مشیل ہیلسٹن
18 اکتوبر ، 2013
بہت سے مغربی لوگ جب یہ سنتے ہیں کہ مسلم خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے تو وہ نفرت و کراہت کا برملا اظہار کرتے ہیں، لیکن کیا اسلام واقعی ایک ایسا مذہب ہے جس میں جنسی تعصب کا عنصر شامل ہے؟ قرآن اور مذہب کے تاریخی سیاق و سباق کے گہرے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو صنف نازک کو پوری آزدی فراہم کرتا ہے ۔
رواں ماہ کے اوائل میں سعودی عرب سے ایک مضحکہ خیز "رپورٹ " آئی کہ ایک سعودی عالم نے خبردار کیا ہے کہ ڈرائیونگ کرنے سے عورت کی بیضہ دانی پر منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ اس رپورٹ کے ذریعہ عورتوں پر ڈرائیونگ کی پابندی سے متعلق سعودی قانون کا جواز سائنسی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔
بدقسمتی سےاس طرح کی رپورٹیں اب مغربی سامعین کو حیرت زدہ نہیں کرتیں ۔ (ان کے درمیان) یہ نقطہ نظر عام ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اسلام نے ایک جدید زن بیزار معاشرے کو فروغ دیا ہے جو اکثر مسلم ممالک میں پایا جاتا ہے ۔
ایک ہیبتناک اور بربریت سے بھرا ہوا خواتین کے ختنے کا عمل جس میں لڑکی کے بیرونی تولیدی حصے کو جماع میں لذت سے عورتوں کو محروم کرنے کے لئے کاٹ دیا جاتا ہے اب بھی بڑے پیمانے پر افریقہ اور مشرق وسطی کے بعض حصوں میں رائج ہے ۔ ایران، افغانستان، یمن ، سعودی عرب، لبنان اور مصر میں روایتی ثقافتوں کی وجہ سے خواتین کو کاروبار کرنے ، جائیداد کا مالک بننے اور یہاں تک کہ باہر جانے جسے ناگزیر حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا ہے ۔ ایران میں معاہدے پر مبنی عارضی شادیوں کی شکل میں عصمت فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ شادی سے پہلے جنسی تعلقات میں ملوث ہونے والی عورتوں کو خاندان کی عزت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش میں اکثر خاندان کے ارکان ہلاک کردیتے ہیں۔ ایک ٹرسٹ لاء نے ریوٹرز پر ایک سروے شائع کیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ افغانستان ایک ایسا ملک جسے اکثر اس کے سخت اسلامی شرعی قوانین کے لیے جانا جاتا ہے خواتین کے لئے پوری دنیا میں سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے ۔ انہوں نے افغانستان کی درجہ بندی کانگو سے بھی اوپر کی ہے جہاں ایک دن میں 1,150 خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے ۔
یہاں تک کہ اعتدال پسند مسلم ثقافتوں میں بھی خواتین کو شادی سے باہر جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے ، ان کے ساتھ عوامی طور پر ملاعبت کی جاتی ہے اور انہیں انفرادی آزادی سے محروم کیاجاتا ہے ۔ اور رشتۂ ازدوج میں مرد اپنی بیویوں کو زد کوب کرتے ہیں اور ان کے پہننے کے کپڑے کی مقدار کا تعین کرتے ہیں ۔ قرآن واضح طور پر تعدد ازدوج اور بیویوں کو زد کوب کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔
مظالم کے ان مجموعہ کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اسلام میں جنسی تفریق کا عنصر شامل ہے ۔ تاہم قرآن اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تعلیمات اور ان کے اثر و رسوخ نے جزیرہ نما عرب کے سفاکانہ کافروں سے خواتین کو آزاد کرا لیا ۔
ایام جاہلیت میں اللہ کا اپنے بندوں کے ساتھ رابطہ بنانے سے پہلے عورتیں تمام حقوق سے محروم تھیں ۔ تمام قبائل میں مختلف قسم کے برے برتاؤ رائج تھے لیکن بچیوں کو زندہ درگور کر دینا وہاں ایک عام روایت تھی ، خواتین کو شادیوں اور عارضی شادیوں پر مجبور کیا جاتا تھا اور اکثر ایسی خطرناک شادیوں سے نجات کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا ۔ یقینا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک ایسے معاشرے کو تسلیم کیا تھا جس میں پیدرانہ نظام رائج تھا ، لیکن انہوں نے عورتوں کے ساتھ ان کے حقیقی وقار کے ساتھ پیش آ کر جزیرہ نما عرب میں انقلاب پیدا کر دیا۔
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت اور آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پہلی زوجہ خدیجۃ الکبریٰ ایک غیر معمولی خاتون تھیں - وہ ایک امیر تاجر تھیں جنہوں نے دراصل ان کی شادی سے پہلے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ملازمت دی تھی ۔ انہوں نے تجارت کا انتظام کیا اور وہ غیر شادی شدہ تھیں ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے ان کے طرز حیات کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں شادی کے لئے موزوں پایا ۔ ناقدین فوری طور پر یہ کہتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خدیجۃ الکبریٰ کے بعد دس شادیاں کی تھیں لیکن وہ شادیاں زیادہ تر سیاسی تھیں ۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خاندانوں کو متحد کرنے کے لئے، اپنے پیغام کو پھیلانے یا اپنے مرحوم دوستوں کی بیواؤں کی ذمہ داری سنبھالنے کے لئے شادیاں کیا کرتے تھے ۔
قرآن کی بہت ساری سورتوں کی آزاد خیال مغربوں اور سلفی مسلمانوں نے جبر کا جواز پیش کرنے کے لئے غلط تشریح کی ہے ۔ خاص طور پر اکیلے سفر کرنے سے خواتین کو روکنے کا قانون (جسے سعودی حکام ڈرائیونگ سے خواتین کو روکنے کے لئے استعمال کرتے ہیں) دراصل اس بات کو یقینی بنانے کی طرف ایک ممتاز اشارہ تھا کہ وہ مختلف شہروں کا سفر کرتے وقت محفوظ ہیں ۔ سورہ 4.3 میں اللہ تعدد ازدوج کی ترغیب دیتا ہے ۔ تاہم اس آیت کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ خواتین کا بھی ایک مکمل خاندان ہو سکتا ہے اور اسے بھی مادی تعاون حاصل ہونا چاہئے اس لئے کہ اس زمانے میں عورتوں کے لئے گزربسر کرنے کا واحد راستہ شادی ہی تھا ۔ اس کے باوجود اگر کسی مرد کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ بیوی کے اخرجات اور نان و نفقہ کا بار نہیں اٹھا سکتا تو وہ شادی نہیں کر سکتا: ‘‘اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارےانصاف نہ کرسکوگے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) ۔۔۔ اورقرآن سورہ 4.24 میں شادی میں مردوں کے غلط ارادوں پر پابندی لگاتا ہے جب وہ یہ حکم دیتا ہے کہ " اور عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کرلو بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت رانی ۔ "
سورہ 4.34 میں مرد کو اس بات کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو مار سکتا ہے ۔ ظاہر ہے یہ ایک جارحانہ حکم ہے بہت سارے غیر مسلم اس آیت کے تئیں نفرت کا اظہار کرتے ہیں ۔ لیکن اس دور میں جسمانی سزا کسی بھی ثقافت میں ممنوع نہیں تھی ۔ مزید برآں یہ کہ اس کی اجازت اس صورت میں ہے کہ جب بیوی شوہر سے مالی طور پر غلط فائدہ اٹھاتی ہو، اور یہ ایک اچھے حکم کے بعد ہے کہ " شوہر اپنی بیویوں کی اچھی دیکھ بھال کریں ۔"
نہ صرف یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور قرآن نے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کئے، قرآن نے سورہ 9.71 میں خواتین کے مساوات کے لئے ایک بنیادی اور اقدامی موقف اختیار کیا ہے : " اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں" اخلاقی احکام میں مردوں اور عورتوں دونوں کو شامل کر کے اللہ نے ایک عورت کی انفرادی آزادی کی توثیق کی ہے ۔
اسلام اور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دل خواتین کو ان مظالم سے آزاد کرانے کی طرف مائل تھا جس کا سامنا انہوں نے زمانہ جاہلیت میں کیا تھا ۔ افسوس کی بات ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ قرآن کے پیغام کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔ اللہ کے قوانین پر عمل کرنے اور اس کو خوش کرنے کی کوشش میں مسلم ممالک کے بہت سے مردوں نے اسلامی ہدایات کی اصل روح کو فراموش کر دیا ہے ۔ دراصل قرآن کے الفاظ کو خلط ملط کر کے پیش کیا گیا ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
ماخذ: http://dailycaller.com/2013/10/18/mohammed-the-feminist/2URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/mohammed,-feminist/d/14066
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/mohammed,-feminist-/d/14142