مبارک حیدر
مکمل ضابطۂ حیات
ایک بنیادی دعویٰ جس پر کئی دوسرے دعووں کے محل تعمیر کئے گئے ہیں، یہ ہے کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے۔ حالانکہ قرآن اور حدیث نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا بلکہ صرف اسلام کے دینِ حق اور سچی ہدایت ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ تہذیبی فخر کے لئے قائم کئے گئے مفروضوں میں سے ایک ہے۔ ہر تہذیب ایسے دعوے قائم کرتی ہے۔ روم کے لوگ اپنی تہذیب کو روشنی اور نظامِ کامل کہتے تھے، اہلِ ہند کا اپنے بارے میں یہی تصور تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے آج تک ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آخری نبی اور ہادئ کامل ہیں، روم سے پہلے یونان دنیا کا استاد تھا اور بہت حد تک شاید اہل یونان کو فخر کا حق بھی تھا، سکندر اعظم دنیا کو ارسطو اور سقراط کی روشنی دینے نکلا ۔ مسلمانوں کو بھی حق حاصل تھا کہ فاتح تہذیب کی حیثیت سے اپنے نظریہ حیات کو مکمل ضابطہ حیات کہتے۔ لیکن یہ سب زراعتی معاشروں کے دور تک ممکن تھا۔ جب دنیا صنعتی انقلاب کے بعد ریل ، ہوائی جہاز، ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے سکڑنے اور پھیلنے لگی تو لوگوں نے نئے مسائل کے نئے حل طلب کیے۔ تب ہم دنیا کا ساتھ نہیں دے سکے نہ ہی ہم دنیا کو نئے راستوں پر جانے سے روک سکے، حتیٰ کہ پوری کوشش کے باوجود ہمارے حکمران طبقے اپنے مسلم معاشروں کو بھی نئی دنیا کا حصہ بننے سے روک نہیں پائے، حالانکہ ہمارے مذہبی اقتدار پر قابض عناصر نے اپنے عوام کو روکنے کے لئے اسلام کا نام استعمال کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جس کا نتیجہ صرف یہ نکلا ہے کہ ہم تمام تر وسائل کے باوجود سب سے پسماندہ لوگ ہیں کیونکہ اس تذبذب کا شکار ہیں کہ رک سکتے نہیں اور بڑھنے کی اجازت نہیں۔ اِن حالات میں ہمیں یہ دیکھنا پڑ رہا ہے کہ کیا اسلام مکمل ضابطہ حیات کا دعویدار ہے یا ہم ہی احمقانہ انداز سے ایسا فرض کر بیٹھے ہیں۔
قرآن اور حدیث نے مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ نہیں کیا۔ کوئی آیت قرآنی، کوئی حدیث موجود نہیں جس میں ایسا کوئی مفصل بیان موجود ہوکہ اس کتاب کے بعد کسی علم، کسی حکمت یا کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہو گی۔ ’’اَلیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی‘‘ کے معنی واضح ہیں۔ کسی ایسی تشریح کی گنجائش نہیں دیتے جو مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ قائم کرنے میں مدد دے۔ اس کے معنی جو سب تراجم اور تشریحات میں موجود ہیں یہ ہیں ’’ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تمہارے لئے اپنی نعمت پوری کر دی‘‘۔ رسول اللہﷺ، آپ ﷺ کے صحابہ رضی اللہ عنہ اور قریبی زمانہ کے مفسرین نے کبھی اس آیت کے معنی یہ بیان نہیں کیے کہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے بلکہ اس کے معنی واضح طور پر یہ تھے کہ اس کے بعد مزید وحی و ہدایت کا نزول نہیں ہو گا اور یہ نعمت یعنی قرآن حکیم پورا ہو گیا ہے۔ کسی اور ہادی کا انتظار نہ کیا جائے اور وحی کا سلسلہ بند کر دیا گیا ہے۔ تاہم کتنے ہی موضوعات اور سوالات ہیں جن پر قرآن و حدیث نے کوئی ضابطہ مقرر نہیں کیا۔
مثلاً قرآن نے نظام مملکت پر کوئی ضابطہ نہیں دیا، جو بے حد اہم موضوع ہے۔ رسول اللہﷺ کے وصال پر نیابت یا سربراہی کا جو سوال ابھرا ، ثقیفہ بنو سعدہ میں جس پر اختلاف اور بحث کی صورت پیدا ہوئی، یا مسلم اُمہ کے دو بڑے گروہوں میں جس کی بناء پر آج تک اختلافات چلتے آ رہے ہیں، وہ اسی ضابطہ کی عدم موجودگی کے باعث ابھرا۔ اسی ضابطے کی عدم موجودگی کے باعث خلفائے راشدین کے چاروں طریقہ ہائے تقرر الگ الگ ہوئے۔ خلیفہ یا سربراہِ مملکت کی میعاد اقتدار کا بھی کوئی تعین قرآن و حدیث میں موجود نہ تھا، حالانکہ خلفائے راشدین نہ تو مامور من اللہ تھے نہ ہی قرآن و حدیث میں ان کے تاحیات اقتدار کے لئے کوئی اشارہ موجود تھا۔ اس کے باوجود جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ برپا ہوا تو جید صحابہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ و اصرار کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ اقتدار سے الگ ہونے پر تیار نہ ہوئے، کیونکہ کوئی ضابطہ یا قانونی ہدایت قرآن و حدیث میں موجود نہ تھی۔
