مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
8 جون 2017
بر صغیر ہند و پاک میں وہابی افکار و نظریات کے بانیان نے جن فکری اور نظریاتی خطوط پر کام کیا اور دین اسلام کی جو شر انگیز تعبیر و تشریح کی وہ اسی نجدی وہابی نظریۂ دین کی توسیع تھی جس کی داغ بیل سر زمین عرب میں محمد ابن عبد الوہاب نجدی ڈال چکا تھا۔
شیخ نجدی کا تکفیر مسلمین اور قتل عام
شیخِ نجدی اپنے مسلک کے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر مانتے تھا اور ان کے قتل اور مال لوٹنے کو جائز قرار دیتا تھا:
‘‘ابن سیف نجدی اور محمد حیات سندھی سے تحصیل علم کے بعد شیخ نجدی اپنے والد کے پاس نجد لوٹ آیا اور مزید حصول علم کے لئے شام جانے کی اجازت طلب کی، والد نے اجازت دے دی۔ ابھی بصرہ تک پہنچا تھا کہ اس کی ملاقات ایک غیر مقلد عالم محمد مجموعی سے ہوئی جو بصرہ کے ایک مدرسہ میں تعلیم دیتا تھا اور (نام نہاد) بدعات کے خلاف سخت متشدد موقف رکھتاتھااور اس میں کسی قسم کی کوئی نرمی نہیں کرتا تھا۔ ادھر شیخ محمد بن عبد الوہاب کے دل میں ایک آتش فشاں موجزن تھاجو کہ ابالیں مار رہا تھا۔ شیخ نجدی نے جب محمد مجموعی سے ملاقات کی تو اس کے دل میں موجزن آتش فشاں کا لاوا پھٹ پڑا اور شیخ مجموعی اس کا حوصلہ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ محمد بن عبد الوہاب نے تمام مسلمانوں کو کافر قرار دے دیا اور محمد بن عبد الوہاب خود کہتا ہے کہ مشرکین بصرہ میرے پاس آتے اور اپنے شبہات پیش کرتے میں جواب میں کہتا اللہ کے سوا کوئی عبادت کا حقدار نہیں ہے، یہ سن کر وہ لا جواب ہو جاتے۔ شیخ نجدی کا یہ کلام اس بات پر دلیل ہے کہ وہ مسلمانوں کو کافر قرار دیتا تھا۔ کیوں کہ اس نے بصرہ کےلوگوں کو مشرکین سے تعبیر کیا ہے[1]۔’’
محض اعتقادی اختلافات کی بنیاد پر مسلمانوں کی تکفیر اور ان کے قتل پر خود شیخ نجدی نے اپنی کتاب ‘‘کشف الشبہات’’ میں لکھا ہے:
و عرفت ان اقرارھم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلھم فی الاسلام ق ان قصدھم الملائکۃ و الانبیاء و الاولیاء یریدون شفاعتھم و التقرب الی اللہ بذالک ھو الذی احل دماءھم و اموالھم۔
‘‘اور معلوم ہوا کہ ان لوگوں (مسلمانوں) کا محض اللہ کی وحدانیت کا اقرار کر لینا ہی انہیں اسلام میں داخل نہیں کر دیتا۔ اور ان کا نبیوں اور فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور اللہ کا تقرب چاہنا ایسا سبب ہے جس نے ان کے قتل اور مال و اسباب لوٹنے کو جائز کر دیا ہے [2]۔’’
شیخ نجدی کا مسلمانوں کے خلاف تلوار اٹھانا
‘‘شیخ الاسلام صاف صاف یہ اعلان کر رہےتھے کہ جس طرح رسول اکرم ﷺ نے ان لوگوں کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جنہوں نے آپ ﷺ کی دعوت قبول نہ کی، اسی طرح مجھے بھی ان لوگوں کے خلاف تلوار اٹھانا ہے جو عقائد کی بیماریوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ جو لوگ اپنے عقائد کی اصلاح کرتے ہوئے ہماری تحریک کے رکن بن جائیں گے ان کا خون اور مال محفوظ ہوگا، ورنہ جزیہ ادا کرنا ہوگا اور اگر جزیہ ادا کرنے سے بھی انکار کریں گے تو پھر تلوار اٹھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے [3]۔’’
‘‘شیخ الاسلام نے دیکھا کہ ان (مسلمانوں) کی بیماری (انبیاء کی تعظیم اور ان سے شفاعت کا طلب گار ہونا) خطرناک صورت اختیار کر چکی ہے، تو وہ مجبور ہو کر ان کے مقابلے میں شمشیر بکف ہو کر میدان میں اترتے ہیں۔ خیال رہے کہ نیکی کے فروغ اور برائی کے استیصال کے لئے جنگ کرنے کا نام شریعت مطہرہ میں جہاد ہے اور اس کی مشروعیت سے کون انکار کر سکتا ہے [4]۔’’
اس ضمن میں ہندوستان کے ایک مشہور و معروف دیوبندی عالم مسعود عالم ندوی (1328 - 1373 ھ / 1910 - 1954ء)کی ایک تحریر بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ علمائے دیوبند کا حقیقی رنگ روپ واضح ہو سکے۔
‘‘شیخ نجدی نے صرف ان بت پرستوں کی تکفیرکی ہے جو اولیاء اور صالحین بزرگوں سے مرادیں مانگتے تھے۔ اس بناء پر شیخ نجدی نے انہیں مشرک قرار دیا اور اپنی حجت پوری کرنے کے بعد ان سے قتال شروع کیا۔ ان تمام (مسلمانوں) کا خون بہایا۔ ان کے اموال لوٹ لئے اور یہ سب کچھ کتاب وسنت اور اجماع کے مطابق تھا [5]۔’’
شیخ نجدی نے اگر چہ سرزمین حجاز پر اپنی گرفت مضبوط کر کی تھی لیکن وہ جیسی تحریک لے کر اٹھا تھا اس کی توسیع کے لیے اسے ایک مضبوط اور مرکزی قوت درکار تھی۔ لہٰذا، تلاش بسیار کے بعد شیخ نجدی نے اپنی اس مہم کے لیے محمد بن سعود کا انتخاب کیا اور اس سے رابطہ کرنے کے لیے شیخ نجدی نے محمد ابن سعود کی بیوی کا سہارا لیا۔ اس پر قدرے تفصیل کے ساتھ مسعود عالم ندوی کی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
‘‘امیر محمد بن سعود جو شیخ کی دعوت سے پہلے بھی اپنے حسن اخلاق کے لئے مشہور تھا، اپنی بیوی کی گفتگو سے متأثر ہوا اور اس کے دل میں شیخ کی محبت گھر کر گئی۔ تمام لوگوں کے اصرار پر اس نے شیخ نجدی سے ملنےمیں پہل کی اور انتہائی خوش اخلاقی اور عقیدت مندی کے ساتھ ان کی خوب پذیرائی کی۔ شیخ نے اپنے دعوت کے اہم حصوں (اسلامی کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا مفہوم، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور جہاد) پر مختصر تقریر کی انہیں اہل نجد کی برائیوں سے آگاہ کیااور ان کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی جس سے امیر بے حد متأثر ہوا اور بے ساختہ بول اٹھا:
‘‘ائے شیخ! یہ تو بلا شبہ اللہ اور اس کے رسول کا دین ہے، میں آپ کی امداد و اطاعت اور مخالفینِ توحید کے ساتھ جہاد کے لیے تیار ہوں، مگر میری دو شرطیں ہیں:
1 –اگر ہم نے اس مہم میں آپ کی معاونت کی اور اللہ نے ہمیں فتح دی، تو آپ ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں گے۔
2 –ہم فصل کے موسم میں اہل درعیہ سے کچھ مقررہ محصول لیتے ہیں، آپ ہمیں اس سے نہ روکیں۔
شیخ نے جواب دیا:
پہلی شرط بسر و چشم منظور ہے، الدم بالدم و الھدم بالھدم (اب میرا خون تمہارا خون اور میری تباہی تمہاری تباہی)۔ رہی بات دوسری شرط کی، تو انشاء اللہ! تمہیں فتوحات اور مال غنیمت میں سے اتنا کچھ مل جائے گا کہ تمہیں اس خراج کا خیال بھی نہیں آئے گا [6]۔’’
..................................................................................
[1] علی طنطاوی جوہر مصری، متوفی 1335 ہجری: محمد بن عبد الوہاب، ص 19۔
[2] محمد بن عبد الوہاب نجدی، متوفی 1206 ہجری: کشف الشبہات ص 20-21۔
[3] شیخ احمد عبد الغفور عطار، متوفی 1411: شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب، ص155۔
[4] شیخ احمد عبد الغفور عطار، متوفی 1411: شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب، ص164۔
[5] عالم مسعود عالم ندوی (1328 - 1373 ھ / 1910 - 1954ء): تبرکۃ الشیخین، بحوالہ محمد بن عبد الوہاب ص، 171-172۔
[6] عالم مسعود عالم ندوی (1328 - 1373 ھ / 1910 - 1954ء): محمد بن عبد الوہاب ص، 39-40۔ (بحوالہ تاریخ نجد و حجاز)
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism