مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
(بہار ادب: قسط 11)
وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يَمْسَسْكَ بِخَيْرٍ فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔ (انعام:16)
اگر تجھے اﷲ کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سواکوئی دور کرنے والا نہیں، اگر تجھے بھلائی آرام پہنچائے تو وہ سب کچھ کرسکتا ہے اور وہی غالب ہے اپنے بندوں پر اور حکمت والا جاننے والا ہے(ترجمہ کنز الایمان)
ایک صحت مند، خوشحال اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل میں باہمی اخوت و محبت اور رحمت و ہمدردی کے جو عناصر لازم و ضروری ہیں ان میں ایک اہم عنصر بیماروں کی عیادت ہے۔ بیماروں کی عیادت ایک ایسا اخلاقی وصف ہے جو دلوں سے نفرتوں اور کدورتوں کو مٹاتا ہے، عداوت اور بغض عناد کی دیواروں کو منہدم کرتا ہے اور ایک دوسرے کے دلوں کو بے پناہ محبت، ہمدردی اور رحمت و شفقت کے جذبات سے بھر دیتا ہے۔ یہی وہ عظیم الشان اخلاقی وصف ہے جو دشمن کو دوست بننے پر، باغی و سرکش کو جھکنے پر اور حاسد و خائن کو محبت کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ آج زمانے کی تیز رفتاری نے کہیں نہ کہیں اس خوبصورت اخلاقی قدر کو دھندھلا کر دیا ہے۔ آج کل لوگ صرف ایک فون کال اور کبھی کبھی صرف ایک ایس ایم ایس کا استعمال کر کے اس اہم اخلاقی اور دینی "فریضہ" سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہوتی ہے کہ وہ وقت نکال کر بنفس نفیس مریض کی مزاج پرسی اور تیمارداری کے لئے جائیں۔ انتہاء تو یہ ہے کہ اب لوگ کسی کی میت میں بھی ذرائع ابلاغ کے انہیں جدید آلات کا سہارا لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اللہ ہمیں خوش خلقی، زندہ دلی اور بھرپور جذبات کے ساتھ اپنے ان باہمی حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مریض کی عیا دت کرنا اطاعت وعبادت ہے
پیغمبر اسلام ﷺ فرماتے ہیں:
مریضوں کی عیادت کے لیے جایا کرو اور لوگوں کے جنازوں میں شرکت کیا کرو کہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتے رہیں گے ۔(مسندامام احمد)
قیامت کے دن اللہ فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار تھا مگرتو میری عیادت کے لیے نہیں آیا۔بندہ اللہ کی بارگاہ میں عرض گزار ہو گا:میں تیری عیادت کیسے کرتا جبکہ تو تمام جہانوں کا پالنہار ہے؟اللہ فرمائے گا:کیا تجھے علم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے پھر بھی تو اس کی عاودت کے لیے نہیں گیا؟ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔(صحیح مسلم)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے اچھی طرح وضو کیا اور ثواب کی نیت سے اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کی اسے جہنم سے70 سال کے فاصلے کے برابر دور کردیا جائے گا۔ (سنن ابی داؤد)
جو کسی مریض کی عاددت کے لیے گیا جب تک وہ بیٹھ نہ جائے دریائے رحمت میں غو طہ زن رہتاہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈو ب جاتا ہے ۔ (مسندامام احمد)
جو بندہ مومن صبح کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو اس کے لیے شام تک ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے رہتے ہیں اور جو شام کو مریض کی عیادت کرنے کے لیے نکلتا ہے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ لگادیا جا تا ہے۔ (الترغیب والترہیب)
اگر کوئی اہم کام پورے اداب، سلیقے اور اس کے تمام تقاضوں کے ساتھ انجام نہ دیا جائے تو وہ ناقص و نامکمل رہتا ہے ۔لہٰذا، عیادت کے بھی کچھ آداب ہیں۔ جن میں سے بعض کا ذکر یہاں فائدہ مند ہو گا:
عیادت کرنے والے کو اگر مریض کی حالت ٹھیک نہ لگے اور اسے اس کے مرض میں سختی معلوم ہو تو یہ اس کے سامنے یہ ظاہر نہ کرے کہ تمہاری حالت بہت خراب ہے بلکہ اس کے سامنے ایسی باتیں کرے جس سے اس کی دل جوئی ہو اور جس سے اسے فرحت محسوس ہو۔( سنن ترمذی)
کسی کو مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہیں ٹھہرنا چاہے علاوہ اس شخص کے کہ جس کے ٹھہرنے سے مریض کو خوشی حاصل ہو۔
عیادت میں مریض کے پاس تھوڑی دیر بیٹھنا اور شور نہ کرنا سنت ہے۔ (مشکوۃ المصابیح)
اگر مریض کو کوئی پریشانی نہ ہو تو اس کے سریا پیشانی پر ہاتھ رکھ کر عیادت کی جائے۔
اگر کسی مریض تکلیف ہوتی ہو تو قرآن مجید بھی بلند آواز سے نہ تلاوت کی جائے۔
اگر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے لیے جانے پر مریض کو تکلیف پہنچنے کا خطرہ ہو اور یہ اندیشہ ہو کہ وہ گھبرائے گا تواس کی تیمارداری کرنے والا جماعت ترک کرسکتا ہے۔ (درمختار)
"مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کی مزاج پرسی کی جائے"۔(سنن ترمذی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم مریضوں کے پاس جاؤتو اس سے اپنے لئے دعا کی درخواست کرو کیوں کہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی مانند ہوتی ہے" (سنن ابن ماجہ)۔ لہٰذا، عیادت کرنے والے کو چاہیے کہ جس طرح وہ مریض کے حق میں دعا کرے اسی طرح وہ مریض سے بھی اپنے حق میں دعا کروائے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مساجد کو آباد رکھنے والے جب بیمار ہوجائیں تو ان کی عیادت کرنا فرشتوں کا طریقہ ہے" (مستدرک)۔ لہٰذا، جب نیک اور بالخصوص جواللہ تعالیٰ کے گھروں کو شاد وآباد رکھتے ان کی عیادت ضرور کی جائے۔
بیماری میں صبر وشکر کی جزاء:
نبی رحمت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ بیمار پڑتا ہے تو اللہ دو فرشتوں کو اس کے پاس یہ دیکھنے کے لیے ارسال کرتا ہے کہ وہ عیادت کے لیے آنے والوں سے کیا کہتا ہے؟لہٰذا، اگر وہ مریض عیادت کے لئے آنے والوں کی موجودگی میں اللہ ٰ کی حمد وثنا بجا لاتا ہے (یعنی اللہ کا شکر اداکرتا ہے) تو وہ فرشتے اس کی یہ بات اللہ بارگاہ میں پیش کرتے ہیں، جبکہ اللہ حقیقت حال سے زیادہ باخبر ہے ۔ اس پر اللہ خوش ہو کر فرماتا ہے: میرے اس بندے کا مجھ پر حق ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں اور اگر اسے شفا دوں تو اس کے گوشت کو بہتر گوشت سے بدل دوں اور اس کے گناہوں کو مٹادوں۔(موطا امام مالک)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب کسی بندہ مؤمن کو کوئی رنج ، دکھ ،تکلیف،اذیت اور کوئی غم پہنچتا ہے یہاں کہ جب اسے کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تواللہ ٰ اس کے سبب اس کے گناہوں کو محو فرما دیتا ہے۔(صحیح بخاری)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخار کو برا نہ کہو کیونکہ یہ بندہ مومن کے گناہوں اس طرح ختم کر دیتا ہے جس طرح آگ لوہے کو پاک اور خالص کر دیتی ہے۔(سنن ابن ماجہ)
اللہ جب اپنی کسی بندے کے لیے کوئی مرتبۂ کمال مقدر کر دیتا ہے اور وہ اپنے عمل کی بنیاد پر اس مرتبہ کو حاصل نہیں کر پاتا تو اللہ ٰ اس کے جسم ،مال یا اولاد پرکوئی مصیبت نازل فرما دیتا ہے پھر اسے اس پر صبر عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مرتبہ کمال تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ نے اس کے لیے مقدر کیا ہے۔(مسند احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری عورت کی عیادت کے لیے گئے اور اس سے اس کی خیریت دریافت کی، اس نے عرض کیا: "میں بہتر محسوس کر رہی ہوں مگر اس بخار سے تھک چکی ہوں (یعنی اب اس کی برداشت کی سکت میرے اندر نہیں بچی)۔ اس پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "صبر سے کام لو اس لیے کہ انسان کے گناہوں کو بخار اس طرح محو کر دیاتا ہے جس طر ح آگ کی بھٹی زنگ آلو لوہے کو شفاف اور خالص کردیتی ہے۔
اللہ کی راہ میں قتل ہونے کے علاوہ شہادت کی سات قسمیں اور ہیں:
1۔ طاعون کی وباء میں مرنے والا، 2۔ پانی میں ڈوب کر مرنے والا، 3۔نمونیہ کی بیماری میں مرنے والا ، 4۔پیٹ کی بیماری سے مرنے والا ، 5۔ آگ میں جل جانے والا، 6۔عمارت میں دب کر مرنے والا اور 7۔بچے کی پیدائش کے وقت مرنے والی عورت بھی شہید ہے۔ (مؤطا امام مالک)
بیماریوں سے حفاظت کی دعا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو شخص کسی مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ دعا پڑھے گا وہ اس مصیبت یا بیماری سے محفوظ رہے گا :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا(سنن ترمذی)
امام غزالی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "مریض کو چاہئے کہ کثرت کے ساتھ موت کو یاد کرے،توبہ خوب کرے اور موت کی تیاری کرے،ہمیشہ اللہ کی حمد وثنا سے اپنی زبان تر رکھے، اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے ساتھ دعا کرے،عاجزی و انکساری کا اظہارکرے، اللہ جل جلالہ سے مدد کا طلب گار ہواور ساتھ ہی ساتھ علاج و معالجہ بھی کرائے، تیمارداری کرنے والوں کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے، صحت یابی ملنے پر اللہ ٰ کا شکرادا کرے اور اپنی زبان کو حرف شکایت سے پاک رکھے۔
جاری.......................................
URL: