مصباح الہدی قادری ، نیو ایج اسلام
2017-01-28
قرآن مقدس میں اللہ کا فرمان ہے:
اِنَۤکَ لِعَلیٰ خُلق عَظِیمٌ (القلم:4)
ترجمہ: اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)
جیسا کہ ہم نے اپنی گزشتہ تحریر میں اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جو لوگ حقیقت تصوف اور اس کی علمی بنیادوں سے واقفیت نہیں رکھتے ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک مذکورہ آیت کریمہ تصوف سے متعلق نہ ہو جبکہ ان اہل علم اور بانیانِ تصوف نے قرآن مجید کی اس آیت کو تصوف کی اساس قرار دیا ہے۔ اللہ نے ہمارے نبی ﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ائے نبی (ﷺ) ہم نے آپ کو خلق عظیم کے مرتبہ پر فائز کیا ہے۔ یہاں توجہ طلب امر یہ ہے کہ قرآن مقدس کی اس آیت کریمہ میں خود اللہ رب العزت نے جو کہ خالق کائنات ہے اپنے سب سے برگزیدہ بندےکی صفتِ خُلق کو عظیم کہا ہے۔ لہٰذا، غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جب خود خالق کائنات اپنی مخلوق میں سے کسی شئی کو عظیم کہے تو اس کی عظمت کا اندازہ کیا ہو گا۔ اسی لیے صوفیاء، اولیاء اور عرفاء فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ تصوف و معرفت کی بنیاد اور اس کا نچوڑ ہے۔لہٰذا، اس آیت قرآنی کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ تصوف اور طریقت تہذیب اخلاق اور تحسین کردار سے عبارت ہے۔
تہذیب اخلاق کیا ہے؟
تہذیب اخلاق کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ جو زمین زرخیز ہوتی ہے اس میں بیک وقت انواع و اقسام کے پیڑ پودھے اور گھاس پھوس اُگے ہوئے ہوتے ہیں جن میں بعض اچھے اور فائدہ مند ہوتے ہیں جبکہ انہیں میں سے بعض خطرناک اور نقصاندہ پیڑ پودھے اور زہریلے گھاس پھوس بھی ہوتے ہیں، لہٰذا، جب ہمیں اس زرخیز زمین پر کھیتی کرنی ہو، اس میں پھولوں کی کیاریاں لگانی ہوں یا اس پر پھَلوں کے پیڑ پودھے اُگانے ہوں تو ہم پہلے اس زمین سے زہریلے اور نقصاندہ گھاس پھوس کو دور کرتے ہیں اور بیکار پیڑ پودھوں کو کاٹ کر الگ کرتے ہیں اور اس زمین کو کاشت کاری کے لیے تیار کرنے کے بعد اس میں پھلوں اور پھولوں کے بیج ڈالتے ہیں اور اس کے بعد مسلسل اس کی نگرانی کرتے ہیں، اس کی تمام ضروریات و لوازمات کا خیال رکھتے ہیں اور ہر قسم کی مضرت رساں چیزوں کو اس سے دور رکھتے ہیں تب جا کر بلآخر چند مہینوں کے بعد اس زمین پر ان پھولوں کی کیاریاں لہلہاتی ہیں جنہیں ہم نے بویا تھا اور ان پھلوں کے باغات تیار ہوتے ہیں جن کے بیج ہم نے اس زمین پر بوئے تھے۔ بالکل یہی حال انسان کے قلب و باطن کا بھی ہے اور دل کی زمین بھی اسی طرح زرخیز ہے۔ لہٰذا، تہذیب اخلاق اور تحسین کردار یہ ہے کہ دل کی زمین پر اخلاق حسنہ کے پھل پھول لگائے جائیں، اس پر بخشش اور جود و سخا کے پودھے اُگائے جائیں اور دل کی زمین پر خوش خلقی، نرم مزاجی، حق گوئی، صدق و صفا، غریب پروری، انفاق فی سبیل اللہ اور خلوص نیتی کے بیج بوئے جائیں اور چونکہ دل اور نفس کی زمین بہت زرخیز ہے اور اس بات کا اندیشہ قوی ہے کہ اس میں زہریلے اور مضرت رساں اخلاقی رذائل جنم لے لیں گے اسی لیے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ دل کی زمین سے انا، غرور و تکبر، کبر و نخوت اور بخیلی و ریاکاری کی بیج کو نکال کر پھینکا جائے اور اس میں بد اخلاقی، شقاوت قلبی، کفران نعمت ، ناشکری اور نافرمانی کی جڑوں کو مضبوط نہ ہونے دیا جائے۔ لہٰذا، تطہیر قلب و باطن کے اسی عمل کو تصوف کی اصطلاح میں تہذیب اخلاق اور تزکیہ قلب و باطن کہا جاتا ہے۔
تصوف کے قدیم علماء میں امام ابو عبد اللہ اسماعیل الہروی(متوفی-481ھ) کا نام محتاج تعارف نہیں۔ آپ نے علم تصوف پر سب سے پہلا رسالہ "منازل السائرین" کے نام سے تصنیف کی جسے کافی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک زمانے تک اہل علم اور علمائے تصوف نے اس رسالے کو اپنے مطالعہ میں رکھا اور کئی صدیوں تک یہ کتاب اہل تصوف کے یہاں درس و تدریس میں شامل رہی۔ اس کے بے شمار حواشی اور شروحات لکھی گئیں اور اس کی تین ضخیم جلدوں میں سب سے بڑی شرح امام ابن القیم الجوزیہ نے "مدارج السالکین" کے نام سے تصنیف فرمائی۔ اور تصوف کی امہات الکتب میں تمام علماء، صوفیاء، اور عرفاء نے آپ کو بالاتفاق شیخ الاسلام کے خطاب سے یاد کیا ہے۔ آپ اپنی اسی کتاب مدارج السالکین میں فرماتے ہیں:
"اَلدِۤینُ کُلہ خلق، فمن زَادَ علیکَ فی الخُلق زَاد علیکَ فی الدِۤین، وَ کَذالکَ التصوف، التصوف ھُوَ الخلق، فَمن زَادَ عَلیکَ فی الخُلُق فقد زادَ علیکَ فی التصوف"۔
ترجمہ: "دین مکمل طور پر خلق حسن سے عبارت ہے۔ لہٰذا، تمہارے درمیان اخلاق حسنہ میں جو سب سے بلند ہے وہی تمہارے درمیان دین میں سب سے آگے اور سب سے پختہ ہے۔ اور یہی حال تصوف کا بھی ہے (یعنی تصوف بھی کلیۃً اخلاق حسنہ سے عبارت ہے)۔ لہٰذا، تمہارے درمیان اخلاق حسنہ میں جو سب سے آگے ہے تمہارے درمیان تصوف میں اسی کا پایہ سب سے بلند ہے"۔
اسی بنیاد پر عرب و عجم کے تمام صوفیاء، اولیاء اور عرفائے کاملین کا بالاستعاب اس بات پر اجماع ہے اور اس باب میں کسی کی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ تہذیب اخلاق اور تزکیہ قلب و باطن ہی حقیقت تصوف ہے۔ اور مذکورہ آیت کی روشنی میں تصوف کا چشمہ براہ راست ذات مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے پھوٹ رہا ہے۔ اسی لیے اللہ نے قرآن میں دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا "لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَن کَانَ یَرجُوا اللّٰہَ وَ الۡیَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَ ذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیۡرًا"۔ (سورۃالأحزاب: آیت۲۱)
ترجمہ: فی الحقیقت تمہارے لئے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور اﷲ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے۔
جاری.........................
URL: https://newageislam.com/urdu-section/unfolding-real-face-sufism-(part-2/d/109892
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism