیجہ خیز نہ ہوئی، اور حضرت عمرؓ کے اعتراض پر رسول اللہﷺ کا حضرت ابو ہریرہؓ کو منادی روک دینے کا حکم جس میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اے لوگو جس نے بھی کلمہ پڑھ لیا وہ جنت میں داخل ہو گیا، جس پر حضرت عمرؓ نے اعتراض کیا اور رسول اللہﷺ نے اس اعتراض کو تسلیم کر کے منادی روکنے کا حکم دیا۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت انسان بہت کچھ کیا جس کی تقلید ہم پر لازم نہیں کیونکہ وہ بشری یعنی دنیاوی عمل تھے۔ جیسے مختلف مواقع پر آپ ﷺ نے بھوک کاٹی، تو بھوکا رہنے کا عمل ہمارے لئے اسی طرح واجب تقلید نہیں جیسے روزہ رکھنے کا عمل لازم ہے۔ یا آپﷺ نے بعثت کے بعد اگر کوئی معاشی سرگرمی نہیں کی تو یہ عمل کسی فرد یا گروہ کے لئے جواز فراہم نہیں کرتا کہ وہ دینی خدمت کے نام پر خود کو معاشی ذمہ داریوں سے آزاد کر لے۔ آپ ﷺنے حضرت خدیجہؓ کی زندگی میں کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا تو اس سے اہلِ اسلام نے اپنے اوپر یہ پابندی عائد نہیں کی کہ وہ پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسرا نکاح نہ کریں۔ یا آپﷺنے افلاس اور تنگدستی کو برداشت کیا اور اپنے جوتے خود مرمت کیے، تو امتِ مسلمہ کا ہر فرد اسی طرزِ حیات کو اپنانے کا پابند نہیں۔ بلکہ حضورؐ کی سخت معاشی تنگدستی کو دیکھتے ہوئے بھی آپ ﷺ کے رو برو حضرت عثمانؓ بے حد دولتمند تھے۔ آج کے دور میں ایک طرزِ فکر سے وابستہ ہو کر ہمارے کچھ بھائی داڑھی رکھنے، شلوار ٹخنوں سے اوپر کرنے اور پاؤں کے بل بیٹھ کر پانی پینے کو سنت رسولؐ اور اسلامی شناخت کا درجہ دے رہے ہیں جبکہ رسول اللہﷺ کی پیروی اُن باتوں میں کرتے نظر نہیں آتے جن میں مال اور مفاد کی قربانی دینا پڑے۔ ایسا کہیں دیکھنے میں نہیں آیا کہ جو لوگ داڑھی کے مسئلہ پر جبر و تشدد پر اتر آئے ہیں اور انہوں نے حجاموں کی دکانیں جبراً بند کر دی ہیں انہوں نے کسی کو اِس بات کے لئے بھی دھمکایا ہو کہ وہ اپنے کروڑوں کے اثاثے امت کے غرباء کے نام کر دیں یا کسی اجتماعی فنڈ میں دے دیں کیونکہ رسولﷺ تو ذاتی ملکیت سے محروم رہے لہٰذا تم ذاتی ملکیت کیسے رکھتے ہو۔ چنانچہ رسول اللہﷺ کی فاقہ مستی اور شفقت کی تصویریں آپ ﷺ کی امت کے اہلِ ثروت حضرات میں کہیں دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ اسلام اور انسانیت کے ساتھ کتنا ظلم ہے کہ ذاتی حلیے کے لئے تو لوگوں کو بندوق اور توپ کی قوت سے مجبور کیا جائے، غریب حجاموں کی دکانیں اڑا دی جائیں، کسی بدنصیب اور کمزور عورت کو بدکاری کے جرم میں پکڑ کر زدوکوب کیا جائے جبکہ اُس عورت کے پاس جانے والے محفوظ رہیں اور زرو مال اکٹھا کرنے والوں، حتیٰ کہ غریبوں کے منہ سے روٹی چھین کر اناج ذخیرہ کرنے سمگل کرنے والوں، عورتوں اور لڑکوں کی تجارت کرنے والوں، اسلحہ اور منشیات کے تاجروں اور سود خوروں کو کھلی چھٹی ہو۔ کیا خوش بختی ہوتی اگر اسلام کی شناخت کا درجہ عمدہ سماجی اعمال کو دیا جاتا، معاشرہ کے کم نصیب لوگوں کی دستگیری کے لئے ادارے بنائے جاتے، جہاں علم و ہنر کی ترویج کا اہتمام ہوتا، جس سے معاشرہ کی معاشی کارکردگی بہتر ہوتی، جرائم پیشہ افراد کا ہاتھ روکا جاتا۔ اگر توپ تفنگ کا استعمال اتنا ہی پسندیدہ عمل تھا تو ظالموں، چیرہ دستوں، قبضہ گروپوں اور غنڈوں پر طبع آزمائی کی جاتی۔ اسلام کا نام لینے والے انصاف اور ایثار میں دوسروں سے نمایاں نظر آتے، رسول اللہﷺ سے عشق و عقیدت کا دعویٰ کرنے والے ایک مثالی معاشرہ بنا کر دکھاتے جو دنیا بھر کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا، جس کی کشش جابر ملکوں کے عوام کو اسلام کا مداح بناتی۔ دنیا میں کہیں کوئی ایسی مسلم بستی ہوتی جو انسانوں کے لئے پرمسرت زندگی اور عظمتِ کردار کی مثال ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا نہ ہونے کے آثار ہیں۔ توپ تفنگ سے تو صرف مزدوروں کو رزق اور علم سے محروم کیا جا رہا ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے معاشروں کا مستقبل کیا ہے؟

رسول اللہ ﷺ کے دنیاوی فیصلوں کی تقلید اگرچہ وحی یا شریعت کی طرح لازم نہیں پھر بھی ان فیصلوں کو راہنما اصول مانتے ہوئے اور عقیدت کے اظہار کے طور پر ان پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ لہٰذا ہم یہاں اتنا کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ وقت کے مطابق اگر حکومت وقت کو یا مسلمان معاشرے کو رسول اللہ ﷺ کے کسی دنیاوی فیصلہ سے ہٹ کر فیصلہ کرنا پڑے تو یہ نہ تو اسلام سے انحراف ہو گا نہ گستاخی۔ مثلاً اگر آج کے کسی جدید شہر پر دشمن فوج حملہ آور ہو تو خندق کھودنے کی بجائے کسی دوسرے طریقہ سے شہر کا دفاع کرنا گستاخی ہو گی نہ انحراف۔

URL for Part 20:

https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-20-/d/97918

URL for this part: 

https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-21/d/97974

 

Loading..

Loading..