مملکت کے معاشی نظام میں محصولات بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ قرآن و حدیث نے زکوٰۃ جیسے اہم ٹیکس کی وصولی پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا تھا جس کے باعث مسلم قبائل نے مرکز کو زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا۔ اس انکار پر فوج کشی کا قرآنی حکم موجود نہ تھا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فوج کشی کے فیصلہ سے اختلاف کیا۔ مکمل ضابطہ حیات کا دعویٰ اگر صحیح ہوتا یعنی اگر ہر مسئلے پر قرآن اور حدیث میں واضح احکام موجود ہوتے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور قبائل کے وہ سربراہان جو خود صحابی تھے، زکوٰۃ کی وصولی اور استعمال کے اصول پر اختلاف کیوں کرتے۔ اس اہم موضوع پر آج تک اہل اسلام کے دو فقہی مؤقف قائم ہیں۔ اہل تشیع زکوٰۃ کی ادائیگی میں مملکت کے جبر کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اختیاری معاملہ سمجھتے ہیں جبکہ اہلسنت کے ہاں یہ جبر شریعت کا حصہ ہے۔
اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں اتفاقِ رائے کیسے بحال کیا جائے یا اختلافی آراء کی صورت میں فیصلہ کرنے کا طریقہ کار کیا ہو گا، اس مسئلہ پر بھی ضابط موجود نہ تھا یعنی شوریٰ بینکم کااجمالی اور عمومی حکم کسی تفصیلی طریقۂ کار کے بغیر تھا۔ دنیا میں انسان کے بنے ہوئے ہر آئین میں ترمیم و تشریح کے لئے اور اختلاف کو ختم کرنے کے لئے واضح طریقہ کار دیا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث میں یہ تو واضح تھا کہ ’’ان تنازعوا فردّوا الی اللہ و رسولہ‘‘ یعنی اگر تنازع پیدا ہو تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو اور یہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ جہاں قرآن و سنت میں فیصلہ موجود نہ ہو وہاں اجتہاد یعنی اپنی رائے سے فیصلہ کر لو۔ مگر اجتماعی معاملات پر لاگو ہونے والے فیصلے کرنے کے لئے کون لوگ یا کون سا ادارہ ہو گا، یہ لوگ کیسے مقرر ہونگے اور یہ ادارہ کیسے تشکیل دیا جائے گا یعنی اگر کوئی ادارہ ہو گا تو اس کے وجود اور طریقہ کار کے ضابطے کیا ہوں گے ۔ مثلاً ’’ولتکن منکم امۃ‘‘ کا اگر ایک مقصد تنازعات میں رائے دینے کا بھی مان لیا جائے (حالانکہ اس کے فرائض میں شامل نہیں) تب بھی یہ سوال وہیں رہ جاتا ہے کہ اس ادارے کی تشکیل کیسے ہو گی، اس کے ارکان کا تقرر کون کرے گا اور کیسے کیا جائے گا۔ تنازعات کے تصفیہ کا طریقہ کار اور ضابطہ موجود نہ ہونے کے باعث مختلف فرقوں ، فریقوں اور فقہ و تفسیر کے مختلف مکاتب کا ظہور ہوا جو آج تک ناصرف موجود ہیں بلکہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ دنیا بھر کے منظم دستوری معاشروں میں تشریح کے تنازعات حتمی طور پر حل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً برطانیہ، فرانس، امریکہ، چین ، روس ،آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ حتیٰ کہ بھارت میں صدیوں یا عشروں پہ محیط نظام اس انداز سے چل رہے ہیں کہ کوئی دستوری معاملہ لٹکا ہوا نہیں۔ اسلام سے پہلے روم کی سینٹ کے پاس بھی ایک طریقہ کار موجود تھا۔
رسول اللہﷺ کے وصال کے چند برس بعد حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں تراویح کو مسجد میں ادا کرنے کا حکم صادر فرمایا جو کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ادوار میں انفرادی سطح پر پڑھی جاتی تھیں۔ یعنی عبادت کے موضوع پر بھی قرآن و حدیث کے فیصلے آخری نہ تھے۔ اِن میں تبدیلی اور ترمیم کی گنجائش تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت عمر فاروقؓ کو یا خلفائے راشدین کو اس نوعیت کے بنیادی دینی موضوعات پر قرآن و حدیث کے فیصلوں میں اضافہ کرنے کا یا انہیں بدل دینے کا اختیار تھا لیکن بعد کے مسلمانوں کو نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسلام کے مکمل ہونے کا عمل رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ یا وحی کے بعد کچھ عرصہ تک جاری رہا اور اس کے بعد بند ہو گیا۔ خود اس مفروضہ کو ثابت کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت موجود نہیں۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کو کسی عبادت میں تبدیلی کا اختیار کون سے حکمِ قرآنی یا حدیث کی رُو سے حاصل ہے۔
خود حدیث نبویﷺ سے ثابت ہے کہ اجتہاد یعنی اپنی عقل و دانش سے فیصلہ کرنے کا اختیار بعد کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن و حدیث میں دی گئی ہدایات بعض معاملات پر مفصّل اور بعض پر نہایت مختصر ہیں اور اسلام کو وقت کے ساتھ بدلنے اور مکمل ہونے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی یعنی جب تک دنیا اور انسان کا وجود باقی ہے مسائل اور ان کے حل آتے رہیں گے، یعنی قیامت کے دن تک ہر نظام تکمیل کے مراحل سے گزرتا رہے گا۔ یہ تسلیم کر لینا کسی طرح سے بھی اسلام کی عزت اور فضیلت میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، محض مذہبی قیادت پر مسلط ایک طبقہ کا دعویٰ ہے جس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلم عوام اس طبقہ سے بے نیاز ہو کر اپنی عقلِ سلیم اور علم کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی جرأت نہ کریں۔
URL for Part 18:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-18/d/97873
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-19/d/97896