مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
چونکہ ابھی ہماری گفتگو تصوف اور طریقت کے باب میں علم کی اہمیت اور ضرورت پر جاری ہے لہٰذا مناسب ہے کہ قرآن اور حیاتِ اولیاء کے حوالے سے تصوف و طریقت کے اس پہلو پر تھوڑی روشنی ڈالی جائے۔ جب اس زاویہ نظر سے قرآن کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جہاں قرآن میں مختلف انبیائے کرام اور ان کے معجزات کا ذکرہے وہیں اس میں ان انبیائے کرام کی امت کے اولیاء کے حالات اور ان کے کرامات کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اور میں توضیحاً اور تشریحاً ان میں سے میں صرف دو بڑے واقعات کا ذکر ضروری سمجھتاہوں۔ اور وہ دونوں واقعات عظیم اور اہم اس لیے ہیں کہ ان دونوں واقعات کا نبی کی بارگاہ میں اللہ کے ولی کی کرامت سے ہے اور ان دونوں واقعات میں اللہ نے اپنے ان ولیوں کا تعارف علم کے حوالے سے کیا ہے۔
پہلا واقعہ سورہ النمل میںاس مقام پر موجو ہےجہاں ملکہ سبااور حضرت سلیمان علیہ السلام کا پورا واقعہ مذکور ہے:
قال يا أيها الملأ أيكم يأتيني بعرشها قبل أن يأتوني مسلمين ( 38 ) قال عفريت من الجن أنا آتيك به قبل أن تقوم من مقامك وإني عليه لقوي أمين ( 39 ) قال الذي عندہ علم من الكتاب أنا آتيك به قبل أن يرتد إليك طرفك فلما رآہ مستقرا عندہ قال هذا من فضل ربي ليبلوني أأشكر أم أكفر ومن شكر فإنما يشكر لنفسه ومن كفر فإن ربي غني كريم ( 40 )
ترجمہ:
سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا: اے دربار والو! تم میں سے کون اس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے قبل اس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آجائیں۔ ایک قوی ہیکل جِن نے عرض کیا: میں اسے آپ کے پاس لاسکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ اپنے مقام سے اٹھیں اور بیشک میں اس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانت دار ہوں۔(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ آیا میں شکر گزاری کرتا ہوں یا نا شکری، اور جس نے (اللہ کا) شکر ادا کیا سو وہ محض اپنی ہی ذات کے فائدہ کے لئے شکر مندی کرتا ہے اور جس نے ناشکری کی تو بیشک میرا رب بے نیاز، کرم فرمانے والا ہے (النمل:40-39-38)۔
اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
حضرت سلیمان علیہ السلام نبی اسرائیل کے ایک جلیل القدر نبیتو تھےہے ساتھ ہی ساتھ اللہ نے آپ کو ایک عظیم الشان اور بے نظیر حکومت و سلطنت سے بھی نوازا تھا۔اس لیے کہ آپ کی حکومت صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ جناتوں، پرندوں اور جانوروں پر بھی تھی اور آپ ان سب کی زبان سنتے بھی تھے اور ان سے گفتگو بھی فرماتے تھے۔ ایک دن کا واقعہ ہے کہ ایک پرندہ ہدہد حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار سے غائب تھا جب آپ نے اس کی خبر گیری کی اور اسے اپنے دربار میں طلب کر کے غیر حاضر ہونے کی وجہ پوچھی تو اس ہد ہد نے عرض کیا کہ میں ملک یمنگیا تھااور میں نے دیکھا کہ وہاں ایکملکہکی عظیم الشان حکومت ہے اور اس ملکہ کا نام سبا ہے اور وہ سورج پرست ہے۔ اور شیطان نے اسے اور اس کیپوری قوم کو گمراہ کر رکھا ہے۔
یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس ہدہد پرندے کے ذریعہ دین حق کی دعوت دینے کے لیے ملکہ سبا کے پاس ایک خط بھیجا۔اور اس ہدہد پرندے نے وہ خط ملکہ سبا کے اوپر اس وقت ڈالا جب وہ اپنی خلوت گاہ میں محو استراحت تھی۔ جیسا کہ احادیث کی متعدد کتب میں درج ہے اس خط کی عبارت کچھ اس طرح تھی:
”یہ خط سلیمان کی جانب سے ہے اور اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ تمہیں ہم پر سرکشی اور بلندی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے اور تم میرے پاس خدا کی فرمانبردار ہو کر آوٴ۔“
اگر چہ ملکہ کو اپنی قوت و طاقت کابخوبیاندازہ تھا لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام نے وہ خط جس طرح اس تک پہنچایا تھا اس نےملکہ کو حیرت میں ڈال دیا تھااسی لیےاس نے عجلت میں کوئی فیصلہ نہ لیا اوراس نے اپنے چند قاصدینکے ہاتھوں سلیمان علیہ السلام کے دربار میں کچھ تحفے تحائف روانہ کیے۔اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں قاصدین کو ارسال کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی قوت و حشمت کا صحیح اندازہ لگا سکے۔
جب قاصدیننے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچ کر تحفہ و تحائف پیش کیے تو آپ نےفرمایا کہ تم نے میری ہدایات کو غلط سمجھا۔ تحفہ تحائف واپس لئے جاوٴاور میرے حکم کی تعمیلکرو۔ اور اگر تم نے اور تمہاری ملکہ نے میرےحکمکی تعمیل نہ کی تو میں عظیم الشان لشکر کے ساتھ تمہارے ملک پر ایسا حملہ کر دونگا کہ تم مدافعت بھی نہ کر سکو گے اور تمہیں شہر بدر کر دیا جائے گا۔
قاصدوں نے واپس جا کر ملکہ سبا سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت و سلطنت اور آپ کے دربار کی شان و شوکت کو بیان کیا اور انہوں نے اپنی ملکہ کو بتایا کہ کس طرح صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنات و حیوانات اور چرند و پرند بھی آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ ملکہ سبا ضدی اور ہٹ دھرم نہ تھی۔ اسی لیے اس نے خود اپنی حکومت و سلطنت اور اپنی قوم کو ہلاکت میں ڈالنے کے بجائے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم کی تعمیل کا فیصلہ کیا۔
ادھر حضرت سلیمان کو بذریعہ وحییہ علم ہو چکا تھا کہ ملکہ سبا ان کی خدمت میں حاضر ہونے والی ہیں۔ لہٰذا، انہوں نے اپنے دربار میں موجود افراد سے پوچھا کہ میرے دربار میں کوئی ایسا ہے جو ملکہ سبا کو یہاں تک پہنچنے سے پہلے اس کا تخت یہاں حاضر کر دے۔یہ سن ایک ہیکل جن نے کہا کہ میں اس دربار کے برخاست ہونے سے پہلے اس کاتخت یہاں حاضر کر سکتا ہوں۔ یہ سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ کوئی ہے جو اس سے بھی جلدی ملکہ سبا کا تخت یہاں حاضر کر دے؟ یہ سن کر آپ کے دربار کے ایک درباری نے کہا میں پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو یہاںحاضر کر سکتا ہوں۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ایک ولی تھی اور آپ کا نام آصف بن برخیہ ہے ۔ انہیں کے حوالے سے قرآن میں اللہ نے فرمایا کہ:
’’قال الذي عندہُ علمٌ من الكتابِ أنا آتيك به قبلَ أن يرتد إليك طرفك‘‘۔ یعنی ’’(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)‘‘۔
اس سورت میں پورا واقعہ بالتفصیل درج ہے۔ لیکن اس میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ کس بنیاد پر حضرت سلیمان علیہ نے اپنی امت کے اس ولی کی پیش کش قبول کی اور ان کے پاس وہ کون سی ایسی طاقت تھی جس کی بنیاد پر حضرت آصف بن برخیہ نےاس ہیکل جن سے بھی بڑی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ہزارو میل دور ملک یمن سے سینکڑوں ٹن وزنی تخت کو پلک جھپکتے ہی یروشلم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پیش کر دیا؟ جو کہ ایک طرف آپ کی ولایت کا اعلان ہے اور ساتھ ہی ساتھ ہے اس سے آپ کے مقام ولایت میں کمال اور آپ کی بے نظیر روحانی طاقت کا بھی اظہار ہوتاہے۔ جب اس جستجو کے ساتھ ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس کاجواب ہمیں اللہ کے کلام میں یہملتا ہے، ’’عندہُ علمٌ من الكتابِ‘‘، یعنی ان کے پاس کتاب کا علم تھا۔
معزز قارئین!توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ولایت صرف علم سے حاصل نہیں ہوتی اور طریقت و معرفت کا راستہ محض علم کی بنیاد پر نہیں کھلتا، بلکہ اس کے لیے عمل پیہم، تقویٰ اور ریاضت و مجاہدات میں جہد مسلسل،عہدِ ایمان اور مقتضیاتِ اسلام پر استقامت،صبر، ضبط نفس، زہد، ورع،اخلاص، رضاء اور آزمائش جیسے بے شمار سخت اور دشوار ترین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے تب جاکر کسی سالک راہِ معرفت و طریقت پر اللہ کی ولایت کا دروازہ کھلتا ہے۔ لیکن اللہ نے اس آیت میں ان تمام مراحل، صفات اور خصوصیاتِ تصوف و طریقت پر علم کو فوقیت عطاء کی اور صرف علم کو ہی اللہ نے ولایت کی روح اور سلوکِ معرفت و طریقت کی بنیاد قرار دیا ہے۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں کرامت، ولایت، سلوک،معرفت اور طریقت کا عنوان علم ہے۔
جاری.................
URL: https://newageislam.com/urdu-section/unfolding-real-face-sufism-(part-8/d/110051
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism