مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
9 جون 2017
شیخ نجدی مذہبی عصبیت، تشدد، انتہاپسندی اور عدم رواداری کی جو تحریک لے کر اٹھا تھا اسے ابن سعود کے ساتھ اس کے اس تاریخ ساز معاہدے سے تقویت ملی۔ ایک کو ایک جنگجو جماعت کی عسکری قوت حاصل ہوئی جبکہ دوسرے کو ایک گم گشتہ راہ اور انتہاپسند مذہبی قیادت کی پشت پناہی حاصل ہوئی۔ ان دونوں باطل پرست قوتوں نے ایک ساتھ مل کر دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کی کیسی کیسی داستانیں رقم کیں ان کا ہم سرسری طور پر جائزہ ان کے ہم عصر علماء کی تحریروں کی روشنی میں لیں گے۔
ابن سعود نے وہابی افکار و نظریات کی توسیع میں سب سے پہلا معرکہ سعودی عرب کے موجودہ دار السلطنت ریاض کے والی امیر دہم بن دواس کے خلاف قائم کیا جو کہ سعودی وہابی اشتراک کے سخت خلاف تھا، مسلسل تیس سال تک جنگی کشمکش جاری رہی حتیٰ کہ 1773ء میں عبد العزیز بن محمد بن سعود نے ریاض کو فتح کر لیا۔ اس تیس سالہ جنگ میں1700 نام نہاد موحدین مارے گئے اور 2300 مظلوم مسلمان تہہ تیغ ہوئے[1]۔
سعود کے ہاتھوں اسلامی وراثتوں کی تباہی اور مسلمانوں کا قتل عام
‘‘جب اہل حساء پر سعود کی فوج کے مظالم کی نتہاء ہو گئی تو اہل حساء کے دلوں میں ان کا زبر دست رعب بیٹھ گیا اور وہ انتہائی خوف زدہ ہو گئے اور سعود نے مقام طف میں احساء کے پانی کے ذخیرہ پر قبضہ کر لیا اور کافی طویل مدت تک اہل حساء پر پانی بند رکھا یہاں تک کہ اہل حساء کے سردار نے مجبور ہو با دل ناخواستہ اہل حسا کی جانب سے سعود کے ہاتھوں پر بیعت کی پیشکش کی تو سعود شہر سے باہر ایک چشمہ پر جا کر بیٹھ گیا اور لوگوں نے وہاں جا کر اس کے ہاتھوں پر بیعت کی۔ اس کے بعد انہوں نے احساء کا رخ کیااور وہاں مزارات پر جتنے بھی گنبد بنے ہوئے تھے ان سب کو منہدم کر دیا اور ان کے تمام آثار و باقیات کو مٹا دیا[2]۔’’
اسی سال سعود نے نواسہ رسول حضرت امام حسن، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کرام کے مزارات اور آثار و باقیات کو بھی مٹایا اور بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ خون ناحق بھی بہایا:
‘‘اس کے بعد سعود نے جامعہ زبیر پر حملہ کیا اور جامع مسجد کے قرب و جوار میں اور شہر کے باہر مزارات پر جس قدر گنبد اور آثار موجود تھے ان سب کو توڑ دیا یہاں تک کہ حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر بنے گنبد کو بھی منہدم کر دیا اور ان کی قبروں کا نام و نشان تک مٹا دیا۔ سقوط درعیہ کے بعد حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر دوبارہ گنبد بنا دئے گئے تھے۔ لہٰذا، سعود نے نجدی فوج کو دوبارہ بہیمہ کے قصر پر دھاوا بول دینے کا حکم دیا اور انہوں نے دوبارہ تمام قبروں کو زمین بوس کر دیا اور اس کے حامیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا [3]۔’’
سرزمین کربلا پر وہابی نجدی افواج کے انسانیت سوز مظالم کی سرگزشت
‘‘ اور اس سال 1214 ھ میں سعود نے نجد، حجاز اور تہامہ سے ایک لشکر جرار لیکر سرزمین کربلا کا رخ کیا اور بلد الحسین کے باشندوں پر پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ یہ واقعہ ذی قعدہ کا ہے۔ مسلمانوں (وہابی نجدی فوج) نے اس شہر پر دھاوا بول دیا۔ فوجی اس کی دیواروں پر چڑھ گئے اور جبراً اس میں داخل ہو گئے اور کثرت کے ساتھ وہاں کے باشندوں کو گھروں اور بازاروں میں تہہ تیغ کر دیا اور اس قبہ کو منہدم کر دیا جو ان کے اعتقاد کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر بنایا گیا تھا۔ قبہ اور اس کے آس پاس موجود چڑھاوے کی تمام چیزوں کو ضبط کر لیا۔ قبہ زمرد، یاقوت اور جواہر سے آراستہ تھا۔ اور اس کے علاوہ شہر کے اندر جو بھی مال و متاع تھا سب کو اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شہر میں ایک پہر سے زیادہ نہیں ٹھہرے بلکہ ظہر کے وقت تمام مال و اسباب لیکر وہاں سے نکل آئے، اس حملےمیں اس شہر کے تقریباً دو ہزار آدمی قتل کئے گئے [4]۔’’
