New Age Islam
Mon May 12 2025, 02:43 PM

Urdu Section ( 23 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Misuse of Blasphemy in Pakistan, Un-Islamic, but how long? پاکستان میں توہین مذہب کا غلط استعمال ، غیر اسلامی ، مگر آخر کب تک ؟

غلام غوث صدیقی ، نیو ایج اسلام

23مارچ،2024

پاکستان میں توہین رسالت کا قانون جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہونے والی آئینی ترامیم کے بعد سے متنازع رہا ہے   اور اب تک ان گنت کیسیز ایسے واقع ہوئے ہیں جن میں جھوٹے الزامات لگائے گئے  اور  توہین ثابت نہیں ہوئی لیکن پھر بھی مجرموں نے قانون ہاتھ میں لیکر خود ہی ملزم کو موت کے گھاٹ اتارا ۔ کچھ کیسیز ایسے تھے جن میں ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے توہین مذہب کا الزام لگایا گیا اور پھر نتیجہ یہ ہوا کہ بے گناہ شخص کا قتل کر دیا گیا ۔ خبر ہے کہ جب سے پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین میں 1987ء میں دفعہ 295-B  اور 295-C  کا اضافہ کیا گیا تب سے توہین مذہب کے الزامات سے متعلق کیسز کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ۔ 1987ء سے 2017 ء کے درمیان پاکستان میں ایک ہزار پانچ سو چونتیس افراد پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے جن میں سے 829 الزامات یعنی  54 فیصد مذہبی اقلیتوں کے خلاف لگائے گئے۔ کرسچینز پاکستان کی کل آبادی کا صرف 1.6 فیصد بنتے ہیں، 238 الزامات یعنی 15.5 فیصد عیسائیوں کے خلاف لگائے گئے۔ مذہبی اقلیتوں کے علاوہ ، کئی مذہبی شخصیات کو بھی توہین مذہب کا الزام لگاکر موت کے گھاٹ اتارا گیا ۔ پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں پی ٹی آئی کی ایک ریلی کے مشتعل شرکاء نے چالیس سالہ ایک مقامی مولانا نگار عالم کو توہین مذہب کے الزام میں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا  ۔ رپورٹ کے مطابق مقتول نے جو دعا کروائی، اس میں چند الفاظ کو کئی شرکاء نے توہین مذہب کا باعث بننے والے کلمات جانا اور اس کے بعد مولانا نگار عالم پر تشدد شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے ۔

پاکستان میں توہین مذہب کا قانون ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جس کا غلط استعمال ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ لیکن مارچ ۲۰۲۲  میں ایک ایسا حیران کن واقعہ سامنے آیا جس نے تمام مذہبی اور غیر مذہبی حلقوں  کو چونکا دیا ۔  ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم آباد میں تین طالبات نے  مل کر مدرسہ کی اپنی معلمہ کو گلے پر چُھری پھیر کر قتل کر دیا تھا۔اس واقعے کی تفتیش   کے بعد   ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ڈیرہ اسماعیل خان نے بتایا کہ ’ان خواتین سے ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان خواتین کی ایک اور رشتہ دار نے خواب میں دیکھا تھا کہ مقتولہ نے توہین مذہب کی ہے جس کی وجہ سے انھوں نے قتل کیا۔‘  یہ مقدمہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک جاری رہا اور پھر مقامی عدالت نے اپنی استانی پر توہین مذہب کا الزام لگا کر انہیں قتل کروانے والی مدرسے کی دو طالبات کو سزائے موت اور تیسری کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

واقعہ کی تفصیل

توہین مذہب کے الزام میں ایک ۱۹ سالہ  مدرسہ کی معلمہ صفورا بی بی کے قتل کا واقعہ ۲۹ مارچ ۲۰۲۲   کو  ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے انجم آباد کے مدرسے جامعہ اسلامیہ فلاح البنات کے باہر پیش آیا تھا، جس کے بعد مقامی افراد کی اطلاع پر پولیس نے تینوں خواتین کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا تھا۔رپورٹ کے مطابق  مقتولہ اور ان پر حملہ کرنے والی خواتین کا تعلق ایک ہی گھرانے سے تھا۔  وہ اکھٹے ایک ہی مدرسے میں پڑھتی تھیں اور ان کے آپس میں علمی اختلافات رہے ہیں۔ حملہ آور خواتین نے مقتولہ کے گلے کو تیز دھار چھری سے کاٹا تھا ، جس سے وہ موقعے پر ہی دم توڑ گئی تھیں۔ جب مقتولہ کے چچا کو اس دردناک واقعہ کی خبر ملی تو وہ فوراً مدرسے پہنچے اور پھر دیکھا کہ ان کی  بھتیجی  مدرسے کے گیٹ کے ساتھ خون میں لت پت ہے ، اس کا گلہ کٹا ہوا تھا اور اس کی موت ہوچکی تھی۔مقتولہ کے چچا کے مطابق ان کو معلوم ہوا کہ حسب معمول جب ان کی بھتیجی رکشے پر مدرسے پہنچی تو وہاں پہلے سے ہی مدرسے کے یونیفارم میں چند خواتین موجود تھیں جنھوں نے تیز دھار آلے سے حملہ کیا اور ان کی بھتیجی کا گلہ کاٹ دیا۔ پولیس کے مطابق قتل میں ملوث دو خواتین آپس میں بہنیں ہیں جبکہ تیسری خاتون ان ہی کی ایک کزن ہیں۔ گرفتار خواتین میں سے ایک نے پولیس کو بتایا کہ ان کی ایک کم عمر بھتیجی کو خواب میں بتایا گیا تھا کہ ’’اس  معلمہ خاتون کو قتل کر دو۔‘‘

جامعہ اسلامیہ فلاح البنات میں درس و تدریس سے منسلک اور مالک شفیع اللہ نے استانی کے قتل کے بعد میڈیا کو بتایا تھا کہ حملہ آور ’خواتین میں سے ایک نے کچھ عرصہ قبل ان کے مدرسے پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہاں صحیح درس نہیں دیا جاتا اور اس میں پڑھانے والے گستاخ ہیں۔‘  تاہم ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں اس خاتون نے اپنی اس بات کی معافی بھی مانگی لی تھی۔ شفیع اللہ نے مزید بتایا تھا: ’صفورا بی بی گذشتہ دو سال سے ہمارے مدرسے میں پڑھاتی رہی ہیں۔ وہ ایک شریف اور نہایت اچھا اخلاق رکھنے والی لڑکی تھیں۔ انہوں نے کبھی پیغمبر اسلام کے خلاف کسی قسم کی گستاخانہ بات نہیں کی۔‘‘

پاکستانی   عدالت نے حملہ آور خواتین کو قانونی طور پر سزا سنا کر اس واقعہ کو دوسرے شہریوں کے لیے  عبرت تو بنا دیا مگر یہاں غور و فکر کرنے کا مقام ہے ۔ کتنی بے وقوفی کی بات ہے کہ خواب میں توہین مذہب پر قتل کرنے کا حکم لگایا جا رہا ہے ۔پاکستان میں توہین مذہب کا غلط استعمال کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے  بلکہ یہ معمول بن چکا ہے ۔ کبھی ذاتی دشمنی کی بنیا د پر ، کبھی فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر ، تو کبھی مذہبی بنیاد پر ، توہین مذہب کا الزام لگا کر ، حملہ آور  اپنے ’’دشمن ‘‘ کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنی انا کو تسکین دیتے ہیں ۔ ۲۰۲۰ میں وزیرِ اعظم پاکستان کے نمائندۂ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مشرقِ وسطیٰ اُمور حافظ طاہر اشرفی نے  خود اس بات کا اعتراف کیا  تھا  کہ ملک میں مذہبی قوانین کا غلط استعمال اور مذہب کی جبراً تبدیلی کے واقعات ہوتے ہیں۔ اسی سال اسلام آباد میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں حافظ طاہر اشرفی نے بتایا کہ حکومت مذہب کے نام پر ہونے والے جرائم کے حالیہ واقعات پر مبنی ایک رپورٹ تیار کر رہی ہے جس میں مذہب کی جبراً تبدیلی، توہینِ مذہب قانون کے غلط استعمال، کسی غیر مسلم کے ساتھ زیادتی سمیت مذہبی اور مسلکی اختلافات کے واقعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں توہینِ مذہب کے قانون کے غلط استعمال کو خاطر خواہ حد تک روکا کیا گیا ہے اور اس کی شق 295 سی کے تحت غلط مقدمات کے اندراج کی شرح میں بھی کمی آئی ہے۔دوسری جانب پاکستان میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے لیے کام کرنے والے اداروں کے مطابق ملک میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز اور غیر مسلموں کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

سوال یہ ہوتا ہے کہ  پاکستان میں آخر توہین مذہب کا غلط استعمال پوری طرح کیوں بند نہیں ہو رہا ہے ؟ اس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے ؟ اسلام کی رو سے اگر دیکھا جائے تو اسلام ہرگز ایسے واقعات کا جواز نہیں دیتا ۔ تو پھر ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلام اس کا جواز نہیں دیتا تو پھر کیا وجہ ہے ؟ کیا یہ سب کچھ جہالت کی وجہ سے ہو رہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ پاکستان میں جہالت بہت عام ہے اور بیشتر معاملات کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں نے اپنی جہالت   کو مذہب کا نام دے رکھا ہے ۔  کیا انہوں نے اپنے شخصی اور نفسانی خیالات کو اسلام سمجھ رکھا ہے ؟  لگتا تو ایسا ہی ہے ۔

بات اگر جہالت کی ہے تو پھر اس جہالت کو ختم کرنے کے لیے کیا کوششیں ہو رہی ہیں ؟  سوشل میڈیا پر ہم دیکھتے ہیں  کہ پاکستان کے دینی اور مذہبی جلسوں اور پروگرامزمیں ایک نعرہ بہت زور و شور سے لگایا جاتا ہے کہ ’’گستاخ نبی کی سزا سر تن سے جدا ‘‘۔  کتب فقہ میں یہ دلیلیں موجود ہیں کہ گستاخ نبی کی سزا موت ہے اور سزا دینے کا اختیار صرف عدالت اور حاکم وقت کو ہے ۔جس زور و شور سے توہین مذہب  کی مذمت  میں تقریریں کی جاتی ہیں اسی انداز میں توہین مذہب کے غلط استعمال کی مذمت کیوں بیان نہیں کی جاتی ؟ یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ توہین مذہب پر سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کو ہے ۔یقینا کچھ علمائے کرام سے میں نے سنا ہے کہ سزا دینے کا اختیار صرف عدالت کو ہے ۔مگر جس قدر پاکستان میں توہین مذہب کا غلط استعمال ہو رہا ہے ، ایسی حالت میں علمائے کرام کو چاہیے کہ وہ  بڑے پیمانے پر  اپنی تقریروں میں لوگوں کو بتائیں  کہ توہین مذہب کا غلط استعمال سراسر اسلام اور ملکی قانون کے خلاف ہے اور یہ کہ توہین کو ثابت کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ، سزا دینے یا  رہا  کرنے کا اختیار صرف عدالت کو ہے۔ کسی عام انسان کو یہ حق نہیں کہ وہ خود  قاضی بن کر توہین  کے ثابت ہونے کا فیصلہ کرے اور قانون ہاتھ میں لیکر  کسی بھی ملک کا ماحول خراب کرے ۔  ایک پہلو یہ بھی ہے کہ  بعض مسلم عوام اچھی باتوں پر عمل نہیں کرتی۔ انہیں نماز جیسی عظیم عبادت کی تعلیم دی جاتی ہے  مگر اکثر مسلمان  نماز نہیں ادا کرتے  ۔ اسی طرح دیگر مسائل میں بھی وہ دینی اعمال پر توجہ نہیں دیتے ۔  اس سے مسلم عوام کے حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

یہ تو بات تھی پاکستان کی ۔ہمارے ملک ہندوستان  کے قانون میں  اگرچہ توہین مذہب کے جرم کے ارتکاب پر مجرم کی  سزائے موت  کا تعین  تو نہیں ہے مگر   ہمارا ملک کسی   مذہب یا مذہبی رہنما کی توہین کی اجازت نہیں دیتا۔اگرچہ  سزائے موت کا قانون تو نہیں ہے مگر ۲۰۲۲ میں   ریاست راجستھان کے اودے پور میں ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں دو مسلم نوجوانوں نے ایک ہندو درزی  کنہیا لال کو  بے رحمی سے قتل کرنے کے بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈال دی تھی ۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس دردناک واقعے کی پر زور مذمت کی تھی  اور قانون کے مطابق مجرمین کو سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔بنگلہ دیش میں بھی اس طرح کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔

توہین مذہب کا مسئلہ یقینا ایک گمبھیر مسئلہ ہے ۔ توہین ، گالی گلوج ، گستاخی ، خواہ کسی مذہب کی ہو ، یا مقدس کتاب کی ، یا پھر کسی ملک کی توہین ہو ، یقینا یہ بری بات ہے ۔ اس سے فساد پیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی مقدس کتاب قرآن عظیم نے غیر مسلموں کے مذہب کی توہین کرنے سے بھی منع کیا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہو یا کوئی دوسرا مذہب ، اس کے ماننے والوں کا دل اس سے جڑا ہوتا ہے ، یہ اس کی آستھا کا معاملہ ہے ، لہذا کسی کے ایمان اور آستھا کی توہین کی گئی تو اس سے ملک اور سماج کا ماحول بگڑ سکتا ہے ۔ اسلام نے قطعی طور پر اس عمل سے مسلمانوں کو منع کیا ہے ۔ لیکن دوسری طرف توہین مذہب کے غلط استعمال سے بھی ملک کے امن و امان بگڑنے اور فساد پیدا ہونے کا خطرہ ہے ، اس لیے اسلام اس کی بھی بھرپور مذمت کرتا ہے  ۔ فساد کسی بھی نوعیت کا ہو ، اسلامی کتابوں میں اس کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے ۔

آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ توہین مذہب کے غلط استعمال سے کتنی جانوں کا نقصان ہو چکا  ہے ۔ مدرسہ کی معلمہ صفورا بی بی کے واقعہ پر ہی غور کیجیے کہ ان کی جان چلی گئی اور پھر اس کے نتیجے میں حملہ آور دو خواتین کو بھی عدالت نے سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا سنائی ۔   ہم سب کے لیے یہ واقعہ عبرت کا مقام ہونا چاہیے اور ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ  ہم ایسا لائحہ عمل تیار کریں جس سے  ایسے واقعات کو  پوری طرح ختم  کیا جا سکے ۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں ، انہیں چاہیے کہ اس معاملہ پر غور کرے اور اس کا متفقہ طور پر  حل نکالے ۔ایسا کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اس سے نہ صرف یہ کہ غیر مذہبی بلکہ مذہبی حلقوں میں بھی  مذہب سے بد ظنی  اور بے زاری کا ماحول پیدا ہوتا ہے اور بالخصوص اسلاموفوبک مائنڈ کو خوب موقع ملتا ہے کہ وہ سیدھے دین اسلام پر انگلی اٹھانا شروع کر دیتے ہیں  جبکہ یہ حقیقت ہے کہ دین اسلام  ایسے  واقعات کا بالکل بھی جواز پیش نہیں کرتا  بلکہ دین اسلام تو جھوٹ ، فریب ، دھوکہ اور جھوٹے الزامات کو سختی سے منع کرتا ہے ۔ 

-------

غلام غوث صدیقی نیو ایج اسلام کے مستقل کالم نگار ہیں ۔

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/misuse-blasphemy-pakistan-un-islamic/d/131985

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..