مبارک حیدر
موجودہ صورت حال اور تہذیبی نرگسیت
پاکستانی معاشرہ بالخصوص پنجاب اور پختون صوبوں کا درمیانہ طبقہ اسی مخصوص ذہنیت کا شکار ہوا ہے۔ جسے تہذیبی نرگسیت کہا جا سکتا ہے، یعنی ایک ہی تہذیب اور مذہب میں رہتے رہتے اور ایک جیسی تقریر سنتے سنتے یہ معاشرہ اپنے ہی عشق میں مبتلا ہو گیا ہے۔ پاکستان بننے سے پہلے دوسرے مذاہب اور تمدن ساتھ ساتھ آباد تھے، ایک دوسرے سے متاثر بھی ہوتے تھے اور متنفر بھی، تنقید بھی کرتے تھے اور تعریف بھی، مگر ہمہ وقت آئینہ دیکھتے رہنے اور اپنے ہی خدوخال پر صدقے قربان ہو جانے کی بیماری نہ تھی۔ پاکستان بننے کے بعد قیامِ پاکستان کی بنیاد میں علیحدگی پسندی اور اسلامی فخر کے جذبات کارفرما تھے۔ اور تحریک پاکستان کی قیادت جاگیردار اور متوسط طبقہ کے پاس تھی، یعنی ایک طبقہ وہ تھا جو طاقت اور دولت کے بل پر اپنی فوقیت اور فخر کی حالت میں ڈوبا رہتا ہے اور دوسرا وہ جو کئی وجوہ کی بناء پر کبھی کبھی فسطائی شدت پسندی کی طرف مائل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ متوسط طبقہ کا ایک وصف یہ ہے کہ یہ شاندار صلاحیتوں کا حامل ہونے کے باوجود یا شاید اس کی وجہ سے خطرناک جذباتی رویوں کا شکار ہوسکتا ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کا یہ طبقہ اسلام کے جارحانہ پہلو سے فطری طور پر لگاؤ رکھتا تھا۔ تقسیمِ ہند سے پہلے یہ رجحان اس لیے موجود تھا کہ ہمارے فاتح بادشاہوں نے مسلمانوں کو ہمیشہ ہند کی مقامی آبادی سے ممتاز رکھنے کی کوشش کی۔ پاکستان بنا تو مولانا مودودی مرحوم تہذیبی نرگیست کے مشن کی تکمیل کے لئے پاکستان تشریف لے آئے اور نسیم حجازی جیسے تفاخر پسند مسلم مصنفین کی مدد سے موصوف نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا جس میں عالمی سطح پر ہونے والی علمی، فکری اور تہذیبی تبدیلیوں سے پاکستان کی نوجوان نسلیں متنفر یا خوفزدہ ہوتی چلی گئیں۔ اس سارے عرصہ میں سیاسی جماعتوں اور دانشوروں نے عوام کی تربیت کا فرض ادا نہیں کیا اور آج تک یہ کوتاہی نہ صرف برقرار ہے بلکہ ترقی پر ہے۔
آپ پاکستان کے کسی بھی قومی یا مقامی اخبار کا کوئی خصوصی ایڈیشن دیکھ لیں، عام دنوں کے کالم دیکھ لیں، ٹی وی چینلز کے روزانہ کے پروگرام دیکھ لیں، مساجد کے خطبے، تقاریر، مذہبی اجتماعات تو ایک طرف، رہائشی آبادیوں میں ہفتہ وار مذہبی سٹڈی سرکل یعنی درس دیکھ لیں، (عورتوں، نوجوانوں اور عام شہریوں کی مذہبی تیاری کے لئے منعقد ہونے والے محلہ اور بستی کی سطح کے یہ درس ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں جاری ہیں)، اور ان مدرسوں کی تعلیمات دیکھیں جن میں ہر سال چھ سے سات لاکھ تک مذہبی طالبعلم فارغ التحصیل ہو کر یا تو پرانی مسجدوں کا رخ کرتے ہیں یا نئی مسجدیں تعمیر کرنے کے لئے شہریوں کو اسلام اور ثواب یاد دلاتے ہیں۔ رمضان کے تیس دن پوری قوم کے معمولات اور موضوعات پر غور کریں، پھر ہر سال ہونے والے عظیم الشان مذہبی اجتماعات دیکھیں، جن میں بیس سے تیس لاکھ تک کی حاضری بیان کی جاتی ہے، آپ کو جو بات ہر اجتماع، ہر خطاب، ہر تحریر میں نظر آئے گی وہ ہے اسلام اور اسلامی تعلیمات کی بڑائی کا بیان، اسلام کی فضیلت، مسلمانوں کی فضیلت ، ارکانِ اسلام کی فضیلت ، تاریخِ اسلام کی فضیلت، مسلمان بزرگوں کی فضیلت، اسلامی تہذیب کی فضیلت، اسلامی فتوحات کی عظمت، مسلمان فاتحین کی عظمت۔ الغرض فضیلت اور عظمت کا ایک نہ ختم ہونے والا بیان۔ مسلمان کا ایمان اعلیٰ، اخلاق اعلیٰ، اس کی عبادت اعلیٰ، اس کی دنیاداری اعلیٰ۔ یہ دنیا اس کی، اگلا جہان بھی اس کا۔ باقی ساری دنیا جہنمی، باقی سارے انسان کفر اور جاہلیت پر رکے ہوئے۔ اسلام اگر تبلیغ اور تسخیر پر نکلے تو برحق اور اگر دوسرے مذاہب کی تبلیغ کو روک دے تو برحق۔ مسلمانوں کا غیر مسلموں کی آبادیاں تسخیر کرنا ، انہیں غلام اور ذمی بنانا اور ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنانا برحق، لیکن غیر مسلموں کا کسی مسلم آبادی کے کسی مخصوص اور محدود حصے پر گولیاں چلانا اتنا بڑا جُرم کہ عالمی جنگ کی تیاری مسلمانوں پر لازم۔ ہماری عبادات اور دینی رسومات کی حکمت، اسلام معاشی، معاشرتی ، سیاسی، علمی ، حربی یعنی ہر معاملے میں سب پر فائق۔ سب تہذیبیں گمراہ صرف اسلام پر ایمان لانے سے معاشرے ہدایت پر، غیر مسلموں کے جسم بھی ناپاک اور گندے، ایمان والوں کو ان سے بو آتی ہے، ان کی روحیں اور ذہن بھی ناپاک، ان کی سوچیں مکروہ، ان کی غذا گندی اور حرام۔ اگر پاک اور معطر اور حلال اور عمدہ اور نفیس اور لطیف دنیا میں کچھ ہے تو وہ صرف ہمارا یعنی مسلمان کا ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا میں کوئی تہذیب نہ تھی، تاریکی اور جہالت تھی، دنیا کو تہذیب اور علم کی روشنی مسلمان عربوں نے دی۔ اگر آپ کسی خود اعتماد مسلم نوجوان سے پوچھیں کہ یہ جو کہتے ہیں کہ چین میں رسول اللہﷺ کی بعثت سے چار ہزار سال پہلے سے ایک مہذب معاشرہ آباد تھا، جنہوں نے اپنی آبادیوں کے امن اور سکون کے لیے منگول حملہ آوروں کے خلاف وہ دیوارِ چین بنائی تھی جسے عالمی عجوبوں میں گنا جاتا ہے، وہی چین جس کا ذکر حدیث نبویﷺ میں علم کے حوالے سے آیا ہے، اور یہ جو کہتے ہیں کہ ہند کی تہذیب اور فلسفۂ ویدانت کوئی چار ہزار سال پرانے ہیں، اور یہ جو نوشیروان عادل کی ایرانی تہذیب کا ذکر ہے ، جسے عربوں نے فتح کر کے ختم کیا اور یونان اور روم کی مملکتوں کا تذکرہ ہے، وہی یونان جس کے علم و فضل کے افسانے خود مسلمانوں نے لکھے ہیں، جو ظہورِ اسلام سے ہزار برس پہلے اپنی بلندیوں پر تھا، اورکہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کی اُمتیں خود کو ہدایت کی چوٹی پر تصور کرتی تھیں تو کیا یہ سب تہذیبیں اور یہ اُمتیں اور یہ علم کی روائتیں کیا سب تاریکی تھی؟ تو حیران نہ ہوں اگر نسیم حجازی کا یہ مجاہد نوجوان آپ کو نہایت اطمینان سے یہ کہہ دے کہ ’’دیکھو بھائی یہ سب کافروں کی لکھی ہوئی جھوٹی تاریخیں ہے جو مسلمانوں کو گمراہ کرنے اور احساس کمتری میں مبتلا کرنے کے لیے گھڑی گئی ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی سچائی ہے بھی تو یہ سب تہذیبیں کفر کی تہذیبیں تھیں اور ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ سچ صرف یہ ہے کہ جو آپ کو بتایا گیا ہے کہ اسلام سے پہلے صرف تاریکی تھی اور آج بھی ہمارے علاوہ سب تاریکی میں ہیں اور سب جہنمی ہیں۔ کفری تعلیم گمراہی کے سوا کچھ نہیں، علم صرف وہ ہے جو قرآن میں لکھ دیا گیا ہے یا حدیثوں میں آیا ہے‘‘۔