عثمان بن بشیر نجدی لکھتے ہیں:
1216ھ میں سعود اپنی طاقتور فوج اور گھڑ سوار لشکر جرار اور تمام نجدی غارت گروں کو لیکر بہ قوت تمام سرزمین کربلا پر حملہ آور ہوا اور ذی قعدہ میں نجدی سورماؤں نے بلد حسین کا محاصرہ کر لیا اور شہر کی تمام گلیاں اور بازار اہلیان شہر کی لاشوں سے بھرے پڑے تھے، قتل عام سے فارغ ہو کر انہوں نے امام حسین کی قبر مبارک کے قبہ کو منہدم کر دیا۔ روضہ کے اوپر زمرد ، ہیرے اور یاقوت کے جو نقش و نگار بنے ہوئے تھے، وہ سب لوٹ لئے۔ اس کے علاوہ شہر کے اندر لوگوں کے گھروں میں جو مال و متاع، اسلحہ، کپڑے حتیٰ کہ چارپائیوں سے بستر تک لوٹ لئے۔ اور یہ سب مال و متاع لوٹ کر تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد وہ نجد واپس لوٹ گئے [5]۔’’
طائف میں سعود کے قتل و غارت گری کے مناظر بھی ملاحظہ فرمائیں:
‘‘سعود نے اپنے ایک کمانڈر عثمان کو سرزمین طائف کو لوٹنے پر مامور کیا۔ طائف کا امیر غالب شریف قلعہ بند ہو گیا۔ نجدیوں نے اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ جان بچا کر مکہ کی طرف نکل بھاگا۔ عثمان نے طائف کی گلیوں اور بازاروں کو مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا اور دو سو سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا اور طائف کے گھروں سے مال و متاع، سونا چاندی، اسلحہ اور تمام قیمتی اشیاء جن کا شمار حد بیان سے باہر ہے، لوٹ کر نجدیوں میں تقسیم کیا اور اس کا پانچواں حصہ عبد العزیز کے پاس بھیجا جس کے صلہ میں اس کو طائف اور حجاز کا امیر مقرر کر دیا گیا [6]۔’’
مکہ اور طائف کی فتح کے بعد سعود کی مزید پیش قدمیاں ملاحظہ فرمائیں۔ عثمان نجدی رقم طراز ہیں:
ثم ان سعوداً و المسلمین رحلو من العقیق و نزلوا المفاصل فاحرموا منھا بعمرۃ و دخل سعود مکۃ و استولی علیھا و اعطیٰ اھلھا الامان و بذل فیھا من الصدقات و العطاء الاھلھا شیئا کثیراً فلما فرغ سعود و المسلمون من الطواف و السعی فوق اھل النواحی یھدمون القباب التی بنیت علی القبور و المشاھد الشرکیۃ۔
‘‘پھر سعود اپنے ساتھیوں کو لیکر مقام عقیق سے روانہ ہوا اور مفاصل پہنچ کر عمرہ کے لئے احرام باندھا۔ مکہ پہنچ کر اہل مکہ کو امان دی اور زر کثیر خرچ کیا۔ عمرہ سے فارغ ہو کر سعود اور اس کے تمام نجدی ساتھیوں نے مکہ کے تمام مزارات کے گنبد گرا دئےاور متبرک مقامات کی تمام علامات کو مٹا دیا [7]۔’’
...........................................
[1] سید سردار محمد حسنی : سوانح حیات سلطان عبد العزیز آل سعودص 42-43۔
[2] عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھ: عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 98۔
[3] عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھ: عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 132۔
[4] مسعود عالم ندوی؛ محمد بن عبد الوہاب، ص 77۔
[5] عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھ: عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 121-122۔
[6] عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھ: عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 123۔
[7] عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھ: عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 123۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism