New Age Islam
Tue Sep 10 2024, 09:31 AM

Urdu Section ( 25 May 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Wahhabism –background and foreground (1) نظریہ وہابیت –پس منظر و پیش منظر

 

 

 

مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام

24 مئی 2017

خالق کائنات نے لفظ کن سے کل کائنات کو پردۂ عدم سے منصۂ شہود پر لانے کے بعد انسان کو اس میں سچی ہدایت کے ساتھ بھیجا اور سب سے پہلے انسان ابو البشر حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کو بنی بنا کر مبعوث کیا تاکہ انسانیت ابتدائے آفرینش سے ہی ایک لمحے کے لئے بھی ہدایت سے محروم نہ رہے۔ اور اللہ رب العزت نے اپنے اسی تخلیقی منصوبے کے تحت انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہر زمانے میں ہر قوم کے لئے انہیں میں سے ایک ایک رسول منتخب کیا اور انہیں سچی ہدایت اور شریعت کے ساتھ ان کی طرف مبعوث کیا۔

 جیسا کہ قرآن میں اللہ کا فرمان ہے:

و جعلنا لکل منکم شِرعۃ و منھاجا (المائدۃ ، آیت 48)

ترجمہ: اور ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا۔

اگر چہ ہر نبی کی شریعت ایک دوسرے سے جدا تھی لیکن بنیادی پیغام سب کا ایک ہی تھا اور تمام انبیاء و رسل نے بنیادی طور پر ایک ہی دین کی نمائندگی کی اور وہ اسلام ہے۔ دین اسلام کا جو سلسلۃ الذھب جو ابو البشر حضرت آدم علی نبینا علیہ الصلوٰۃ و التسلیم سے چلا اسی کی نمائندگی پیغمبر اسلام ﷺ نے بھی کی اور تاحیات آپ کی تمام کوششیں، محنتیں اور مشقتیں اسلام کی ترویج و اشاعت کے لئے تھیں حتیٰ کہ ازمنۂ ماضیہ کے سابقہ انبیاء کرام کو بھی اللہ نے دین اسلام کے حوالے سے ہی متعارف کرایا اور اس دین کو کسی قبیلے یا کسی قوم کے نام سے منصوب کیے جانے کی تردید فرمائی اور فرمایا:

مَا کَانَ اِبرٰھِیمُ یَھُودِیًّا وَّ لَا نَصرَانِیًّا وَّ لٰکِن کَانَ حَنِیفًا مُّسلِمًا ۔ (آل عمران۔ 76)

ترجمہ: ابراہیم نہ یہودی تھے نہ نصرانی بلکہ ہر باطل سے جدا مسلمان تھے۔

پیغمبر اسلام ﷺ کے وصال کے بعد عہد خلفائے راشیدین اور بعد ازاں حکومت بنوں امیہ اور حکومتِ عباسیہ کے دور میں جب اسلام حدودِ عرب کی وسعتوں سے باہر نکلا اور جب اس کا سایہ دنیا کے دور دراز علاقوں اور ممالک میں دراز ہوا تو مختلف تہذیب و ثقافت، حالات و معاملات اور دواعی و محرکات کی بنیاد پر اس کا داخلی اور خارجی سطح پر اختلاف و انتشار کا شکار ہونا اور اس کے اندر مختلف اصول و نظریات اور معمولات و معتقدات کا راہ پانا ایک فطری بات تھی اور یہ اسلام جیسے ایک ہمہ گیر اور آفاقی مذہب کا تقاضا بھی تھا کہ اس کے اندر اختلافِ رائے اور اختلافِ اصول و نظریات اور معمولات و معتقدات کی اس قدر گنجائش رکھی جائے کہ یہ دین عالمی پیمانے پر تمام انسانوں کے لئے نفع بخش ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تیسری صدی ہجری سے ہی قرآن و حدیث کی مختلف تعبیر و تشریح پر مبنی فقہی مذاہب کی بنیادیں رکھی جانے لگیں اور اس طرح کل چار باضابطہ فقہی مذاہب معرض وجود میں آگئے اور اسلام میں احتمال خطاء کے ساتھ ان چاروں مذاہب کا احترام باقی رکھا گیا اور باوجود سینکڑوں سنگین نظریاتی اور اصولی اختلافات کے مسلمانوں کو دین کی اپنی تفہیم اور سہولیات کے مطابق ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرنے کی مکمل آزادی دی گئی۔

اگر چہ ازمنۂ ماضیہ میں ان اصولی اور فروعی اختلافا ت کو بنیاد بنا کر معاشرے کے متعصب، کم علم اور شرپسند عناصر نے مذہبی فضاء کو مکدر کرنے، امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے اور عدم استحکام کی صورت حال پیدا کرنے کی کوششیں کیں لیکن ہر زمانے میں علمائے حق نے علمی، فکری، نظریاتی اور معاشرتی سطح پر ان شرپسند عناصر کی ریشہ دانیوں کا سدباب کیا اور وہ ہمیشہ امت کی وحدت کو مستحکم اور مرتکز کرنے کے لئے سرگرم عمل رہے۔ اسی طرح ماہ و سال گزرتے رہے اور عالم اسلام میں فتنوں کا ظہور اور ان کے سد باب کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ بیسوی صدی کا آغاز ہوا  اور 1918ء میں ترک اور جرمن محاذ کے مقابلے میں انگریزی، فرانسیسی اور اطالوی قوتوں کو فتح ملی اور 1921ء میں انہیں فاتح ممالک کی معاونت سے ایک پیشہ ور باغی سعود قوم نے اپنے تمام حریف قوتوں کو شکست دے کر صوبہ نجد پر تسلط حاصل کیا۔ خیال رہے کہ سعود قوم کا تعلق عرب کے اسی مشرقی صوبے نجد سے ہے جس نے آپ ﷺ کی حیات میں سب سے اخیر میں اسلام قبول کیا تھا۔ اور پھر آپ ﷺ کی وفات کے بعد سب سے پہلے اسلام سے منحرف ہونے والا قبیلہ بھی ہی یہی ہے جس کی سرکوبی کے لئے خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت خالد بن ولید کی قیادت میں ایک لشکر نجد روانہ کیا تھا جس کی جنگ اس قبیلے کے ساتھ ہوئی جس میں اس قبیلے کی زبردست شکست ہوئی اور اس کے بعد کچھ لوگ پھر سے ایمان لے آئے۔

چونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد ترکوں کی کمر ٹوٹ چکی تھی لہٰذا انہوں نے پہلی جنگ ختم ہوتے ہی سرزمین حجاز کا نظام وہاں کے سردار قبیلے کے سربراہوں کے سپرد کر کے اپنی فوج واپس بلالی اور اس سیاسی خلاء کو پر کرنے کے لئے سعودیوں نے 1924ء میں مکہ 1925 ء میں مدینہ پر قبضہ جمایا اور 1926ء میں باضابطہ طور پر نجد و حجاز پر اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔

تاریخ کے اوراق میں یہی وہ نقطہ انقلاب ہے جہاں سے عالم اسلام میں گذشتہ اور موجودہ صدی کی سب سے عظیم نظریاتی کشمکش کا آغاز ہوا اور جس کے اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوئے، جس کے نتیجے میں عالم اسلام کو داخلی سطح پر نظریاتی بحران، اختلاف و انتشار، فکری انارکی اور لامرکزیت کا سامنا کرنا پڑا اور امت مسلمہ کی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ انہوں نے اپنے مذہبی اداروں سے ایسے ایسے فتوے صادر کیے کہ نظام توحید تہہ و بالا ہو گیا اور شرک اور توحید کے ایسے ایسے اصول وضع کئے کہ ان کے فرقے کے پیروکاروں کے علاوہ پورا عالم اسلام مشرک ٹھہرا۔ اپنے انہیں اصول و معتدات کو بنیاد بنا کر انہوں نے ہر غیر سلفی اور غیر وہابی مسلمان کو مباح الدم اور ان کے مال و اسباب کی لوٹ مار کو جائز قرار دیا۔ اسے وہابی لابی کا فکری بحران اور اس کی نظریاتی کجروی اور بد دیانتی نہیں تو اور کیا کہیں گے کہ ان کی نظر میں ایک طرف تو اولیاء، صلحاء اور محبوبانِ خدا کی درگاہوں میں آدابِ نیاز مندی بجا لانا شرک اور ان کی قبروں پر گلہائے عقیدت پیش کرنا حرام اور ایک منافیٔ توحید عمل ٹھہرا، یہاں تک کہ ان کی درگاہوں پر بنے گنبد و مینار بھی انہیں دعوت شرک و ارتداد دیتے نظر آئے۔ لیکن جب مئی 1955 میں اس دَور کے وزیر اعظم شاہ امیر فیصل ہندوستان آکر گاندھی جی کی سمادھی پر گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں تو وہابی مفتیوں کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں آتی[1]۔ اور جب فروری 1958 میں بادشاہ شاہ سعود نے ارلنگٹن کی قبرستان میں [2] اور اس وقت کے وزیر دفاع شہزادہ فہد نے جارج واشنگٹن کی قبر پر پھول چڑھائے تو سعودی شہزادوں اور بادشاہوں کے اس اعلانیہ شرک پر نجدی علماء مہر بہ لب رہے[3]۔ انشاء اللہ، ہم اپنی اس سلسلہ وار تحریر میں ان تمام حقائق کا بالتفصیل جائزہ لیں گے۔

جاری.......

................................

[1] روزنامہ نوائے وقت 11 مئی 1955

[2] روزنامہ نوائے وقت 2 فروری 1957

[3] روزنامہ نوائے وقت 2 فروری 1957 (بحوالہ تاریخ نجد و حجاز)

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/wahhabism-–background-foreground-1-/d/111271

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..