مصباح الہدیٰ قادری، نیو ایج اسلام
21 دسمبر، 2016
ہم نے گزشتہ تحریر میں وحدۃ الوجود کے دفاع میں جماعت اہل حدیث کے ایک جید اور مستند عالم دین نواب سید صدیق حسن بھوپالی کے صاحب زادے جناب سید علی حسن خان صاحب کی کتاب "ماثِر صدیقی" سے چند اقتباسات کا مطالعہ کیا جو کہ نواب سید صدیق حسن بھوپالی کی سوانح حیات اور اقوال و فرمودات پر مشتمل ہے۔ اب اس کے آگے کا حصہ ملاحظہ فرمائیں:
وہ صفحہ 40 پر مزید لکھتے ہیں:
" مسئلہ وحدت وجود و شہود جس سے مراد ہستی حق اور نیستی خلق ہے اور یہی اعتقاد اس مسئلہ کا روح الروح ہے اگر مخلولق کی نیستی کو زمانہ حال و استقبال میں پیش نظر رکھا جائے تو یہ امر شرع کے اصل مقصد کے منافی نہیں ہےالبتہ جو اختلافات اقوال و احوال اور اس کے شرح و بسط میں پیدا ہو گئے ہیں کچھ شک نہیں کہ شریعت سے کسی قدر بعد رکھتے ہیں اور ایک عالم کی گمراہی کا سبب بن گئے ہیں اگر یہ خدشہ مانع نہ ہوتا تو میں اس مسئلہ وحدت وجود کو متکلمین کے ہفوات چھوڑ کر محدثین کے اقوال و اشارات اور دلائل عقلی و نقلی سے اس طرح ثابت کرتا کہ علمائے ظاہری میں سے کسی کو اس سے انکار نہ ہوتا اور وہ اس کے خلاف میں لب کشائی کی کوشش نہ کر سکتا مگر کیا کیا جائے مصیبت تو یہ ہے کہ جو ارباب رسوم ہیں وہ الفاظ و معانی سے بیگانہ رہتے ہیں اور جو ارباب علم ہیں ان کو تَفَننِ عبارات کی طرف توجہ رہتی ہے نہ معانی کی طرف ورنہ اگر حقیقۃً دیکھا جائے تو اس میں کوئی ما بہ النزاع بات نہیں ہے۔ الاکل شئی ماخلا اللہ باطل۔ اس سے بڑھ کر نادانی کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی ہر مرتبہ اور ہر حال میں احکام وجود کا منکر ہو اور ہمہ اوست کے معانی نعوذ باللہ شریعت سے آزاد ہونا سمجھے"۔ (بحوالہ: ماثِر صدیقی، جلد 4، صفحہ 38 تا 40۔ مصنفہ: نواب سید علی حسن خان۔ شائع کردہ جمعیۃ اہل سنۃ لاہور۔ طبع جدید 1991)۔
نواب سید صدیق حسن بھوپالی کی مندرجہ بالا عبارتوں کا ایک غیر جانب دارانہ تجزیہ قارئین کے لیے کافی دلچسپ ہوگا۔
"بہر حال اس مسئلہ وحدۃ الوجود کا سارا دار و مدار حضرات صوفیہ کے کشف و شہود پر ہے اور علماء اور صوفیہ نے اس کے متعلق بہت ساری کتابیں اور رسائل لکھے ہیں (نواب سید صدیق حسن بھوپالی)"۔جیسا کہ راقم الحروف نے ابتداء میں ہی اس امر کو واضح کر دیا تھا کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ مکمل طور پر صوفیاء اور عارفین کے کشف و مشاہدات پر مبنی ہے، لہٰذا، اگر آل سعود کے در پر پلنے والا کوئی شیخ وحدۃ الوجود کی بحث کو الفاظ کے پیچ و خم میں الجھانے کی کوشش کرے تو یہ سمجھ لیا جائے کہ یا تو وہ مسئلہ وحدۃ الوجود کا سہارا لیکر اپنی جھوٹی توحید پرستی کی روٹی سیک رہا ہے یا پھر وہ تصورِ وحدۃ الوجود کی روح سے بالکل غافل ہے۔ اس لیے کہ وحدۃ الوجود کا مسئلہ کوئی نیا یا کسی ایک خاص مکتبہ فکر کا ذاتی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایسے عرفاء اور صوفیائے کاملین کی ایک لمبی فہرست موجود ہے جنہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ اس موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے اور اپنی کتابوں اور رسالوں میں وحدۃ الوجو پر اپنے روحانی تجربات و مشاہدات کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