اسلام اور رسول اللہﷺ کی تعلیم کا یہ نقشہ ہے جس میں مبالغہ اور نخوت کے رنگ بھرنے پر ایک سے بڑھ کر ایک بہروپیہ لگا ہوا ہے، کوئی رو رو کر دعائیں بیچتا ہے، کوئی ہنس ہنس کر نبیوں سے مصافحہ کی کہانیاں سناتا ہے۔ یہ نقشہ کتنا صحیح ہے اس کا اندازہ اس کے نتائج سے لگایا جا سکتا ہے جو اس مسلم ہجوم کو تنہائی اور تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔
تہذیبی نرگسیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے مریض ایک طرف اپنی تہذیبی شناخت پر فخر کرنے میں دیوانگی کی حدیں چھو لیتے ہیں، تو دوسری طرف فرد اپنی طلب کو پورا کرنے کے لئے پورے معاشرے کو روند کر آگے بڑھنا چاہتا ہے، اور فرد سے فرد کی جنگ ہر سطح پر جاری دکھائی دیتی ہے۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ نرگسیت ایک ایسی نفسیاتی حالت ہے جس میں مریض شدید موضوعیت (Subjectivity) کا شکار ہو جاتا ہے۔ اسے اِرد گرد کی کائنات کا یا تو احساس ہی نہیں ہوتا یا اس حد تک ہوتا ہے کہ کائنات اس کی تعریف میں لگی ہوئی ہے، یا اس سے حسد کرتی ہے۔ اپنے حُسن پر عاشقی کا یہ عالم مریض کو دوسروں کے حسن و خوبی سے یکسر غافل کر دیتا ہے۔ چنانچہ تہذیبی نرگسیت صرف اس حد تک اجتماعی ہوتی ہے کہ اپنی تہذیب پر فخر کرنے والا ہر فرد صرف مجرد تصورات پر فخر کرتا ہے، کوئی زندہ شخص کوئی موجود تہذیبی شکل اسے متاثر نہیں کرتی۔ چنانچہ اسے صرف اپنی پارسائی ، اپنے ایمان کی سچائی، اپنی لگن سچی دکھائی دیتی ہے۔ وہ انکسار کے روایتی فقرے بولتا ہے لیکن اس بات میں بھی اس کا یہ فخر جھلکتا ہے کہ وہ کتنا مٹا ہوا، کتنا جھکا ہوا اور کتنا پرخلوص ہے، وہ نیکی بھی کرتا ہے تو اس فخر کے لئے کہ اس نے نیکی کی ہے، وہ ہر وقت نیکیاں گنتا اور ان کا حساب رکھتا ہے جیسے بینک اکاؤنٹ کا حساب رکھا جاتا ہے۔ وہ دوسروں کو اپنے سے اچھا کہتا ہے تو اس انداز سے کہ سننے والا اس کے انکسار کی داد دے، بالکل اس باڈی بلڈر کی طرح جو دوسرے باڈی بلڈر کے پھولے ہوئے پٹھوں کی تعریف کرتا ہے، اس احساس کے ساتھ کہ دراصل سامنے والا تو کچھ بھی نہیں اور اس توقع کے ساتھ کہ سننے والا اس سے بھی بڑھ کر اس کی تعریف کرے گا۔ تہذیبی نرگسیت صرف اس حد تک اجتماعی ہوتی ہے کہ یہ نرگسیت کے شکار افراد کا ایک اجتماع ہوتا ہے جس میں ہر شخص اس اجتماع کے کندھے پر سوار ہو کر اپنی ذات کی فتح و فضیلت تلاش کرتا ہے۔ لہٰذا بدنظمی اس تہذیب کا ایک لازمی جزو ہوتی ہے۔ بدنظمی اور نفسانفسی لازم و ملزوم ہیں۔ ان کے ملاپ سے قانون شکنی اور لاقانونیت جنم لیتی ہیں۔ ایسے معاشرہ میں اخلاقیات اور تخلیقی عمل کی حیثیت ایک خارجی کی سی رہ جاتی ہے۔
ہماری نرگسیت کا مرکزی احساس اس دعویٰ سے ہوتا ہے کہ ’’ہم تحریک اسلامی کا ہراول دستہ ہیں ، کیونکہ یہ ملک اسلام کے نام پر لیا گیا تھا‘‘۔ یوں لگتا ہے جیسے مولانا مودودی مرحوم، ان کی تحریک اور وہ عناصر جو تقسیمِ ہند سے پہلے قیامِ پاکستان کے سخت دشمن تھے، جن کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ تحریک پاکستان کی قیادت (قائد اعظم کو کافر اعظم کہتے تھے) صرف اسلام کا نام استعمال کر رہی ہے۔ یہ مٹھی بھر لوگ پاکستان بنانے والی آبادی کو اسلام کا نام لینے کی سزا دینے پاکستان میں آگئے، اور آہستہ آہستہ پاکستان کے وجود پر آکاس بیل کی طرح چھا گئے، اب یہ تہذیبی نرگسیت کے زرد بخار میں پھنکتی ہوئی اس قوم کو اُس آخری جنگ میں جھونکنے کے لئے تیار کر رہے ہیں جہاں نیم بے ہوشی میں یہ خودکش حملہ آور تھوڑی سی تباہی مچا کر جان سے گزر جائے۔ یہ بات اگر ہم سمجھنے سے قاصر رہے تو ہماری تاریخ لکھنے والا لکھے گا کہ اس ملک کا بدترین دشمن صرف وہ منظم مذہبی طبقہ نہ تھا جو پاکستان بنتے ہی یہاں وارد ہوا اور جس نے جاگیرداروں اور سپہ سالاروں سے مل کر ہمارے فکری وجود کو ایک ایسے کینسر میں مبتلا کر دیا جس کا علاج اس لئے ممکن نہ تھا کہ اسے دین سے محبت کا نام دیا گیا تھا، بلکہ ایک قوم کی حیثیت سے ہم سب بالخصوص ہمارے دانشور اس تباہی کے ذمہ دار تھے کہ جنہوں نے آکاس بیل کو اپنے اوپر مسلط ہونے دیا۔
تہذیبی نرگسیت میں مبتلا کر دینے کے بعد دین سے محبت کے نام پر ہمارے لوگوں کو اس بات پر ابھارا جاتا ہے کہ وہ شَب و روز کچھ اور سیکھنے کی بجائے صرف اسلام کی عظمت کا بیان سیکھیں۔ ہر روز اخباروں میں، ٹی وی چینلز پر ، جمعہ کے خطبوں میں، شبینہ محافل میں، عید میلادالنبی جیسے تہواروں پر، رمضان کے پورے مہینے میں اور مختلف دینی اجتماعات میں بار بار گلہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اسلام کو بھلا دیا اور دنیا کو گلے لگا لیا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس قوم کو اس بات پر تیار کیا جا رہا ہے کہ سال کے 365 دن چوبیس گھنٹے طالبان کے اشاروں پر ناچا کریں، جن کے نمائندے شہر شہر گلی گلی پھیل کر اسلامی غیرت کا پرچار کر رہے ہیں۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ ہم نے اسلام کو ادیانِ عالم پر غالب کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارا اولین فرض ہے جس کے لئے جہاد ہم پر فرض کیا گیا ہے۔ بار بار کہا جاتا ہے کہ ساری دنیا کو اسلام کے ماتحت لانا ہم پر فرض کیا گیا ہے کیونکہ ہم بہترین اُمت ہیں، اسلام کو غالب کرنے یعنی جہاد کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے کی تلقین کرنے یا اس پر اکسانے کا مقدس فریضہ علماء کی جماعت پر عائد ہوتا ہے، کیونکہ اللہ نے اس کا حکم دیا ہے۔ جب سننے والے کا ذہن اس مفروضہ پر قائم ہو جاتا ہے کہ تو پھر طالبان کے عظیم رول کا ذکر شروع ہوتا ہے جو طاغوتی اور ابلیسی قوتوں کو شکست دے کر اسلام کا غلبہ مکمل کرنے اٹھے ہیں۔ فی الحال القاعدہ کی تعریف کرنے سے گریز کیا جاتا ہے لیکن یہ مرحلہ زیادہ دور نہیں۔ جب لوگ طالبان کو اپنے مستقل رہنما مان لیں گے تو بتایا جائے گا کہ طالبان کو اس عظیم الشان سطح پر منظم کرنے کا سہرا تو دراصل القاعدہ کے سر پر ہے اور نئے دور کے امیر المومین شیخ اُسامہ بن لادن یا کوئی دوسرے عرب شیخ صاحب ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بڑھتی ہوئی دیوانگی سے اختلاف کرے ، حتیٰ کہ اسلام کا پرامن چہرہ دکھانے کی کوشش کرے تو اسے تشدد بلکہ موت کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اخباری خبروں کے مطابق ایک متوازن مسلم سکالر کو ایک سے زیادہ مرتبہ بارود کی قوت سے دھمکایا گیا ہے۔
قطع نظر اس کے یہ دعوے جو ہمارے معاشرہ کے بڑھتے ہوئے فکری انحطاط کا سبب بن رہے ہیں، علمی سطح پر کتنے ناقص ہیں، ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ اس تہذیبی نرگسیت کا جواز اسلامی تعلیمات میں کتنا ہے؟ ایک ایک کر کے چند دعووں کو دیکھتے ہیں۔
URL for Part 17:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-17/d/97821
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-18/d/97873