مبارک حیدر
نرگسیت اور خوش فہمی
یاد دہانی کے لئے یہ کہنا ضروری ہے کہ جب ہم نرگسیت کا ذکر کرتے ہیں تو ہر بار ہماری بحث صرف مریضانہ نرگسیت سے ہوتی ہے۔ صحت مند خود اعتمادی، مسابقت کی خواہش، خودشناسی، خودبینی اور خودنگری شخصیت کی صحت مند شکلیں ہیں جنھیں بعض اوقات صحت مند نرگسیت بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن ہماری بحث مریضانہ نرگسیت سے ہے۔
نرگسیت اور خوش فہمی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ خوش فہمی کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ خود تنقیدی کی صلاحیت کمزور ہوتے ہوتے مر جاتی ہے۔ چنانچہ جب آپ اپنی اچھائی برائی کا بے لاگ جائزہ لینے سے قاصر ہو جاتے ہیں تو شخصیت کی نشوونما رک جاتی ہے۔ اجتماعی سطح پر پھیلائی جانے والی خوش فہمیاں تہذیبی خوش فہمی کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ اور ان کے بھیانک نتایج آزمائش کے سخت مراحل پر سامنے آتے ہیں۔ مثلاً اگر ہمیں یہ خوش فہمی ہے کہ ہم نے روس کو تباہ و برباد کر دیا، اور ہماری طاقت کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا، جبکہ حقیقت کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے ہم نے کچھ کیا ہی نہیں، یعنی روس والے دعوے سے پہلے 1971ء کی جنگ میں ہماری کارکردگی کیا تھی، اس کو ہم بھول چکے (اس تکلیف دہ صورتحال کی ذمہ داری ہم نے اپنے امریکی حلیفوں کی غداری پر ڈال دی تھی۔ یعنی اپنی شکست کو دوسروں کے قصور کی شکل میں اپنے ضمیر سے ہٹا دینا) اور اس کے بعد کارگل کا واقعہ بھی ہم نے توجہ کے لائق نہیں سمجھا، پھر ہم نے یہ خبر بھی سنی ان سنی کر دی کہ ہمارے ایٹمی اثاثوں پر امریکہ نے ایسے کوڈ نصب کر دئیے ہیں جن کو صرف امریکی ماہرین ہی کھول سکتے ہیں، چنانچہ الہ دین کا ایٹمی جن شاید امریکہ اور پاکستان کے مشترکہ چراغ کا اشارہ دیکھے گا۔ ہم نے اپنی مملکت کی اس حالت کو بھی کبھی اہمیت نہیں دی جو کبھی جامع حفصہ کے آگے جواب دہ ہوتی ہے اور کبھی اس کے قبائلی اساتذہ اسے شریعت نافذ نہ کرنے پر کان پکڑواتے ہیں، جس بے چاری مملکت کو عوام کے لئے گندم اور بجلی مہیا کرنا ، امن و امان قائم کرنا تک ناممکن ہو گیا ہے، وہ مملکت جو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر دنیا سے ٹکڑے ٹکڑے کی محتاج ہو گئی ہے، اس مملکت کو اگر کسی اور جنگ میں جھونک دیا جائے تو کیا مدمقابل اسلام کا احترام کرتے ہوئے اس کے آگے ہتھیار ڈال دے گا؟۔ بھارت کے مسلمانوں کو عالمی اسلامی مملکت کے خواب دکھاتے رہنا اور حتی المقدور انہیں اپنی سرزمین سے نفرت پر اکسانا ، اس خوش فہمی کا نتیجہ ہے جو تہذیبی نرگسیت کی بدترین علامتوں میں سے ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب موصوف جیسے بزرگ تہذیبی نرگسیت کی تبلیغ کرتے ہیں تو بہت سے سادہ لوح نوجوان علم و دانش، تحقیق و جستجو اور جمہوری افکار سے متنفر ہو کر نرگسیت کے یرقان میں مبتلا ہو جاتے ہیں، جس میں ساری دنیا زرد رو، تھکی ہوئی نظر آتی ہے، جیسے فتح ہونے کے لئے ہمارے بس ایک نعرے کی منتظر ہے۔
اس طرح کی نرگسیت کی ایک مثال اور دیکھیں۔ یہ کسی گلی محلہ کے سکول میں بچوں کے تقریری مقابلہ میں کی گئی تقریر نہیں۔ مؤقر روز نامہ نوائے وقت 26 اکتوبر 2008ء کے ادارتی صفحہ پر ایک مؤقر کالم کار کی تحریر ہے جس پر کسی تبصرہ کی گنجائش نہیں۔
’’ مثل مشہور ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ جب روس کی شامت آئی تو اس نے افغانستان کا رخ کیا۔ اب امریکہ کی بربادی اسے پاکستان کی طرف کھینچ کر لا رہی ہے۔ امریکہ کو شاید علم نہ ہو کہ پاکستانی قوم کیاہے۔ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کن صلاحیتوں کی مالک ہے۔ یہ پاک فوج اور آئی ایس آئی ہی تھی کہ جس کے تعاون سے امریکہ نے طالبان کے ذریعے روس کو شکست سے دوچار کیا۔۔۔
’’ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ اگر امریکہ نے پاکستان پر جارحیت کی جسارت کی تو۔۔۔‘‘
پھر لکھتے ہیں:
’’ شکست خوردہ روس اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے امریکہ کے خلاف پاکستان کی بھرپور مدد کرے گا اور چین بھی جو امریکہ کی بھارت نوازی سے نالاں ہے۔۔۔
’’ پاکستان کی ایک آواز پر دنیا بھر سے مجاہدین امریکہ کے خلاف لڑنے کے لئے جمع ہو جائیں گے۔ عرب ممالک اعلانیہ نہ سہی، واحد اسلامی ایٹمی طاقت پاکستان کی ہر طرح سے امداد کریں گے۔ امریکہ کے خلاف ڈٹ جانے والا ایران بھی یہ موقع جانے نہیں دے گا اور پاکستان کا بھرپور ساتھ دے گا۔ اور تو اور پاکستان کی گلیوں محلوں میں پھرنے والے اور تھڑوں پر بیٹھنے والے نوجوان بھی ہاتھوں میں لٹھ لے کر پرجوش انداز میں امریکہ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ اور پھر ’ ہر گھر سے مجاہد نکلیں گے، تم کتنے مجاہد مارو گے‘ والی صورت حال ہو گی۔ آئی ایس آئی ان نوجوانوں کی پندرہ دنوں میں ایسی تربیت کر دے گی جو امریکی ایجنسیاں پندرہ سال تک بھی نہیں کر سکتیں۔ اور سب سے بڑھ کر جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت ہے جو مسلمانوں کے علاوہ کسی قوم میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا ‘‘۔
پھر ایک تجویز دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اُن کے عہدے پر بحال اور فعال کر دیا جائے تو پاکستان سے ایسے میزائل پرواز کریں گے جن کا نشانہ امریکہ اور پشت پناہ اسرائیل ہونگے۔۔۔
’’ اگر امریکہ نے پاکستان کے ساتھ ماتھا لگایا تو اس کے لئے افغانستان میں ٹھہرنا بھی مشکل ہو جائے گا اور امریکہ اپنے تکبر سمیت اپنی معیشت کی طرح تباہ ہو جائے گا۔۔۔‘‘
آخر میں اللہ میاں کو براہ راست شریک جہاد کر لیتے ہیں:
’’بظاہر یہ سب ناممکن لگتا ہے لیکن چشم فلک نے ابابیلوں کے گرائے ہوئے کنکروں سے ہاتھیوں اور ہاتھی والوں کو برباد ہوتے دیکھا ہے۔ تین سو تیرہ کو کئی گنا اکثریت پر غالب آتے دیکھا ہے۔ امریکہ کو برباد ہوتے ہوئے چشم فلک ہی نہیں ہم بھی دیکھیں گے۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘۔
مندرجہ بالا بیان میں اگر کوئی کوتاہی ہے تو صرف اتنی کہ یہ اس تہذیبی نرگسیت کا کھلم کھلا اظہار ہے جو ڈاکٹر صاحب محترم جیسے علما کے ہاں نفاست سے بیان ہوتی ہے۔
URL for Part 16:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-16/d/97749
URL for this part:
https://newageislam.com/urdu-section/cultural-narcissism-part-17/d/97821