"مذہبِ وحدۃ الوجود اور مذہبِ وحدۃ الشہود پر اگر نظر ڈالی جائے تو جس طرح ایک جانب بہت سے دلائل ہیں اسی طرح دوسری طرف بھی بہت سی دلیلیں ہیں(نواب سید صدیق حسن بھوپالی)"۔ شیخ توصیف الرحمٰن نے بغیر کچھ سوچے سمجھے جس شد و مد کے ساتھ نظریہ وحدۃ الوجود کو کفر و ضلالت سے تعبیر کیا ہے اور اس کے قائلین کو جس جارحانہ انداز میں کافر و مشرک قرار دیا ہے اس سے دین کا کوئی بھی ابتدائی طالب یہ دھوکہ کھا سکتا ہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ دور جدید کی کوئی نئی بدعت ہے جس کی کوئی مذہبی اور عقلی دلیل نہیں ہے۔ جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ وحدۃ الوجود مکمل طور پر علمی، عقلی اور منطقی دلائل کے ساتھ مزین ہے۔
"ہم پر اعتقاداً لازم ہے کہ ہم کسی جانب بھی ضلالت و گمراہی کا خیال دل میں نہ لائیں اس لیے کہ اس میں بہت سے علمائے کرام اور مشائخِ عظام کی تضلیل و تکفیر لازم آتی ہے(نواب سید صدیق حسن بھوپالی)"۔ اس عبارت سے نواب سید صدیق حسن بھوپالی کی وسعت علمی اور کشادہ ذہنی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اختلاف رائے کی اس سے شاندار مثال بالخصوص جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے موجودہ علماء اور بالعموم دیگر مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کے درمیان سے عُنقاء ہو چکی ہے ۔ جیسا کہ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آج ایک ہی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے بے شمار علماء جزیئ مسائل میں بھی باہم دست بہ گریباں ہیں۔
"وحدت الوجود کے اثبات یا ابطال میں لب کشائی نہ کرنی چاہیے(نواب سید صدیق حسن بھوپالی)"۔ مولانا موصوف کی اس عبارت کو بنیاد بنا کر کوئی تکفیری ملا یہ کہہ سکتا ہے کہ سید صدیق حسن بھوپالی جس طرح نظریہ وحدۃ الوجود کے ابطال کے خلاف ہیں اسی طرح اس کے اثبات کے بھی خلاف ہیں لہٰذا، اس کا اثبات کرنے والے علماء کی گرفت کرنے، ان کی تردید کرنے اور ان کی تکفیر و تضلیل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ اعتراض بالکل سطحی ہے اور اس کی کوئی بنیاد نہیں اس لیے کہ ان کی یہ نصیحت ان لوگوں کے لیے ہے جو مسئلہ وحدۃ الوجود کی روح کو سمجھنے سے عاجز ہیں۔ اور جن کا علمی مقام اتنا بلند نہیں ہے کہ وہ مسئلہ وحدۃ الوجود کی باریکی اور گہرائی و گیرائی کو سمجھ سکیں۔ اس لیے کہ اگر ہم نواب صدیق حسن بھوپالی کے پورے بیان کا بغور مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوگا کہ وہ خود مسئلہ وحدۃ الوجود کا دفاع کر رہے ہیں اور نظریہ وحدۃ الوجود کے اثبات کی طرف ان کا طبعی میلان بالکل واضح ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں نے دو ٹوک انداز میں یہ بھی کہا کہ اگر کچھ خارجی خدشات درپیش نہ ہوتے تو میں خود مسئلہ وحدت وجود کو محدثین کے اقوال و اشارات اور دلائلِ عقلی و نقلی سے اس طرح ثابت کرتا کہ علمائے ظاہری میں سے کسی کو اس سے انکار نہ ہوتا اور وہ اس کے خلاف میں لب کشائی کی کوشش نہ کر سکتا۔
آخر میں انہوں نے شیخ توصیف الرحمٰن جیسے متعصب و تنگ نظر علماء ظاہری کی حالت زار پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ:
"اس سے بڑھ کر نادانی کیا ہو سکتی ہے کہ آدمی ہر مرتبہ اور ہر حال میں احکام وجود کا منکر ہو اور ہمہ اوست کے معانی نعوذ باللہ شریعت سے آزاد ہونا سمجھے"۔ (بحوالہ: ماثِر صدیقی، جلد 4، صفحہ 38 تا 40۔ مصنفہ: نواب سید علی حسن خان۔ شائع کردہ: جمعیۃ اہل سنۃ لاہور۔ طبع جدید 1991)۔
ایک طرف تصورِ وحدۃ الوجود کے دفاع میں خود جماعت اہل حدیث کے ہی ایک جید اور مستند عالم دین نواب سید صدیق حسن بھوپالی کا یہ نظریہ ہے جو ابھی آپ نے ملاحظہ کیا، جن کی شخصیت اور علمی سند پر متقدمین و متاخرینِ علماء اہل حدیث میں سے کسی کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اور دوسری طرف توحید پرستی کے جنون میں حدود شرعیہ سے تجاوز کر جانے والے ایک سلفی عالم شیخ توصیف الرحمٰن کا یہ بیان ملاحظہ فرمائیں:
"شرکیہ عقائد کے اندر ایک بہت بڑا عقیدہ وحدۃ الوجود کا ہے۔ جس کو صوفیاء اور قبر پرست پیش کرتے ہیں کہ اس کائنات میں جو کچھ ہے وہ اللہ عز و جل کا سایہ ہے، عکس ہے، مختلف صورتیں ہیں۔ وحدۃ الوجود کا یہ کفریہ عقیدہ کفار مکہ کے اندر بھی موجود نہیں تھا اور اس کفر کے عقیدہ کو کفار مکہ بھی نہیں مانتے تھے۔ اور یہ یاد کر لیجئے کہ یہ عقیدہ وحدۃ الوجود اتنا غلیظ عقیدہ ہے، اتنا کفریہ عقیدہ ہے کہ اس جیسا کفر شاید دنیا میں زمین کے سینے پر موجود نہ ہو"۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ توصیف الرحمٰن نے کس بنیاد پر تمام صوفیاء اور عرفاء کی تکفیر کی ہے؟ کیا مسئلہ وحدۃ الوجود پر ان کی نظر سے نواب صدیق حسن بھوپالی کی یہ عبارتیں نہیں گزری ہیں؟ اگر ان کی یہ عبارتیں شیخ توصیف لرحمٰن کی نظروں سے گزری ہیں تو ان کی توجیہہ میں وہ کیا کہیں گے؟ ان کے اس گمراہ کن فتویٰ سے خود انہیں کے اکابر کیسے بچ سکیں گے؟ کیا شرک کی فیکٹری میں تیار کیے گئے ان کے اس فتویٰ سے خود ان کے اکابر علماء کی تکفیر لازم نہیں آتی؟ اگر ان کی تکفیر لازم آتی ہے تو پھر شیخ توصیف الرحمٰن نے تصور وحدۃ الوجود کی بنیاد پر تکفیر کرتے ہوئے خاص طور پر صرف صوفیاء اور (بزعم خویش) قبر پرستوں کا ہی نام کیوں لیا؟ اس میں نواب صدیق حسن بھوپالی جیسے اکابر علمائے اہل حدیث کو شامل کیوں نہیں کیا؟ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام سوالات کو منظم طریقے سے بڑے پیمانے پر اٹھایا جائے اور اس کے لیے دیگر تمام تر جدید ذائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism